ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
قسط نمبر29:
………… امان اللہ کاظم
ظہیر الدین محمد بابر
بابر کا دیرینہ دوست اور اس کا فن سپاہ گری کا استاد قنبر علی عرف سلاخ جو کچھ عرصہ قبل بابر کو الوادع کہہ کر اپنے آبائی وطن مغلستاں کی طرف مراجعت کر گیا تھا اچانک بار دگر بابر کے پاس لوٹ آیا، پہلی نظر میں تو بابر اسے پہچان ہی نہ پایا کیونکہ اس کا چہرہ کافی سوجا ہوا تھا اور اس نے اپنی کنپٹیوں پر پھاہے رکھے ہوئے تھے جونہی وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور اس نے بابر کی طرف قدم بڑھائے تو بابر نے دیکھا کہ وہ لنگڑا رہا تھا نہ تو اس کے سر پر پگڑی تھی اور نہ ہی پاؤں میں جوتے تھے۔ اس کی ایسی ہیت کذائی کی وجہ سے بابر اسے پہلی نظر میں پہچان نہ سکا تھا۔ مگر جونہی وہ اس کے قریب آیا تو بابر نے اسے پہچان لیا۔
قنبر علی کی یہ ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر بابر کو بےحد افسوس ہوا اس نے بڑی بےقراری سے قنبر علی سے پوچھا کہ اس کی یہ حالت کیونکر ہوئی ؟قنبرعلی نے رقت آمیز لہجے میں بابر کو جواب دیا کہ میری اس حالت کا ذمہ دار سلطان احمد تنبل ہے۔ جب وہ آپ کے والد مرحوم کی ملازمت میں تھا تو اس کی میرے ساتھ بڑی گہری دوستی تھی مگر اب جبکہ میرا اس سے آمنا سامنا ہوا تو اس نے پرانی دوستی کا خیال رکھے بغیر مجھے اپنے آدمیوں کے ذریعے خوب پٹوایا اور پھر میری اس دگرگوں حالت کے باوجود مجھے ایک کھیت میں پھنکوا دیا۔مجھے نہیں معلوم میں کب تک حالت نزع میں زمین پر پڑا رہا۔؟مجھے جب ہوش آیا تو میں نے خود کو وہاں تنہا پایا۔اردگرد نظر دوڑائی تو وہاں نہ تو کوئی آدم تھا اور نہ آدم زاد۔
میرے جسم کے ایک ایک عنصر سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔میرے چہرے، میری پشت،سینے اور ٹانگوں پر بھرپور چوٹیں لگی تھیں، میرا وفادار گھوڑا میرے قریب کھڑا ہنہنا رہا تھا۔گھوڑے کی قربت نے مجھے حوصلہ دیا اور میں لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور جھومتا جھامتا ہوا اس کی پشت پر بیٹھ گیا۔گھوڑے کی وفاداری دیکھ کر آپ کے ساتھ ساتھ کی ہوئی میری بےوفائی مجھے کچوکے دینے لگی۔بنا بریں اب میں تلافی مافات کے لیے آپ کے حضور حاضر ہوں۔آپ مجھے معاف فرما دیجیے اور اپنے حلقہ ارادت میں شامل فرما لیجیے۔
بابر نے قنبر علی عرف سلاخ کی داستان المناک سنی اور پھر گہرا سانس لے کر کچھ یوں گویا ہوا:ترکی زبان کی ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ اپنے دوست پر اتنا بھی بھروسہ نہ کرو کہ وہ تمہاری کھال میں بھس بھروا دے۔ تو نے سلطان احمد تنبل جیسے بدطینت اور احسان فراموش سے رشتہ دوستی استوار کیا اور پھر اس پر اس قدر بھروسہ کیا کہ اس نے تیری ہڈی پسلی ایک کرکے مرنے کے لیے زمین غیر ذی زرع میں پھنکوا دیا۔شاید تیری زندگی ابھی باقی تھی کہ تو زندہ سلامت میرے پاس پہنچ گیا، تو فکر نہ کر تو میرے لیے نہایت محترم اور ذی عزت ہے میں تیرا پرانا منصب تجھے لوٹاتا ہوں اور تیرے علاج کا بندوبست بھی کراتا ہوں۔روبہ صحت ہو کر اپنے فرائض کی بجاآوری پر کاربند ہوجا۔
