صحابہ اور صحابیات

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
صحابہ اور صحابیات
مرکز اصلاح النساء 87 جنوبی سرگودھا میں میرے شوہر نامدار متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ تعالیٰ ہر انگریزی ماہ کے پہلے اتوار صبح9 بجے خواتین کے حلقے میں بیان فرماتے ہیں۔ افادہ عام کی غرض سے پیش خدمت ہے۔
اہلیہ مولانا محمد الیاس گھمن
منتظمہ مرکز اصلاح النساء ، سرگودھا
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا . مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ ، وَنشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ سَيِّدَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا اَمَّابَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔
پارہ نمبر11 سورۃ التوبۃ نمبر100
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
میری نہایت واجب الاحترام ماؤو ،بہنو اوربیٹیو!میں نےآپ کے سامنے پارہ 11 سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر100 تلاوت کی ہے۔ اس آیت میں اللہ رب العزت نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دو طبقوں کا ذکر فرمایا اور صحابہ کے بعد ان کے اتباع کرنے والے انسانوں کا تذکرہ فرمایاہے۔ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِاللہ رب العزت فرماتے ہیں مہاجرین اور انصار میں سے وہ لوگ جو سبقت لے جانے والے آگے بڑھنے والے۔
وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔
اور وہ لوگ جوان کے اتباع کرتے ہیں۔ بڑے اخلاص کے ساتھ۔ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ اللہ نے ان کیلئے ایسے باغات تیار فرمائے ہیں کہ جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور یہ ہمیشہ اس کے اندر رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
کوہ صفا سے عالمگیر دعوت کی صدا:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا اعلان فرمایا۔ اللہ رب العزت کی توحید کا جلسہ فرمایا اور مشرکین مکہ اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو ایمان واسلام اور دین حق کی دعوت دی ہے۔
اس وقت جن حضرات نے سب سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک فرمایا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول فرمایا۔ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔
صحابی کسے کہتے ہیں؟ :
جس نے حالت ایمان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کو اختیار فرمایا،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آیاہو، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہا ہو۔ اسے” صحابی“ کہتے ہیں۔
پہلا مسلمان کون ہے ؟……… مختلف آراء :
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اعلان نبوت فرمایا۔ سب سے پہلے اللہ کے نبی کی دعوت کو قبول کس نے کیاہے؟

اس میں ایک رائے تویہ ہے کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنےوالے کانام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیاہے ان کانام حضرت علی رضی اللہ عنہ ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جنہوں نےاسلام قبول کیا ان کانام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہے۔

بعض کہتے ہیں سب سے پہلےقبول کیا ان کانام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہے۔
امام ابو حنیفہ کی رائے :
حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جن کی ہم تقلید کرتے ہیں۔ ان کی فقہ کو مانتے ہیں ان کی رائے یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کافرمایا۔کلمے کا اعلان کیا تو

مردوں میں جوآزاد اور بڑے تھے۔ ان میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے۔

عورتوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے۔

غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا حضرت زید بن حارثہ نے۔

بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے۔
تو یہ بات ہمیں ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ

۝

مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے میں نمبر ہے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا۔

