ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر24
ظہیر الدین محمد بابر
امان اللہ کاظم
علی دوست طغائی کا پیغام جلا وطن اور بے یارومددگار بادشاہ بابر کے دل کو باغ باغ کر گیا تھا اس لیے اس نے اپنے دوستوں اور سرداروں کی مخالفت کے باوجود اپنی مختصر ساڑھے سات نفوس پر مشتمل فوج کے ساتھ مرغینان کا سفر اختیار کر لیا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ علی دوست طغائی جیسے شاطر ،ناقابل اعتبار اور احسان فراموش شخص کی تلافی مافات مرغینان کے راستے اسے اندجان تک پہنچا سکتی تھی۔
موقع نہایت غنیمت تھا بابر نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی اور چند سونفوس پر مشتمل مختصر فوج کے ساتھ مرغینان کا رخ کیا۔ مرغینان کی طرف کوچ کرنے میں بابر کی نانی اماں دولت بیگم کا مشورہ بھی شامل تھا لہٰذ ا بابر بے دھڑک مرغینان کی طرف بڑھتا چلا گیا۔
مرغینان اور تیپہ)وہ گرمائی مرغزار جہاں ایک عرصے سے بابر عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل اپنے شب وروز گزار رہا تھا( کے درمیاں کم و بیش ڈیڑھ سو میل کا فاصلہ تھا جسے بابر اور اس کے ہمراہیوں نے دو دنوں اور دو راتوں میں طے کر لیا۔ تیسرے روز بوقت سحر وہ مرغینان کے بلند و بالا قلعے کے آہنی پھاٹک کے سامنے کھڑا تھا۔ پھاٹک اندر سے بند تھا اور شہری فصیل اس کی دسترس سے دور تھی۔
بابر کے ذہن میں مختلف قسم کے شکوک وشبہات سر اٹھانے لگےوہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ کہیں علی دوست طغائی کی طرف سے پہنچنے والا پیغام کوئی فریب نہ ہو تاکہ والئی فرغانہ کو دشمنوں کے پنجےمیں پھنسایا جاسکے مگر اب اس پس و پیش کا وقت باقی نہیں رہا تھا۔
معاًبابر کی نگاہیں اوپر کی طرف اٹھیں تو اس نے دیکھا کہ علی دوست طغائی قلعے کے برج پر ایستادہ تھا علی دوست نے شرافت کا ثبوت دیا اور کچھ دیر بعد اپنے گھوڑے پر سوار بابر کے سامنے آکھڑا ہوا۔
علی دوست طغائی گھوڑے سے اترا اور بابر کے قریب آتے ہوئے بولا:
”سلطان معظم! مرغینان کے قلعے میں داخلے سے قبل آپ کو میری چند ایک شرائط قبول کرنا ہوگی۔“
بابر نے متحیر نگاہوں سے علی دوست کی طرف دیکھا اور کہا:
”کہو علی دوست تمہاری کون سی شرائط ہیں؟“
علی دوست طغائی نے نہایت مودبانہ انداز میں کہا کہ
”میری پہلی شرط یہ ہے کہ حضور والا مجھے مرغینان کے قلعے داری کی سند مرحمت فرمائیں گے جہاں میں اپنی پسند کا عملہ رکھنے کا مجا ز ہوں گا۔
دوسری یہ کہ جب بھی حضور والا مرغینان سے باہر شہروں کی تسخیر کے سلسلے کا جو بھی فیصلہ کریں گے اس میں مجھ ناچیز کا مشورہ ضرور شامل ہوگا۔“
بابر کے لیے یہ وقت حیص بیص یا مباحثے کا نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت ایک غیر محفوظ جگہ پر کھڑا تھا معاہدے کی شرائط کے رد وبدل میں وہ غیر ضروری وقت ضائع کرنے کی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا عین ممکن تھاکہ کسی بھی وقت اور کسی بھی سمت سے اس پر حملہ ہوسکتا تھا اسی خدشے کے پیش نظر بابر نے علی دوست طغائی کی شرائط پر صاد کیا۔
