سیرت اپنا کر …… یا…… میلاد مناکر

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سیرت اپنا کر …… یا…… میلاد مناکر ؟
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
مخلوق خدا پر اپنے خالق لم یزل کی اتنی کرم نوازیاں اور انعامات و احسانات ہیں اگر جن و انس مل کر قیامت کی صبح تک بھی ان کا شمار کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔
وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا
محض کرم نوازیاں ہی نہیں بلکہ ان کی انتہا دیکھیں کہ کوئی نعمت دے کر احسان جتلایا نہیں۔ اپنوں پر بھی نعمتوں کی بارش غیروں کو بھی محروم نہیں کیا۔ لیکن ایک ایسی نعمت ہے جب وہ عطا کی تو خبردار کیا اور فرمایا
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم۔
ہم نے ایمان والوں پر احسان کیا کہ ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا۔
پھر اس نعمت کو اس طرح مزین کیا کہ جہاں کی ساری نعمتیں اس کے وجود میں گم کر دیں۔ اگر عبدیت نعمت ہے تو اس کو سبحٰن الذی اسریٰ بعبدہ کہہ کر اس کا مظہر اتم بنا دیا۔ اگر انسانیت نعمت ہے تو انما انا بشر مثلکم کا پیغام دے کر اس پر انسانیت کو ختم کردیا۔ اگر نبوت نعمت ہے تو
ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبیین
کا تمغہ دے کر نبوت کو اسی پر مکمل فرما دیا۔ اگر اسلام نعمت ہے تو حرا کی تاریک غار سے اس کی روشنی کو ایسے عام کیا کہ کرہ ارضی بلکہ زمین و آسمان میں توحید و رسالت کے مینار روشن ہوئے۔ اگر قرآن نعمت ہے تو علیٰ قلبک کے مضبوط سینے پر اس کو نازل فرمادیا۔ اگر علم نعمت ہے تو
علمک مالم تکن تعلم
کا اعزاز دے کر اس کو معلم اعظم بنا دیا۔ اگر نرمی اور عفو و درگزر نعمت ہے تو
حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم
کا اسی کو خطاب دے دیا۔ اگر بشارت و خوشخبری نعمت ہے تو بشیراً کی صفت اس کے لیے بنا دی۔ اگر خوف خداوندی نعمت ہے تو نذیراً کی طرف نگاہ اٹھاؤ تم اسی کو دیکھو گے۔ اگر تبلیغ دین نعمت ہے تو داعیاً الی اللہ باذنہ کا مصداق کامل تم اسی کو پائو گے۔ اگر حسن وجمال نعمت ہے تو دیکھو والضحیٰ جیسا چہرہ ہے ، واللیل جیسی کالی زلف ہے ، مازاغ البصر جیسی پیاری آنکھیں ہیں ، لاتحرک بہ جیسی نرم گفتار اور پر تاثیر زبان ہے ، الم نشرح لک صدرک جیسا فراخ سینہ ہے ، طٰہٰ جیسی روشن پیشانی ہے ، یٰس جیسی وجاہت صرف اسی کی ہے۔
اگر صداقت کو نعمت کہتے ہو تو صدیق اکبر اس کے در کا غلام ہے۔ اگر عدالت نعمت ہے تو فاروق اعظم اس کے دربار کا پہریدار ہے ، اگر غنیٰ نعمت ہے تو اس مستغنی کے در پر عثمان غنی بھی اس کا تربیت یافتہ ہے۔ اگر شجاعت و دلیری نعمت ہے تو حیدر کرار اس کا ایک سپاہی ہے اگر تدبر و حلم نعمت ہے تو معاویہ بن ابی سفیان جیسا حلیم و بردبار بادشاہ اس کا پانی بھرتا ہے۔ اگر قوت و طاقت ، شوکت و سطوت ، ہیبت و جلال نعمتیں ہیں تو یہ اس کے گھر کی باندیاں ہیں اگر عفت و پاکدامنی، للہیت و تقویٰ، خشوع و خضوع، رحمدلی و اخوت ، محبت و مودت نعمتیں ہیں تو اصل میں اسی کا فیض کہلاتی ہیں۔
قصہ مختصر !گویا جس ذات میں تمام خوبیاں جوش مارتی ہوں اور تمام خامیاں و نقائص جس سے دور بھاگتے ہوں
وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین
کا سہرا سجائے خلق عظیم کے اس پیکر اعظم کو دیکھو جس کا پیغام سچا بھی ہے ، قابل عمل بھی ہے اور موجب امن بھی ہے۔ جس کی ذات کو قادرِ مطلق اور حکیم و خبیر ذات نے اسوۃ حسنۃقرار دیا ہے وہ سراپا عبدیت ، سراپا شرافت ، سراپا علم ، سراپا معرفت ، سراپا حسن و جمال ، سراپا صداقت ، سراپا انصاف ، سراپا عفت و حیا ، سراپا شجاعت ، سراپا عزیمت ، سراپا حکمت ، سراپا خوت اور سراپا رحمت نظر آتا ہے۔
امن وآشتی ، راحت و چین ، اطمینان و سکون کو جس ذات کی کسوٹی پر پرکھا جائے، علم و معرفت جس کے کردار و عمل سے پیدا ہو ، نظام عالم اورابدی قوانین جس کی زبان کے مرہون منت ہوں۔ بقول شاعر
بعد از خدا بزرگ توئی