۝

عورتوں میں اسلام قبول کرنے میں اول نمبر ہے ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا۔
اس بات پہ ہمارے پوری اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جس قدر مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بے مثال وفا داری اور قر بانی دی ہے اس کی مثال نہیں ملتی اور جس قدر عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے قربانی دی ہے اس کی مثال بھی نہیں ملتی۔
نبی کے سب سے زیادہ اعتماد یافتہ :
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومردوں میں سب سے زیادہ اعتماد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پرتھا اور عورتوں میں سب سے زیادہ اعتماد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پرتھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے شادی کی توحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرتھی 25 سال اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی عمرتھی 40سال یہ بیوہ تھیں۔ دوخاوندوں سے پہلے ان کانکاح ہوا ایک سے ہوا۔ پھر وہاں سے فارغ ہوئیں پھر دوسرا ،تو بیوہ تھیں۔
اعلان نبوت سے پہلے تجارت :
اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا جب اللہ کے نبی نے نبوت کا اعلان فرمایا ہے۔ یہ بات توجہ سے سمجھنا۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے تجارت فرماتے کاروبار فرماتے تھے۔ اعلان نبوت کے بعد پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت نہیں فرمائی ، کاروبارنہیں کیا بلکہ حضرت خدیجہ نے کہاتھایارسول اللہ اب میرا مال ہوگا اب آپ کو کاروبار کرنے کی ضرورت نہیں آپ صرف اللہ کے دین کا کام کریں۔
شعب ابی طالب میں ام المومنین کی رفاقت:
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے جان بھی پیش کی ہے اور اللہ کے نبی پر اپنامال بھی پیش کیاہے بلکہ جب قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بائیکاٹ کیااور مکہ میں شعب ابی طالب) شعب ابی طالب مکہ میں ایک گھاٹی ہے (میں تین سال کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قیدکردیا اور کہاکہ کوئی ان سے ملاقات نہیں کرےگا۔ کوئی ان کو کھانا نہیں دےگا۔ کوئی ان سے تعلق نہیں رکھے گا سوشل بائیکاٹ کیا۔ اس میں پورے تین سال نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ امی خدیجہ رضی اللہ عنہانے بھی گزارے۔ اس دور میں یہ بات کہنی بہت آسان ہے کہ کوئی بندہ دین کیلئے جیل کاٹے اورعورت برداشت کرے۔
مال بھی فدا……جان بھی فدا:
وہاں امی خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شعب ابی طالب میں جیل کاٹ رہی ہے۔ کتنا سخت گرم علاقہ ہے مکہ مکرمہ کا یہ ہمارے وہ مائیں اور بہنیں جانتی ہیں۔ جو عمرے یا حج پرگئی ہیں۔ یا جن کے بچے سعودی عرب میں رہتے ہیں کہ گرمی کتنی ہے۔ اتنی سخت گرمی میں پنکھے بھی نہیں ہے۔ بجلی بھی نہیں ہے۔ کھانےکا انتظام بھی نہیں ہے۔ تین سال تک اپنے شوہر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیاہے۔ اپنامال بھی دیاہےاپنی جان بھی دی ہے۔
نبی کو ام المومنین کی تسلی:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکوئی مشکل مسئلہ پیش آتا امی خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ بھی دیتیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبراگئے جب گھر آئے تو فرمایا زملونی زملونی اے خدیجہ میرے اوپر چادر دے دو میرے اوپر کمبل دے دو۔
جبرائیل امین کی آمد :
اب گرمی کے موسم میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ چھوٹا اور سردی لگ رہی ہے۔ اوپر چادر دی۔امی خدیجہ نے پوچھااے میرے سرتاج میرے آقا محمدہواکیاہے؟ اللہ کے نبی فرمانے لگے خدیجہ تجھے کیا بتاؤں؟ ایسا فرشتہ میرے اوپر آیا اور یہ وحی آئی ہے۔ میں تو گھبراگیاہوں۔
اللہ مدد فرمائے گا :
حضرت خدیجہ نے جواباً عرض کیا کہ اللہ کے نبی آپ خیال فرمائیں آپ غریبوں کی مدد فرماتے ہیں، رشتہ داروں کا خیال فرماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، مساکین کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ اور جوبندہ غریبوں کا خیال رکھے۔ رشتہ داروں کا خیال رکھے۔ اللہ ایسے بندے کو کبھی بھی محروم نہیں کرتا۔ اللہ پاک آپ کی مدد ضرور فرمائیں گے۔ تو حضرت خدیجہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا۔ معلوم ہوا کہ کبھی آدمی مشکل میں ہوتو اچھی اور وفادار بیوی اس کو مشکل سے نکال لیتی ہے۔
صلح حدیبیہ کے وقت :
اس پربات چلی ہے تو میں ایک واقعہ پیش کرتاہوں۔ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ گئے ہیں عمرے کیلئے یہ آپ اکثر ماؤوں بہنوں نے واقعہ سناہوگایا پڑھاہوگا۔ حدیبیہ کے موقعے پر مشرکین مکہ نے اللہ کے نبی کوروک لیا اور کہاکہ ہم آپ کو جانے نہیں دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہ رک گئے۔ مشرکین مکہ کے ساتھ مذاکرات ہوئے شرطیں طے ہوئیں۔ اس میں یہ بات طے ہوگئیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سال مدینہ واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آکر مکہ مکرمہ میں عمرہ کریں۔ اور جب آئندہ سال بھی آئیں تو اپنے ہتھیارساتھ نہ لائیں۔ خیرمیں لمبا واقعہ پیش نہیں کررہا۔