علی دوست طغائی نے بابر اور اس کی فوج پر قلعے کے دروازے کھول دیے۔بابر نہایت ہی تزک و احتشام سے قلعے میں داخل ہوگیا بابر ایک بار پھر ایک فصیل بند شہر پر قابض ہوچکا تھا بابر کے شاہی خاندان کے لیے مرغینان کا ایک پر شُکوہ محل خالی کرا لیا گیا تھا جس میں شاہی خواتین کوشاہی اعزاز کے ساتھ لے جایا گیا۔ بعد ازاں علی دوست نے محل میں حاضری دی اور بابر کے قدموں میں بیٹھ کردیر تک روتا رہا وہ اپنی غداری پر نہایت ہی پشیمان بھی تھا اور شرمندہ بھی۔
بابر کے مرغینان پہنچنے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح قرب وجوار کے لوگوں تک پہنچ گئی بابر کا ساتھ چھوڑ جانے والے سردار امیر اور سپاہی کھنچ کھنچ کر مرغینان پہنچے لگے بابر کا ساتھ چھوڑ نے پر وہ لوگ بہت شرمندہ تھے وقت کے تقاضوں کے مد نظر بابر نے عام معافی کا اعلان کردیا۔ پھر تو قطار اندر قطار لوگ دربار بابری میں حاضری دینے کے لیے گردونواح سےمرغینان کی طرف کھنچے چلے آنے لگے جن کی وجہ سے شہر میں خوب گہما گہمی اور چہل پہل نظر آنے لگی۔
بابر کے مرغینان اور پھر لوگوں کے جوق در جوق بابری فوج میں شامل ہونے کی خبر کی گونج اند جان میں بھی سنی جانے لگے اوزون حسن اور سلطان احمد تنبل جوکہ کٹھ پتلی جہانگیر کے نام پر فرغانہ پر حکومت کر رہے تھے یہ خبر سن کر نہایت افسردہ خاطر ہوگئے۔ بقول بابر”یہ لوگوں بے دین اور بدطینت قہربان یعنی جبروجور اور قہر وجلال کے ساتھ حکومت کرنے والے تھے یہ لوگ ساکنان وادی فرغانہ پر بے پناہ مظالم توڑتے۔“
اوزون حسن اور سلطان احمد تنبل نے دولت دھونس اور دھاندلی کے ذریعے کثیر فوج جمع کر رکھی تھی جس پر انہیں بہت زیادہ زعم تھا مرغینان پر بابر کا قبضہ انہیں ایک تازیانہ سا لگادل ہی دل میں پیچ تاب کھائے چلے جا رہے تھے اور انہیں بابر اپنے سروں پر منڈلانے والا خطرہ بھی محسوس ہو رہا تھا۔
بابر بھی مرغینان میں نچلا نہیں بیٹھا تھا اس نے اپنے معتمد ساتھیوں کو سپاہیوں اور رسد کی فراہمی کے لیے گاؤں گاؤں بھیجنا شروع کیا جس کام فقط اتنا تھا کہ وہ لوگوں کو پرکشش معاوضے کی نویدسنا کر انہیں بابری فوج میں شامل ہونے کا پر مائل کریں۔
سچ تو یہ ہے کہ بابر اپنی پرکشش شخصیت اور نظم و ضبط کی وجہ سے وادی فرغانہ میں نہایت ہی ہردلعزیز تھا مگر حالات نے اس کےساتھ معاندانہ سلوک کیاتھا مرغینان میں قیام کے دوران بابر نے قلیل سے عرصے میں خاطر خواہ فوج جمع کر لی شہروں شہروں گاؤں گاؤں بابر کی حمایت روز بروز بڑھنے لگی اور اس کے حق میں مظاہروں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا مرغینان میں بابر کی موجودگی نے مقامی لوگوں کے حوصلے بڑھا دیے اور ان کی ٹوٹی ہوئی ہمتیں پھر سے جوان گئیں ان لوگوں نے اپنے طور پر اوزون حسن اور سلطان احمد تنبل کی حکومتی سپاہ سے متعدد مقامات پر جنگیں کیں اور انہیں شکست سے دوچار کیا ان پئے بہ پئے شکستوں نے صاحبانِ اقتدار کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اک فوج کثیر کے باوجود وہ مرغینان کا محاصرہ تک کرنے میں نا کام رہے ان کی لڑائی بھڑائی صرف مرغینان کے نواحی علاقوں تک ہی محدود رہی۔