قصہ مختصر

اور بانی دارالعلوم دیوبند مولانا نانوتوی رحمہ اللہ کے بقول
جہاں کے سارے

کمالات ایک تجھ میں ہیں

ربیع الاول کے مبارک مہینے میں اذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما اٰتیتکم من کتاب و حکمۃ ثم جائکم رسول ایفائے عہد کی شکل میں نمودار ہوا۔ انسانوں کے خود تراشیدہ قوانین کی سنگلاخ اور پتھریلی زمین سے بے آب و گیاہ وادی مکہ میں ایسی کونپل نے جنم لیا جس نے شجرہ سایہ بن کر خدا کی ساری خدائی کو اپنی پناہ میں لے لیا۔ جہالت و لاقانونیت کے بادل چھٹے اور علم و امن کی برکھا رم جھم رم جھم برسی۔ یعنی آقا نامدار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ ظلم و سربریت کی آندھیوں نےمنہ موڑ لیا۔ جبر و جور کی چکیاں چکنا چور ہو گئیں ، کفر و شرک کی تاریکیاں دم توڑ گئیں ،مصنوعی معبود اوندھے منہ زمین پر آگرے ، آتش کدے بجھ گئے ، صنم کدوں میں بت پاش پاش ہوئے ، فسق وفجور کی منہ زور لہریں بیٹھ گئیں۔ نفرتیں ا ور عداوتیں ، اُنس و محبت میں بدلنا شروع ہوئیں ، سرکشی و نافرمانی؛ تسلیم و رضا اور اطاعت کے سانچے میں ڈھلنے لگیں۔
فاران کی چوٹیوں پر ایک ایسی باز گشت لگی کہ مقصد بعثت پیغمبر کی روح جاگ اٹھی ، ہرطرف خدا کی توحید کے ڈنکے بجنے لگے۔ معاشرے سے ناانصافی کو ختم کیا جانے لگا ، انسان کو خدا کے در پر لانے کی علمی اور عملی جدو جہد شروع ہوئی ، باطل نظام کے بجائے آفاقی اور آسمانی نظام نافذ ہونے لگا ، انسانیت سے سکھ کا سانس لیا ، لڑائی جھگڑے اور کٹنے مرنے کی باتیں ناپید ہونا شروع ہو گئیں۔ خدا کے باغیوں سے معرکے لڑے جانے لگے ، بدر واحد کی وادیاں تکبیر اور گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج اٹھیں۔
اسلام آگیا ، مسلمان کو اپنے معبود حقیقی کی معرفت نصیب ہوئی نبی نے ان کے قلوب کا تزکیہ کیا ، ان کے مابین تصفیہ کا عمل جاری کیا۔ اسی دوران ایک حکم نازل ہوا مااتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتھوا۔ جو تمہیں میرا رسول [ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ] دے اسے لے لو اور جس سے روک دے اس سے رک جاؤ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عقیدہ توحید دیا ہم لے لیں ، کفر و شرک سے روکا ہم رک جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عقیدہ ختم نبوت دیا ہم لے لیں ارتداد سے روکا ہم رک جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قرآن دیا ہم لے لیں۔ تحریف شدہ اور تبدیل شدہ کتب سماویہ سے روکا ہم رک جائیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سنت دی ہم لے لیں۔ بدعات و رسومات سے روکا ہم رک جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مجتہد کی بات ماننے کا حکم دیا ہم مان لیں۔ اولیاء اللہ کی بے ادبی سے روکا ہم رک جائیں۔
اس لیے آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس مقام پر ہم کو کھڑا کر کے گئے تھے ہم اس سے ہٹ تو نہیں رہے۔ ہم آج یہ فیصلہ کر لیں کہ ایمان و عمل والی زندگی بسر کرنی ہے۔ بدعقیدگی اور بدعملی سے دور رہنا ہے۔
مختصر یہ کہ ہمیں سنجیدگی سے اس پر غور کرنا ہوگا کہ ہمارے نبی پر جب ہمارے اعمال ان کے روضہ اقدس میں پیش کیے جاتے ہیں تو وہ ہماری کس بات سے خوش ہوتے ہیں۔ جب ان کے حکم کے مطابق ان کی سیرت کو اپنایا جائے یا محض ان کا میلاد منایا جائے ؟” ماننے“ اور ”منانے“ کے فرق کو ملحوظ رکھ کر فیصلہ کریں !