نبوت کی پریشانی……بشری تقاضا :
صرف ایک بات سمجھانا چاہتاہوں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھاتھا۔ صحابہ نے بھی احرام باندھاتھا۔ توجب اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایاکہ واپس جائیں آئندہ سال آئیں گے۔ وہ صحابہ بھی تو قریشی تھے۔ انصاری تھے مدینہ والے اور مکہ والے تھے۔ ان کی غیرت اس بات کو برداشت نہیں کرتی تھی کہ ہم اتنا لمبا سفرکرکے آئیں اور اب کیوں واپس جائیں؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے یہ بڑا مشکل مرحلہ تھا میں ان صحابہ کو اس بات پر قائل کیسے کروں؟ تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے میں تشریف فرماتھےاور کچھ تھوڑےسے پریشان اور غمزدہ تھے۔
ام المومنین کی ہمدردی :
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا۔ یارسول اللہ آپ کو پریشانی کیاآپ کے چہرےپر غم کے آثار ہیں۔ آپ نے فرمایاکہ ام سلمہ مجھے پریشانی اس بات پرہے کہ صحابہ جذباتی ہیں، نوجوان ہیں، قریشی ہیں، عرب ہیں۔ میں کہہ دوں گا کہ احرام کھول کے واپس چلو تو کیسے میری بات مانیں گے۔ نہیں مانیں گے تو مسلمان نہیں رہیں گے۔ میری بات کیسے مانیں گے ؟
ام المومنین کا مفید مشورہ :
ام سلمہ رضی اللہ عنہانبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اس وقت ساتھ تھیں۔ اب دیکھیں انہوں نے کتنا اچھا مشورہ دیاہے۔ انہوں نے کہا اللہ کے نبی آپ ان کو کچھ نہ کہیں۔ آپ خیمے سے باہرنکلیں اور اپنے بال کٹوادیں۔ آپ کی اداؤں پر جان دیتے ہیں۔ آپ بال کٹوائیں گے تو تو خودہی آپ کو دیکھ کر بال کٹوانا شروع کردیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیمے سے باہر آئے اور ایک صحابی کو بلاکر کہا میرے بال کاٹو،قصر کرو۔ اللہ کے نبی کودیکھا تو صحابہ خود بخوداپنے بال کٹوانے لگ گئے۔ اب دیکھواللہ کے نبی کی جو ٹینشن تھی یہ دور کس نے کی ہے؟ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہانے کی ہے۔
نبوت کی جانثار بیویاں……اور امی خدیجہ :
تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اہم واقعات تھےخواتین مشورہ دیاکرتیں۔ ان میں سب سے بڑا جومقام تھا وہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا تھا۔ انہوں نے مشکل وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت ساتھ دیاہے۔ بعد میں توحضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی ہے فتوحات ہوگئی ہیں، پیسے بھی آگئے طاقت بھی آگئی، حکومت بن گئی ہے۔لیکن مشکل وقت کا ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے دیاہےاور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ کو اتنا یاد فرماتے تھے۔ میں صرف دو واقعہ پیش کرتاہوں۔
غزوہ بدر اور فدیہ کا مسئلہ :
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جب جنگ بدر ہوئی اس غزوہ بدر میں حضرت رسول کے داماد حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خاوند ابوالعاص ابھی کافر تھے۔ تو مشرکین مکہ کے ساتھ مکہ مل کر جنگ کرنے کیلئے وہ بھی بدر میں آگئے۔ اب دیکھو ادھر اللہ کے نبی خسر ہیں ادھر داماد ابوالعاص ہیں اور مقابلے میں ہے۔ ابوالعاص گرفتار ہوگئے اور گرفتارہوکے مدینہ منورہ آگئے۔ جتنے لوگ میدان جنگ میں گرفتار ہوئےتھے۔ مشورہ ہواکہ ان کے ساتھ کیاکرناچاہیے؟
بالآخر فیصلہ ہواکہ ان سے فدیہ لےکر ان کو چھوڑدیناچاہیے۔ تو فدیہ کیا لیں انہوں نے کہاکہ ان میں جو پڑھے لکھے لوگ ہیں ہمارے بچوں کو پڑھائیں۔ یہی ان کا فدیہ ہوگا۔ معلوم ہوتاہے کہ پڑھنا شریعت کا حکم ہےاس پر مجبور نہیں کرتی کہ مت پڑھا کرو۔ پڑھنا لکھنا حکم ہے شریعت کا۔ کہاان کو پڑھنا لکھنا سکھائیں اور آزاد ہو جائیں اور جو پڑھنا لکھنا نہیں جاتے وہ اتنے پیسے دیں 20درہم ہر بندہ دے اور آزاد ہو جائیں۔ فدیہ طے ہوااب ابوالعاص نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد بھی تھے ان کے پاس پیسے بھی موجود نہیں تھے۔
ابو العاص کا فدیہ ……… ایک قیمتی ہار:
انہوں نے مکہ مکرمہ اپنی بیوی حضرت زینب کو پیغام بھیجا (بات سمجھ میں آ رہی ہے نا؟) حضرت زینب کون ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دامادابوالعاص نے حضرت زینب کو پیغام بھیجا کہ زینب کو جاکر کہو جو تمہارے پاس پیسے ہیں مجھے دے دو اس لیے کہ میں نے اب آزاد ہوناہے فدیہ دیناہے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ہار بھیجا جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے اپنی بیٹی کو شادی کے وقت دیاتھا وہ ہار لےکر آئیں۔
مجھے میری خدیجہ یادآگئی:
مدینہ منورہ میں ابوالعاص نے کہاجی یہ ہار آیاہے یہ فدیہ میں لے لو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس ہارکو لیاتو اللہ کے نبی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ صحابہ نے پوچھاکیاہوا؟ فرمایاکہ مجھے میری خدیجہ یادآگئی۔ اتنی اللہ کے نبی کے ساتھ انہوں نے پیار، شفقت اورخدمت کی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بھولتے نہیں تھے۔ انہوں نے کہا مجھے میری خدیجہ یاد آرہی ہے۔ صحابہ اگر تم خوشی سے اجازت دے دو تو میں ہارواپس کردوں اپنی بیٹی کو۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں آپ کی خوشی سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے۔ فرمایا میں تمہارے مشورہ کے بغیر تو واپس نہیں کرتا لیکن اس ہارکومیں کیسے رکھوں گافدیہ میں جومیری بیوی کاتھا اور میری بیٹی زینب کو دیاتھا۔