ابتری کے اس دور میں فرغانہ کے اہم سرحدی قصبے آخشی کے عوام نے محافظ فوج کےخلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور نہتے شہریوں نے صرف اپنی قوت ایمانی کے بل بوتے پر حکومت سپاہ کو یہ آخشی کے اہم قلعے سے باہر دھکیل دیا۔ مرغینان میں قیام پزیر بابر کو آئے دن اسی طرح کی خوش کن خبریں مل رہی تھیں اب بابر نے فرغانہ کے بہادر شہریوں کو مدد کے لیے متعدد شہروں کی طرف امدادی دستے بھیجنے شروع کردیےان دستوں نے شہریوں کی مدد سے اوزون حسن اور سلطان کی فوجی طاقت کو پیوند خاک کر دیا۔
آخشی کے تحفظ کے لیے سلطان احمد تنبل کی طرف سے بھیجے گئے فوجی دستے کے ایک ایک فرد کو دریا پار کرنے سے قبل ہی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا گویا وادئی فرغانہ پر غاصبانی قبضہ جمانے والوں اوزون حسن اور سلطان احمد تنبل پر ہر طرف سے وہ جو تم پیزار ہوئی کہ وہ بدحواس ہوگئے۔
کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق انہوں )اوزون حسن اورسلطان احمد تنبل(نے جہانگیر مرزا کی ہمراہی میں مرغینان پر بھر پور حملہ کر دیا مگر وہ منہ کی کھائی کی منہ دکھانے کے قابل نہ ر ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ دریں اثنا خاقان اعظم محمود خان کی طرف سے بھیجی گئی فوجی کمک بھی آپہنچی۔ اب تو ان لوگوں کے پاس وادئی فرغانہ سے فرار کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہی باقی نہیں بچا تھا کیونکہ اندجان کے قلعہ دار نے بھی بابر کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا بابر کے حوصلے بڑھ گئے تھے اوزون حسن سلطان احمد تنبل اور جہانگیر مرزا کی مرغینان کے محاذ سے پسپائی کے بعد بابر نے اندجان کی طرف بڑھنا شروع کر دیا کیونکہ وادئی فرغانہ کے گوشے گوشے سے بابر کے حق میں صدائیں بلند ہور ہی تھیں۔ سلطان احمد تنبل؛جہانگیر مرزا کو ایک قیدی کی حیثیت سے اپنے ہمراہ لئے ہوئے صحرا کی طرف راہ فرار اختیار کر گیا۔ سلطنت فرغانہ کے اس دوسرے حقدار کو وہ اس لیے یر غمال بنا کررکھنا چاہتا تھا تاکہ اس کے استحقاق سے جب کبھی بھی موقع ملے سلطنت فرغانہ پر قبضہ جما سکے۔
اندجان کے بازاروں میں اب بھی اِکاد کا مغل گھومتے پھرتے نظر آ رہے تھے مگر ان لوگوں نے اب سلطان احمد تنبل کی محکومی کا جواء اتار پھینکا تھا اور بابر کی رفاقت اختیار کرنے کااعلان کرتے پھر رہے تھے گویا ایسا لگتا تھا کہ پوری وادئی فرغانہ بابر کی ہم آغوشی کے لیے بانہیں پسا رے کھڑی تھی۔
یہ جون 1498ء کا ایک خوشگوار دن تھا یعنی بابر کی عمر کا سولہواں برس شروع ہو چکا تھا جب بابر باردگر اندجان میں داخل ہوکر سریر آرائے سلطنت ہوا اس دوران سلطان احمد تنبل؛جہانگیر مرزا کے ہمراہ اوزقند کی طرف جا چکا تھا اور اوزون حسن نے آخشی میں پناہ لے لی تھی، اسے بابر کی طرف سے مصالحت کی اجازت مل گئی تھی بغاوت کے تمام نشانات مٹ چکے تھے اب ایسا نظر آنے لگا تھا کہ بابر کی تمام مصیبتوں کا فی الحال خاتمہ ہو گیا تھا۔
)جاری ہے(