بابر کی شاندار پذیرائی پر قنبر علی روہانسا سا ہوگیااور اپنے کیے پر نادم سا دکھائی دینے لگا اس نے آگے بڑھ کر بابر کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور ایک طرف ہوکر بیٹھ گیا۔ بابر کے اردگرد اس کے دوسرے مصاحب اور اعلیٰ عہدے دار بھی اپنی اپنی نشستوں پر براجمان تھے۔ان لوگوں میں علی دوست طغائی اور اس کا بیٹا بھی شامل تھا۔وہ دونوں باپ بیٹا اپنے ماضی کے کردار پر نہایت شرمسار دکھائی دے رہے تھے اس کے پاس اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ کسی طرح بابر کی اجازت حاصل کرکے اندجان کی طرف مراجعت کر جائے اور پھر سلطان احمد تنبل اور شہزادہ جہانگیر مرزا کےساتھ مل کر اندجان پر قبضہ کرلے اور بابر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہاں سے بےدخل کردے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کی فطرت کبھی نہیں بدلتی۔
علی دوست طغائی کی ظاہری شرمندگی وقتی اور عارضی تھی وہ بابر کے سامنے اگرچہ بھیگی بلی کی طرح چھیچھڑوں کے خواب دیکھ رہا تھا، علی دوست نے اپنی نشست سے کھڑے ہوکر بابر سے دست بستہ درخواست کی کہ آقاآپ نے تو اندجان کو سلطان احمد تنبل اور جہانگیر مرزا کے رحم وکرم پر چھوڑ رکھا ہے مجھے لگتا ہے کہ آپ مستقبل قریب میں اندجان جاتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے کیونکہ آپ نے بہر صورت سمرقند پر حملہ آور ہونے اور اسے فتح کرنے کا عزم کررکھا ہے اندریں حالات آپ کا میرے لیے کیا حکم ہے؟اندجان سے آپ کی عدم موجودگی سلطان احمد تنبل اور جہانگیر مرزا کو اور شیر کردے گی۔یہ عین ممکن ہے کہ وہ اپنے مستقر سے نکل کر وادئ فرغانہ پر اپنا قبضہ جمالیں کیونکہ انہیں وہاں تک پہنچنے کے لیے اب کوئی امر مانع نہیں ہوگا۔اگر آپ مجھے اجازت مرحمت فرمائیں تو میں اندجان جاکر ان کے ارادوں کے درمیان حائل ہوجاؤں اور انہیں کسی طرح بھی وادئ فرغانہ پر قابض ہونے سے روکوں۔
علی دوست کہتے کہتے رک گیا اور بابر کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے اس کی دلی کیفیات بھانپنے کی کوشش کرنے لگا۔سچ تو ہے کہ بابر اس وقت اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کے تار وپود میں الجھا ہوا تھا۔وہ سچ کہہ رہا تھا کہ وہ کسی طرح ازبک درانداز کو سمر قند سے بےدخل کرے اور وہاں مغلوں کی عملداری کو قابل عمل بنائے یہ کتنےکرب کی بات تھی کہ ازبک سردار شیبانی خان نے اس کے چچازاد سلطان احمد مرزا کو دھوکے سے قتل کرادیا تھا اور اس کی ماں کو جو کہ شیبانی خان کی منکوحہ بننے کے خواب دیکھ رہی تھی اسے اپنی رکھیل [داشتہ]کے طور پر اپنے حرم میں داخل کرلیا تھا۔ بابر نے علی دوست کواندجان جانے اجازت دے دی کیونکہ اب وہ ایک ایسے شخص کی ہمراہی کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا کہ جس کا ماضی ریشہ دوانیوں اور غداریوں سے عبارت تھا۔ علی دوست نے بابر کی فراخدلی کی بے حد تعریف کی اور سلطان احمد تنبل کو انتہائی نادر مغلظات سے نوازا۔حالانکہ اس کے طرز تکلم سے اس کی دلی خباثت روز روشن کی طرح عیاں تھی۔