نبوت کا امی خدیجہ کی سہیلیوں سے برتاؤ:
اور دوسرا واقعہ ذہن میں رکھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مکہ مکرمہ میں نبوت کے دسویں سال انتقال ہوگیا۔ حضور بڑے غمزدہ تھے کہ جب کوئی مشکل پیش آتی میری خدیجہ میرا ساتھ دیتی۔ اب وہ نہیں ہے تو میراساتھ کون سی عورت دے گی؟ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہوگئیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں آگئے۔ حدیث مبارک میں ہےاللہ کے نبی حضرت خدیجہ کا تذکرہ بھی کرتے اور حضرت خدیجہ کی جوسہیلیاں تھی اور ان کو گوشت بھیجاکرتے تھے۔
خدیجہ تو خدیجہ تھی :
اچھا میں جو بات سنانے لگاہوں اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں آئے تو کئی اور بیویوں سے نکاح کیا۔ ان میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھی۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمربہت تھوڑی ہے ذہین بہت زیادہ ہیں۔ خوبصورت بھی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب امی خدیجہ کا تذکرہ کرتے۔ خدیجہ میری ایسی تھی ایسی تھی ایک مرتبہ امی عائشہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ میرے اندرکون سی کمی ہے؟ کون سے ایسی چیز ہے جو خدیجہ کے اندر تھی اور میرے اندر وہ موجود نہیں۔ اللہ کے نبی کا جواب سنیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعائشہ!خدیجۃ کانت ما کانت خدیجہ خدیجہ تھی میں تجھے کیا بتاؤں کہ خدیجہ کی کون سی کون سی خوبیاں ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتنا تذکرہ فرماتے۔ اس لئے کہ انہوں نے اللہ کے نبی کا ساتھ دیاتھا۔
گلشن دین کی آبیاری میں صحابیات کاکردار:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ایمان پیش فرمایاتو نبی کا ساتھ صحابہ نے بھی دیاہے اور نبی کا ساتھ صحابیات نے بھی دیا ہے۔ اتنی بڑی قربانی دی ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائےتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے لوگوں نے ہدیہ پیش کیے۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ ہیں۔ وہ اللہ کے نبی کے پاس آئیں اور انہوں نے کہایارسول اللہ میرادل کرتاہے کہ کچھ ہدیہ میں بھی دوں لیکن میں غریب عورت ہوں۔ ہدیہ دے نہیں سکتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر؟
خادمِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :
تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہامیرا بیٹا انس ہے یہ چھوٹا بچہ ہے۔ اس کو اپنے گھرمیں رکھ لیں اور میری طرف سے ہدیہ ہے یہ میرا بیٹا آپ کی خدمت کیاکرےگا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے دس سال تک اللہ کے نبی کی خدمت کی ہے۔ کتنے سال تک؟ )دس سال تک( ان کی ماں نے پیشکش کی تھی کہ حضورمیرے بیٹے سے خدمت لیں۔
بڑوں کی خدمت اور آج کا معاشرہ :
میں بڑے تعجب سے کہتاہوں ہمارے ہاں عجیب رواج ہے وہاں صحابیات اپنے بیٹے پیش کرتی ہیں اور یہاں کسی کے بیٹے سے خدمت لے بھی لونا۔ تو پتاہے کیاکہتے ہیں؟ ”اَسی پڑھن واسطےگھلیا سی کہ اسی کم کرن واسطے کلیا؟ اے لیوجی کم کرناسی تے گھر نئی کرسگدا اتھے جاکے کڑیاں نے پانڈے ای تونڑے سی تے فیر پڑھن دی ضرورت کی سی؟“اب دیکھو اللہ کے نبی کے زمانے کی عورتوں کا مزاج کیاہےکہ اپنا بیٹا پیش کیا اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی ہے۔
خدمت رسول کا صلہ :
آگےحضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال خدمت کی ہے۔ اور اللہ کے نبی نے دس سالہ خدمت کے بدلے میں حضرت انس کو تین دعائیں دی ہیں۔ کتنی دعائیں دی ہیں؟ تین بات سمجھیں کتنی دعائیں دی ہیں؟ تین دعائیں دی ہیں۔ وہ تین دعائیں کون سی تھی ؟اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللهم أكثر ماله وولده وأدخله الجنة۔
مسند عبد بن حميد رقم الحدیث: 1255
اے اللہ! ایک تو انس کو مال بہت دینا، انس کو اولادبہت دینا اور اے اللہ انس کو جنت میں داخل کردینا۔
دعائیں کرانا اور دعائیں لینا:
بات ذرا سمجھنا حضرت انس نے یہ نہیں کہا اللہ کے نبی مجھے دعائیں دیں۔ یہ نہیں کہا میر لئے دعائیں کریں۔ بلکہ خدمت اتنی کی ہے کہ حضور نے خود دعادی ہے اس لیے میں ایک لفظ کہتاہوں ایک ہوتاہے دعا کروانا اور ایک ہوتاہے دعالینا۔ ہم دعائیں لیتے نہیں بلکہ دعا کرواتے ہیں۔ دعا کرانا اور چیزہے اور دعا لینا اور چیز ہے۔
بہو بیٹی؛ ساس ماں سے دعائیں لے:
اب دیکھو!گھر میں ایک بیٹی ہے وہ اپنی ساس کی خدمت کرتی ہے۔ چائے پکا کر دیتی ہے کھاناتیار کر دیتی ہے، کپڑے دھوتی ہے۔ اس کو کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ امی جی میرے لئے دعاکرنا۔ کیوں؟ جب خدمت کرےگی تو ساس ماں خودبخود دعا کرے گی نا۔ توہم دعائیں کراتے ہیں دعائیں لیتے نہیں ہیں۔ دعا کرانا اورہوتاہے اور دعالینا اورہوتاہے۔ صحابہ اللہ کے نبی سے دعائیں کراتے کم تھے دعائیں لیتے زیادہ تھے۔ ہمیں دعائیں کرانے کاشوق اور دعائیں لینے کاشوق نہیں ہوتا۔
دعا ئیں لینے کا طریقہ ……خدمت :
بڑوں کی خدمت کریں بڑے خود بخود دعائیں دیتے ہیں۔

