اچھا اور ڈراؤنا خواب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اچھا اور ڈراؤنا خواب
مولانا محمد امان اللہ حنفی
آصف گھر میں داخل ہوتے ہی تھکاوٹ کی وجہ سے کسی کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے بجائے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا، سارا دن کام کرنے کی وجہ سے اس کا جسم تھکاوٹ کی ٹیسیں محسوس کر رہا تھا اس نے اپنے جوتے بھی نہیں اتارے تھے اور بس پاؤں لٹکا کر بیڈ پر لیٹ گیا اور اپنی کلائی کو پیشانی پر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ آصف کے اس طرح کمرے میں جانے سے اس کی ماں نے اندازہ لگایا کہ بیٹا بہت تھکا ہو گا یا پھر اس کو کوئی پریشانی ہوگی جس کی وجہ سے آج ہمارے پاس بیٹھنے کے بجائے سیدھا کمرے میں چلا گیا۔
ماں؛ اپنے بیٹے کی تھکاوٹ کا اندازہ کر چکی تھی اس لیے وہاں سے جلدی سے اٹھی اور چائے کے لیے پانی چولہے پر رکھ دیا۔گلاس میں پانی ڈال کر پروین [جو اس کے اکلوتے بیٹے آصف کی بیوی تھی ] کو گلاس تھماتے ہوئے کہا: جا بیٹی!اپنے گھر والے پانی پلا ،میں چائے بنا کر کچھ دیرمیں آتی ہوں۔لگتا ہے آصف بہت تھکا ہوا ہے۔ بیٹی جا اوراس سے خیر خیریت دریافت کر تاکہ آصف کی تھکاوٹ ختم ہو اور تیری محبت اس کے دل میں آئے۔
پروین نے اپنی ساس سے پانی کا گلاس لیا اور کمرے میں داخل ہوگئی آصف کو اس طرح لیٹے دیکھ کر گلاس میز پر رکھ دیا۔خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گئی اپنی سانس کو روک کر اپنے چہرے کا رنگ سرخ کرتے ہوئے بولی:اف خدایا!پھنس گئی میں تو۔آصف نے جھٹ سے اپنی پیشانی سے بازو ہٹایا اور پروین کی طرف دیکھتے ہوئے بولا : کیا ہوا پروین کہاں پھنس گئی؟ ہروقت جلی بھنی سی باتیں کرتی رہتی ہو؟یہ سنتے ہی پروین ایسے بولی جیسے پہاڑ سے لاوا نکل رہا ہو۔ تیری ماں کے ہر کام میں ٹانگ اڑانے سے میں تنگ آ گئی ہوں۔ہم دونوں میاں بیوی کو بالکل بھی اکٹھا بیٹھے نہیں دیکھ سکتی وہ چاہتی ہے کہ آصف بیوی سے نہیں بلکہ ماں سے محبت کرے۔
اب یہ ایک گلاس پانی لانے کے لیے بھی مجھے پہلے ساس سے اجازت لینی پڑی ہے پھر لے کر آئی ہوں ، چائے کا ایک کپ بنانے کے لیے بھی پہلے اجازت لو پھر بناؤ۔دیکھو آصف !سیدھی سی بات ہے کہ تیری ماں کا رویہ میرے ساتھ یہی رہا تو میرا اس گھر میں رہنا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
اسی دوران باہر سے ماں نے پروین کو آواز دی۔پروین باہر گئی ماں نے کہا بیٹی چائے تیار ہوگئی ہے میں نے دو کپوں میں ڈال دی ہے پروین کی ٹھوڑی پر پیار سے اپنا ہاتھ دباتے ہوئے کہا ایک اپنی پیاری بہو کے لیےاور ایک اس کے شوہر کے لیے۔ جا بیٹی دونوں بیٹھ کر مل کر پیو اور سدا خوش رہو۔
پروین نے ٹرے کو اٹھایا اور کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اپنے تیور چڑھاتے ہوئے بولی: دیکھا آصف! باہر میرے ساتھ کیا ہوا؟صرف یہ دو کپ چائے ہی تومیں نے بنائے تھے آخر یہ غصے کی کون سی بات تھی؟جیسے ہی میں نے دوسرے کپ میں چائے ڈالی تیری ماں نے مجھےخوب کوسا اور کہا پہلے تونے ایک کپ چائے کا کہا تھا یہ دوسرا کس کےلیے ڈال کر لے جا رہی ہو ؟ ہر وقت کھانے پینے میں لگی رہتی ہو۔ ؟
آصف نے یہ سب باتیں خاموشی سے سنیں پانی کا گلاس پیا اور اپنی بیوی سے چائے لیتے ہوئے کہنے لگا:
پروین دیکھو !آپ کو میری زندگی میں آئے ابھی دو ماہ بھی پورے نہیں ہوئے ابھی آپ گھر کا کام کاج بھی نہیں کرنے لگی۔زیادہ سے زیادہ میرے لیے چائے بناتی ہو۔ماں نے مجھے بچپن سے پالا ہے میں ماں کو اچھی طرح جانتا ہوں زندگی کے 26 سال ماں کے ساتھ رہا ہوں اس کی محبت کا اندازہ لگانا مشکل ہے ایسے اخلاق والی ماں تو چراغ ہاتھ میں لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ میری شادی سے پہلے اس گھر میں ہر طرح کا سکون تھا گھر میں صرف میری ماں اور میں ہوتے تھے اب اگر گھر کا سکون خراب ہونے لگا تو وہ اس کی وجہ کیا صرف میری ماں ہے ؟
پروین نے یہ باتیں سنیں اور جھلس کر بولی: آصف !میں نے کہہ دیا ناں !میں اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔تیری ماں کے ساتھ۔آصف نے کہا میں ماں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔پروین نے اپنے حسن پر ناز کرتے ہوئے کہا پھر مجھے چھوڑ دو،آصف کو یہ سن کر غصہ تو بہت آیا مگر چپ ہو کر باہر چلا گیا۔
رات کافی ڈھل چکی تھی ،پورا شہر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ آصف آج رات گھر نہ آیا وہ اپنے کسی دوست کے ہاں چلا گیا۔ ا س کی بوڑھی ماں کبھی دروازے تک آتی اور کبھی اپنے کمرے میں۔ وہ بہت زیادہ غمگین دکھائی دے رہی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنے دوپٹے سے آنسو پونچھتی اور رو رو کر اپنے بیٹے آصف کی خیریت کی دعائیں مانگ رہی تھی۔
جبکہ پروین نے رات ہوتے ہی کمبل اوڑھ لیا اور نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ اسی دوران اس نے خواب دیکھا کہ آج پھراس نے آصف کو جب اس کی ماں کی شکایت لگائی تو وہ بھی غصہ میں آگیا۔ دونوں میں زور زور کی باتیں ہوتی رہیں۔ انہی باتوں باتوں میں پروین نے آصف سے کہا کہ یا اس گھر میں تمہاری ماں رہے گی یا پھر میں رہوں گی۔ آصف نے اس کی یہ بات سن کر کہا کہ اگر تیرا یہی فیصلہ ہے تو پھر جا میں تجھے طلاق دیتا ہوں۔ پروین ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اس کی پیشانی پر پسینہ بہہ رہا تھا چیختی ہوئی باہر نکلی اور اپنی ساس سے گلے لگ کر خوب رونے لگی اور کہا کہ اماں جی مجھے معاف کر دیں۔ ساس نے پروین کو تسلی دی اسی دوران دستک ہوئی۔ کون ؟ ماں جی میں آپ کا بیٹا آصف۔