علی دوست کے چلے جانے کے بعد بابر نے سمر قند سے متعلق اپنے مصاحبین اور فوجی سرداروں سے اپنی مشاورت جاری رکھی۔موجودہ حالات کے پیش نظر مستقبل کی منصوبہ بندی ضروری تھی۔قنبر علی نے بابر کو بتایا کہ میں ایک ایسے نجومی کو جانتا ہوں جو مستقبل کا حال بتانے پر قادر ہے۔بابر نے قنبر علی کو اجازت دی کہ وہ اس نجومی کو بلا بھیجے تا آنکہ اس کے مشورے سے مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے۔قنبر علی نے اشارہ پاتے ہی نجومی کی راہ لی اور اسے کچھ ہی دیر میں بابر کے سامنے آ حاضرکیا۔اس مجلس مشاورت میں اندجان کے خواجہ قاضی [جسے سلطان احمد تنبل نے مصلوب کردیا تھا]کا بھائی ابوالمکارم [جو کہ ایک درویش صفت انسان تھا]بھی شامل تھا۔درآمد شدہ نجومی کو حساب لگانے کے لیے کہا گیا تو ہو کچھ دیر تو مراقبے میں رہا اور پھر یوں گویا ہوا:سلطان معظم!اس وقت شیبانی کے مقدر کا ستارہ عروج پر ہے اس لیے سمرقند پر اس کا کئی سال تک عروج قائم رہے گا جب کہ آپ کے ستارے اس وقت مائل بہ زوال ہیں۔نجومی کے بےسروپا باتوں نے بابر کے ذہن کو پراگندہ کردیا اور اس کے دل میں ایک وہم سا بیٹھ گیا]نجومی اس شخص کو کہتے ہیں جو ستاروں کو دیکھ کر حالات بتانے کا دعویٰ کرے شریعت اسلامیہ کی رو سے ان سے آنے والے حالات کی باتیں سننا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ یہ نجومی جو کچھ کہہ رہا ہے وہ باتیں بھی سچ ہیں ، یہ اعتقاد شریعت اسلامیہ کے سراسر منافی ہے اور فضول کام ہے ] وہ رات بھر بےچین رہا۔ خدا جانے کس وقت اس کی آنکھ لگ گئی بابر نے خواب میں مشہور صوفی بزرگ ابو عبداللہ احرار کو دیکھا بابر نے اس بزرگ کو بچپن میں بھی دیکھا تھاکیونکہ اس کا باپ عمر شیخ مرزا ان کا مرید تھا وہ ہر سال اس بزرگ کی خانقاہ پر باقاعدگی سے حاضری دیا کرتا تھاعموما ًبابر بھی اپنے والد کے ہمراہ وہاں جایا کرتا تھا۔اور پھر بابر کی آنکھ کھل گئی۔بڑی دیر تک اس پر کچھ عجیب سی کیفیت طاری رہی یہ وہی صبح تھی جب قاسم بیگ نے ہزاروں آدمی بابر کے سامنے لا کھڑے کیے تھے۔اس طرح بابر کی فوج میں بہت اضافہ ہوگیا تھا۔دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی بابر کے پرانے مغل سپاہی جو بابر کو چھوڑ گئے تھے۔بار دگر بن بلائے حاضر ہونے لگے۔بابر اپنے فوجیوں کے اضافے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔بابر کو خوشی ہورہی تھی اور وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس مرتبہ اللہ نے چاہا تو وہ سمرقند شیبانی خان سے چھین لے گا۔
اگرچہ فوجی نفری میں اضافے کی وجہ سے بابر کو اطمینان قلب ضرور حاصل ہوا تھامگر دوسری طرف وہ اپنی منکوحہ عائشہ کے معاندانہ رویے سے کافی دل گرفتہ بھی تھا۔اگرچہ عائشہ سے اس کو بچپن ہی سے محبت تھی مگرکم سنی ہی سے اس کی بےاعتنائیوں نے بابر کا سکون غار کر رکھا تھا۔بابری والے واقعےکے بعد تو دونوں میاں بیوی کے درمیان نفرتوں کی ایک وسیع خلیج آ واقع ہوئی تھی۔عائشہ کے ناقابل برداشت منفی رویے نے بابر کے جذبہ محبت کو شکست سے دوچار کر دیا تھا۔اگرچہ بابر نے عائشہ کو اپنے گھر سے تو نہ نکالا مگر اس کے ہاں آناجانا موقوف کردیا۔ابتداء میں تو بابر کے ذہن کو عائشہ کی بےوفائی کے کچو کے لگتے رہے مگر آہستہ آہستہ اس کی طبیعت معمول پر آتی چلی گئی۔اس نے عائشہ کے خیالات کو ذہن سے جھٹک دیا تھا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ یک طرفہ محبت کی بیل کبھی منڈھے نہیں چڑھتی۔بابر نے اپنی بھر پور قوت ارادی سے عائشہ کی محبت کو اپنے ذہن اور دل سے نکال باہر کیا تھا۔ [جاری ہے]