۝

ماں کی خدمت کریں۔

۝

باپ کی خدمت کریں۔

۝

ساس کی خدمت کریں۔

۝

سسر کی خدمت کریں۔

۝

اپنے بھائیوں کی خدمت کریں وہ خود بخود دعائیں دینے لگیں گے۔
دعائے نبوت کے ثمرات :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی دعائیں دی ہیں؟ تین دعائیں دی ہیں۔
پہلی دعا:
یہ دی ہے:اللهم أكثر مالهاے اللہ ان کے مال کو زیادہ کردے۔ روایات میں آتاہے کہ باقی لوگوں کے باغ میں سال میں ایک مرتبہ پھل آتاحضرت انس کے باغ میں سال میں دومرتبہ پھل آتا۔ تو لوگ پوچھتے کیاوجہ ہے؟تو کہتے اللہ کے نبی نے مجھے دعادی ہے۔
دوسری دعا:
حضرت انس کی جب عمرزیادہ ہوگئی تو کسی نے پوچھا کہ آپ کے بیٹے بیٹیاں کتنے ہیں۔ تو حضرت انس فرمانے لگے کہ ساٹھ، سترتو میرے سامنے ہیں باقی مجھے پتا نہیں میری اولاد کتنی ہے۔ پوچھاجی کیوں؟ فرمانے لگےکہ میرے اللہ کے نبی نے مجھے دعادی ہے۔ یہ میری نبی کی دعاہے۔ مجھے پتاہی نہیں کہ میری اولاد کتنی ہے۔حضرت انس فرماتےتھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعامانگی اللہ سے کہ مال زیادہ دے میرے باغ میں سال میں دومرتبہ پھل آتاہے۔ حضور نے دعامانگی اللہ اولاد دے مجھے اپنے سارے بچوں کے نام بھی یاد نہیں ہے۔
تیسری دعا:
اے اللہ!انس کو جنت میں داخل کردے۔ مجھے امیدہے کہ اللہ نبی کی دعا قبول کرکے مجھے جنت میں بھی ضرور داخل کریں گے۔
جان مال کے بعد اولاد بھی قربان :
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صحابیہ عورت آئی اور انہوں نے کہا یارسول اللہ یہ میراچھوٹا سابیٹاہے، جودودھ پیتاہے اس کو قبول فرمائیں۔ یہ واقعہ دھیان سے سننا اور سمجھنا۔ اے اللہ کے نبی یہ میرا دودھ پیتا بچہ ہے اس کو قبول فرمالیں۔ اللہ کے نبی فرمانے لگے کہ دیکھوبی بی ہم نے جہادمیں جاناہےہمیں مال، اسلحہ چاہیے۔ ہمیں نوجوان لڑکے لڑنے والے چاہییں ہمیں سپاہی چاہییں جو تیر تلوار چلاتے ہوں۔
میرے بیٹے کو ڈھال بنالینا:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صحابیہ سے فرمایا کہ میں یہ چھوٹا بچہ کیا کروں گا؟ اب اس عورت کا جذبہ دیکھنایہ وہی عورت سمجھتی ہے جس کا دودھ پیتا بچہ گود میں ہواور اسے قربان کرنا پڑے۔ اس نےکہا یارسول اللہ میں سمجھتی ہوں کہ میرا چھوٹا بیٹاہےلڑنے کے قابل نہیں۔ آپ اور آپ کے ساتھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب میدان جنگ میں جائیں اور آگے کا فر تلوار مارے اور اس سے بچنے کیلئے آپ اور آپ کے جانثاروں کے پاس ڈھال نہ ہو میرا بیٹا آگے کر دینا یہ کٹ جائےگا تمہارے صحابی کی جان بچ جائیگی اللہ کے نبی میں اپنا بیٹا پیش کرتی ہوں۔
مرزا ئیوں قادیانیوں سے تعلقات حرام ہیں :
ایک اور واقعہ سنیں! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک صحابی تھے جن کا نام حضرت حبیب رضی اللہ عنہ تھا۔ مسیلمہ کذاب نے نبوت کاجھوٹا دعویٰ کیا )جیسےمرزا غلام احمدقادیانی جھوٹانبی تھا،جس کو ماننے والے ”مرزائی“اور”قادیانی“ کہلاتے ہیں۔ کافر ہیں اور بے ایمان ہیں ان سے نکاح بھی جائزنہیں ہے۔ تعلق بھی ناجائزہے کسی قسم کا تعلق ان سے جائز نہیں۔ (
میں کٹوں کچھ اس ادا سے :

