ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 23
ظہیر الدین محمد بابر
امان اللہ کاظم ، لیہ
قاسم بیگ ابھی تک اسی اُدھیڑ بن میں تھا کہ وہ گوہر کو سلطان معظم سے ملوائے یا نہ ملوائے۔ وہ انہیں سوچوں میں غلطاں تھا کہ گوہر کی آواز بارِدگر اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ”محترم سردار !شاید آپ ابھی تک اسی شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ مجھے سلطان معظم سے ملوایاجائے یا نا ملوایا جائے۔ آیا میں سچ کہہ رہا ہوں یا جھوٹ بول رہا ہوں؟آپ کے دل میں یہ وہم گھر کر گیا ہے کہ شاید میں سلطان احمد تنبل کا کوئی گماشتہ ہوں اور اس کے ایماء پر یہاں آیا ہوں تا کہ مجھے سلطان معظم کے ٹھکانے کا پتہ مل جائے۔
محترم سردار!آپ کا یہ وہم قطعا درست نہیں ہے میں نے اب تک آپ سے جو کچھ بھی کہا ہے وہ حرف بحرف درست ہے۔ علی دوست کو واقعی اپنے کیے پر پچھتاوا ہے وہ مرغینان سلطان معظم کے سپرد کر کے اپنے کیے کی تلافی کرنا چاہتاہے۔ میں گذشتہ کئی روز سے خجند کی گلیوں میں گھوم پھر کر سلطان معظم کے کسی معتمد کو تلاش کر رہا ہوں تا کہ اس کے توسط سے میری ان تک رسائی ہو سکے تلاش بسیار کے بعد آج آپ سے مڈبھڑ ہو گئی۔ آپ سے اس طرح اچانک ملاقات میرے لیے طمانیت کا باعث بنی ہے۔ میں تب سے آپ کے چہرے سے شناسا ہوں جب آپ اند جان میں قیام پذیر تھے۔ حالات انسان کو کہاں سے کہاں پہنچادیتے ہیں آج وادئی فرغانہ کا تاجدار کس حال میں ہے؟ میں خوب جانتا ہوں بخدا !میں ان کے لیے علی دوست کی طرف سے خیر سگالی کا پیغام لے کر آیا ہوں مجھے ان کی خدمت میں پہنچا دیجیئے تاکہ میں علی دوست کا پیغام ان تک پہنچا سکوں۔اگر آپ کو کسی طور بھی میری کہی ہوئی باتوں میں کہیں جھوٹ کا ایک شائبہ تک بھی نظر آئے تو میری بلا توقف گردن مار دیجیئے گا۔“
قاسم بیگ کا دل گوہر کی لچھے دار باتوں سے پسیچ گیااور اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اسے سلطان معظم کے حضور ضرور پیش کرے گا۔بنا بریں وہ گوہر کو ہمراہ لیے خجند سے پیچ در پیچ راستوں سے گزارتا ہوا اپنی خفیہ پناہ گاہوں تک پہنچ گیا جہاں سلطان معظم اور ان کے ساتھی روپوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ بہر حال اس نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نا چھوڑا وہ اسے براہ راست سلطان معظم کے حضور پیش کرنے کی بجائے اپنے مہمان خانے میں لے گیا،اس نے گوہر سے کہا کہ ”مہمان گرامی !کچھ دیر یہاں توقف فرمائیے میں جب تک آپ کی سلطان معظم سے ملاقات کا بندوبست کرتا ہوں۔ “قاسم بیگ گوہر کو تسلی دینے کے بعد تیر کی طرح مہمان خانے سے نکلتا چلا گیا۔ جہاں سے وہ سیدھا اپنے دیرینہ دوست اور سلطان بابر کے وفادار ساتھی شیرم طغائی کے ہاں پہنچا۔ اسے اپنے اور گوہر کے درمیان ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا اور اس سے مشورہ طلب کیا کہ” ایسے حالات میں کیا مؤقف اختیار کرنا چاہیئے؟“
شیرم طغائی نے گوہر کی تجویز کو سراسر لغو ،بے ہودہ ،اور ناقابل عمل قرار دے دیا اس کا کہنا تھا کہ ”غدار علی دوست کی پیشکش پر ہمیں قطعاً عمل نہیں کرنا چاہیئے وہ ایک ناقابل اعتبار شخص ہے۔ اس کے فرستادہ قاصد کی باتوں سے مجھے سازش کی بو آتی ہے۔ ہمیں سر دست گوہر کو سلطان معظم کے حضور پیش نہیں کرنا چاہیئے بلکہ موقعہ محل دیکھ کر اسے سلطان معظم کے سامنے پیش کیا جانا چاہیئے۔ “قاسم بیگ کو شیرم طغائی کی تجویز مناسب معلوم ہوئی اور اس نے فیصلہ کیا کہ گوہر کو ابھی سلطان معظم کو سامنےنہیں لانا چاہیئے۔ ابھی گوہر کا معاملہ قاسم بیگ اور شیرم طغائی کے درمیان ہی تھا کہ اند جان سے شاہی خواتین خجند پہنچ گئیں۔سلطان احمد تنبل نے انہیں باعزت طور پر بابر کے پاس بھیج دیا تھا۔
ان شاہی خواتین میں بابر کی والدہ قتلق نگار خانم ،نانی دولت بیگم ،بہن خانزادہ بیگم شامل تھیں۔ دیگر خواتین تو افسردہ خاطر ملول دکھائی دے رہی تھیں جبکہ دولت بیگم کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک پائی جاتی تھی۔ شاہی خواتین کو بابر کی ایماء پر بڑے تزک و احتشام کے ساتھ خجند سے پہاڑی پناہ گاہ میں منتقل کر دیا گیا۔بابر مسرور تھا کہ اسے دولت بیگم کی صورت میں ایک بہترین مشیر میسر آ گیا تھا۔اب شیرم طغائی اور قاسم بیگ نے مناسب سمجھا کہ علی دوست کے قاصد گوہر کو سلطان کے حضور پیش کر دیا جائے۔ بنابریں سلطان کی طرف سے اذن باریابی حاصل ہونے کے بعد گوہر کو سلطان سے ملوایا گیا۔ گوہر نے فرغانہ کی صورتحال سے سلطان کو آگاہ کیا اور علی دوست کی پیشکش کو بغور سنااور پھر قاسم بیگ کو اشارہ کیا کہ وہ گوہر کو مہمان خانے پہنچا دے۔ ہم اپنے مصاحبین سے صلاح مشورے کے بعد علی دوست کی پیشکش کا جواب دیں گے۔
سلطان بابر کے حکم کی تعمیل کی گئی بعد ازا ں بابر نے نانی اماں سے علی دوست کی پیشکش کا ذکر کیا اور اس سے مشورہ طلب کیا۔نانی اماں نے بابر سے اند جان کی کیفیت بیان کرنے کے بعد بابر کو مشورہ دیا کہ سلطان احمد تنبل ایک سفاک اور ظالم شخص ہے اس نے اند جان کے باسیوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے ہیں۔ اس نے با اثر اور صاحب عزت لوگوں کو چن چن کر تختہ دار پر ترازو کر دیا ہے۔ اہل فرغانہ اس کی آئے دن کی سفاکیوں اور جبروجور سے تنگ آچکے ہیں۔اہل فرغانہ تجھے اپنا مسیحا سمجھتے ہیں اور لمحہ لمحہ تجھے یاد کرتے ہیں اگرچہ وادئی فرغانہ کی سلطانی؛ جہانگیر مرزا کے پاس ہے۔وہ ایک کٹھ پتلی کی طرح سلطان احمدتنبل کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے کیونکہ تمام اختیارات کا وہ بلا شرکت غیرے مالک ومختار ہے سلطان جہانگیر مرزا ایک بے بس ومجبور شخص ہےوہ سلطان احمد تنبل کی من مانیوں سے تنگ آچکا ہے۔وہ بھی اہل فرغانہ کی طرح سلطان احمد تنبل کے اقتدار کا جوءا اتار کر پھینکنا چاہتا ہے۔
مگر اسے کوئی موقع میسر نہیں آرہاکیونکہ تنبل نے فرغانہ کے اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط کر رکھا ہے۔اہل فرغانہ اور جہانگیر مرزا کی نظریں تجھ پر جمی ہوئی ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس وقت علی دوست کی پیشکش تیرے اور اہل فرغانہ کےلیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ تجھے اس پیشکش سے بھر پور فائدہ اٹھا نا چاہیئے۔علی دوست بذات خود سلطان احمد تنبل کی خرمستیوں سے تنگ آچکا ہے اور وہ اس کے اقتدار کا جوءا اتار پھینکنا چاہتا ہے۔کیونکہ تنبل؛علی دوست کو غدار سمجھتا ہے اور آئے دن اس کی بے عزتی کرتا رہتا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ علی دوست کی پیشکش مخلصانہ ہے۔اس مقولے پیش نظر کہ”دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔“علی دوست یہ حق دوستی ضرور ادا کرے گا۔اس شعر کے مصداق کہ
اٹھ

باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے

پھر

دیکھ خدا کیا کرتا ہے

پس کمر باندھ لے اور جانب مرغینان رواں دواں ہو جا۔نانی اماں کا مشورہ بابر کو نہایت ہی صائب لگااور اس نے مرغینان کی طرف خروج کا مصمم ارادہ کر لیا۔اگرچہ بابر کے دوستوں اور سرداروں کو بابر کے فیصلے سے اختلاف تھا مگر وہ بھی بابر تھا یعنی”ببر شیر“اپنے فیصلے خود کرنے والا اور ان پر پہاڑ کی ماند ڈٹ جانے والا۔سچ تو یہ ہے کہ وہ شیر کی مانند نڈر ،بے باک اور اپنی مرضی کا مالک تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے چھوٹی سی عمر میں فرغانہ کا اقتدار سنبھالادشمنوں کو مات پر مات دی حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیااور لوگوں سے اپنا آپ منوایا۔اگر وہ شیر کی مانند نڈر اور باہمت نہ ہوتا تو کب کا دشمنوں کے ہاتھوں پیوند خاک ہو چکا ہوتا۔بارہ سال کے اس چھوکرے کی ؏داستان تک نہ ہوتی داستانوں میں
یہ اسی کا ظرف تھا کہ اس نے قریہ قریہ کی خاک چھانی ،اپنے آپ سے کئی گنا طاقتور دشمنوں کو وہ وہ پچھاڑیں ماریں کہ انہیں چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔ آج بھی وہ اپنے فیصلے پر پہاڑ کی طرح قائم تھااپنے دوستوں اور سرداروں کی مرضی کے خلاف اس نے اپنی ساڑھے سات سو نفری پر مشتمل فوج کو مرغینان کی طرف کوچ کا حکم صادر کر دیا۔
)جاری ہے (