مسیلمہ کذاب نے پوچھا :مجھے نبی مانتے ہو ؟

انہوں نےفرمایا :میں نہیں مانتا۔

مسیلمہ کذاب نے ان کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا۔

پھر پوچھا: مجھے نبی مانتے ہو؟

انہوں نے فرمایا :میں نہیں مانتا۔

اس نے ان کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا۔

پھر پوچھا:مجھے نبی مانتے ہو؟

انہوں نے فرمایا: میں نہیں مانتا۔

ان کے پاؤں کاٹ دیے۔

پھر پوچھا: مجھے نبی مانتے ہو؟

انہوں نےفرمایا : میں تجھے نبی نہیں مانتا۔

اس نے ان کی زبان کاٹ دی۔

مسیلمہ کذاب نے پھرپوچھا: مجھے نبی مانتے ہو؟

انہوں نے سرسے اشارہ کیا)جیسے نفی میں ہلایا جاتا ہے (میں نہیں مانتا۔

اس بے ایمان نے ان کا سرکاٹ دیا۔
اسی دن کے لیے بیٹے کو دودھ پلا کرجوان کیا تھا:
جب صحابہ واپس مدینہ منورہ میں آئے آخر اب ماں سوچتی ہے کہ ماں کے دل پہ کیاگزرتی ہے۔ حضرت حبیب رضی اللہ عنہ کے پہلے ہاتھ کٹے، پھرپاؤں کٹے، پھر زبان کٹی، پھر گردن کٹی، مدینہ میں ان کی ماں انتظار میں تھی اور صحابہ سے پوچھا تم واپس آگئے ہوبتاؤ میرے حبیب کا کیا بناہے؟ انہوں نے کہاامی جان۔ تمہارے بیٹے کےتو ہاتھ کاٹے، پاؤں کاٹے، زبان کاٹی، پھر سرکاٹا، وہ تو اللہ کے نبی کیلئے شہید ہو گیا ہے۔ اب دیکھیں ماں کاجواب سننا۔ ان کی ماں کہنے لگی۔ لھذا الیوم ارضعتہ میں آج کے دن کی خاطر اپنے بچے کو دودھ پلاکر جوان کیا تھا۔مجھے بہت خوشی ہے کہ میرابیٹا نبی کیے لیے کٹ گیا ہے۔
خواتین اسلام کا تابندہ کردار:
میں یہ بات اس لیے کہہ رہاہوں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاساتھ مردوں نے بھی دیااور عورتوں نے بھی دیاہے۔دین کی خدمت مرد بھی کرتے ہیں دین کی خدمت عورتیں بھی کرتی ہیں۔ مال دین کے نام پر مردبھی دیتے ہیں عورتیں بھی دیتی ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان فرماتے عورتیں اپنے زیور اتار اتارکے اللہ کے نبی کے سامنے پیش کردیتی کہ بلال رضی اللہ عنہ چادر بچھاکے وہاں پہ بیٹھے ہوتےتھے اور عورتیں وہاں پہ زیور دے رہی ہوتی تھیں۔ اللہ کے نبی پھر ان کیلئے دعائیں بھی فرماتے اور اللہ سے بہت زیادہ مانگتے کہ اللہ ان کو جنت عطا فرما، انہوں نے میراساتھ دیاہے۔
ام حبیبہ کی ہجرت حبشہ :
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی جن کانام ام حبیبہ حضرت رملہ رضی اللہ عنہا ان کے والدکانام حضرت ابوسفیان ہےاور ان کے بھائی کانام حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہے۔ انہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھاہے مسلمان ہوگئیں ایک آدمی سے ان کا نکاح ہوگیا۔ مکہ مکرمہ میں جب کافروں نے تنگ کیا تو ام حبیبہ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئیں۔
ام حبیبہ ہادی دوعالم کے عقد میں :
اپنے خاوند کے ساتھ وہاں گئی تو ان کا خاوند مرتد اور عیسائی ہوگیا۔ اب یہ بیچاری بہت پریشان ہوئیں کہ میرا کیابنےگا؟ مدینہ منورہ میں جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا چلا تو اللہ کے نبی نے تسلی کیادی اللہ کے نبی نے فرمایا نجاشی حبشی بادشاہ کو کہ اب اس کاخاوندالگ ہوگیا عیسائی ہونے کی وجہ سے تو اس کو میری طرف سے پیغام نکاح دے دو۔ اس کی قربانی بڑی ہے، سردار کی بیٹی ہے اس نے ہجرت کی ہے تو میں نبی اس کو اپنے نکاح میں لیتاہوں۔
بڑے نصیب کی بات ہے :
تو اب ظاہر ہےکہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے لیےاس سے بڑا اعزاز اور کیا ہو سکتا تھاکہ اللہ کانبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنی بیوی بنالیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہواور نجاشی جو حبشے کابادشاہ تھا اس نے خود نکاح پڑھایااور اپنی طرف سے ان کو بہت بڑا حق مہردیا اوروہاں سے ان کو مدینہ منورہ بھیجا۔
خال المسلمین امیر معاویہ:
یہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا وہ ہیں کہ جن کے بھائی کانام ہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وہ ہیں کہ جن کا اللہ کے نبی کے ساتھ کئی رشتے ہیں ایک رشتہ یہ ہے کہ ان کے بہن اللہ کے نبی کے گھر میں ہے۔ تو یہ اللہ کےنبی کےبرادرنسبتی ہیں حضور کے سالے لگےجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سالے ہیں تو پوری امت کے ماموں لگتے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے ماموں ہیں چونکہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہاکے بھائی ہیں۔)جسے عربی زبان میں” خال المسلمین“ کہا جاتا ہے۔ (
ہم زلف نبی امیر معاویہ :
دوسرا رشتہ کیاہے؟ اللہ کے نبی کی ایک بیوی کانام ہے ام سلمہ رضی اللہ عنہا ام سلمہ کی بہن ہے کریمۃ الصغریٰ یہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اللہ کے نبی کے” ہم زلف“ بھی ہیں جنہیں ہم سانڈو کہتے ہیں اور نبی کے برادر نسبتی بھی ہے جسے سالا کہتے ہیں۔
کاتبِ وحی،فقیہ اور رازدانِ نبوت:
تو ان کے دورشتے ہیں اللہ کے نبی کے ساتھ اس لیے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اللہ کے نبی کے صحابی بھی ہیں اور جو قرآن آپ پر اترا اس کو لکھا تو ”کا تبِ وحی“ بھی ہیں۔ اللہ کے نبی کے رازِ دان بھی ہیں۔ نہایت حلم والےبردبار بھی ہیں اور فقہ والے بھی ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان چاروں کے بعدحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ بنےہیں اور چونسٹھ لاکھ پینسٹھ ہزار مربع میل پرخلافت کی ہے۔ کتنی؟)6465000 مربع میل پر( آدھی دنیاکے حکمران حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔
امیر معاویہ جنتی ہے :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میری قوم کا وہ طبقہ جو بحری جہاد میں حصہ لےگا اللہ اس کو جنت میں جگہ دےگا۔ اور اس امت میں سب سے پہلے بحری جہاد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کیاہے۔ بحری بیڑے بناکر انہوں نے دریاؤں کے اوپر سفر کیاہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر جہاد کیاہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور صحابیات کی قدر کرنی کی توفیق عطافرمائے۔ اللہ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
کونڈوں کی لعنت سے بچیں :
بس ایک مسئلہ آخر میں سمجھ لیں۔ یہ 22 رجب کو حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا دن ہے۔ آپ ک ے علم میں ہے کہ 22 رجب کوہمارے ہاں لوگ کونڈے پکاتے ہیں۔ سناہےنا؟ کونڈے یہ کونڈے پتاہے کس وجہ سے ہے؟ عام طورپہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم کونڈے امام جعفرصادق کی پیدائش کی خوشی میں پکاتے ہیں یہ بالکل جھوٹ ہے۔ حضرت امام جعفر صادق پیداہوئے ہیں رمضان میں اور فوت ہوئے ہیں شوال میں۔ حضرت امام جعفر صادق کانہ یہ یوم وفات ہے اورنہ یوم پیدائش ہے۔ اصل میں بات یہ تھی کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روافض بغض رکھتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں۔ 22 رجب کو امیر معاویہ فوت ہوئے اور رافضیوں نے چھپ چھپ کے کونڈے بنائے ،رات کوخوشی منائی۔ خوشی وہ مناتے تھےاور کونڈے پکاکے لوگوں کو کھلاتےتھے۔
کونڈے کھانا حرام ہے :
ہمارے سنی سادے لوگ ہیں انہوں نے بھی دیکھادیکھی شروع کردیا۔ اور جب ان سے پوچھاجائے کہ یہ کونڈے کیوں ہیں؟ کہتے جی امیر جعفر صادق کے ہیں۔ بھائی امام جعفر صادق کی نہ پیدائش ہے نہ وفات ہے۔ 22 رجب کواس لیے میری ماؤوں بہنوں سے گزارش ہے کہ 22 رجب کے کونڈے خداکیلئے نہ پکائیں اگر کوئی آپ کے گھربھیجے اس کو کتے کے آگے پھینک دیں۔ لیکن خود کبھی نہ کھانا اس کو باہر پھینک دینا۔ جانوروں کویہ چیزیں کھلانا خود نہ کھانا۔ یہ حرام کاکھانا ہے جو صحابی رسول کی موت کی خوشی میں پکایاجاتاہے۔
کونڈے کھانا بھی حرام کھلانا بھی حرام :
آپ ایمان سے دیکھواگر میرےاور آپ کے باپ کے مرنے پرکوئی خوشی کرے ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ اور جو اللہ کے نبی کے صحابی حضور کے ہم زلف، حضور کے سالے، کی وفات پہ خوشی کرے ہمیں کیسے اچھا لگ سکتاہے۔ اس لیے مسئلہ خود بھی سمجھیں اور آگے عورتوں کو سمجھائیں کہ 22 رجب کے کونڈے یہ گناہ ہے۔ پکانا بھی جائز نہیں ہے حرام ہے ،کھلانا بھی جائزنہیں ہےحرام ہے اسے بالکل نہ کھائیں۔ اللہ ہم سب کوشریعت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
دعاؤں کا اہتمام کریں :
باقی میری آپ تمام سے گزارش ہے کہ ان شاء اللہ دیکھو آج اتوارہے اگلے ہفتے کو ہمارےہاں جو بچیاں پڑھتی ہیں۔ دوسالہ فاضلہ کورس میں ان کا وفاق المدارس کاق بورڈ میں امتحان ہے تو سب دعاکریں کہ اللہ سب کو کامیابی عطا فرمائے ان کیلئے دعا کریں اور دوسراان شاء اللہ جب رمضان شروع ہوگا۔
صراط مستقیم کورس برائے خواتین:
جیسے پچھلےسال تھا اس سال پھر ان شاء اللہ صراطِ مستقیم کورس ہوگا تو جو پہلے بچیاں آئیں انہوں نے پڑھاہے اگر وہ دوبارہ پڑھنا چاہیں تو دوبارہ پڑھنے پرکوئی پابندی نہیں ہے۔ بعض کہتی ہیں جی میں نے کورس کیا ہوا ہے، میں دوبارہ کیوں کروں؟ دوبارہ بھی کرسکتی ہیں آپ ابھی سے محنت کریں کہ تمام ہماری بچیاں صراط مستقیم کورس میں زیادہ سے زیادہ شرکت کرسکیں۔ روزانہ رمضان کے اندر ایک یا دو گھنٹے کاسبق ہوگا۔ سب آئیں گی نا ان شاء اللہ۔ اس کے اندرخود بھی آئیں اور دوسری بچیوں کو بھی دعوت دیں کہ اس کے اندرآئیں۔
مرکز اصلاح النساء میں ووکیشنل سنٹر :
باقی ہم کوشش کریں گے کہ جب بچیوں نے دوسالہ فاضلہ کورس کیاہے۔ ان شاء اللہ آئندہ سال یہ رمضان میں جب بھی ہم نے مشورہ کیاکہ ان کیلئے سلائی سنٹر کا بندوبست کریں گے مشینیں ہماری آگئی ہیں۔ مشینیں ہم نے منگا لی ہیں اور ان کی سلائی کڑائی شروع کروانی ہے دیکھیں ابھی چھٹیوں میں ہوتی ہے یا بعد میں ہوتی ہے۔ سلائی کڑائی بھی کریں گے اور جو صراط مستقیم کورس ہوگانایہ ایک مہینے کااس کے اندرخودبھی آئیں اور باقی اپنی بچیوں کومدرسےکے اندربھیجیں کہ وہ کورس کریں۔
حفظ القرآن کی کلاسیں :
حفظ شروع ہے اپنی چھوٹی بچیاں جو ابھی اسکول سے فارغ ہوئی ہیں۔ ہماری بعض عورتیں کہتی ہیں کہ جب میری لڑکی پانچ پڑھ لے،آٹھ پڑھ لے، دس پڑھ لے، میں پھر پڑھاؤں گی ،یہ بات بالکل غلط ہے۔دیکھوآپ کے سامنے ہے میں نے” خنساء “ کوایک دن بھی اسکول نہیں بھیجا۔ قرآن کی حافظہ بنی ہے۔ الحمدللہ عالمہ بھی بن گئی ہے۔ اب دیکھو ”خولہ“ نے قرآن حفظ کیاہے اگلے سال عالمہ بھی بن جائیگی۔
دین کا علم حاصل کریں :
میں نے اپنے بیٹے عبداللہ کو سکول نہیں بھیج اب حفظ کررہاہے انشاء اللہ ایک سال میں حافظہ بن جائےگا۔ اللہ زندگی دےگا تو عالم بھی بن جائےگا۔ میری آپ سے گزارش ہے اپنی بیٹیاں اور اپنے بیٹے مدرسوں میں بھیجو اور دین پڑھاؤ زندگی بڑی تھوڑی ہے مرجاناہے قبر میں جاناہے ہمیں آگے جاکردین ہی کام آناہے۔ باقی کچھ بھی کام نہیں آئےگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین