زندگی ایسے گزاریں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
زندگی ایسے گزاریں!!
اہلیہ مولانا محمد الیاس گھمن
منتظمہ : مرکز اصلاح النساء 87 جنوبی سرگودھا
ہر انگریزی ماہ کے پہلے اتوار مرکز اصلاح النساء 87 جنوبی سرگودھا میں میرے شوہر نامدار متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن خواتین کے باپردہ ماحول میں اصلاحی بیان فرماتے ہیں۔ افادۂ عام کی غرض سے پیش خدمت ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلهِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ،وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا. مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ ، وَنشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ سَيِّدَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ،صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا اَمَّابَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي۔
)سورۃ الفجر:27تا30(
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ؀اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ؀
دنیا دار العمل ہے :
میری نہایت واجب الاحترام ماؤو بہنو اور بیٹیو!میں نے آپ کے سامنے پارہ نمبر30 کی سورۃ فجر کی آیت نمبر 27 تا 30 تلاوت کی ہیں ان آیات میں اللہ نے جنتی ذات اور جنتی انسان کی بات کی ہے،دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دارالجزاء ہے آخرت کے دارالجزاء کے دو ٹھکانے ہیں ایک کا نام جنت ہے اور ایک کا نام جہنم ہے۔درمیان ایک تیسرا ٹھکانہ ہے جسے اعراف کہتے ہیں لیکن وہ عارضی جگہ ہے۔
لوگوں کی تین اقسام :
قیامت کے دن جب اعمال کا حساب ہوگا تو تین قسم کے افراد ہوں گے۔
1: وہ افراد جن کے نیک اعمال زیادہ ہوں گے۔
2: وہ افراد کہ جن برے اعمال زیادہ ہوں گے۔
3: وہ افراد کہ جن نیک اور اعمال اور برے اعمال برابر ہوں گے۔
جن کے نیک اعمال زیادہ ہوں گے قرآن کریم میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ۔
)سورۃ القارعۃ: 6،7(
تو وہ بہترین پسند کی زندگی میں ہوں گے یعنی جنت میں ہوں گے اور جن کے برے اعمال زیادہ ہوں اور نیک اعمال کم ہوں گے تو اللہ پاک قرآن کریم میں ان کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ ؀ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ؀
)سورۃ القارعۃ:8،9(
جن کے نیک اعمال کم اور گناہ زیادہ ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
کیونکہ آگے خود اللہ رب العزت نے وضاحت فرمادی :
وَمَا أَدْرَاكَ مَاهِيَهْ نَارٌ حَامِيَةٌ
) سورۃ القارعۃ:10،11(
یہ ہاویہ کیا چیز ہے؟ یہ آگ ہےجلا ڈالنے والی یہ آگ ہے،اسی کا نام جہنم ہے۔گویا تین قسم کے افراد ہیں۔
1:جن کے نیک اعمال زیادہ،2:جن کے گناہ زیادہ،3:جن کے نیک اعمال اور برے اعمال برابر۔
اعراف والے کون ہیں ؟:
جن کے نیک اعمال اور برے اعمال برابر ہیں ان کے بارے میں نے میں عرض کیا کہ ان کا ٹھکانہ اعراف ہے۔بالآخر یہ اعراف سے نکل کر جنت میں چلے جائیں گے اعراف اس دیوار کا نام ہے جو جنت اور جہنم کے درمیان مین ہے۔جنتی بالآخر جنت میں جائیں گے۔
نفس کی تین اقسام اور ان کی تشریح :
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے انسان کے نفس کے لیے،انسان کی ذات کے لیے تین قسم کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔1:نفس امارہ۔2:نفس لوامہ۔3:نفس مطمئنہ
1:نفِس امَّارہ
نفس امارہ کے بارے میں قرآن کریم میں ہے:
وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ۔
) سورۃ یوسف:53(
جب حضرت یوسف علیہ السلام کو شاہ مصر نے پیغام بھیجا اور ان کو جیل سے خلاصی ملی تو حضرت یوسف نے خلاصی ملنے سے قبل شاہ مصر کو پیغام بھیجا کہ جاؤ پہلے ان عورتوں سے پوچھو جن عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے وہ کیا کہتی ہیں؟
فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ۔
) سورۃ یوسف:50(
حضرت یوسف بے گناہ تھے تو حضرت یوسف نے فرمایا: :
وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ۔
)سورۃ یوسف:53(
2:نفِس لوّامہ :
ایک ہے ”نفسِ لوامہ“ اس کے بارے میں اللہ پاک قرآن کریم میں پارہ نمبر29سورۃ قیامۃ میں ارشاد فرماتے ہیں:
لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ۔
) سورۃ القیامۃ:1تا 3(
3:نفِس مطمئنہ:
اور جو میں نے سورۃ الفجر کی آیات تلاوت کی ہیں اس میں آیت نمبر 27 میں ہے :
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ۔
) سورۃ الفجر:27(
نفس کی تین قسمیں ہوگئی۔1:نفس امَّارہ۔2:نفس لوَّامۃ۔3:نفس مطمئنہ
نفِس امَّارہ کی تشریح:
نفس امارہ وہ ہے جو انسان کو ہمیشہ گناہ پر ہی ابھارتا ہے تو جب انسان محنت،مشقت اور مجاہدہ کرے اور اپنے نفس کو کنٹرول کرے تو امارہ سے نکل کر نفس لوامۃ کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔
نفِس لوّامہ کی تشریح :
لوَّامۃ کا معنیٰ ہے کہ چھوٹی خطا ہوتو نفس اس پر ملامت کرے اور اس کے بعد درجہ ہے نفس مطمئنہ کا۔
نفِس مطمئنہ اور نفس نبوت :
عام انسان کا نفس،نفس مطمئنہ کے مقام پر بڑے مجاہدات یا اولیاء وانبیا کی صحبت کی برکت سے پہنچتا ہے اور اللہ رب العزت کے نبی کا نفس ابتداء ہی سے نفس مطمئنہ ہوتا ہے جہاں عام انسانی نفس کی انتہاء اور اختتام ہوتا ہے وہاں نفس نبوت کی ابتداء ہوتی ہے۔دنیا دار العمل ہے اور آخرت دارالجزاء ہے۔اب ہم نے محنت کرنی ہے کہ اپنے نفس کو نفس امارہ سے نکال کر نفس لوامۃ اور نفس لوامۃ سے نکال کر نفس مطمئنہ بنائیں۔اب یہ کیسے ہوگا؟
دنیا کی حقیقی زندگی کا خلاصہ:
دو قسم کے اعمال ہیں۔1:نیک اعمال۔2: برے اعمال
اعمال صحیحہ اور اعمال سیئہ،اچھے اعمال اور برے اعمال ہمیں ان باتوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔نیک اعمال کا اہتمام کریں اور برے اعمال سے بھرپور بچنے کی کوشش کریں اور اگر کسی وقت انسان کوئی برا عمل اور گناہ والا عمل کر دے تو انسان کوشش کرے کہ فوراً توبہ کر کے اپنے برے اعمال کو ختم کرے اور اپنے نیک عمل کو شروع کرے اور برے اعمال کو نیک اعمال سے بدلنے کی کوشش کرے گناہوں سے انسان بچے اور نیک اعمال پر انسان توجہ دے،تو اعمال صالحہ کو اختیار کرنا ہے،اعمال سیئہ سے بچنا ہے۔یہی خلاصہ ہے دار العمل کی حقیقی زندگی کا۔
زندگی گزارنے کا قرآنی اصول :
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اس بات کو ان الفاظ میں سمجھایا ہے:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا۔
) سورۃ الحشر:7(
جس بات کی میرا پیغمبر اجازت دے اسے لے لو اور جس کام سے میرا پیغمبر منع کرے اس کام سے باز آجاؤ۔
تو دارالعمل میں ہمیں دو چیزوں کا اہتمام کرنا چاہیے زندگی بالکل مختصر ہے زندگی بالکل ناپائیدار ہے دارالعمل میں ہم آئے ہیں عمل کرنے کے لیے یہاں مستقل ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آئے۔یہ عیش وعشرت کی جگہ نہیں ہے۔من مانی کی زندگی گزارنے کی جگہ نہیں۔بلکہ آخرت کی تیاری کرنے کی جگہ ہے۔جب بھی انسان کسی دوسرے کی موت کو سنتا ہے یا دیکھتا ہے۔
کچھ سوچ آخرت کی :
تو انسان کو فورا اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ میں نے دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا۔میں نے دنیا کو چھوڑ کر جانا ہے۔اگر میں نے آج اپنی آخرت کو نہیں بنایا،اگر آج میں نے اپنی زندگی کو نہیں بدلا تو موت کے بعد میرا کیا بنے گا؟دنیا میں انسان مصیبت میں پھنس جائے تو وہ ٹل جاتی ہے ختم ہوجاتی ہے دنیا کی قید میں جائے اس سے رہائی عدالتوں یا سفارشوں کے مل جاتی ہے لیکن موت کے بعد کی زندگی ایسی ہے کہ مرنے کے بعد واپسی کی کوئی صورت نہیں۔قبر سے انسان واپس نہیں آسکتا،حشر سے انسان واپس نہیں آسکتا ہے۔
اعمال ، اقوال اور اخلاق :
تو دارالعمل میں اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ہم نیک اعمال کریں۔نیک اعمال میں سے بعض اعمال وہ ہیں کہ جو ہر حال میں کرنے والے ہیں اور ہر حال میں کرنے ضروری ہیں اور نیک اعمال میں بعض ایسے ہیں کہ کر لیں تو اجر ملتا ہے نہ کریں تو گناہ نہیں ملتا۔ان اعمال کو بھی بہرحال انسان کو کرلینے چاہییں۔تو جو اعمال ہمارے ذمہ ہیں ان میں سے بعض چیزیں ایسی ہیں جن کو اعمال کہتے ہیں ،افعال کہتے ہیں، اقوال کہتے ہیں۔اور بعض ایسی ہیں کہ جن کو اخلاق کہتے ہیں۔
نماز اہم عبادت ہے :
ہم دونوں قسم کی باتوں کی طرف زیادہ توجہ دیں اور سنجیدگی سے غور کریں۔مثلاً پانچ وقت کی نماز ہر مسلمان کے ذمہ ہے مرد ہو یا عورت ہو،یہ نماز ہر حال میں ذمہ ہے جب انسان کا شرعی عذر ہو اس وقت نماز پڑھنی ضروری نہیں ہوتی،لیکن اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تو نماز کسی حال میں بھی قضاء نہیں کرنی چاہیے،سفر میں بھی ادا کرے حضر میں بھی ادا کرے۔گھر میں بھی ادا کرے باہر بھی ادا کرے۔
خواتین کی غفلت :
ہمارے ہاں عموما خواتین بعض مواقع پر خطا فرما جاتی ہیں گھر میں کچھ کام ہوا نماز کو مؤخر کردیا،بازار جانا ہے نماز کو موخر کردیا،شادی ہوئی نماز مؤخر کردی،بلکہ ہمارے معاشرے میں دو مواقع ایسے آتے ہیں اور دو مقام ایسے آتے ہیں جس میں عموماً خواتین نماز نہیں پڑھتیں۔اور بہت بڑی کوتاہی کرتی ہیں۔
خواتین جب سفر کریں تو ……:
جب سفر میں جائیں تو مرد حضرات نماز کا اہتمام کر لیتے ہیں اور کچھ کوتاہی بھی کرتے ہیں لیکن سفر میں عموماً خواتین نماز کی پابندی نہیں کرتیں۔حالانکہ خواتین کے لیے بھی سفر میں نماز پڑھنا کوئی مشکل نہیں۔اپنی گاڑی ہو پھر تو بالکل مشکل نہیں ہے اور اگر اپنی گاڑی نہ ہو کرائے کی گاڑی ہو یا ٹیکسی لے کر جائیں تو بھی مشکل نہیں ہے جہاں چاہیں روک لیں اور پردے کی حالت میں وضو کر لیں اور نماز پڑھ لیں اور اگر کسی کوچ یا ٹرین وغیرہ میں سفر کریں تو جہاں آپ کا محرم یا شوہر نماز ادا کرے وہاں تھوڑا سا اہتمام کرکے اپنی خواتین کو استنجاء اور وضوء کرا کے نماز پڑھا سکتا ہے۔اگر پردے کی حدود میں رہتے ہوئے جس حد تک ممکن ہو کوشش کرنی چاہیے کہ نماز قضا نہ ہو۔ایک تو سفر کے موقع پر ہماری خواتین نماز میں کوتاہی کرجاتی ہیں۔
نماز شادی بیاہ کے مواقع پر :
عموماً شادی کے موقع پر خواتین نماز میں کوتاہی کرتی ہیں۔نکاح ہوگیا رخصتی کا دن ہے اس دن بہت ساری خواتین ایسی ہیں جو نماز کی پابند ہیں لیکن محض اس وجہ سے ایک آدھ نماز چھوڑ دیتی ہیں لیکن محض اس وجہ سے ایک آدھ نماز چھوڑ دیتی ہیں چونکہ میک اَپ کیا ہوا ہے اگر اس نے وضو کی تو میک اَپ خراب ہوگا میک اَپ دوبارہ کرنا پڑے گا تو صرف کچھ وقتی خوبصورتی کی خاطر اپنی نماز کو قربان کردیتی ہیں اللہ حفاظت فرمائے حالانکہ چاہیے یہ کہ اس موقع پر نماز بالکل قضا نہ کریں نماز ادا کریں اور اگر کوئی ایسا عذر ہو تو سفر کی ترتیب ایسی بنائیں کہ جس میں نماز خراب نہ ہو۔
بیوٹی پارلر کا عذاب :
اور کوئی ضروری تو نہیں ہے کہ اگر میک اَپ وضو کی وجہ سے خراب ہوگیا توکیا دوبارہ نہیں کیا جا سکتا؟اللہ رحم فرمائے یہ عذاب ہمارے اوپر آیا ہے بیوٹی پارلروں کی وجہ سے،چونکہ پہلے ہم دلہن کو بیوٹی پارلر لے کر جاتے ہیں وہاں جا کر بناؤ سنگھار کرتے ہیں وہاں جا کر تزئین وآرائش کا کام کرتے ہیں اب سمجھتے ہیں اگر اس نے وضو کیا تو اس کے چہرے کی بیوٹی پارلنگ ختم ہوگی تو دوبارہ بیوٹی پارلر پر کون لے کر جائے گا؟اور اگر ان بیوٹی پالروں کی بجائے اپنے گھر میں جس حد تک ضرورت تھی خاتون کو بنانا دلہن کو سجانا،یہ شریعت میں پسندیدہ چیز ہے کوئی بری چیز نہیں ہے لیکن اس کے لیے گھر میں ماحول بنائیں۔گھر میں اہتمام کریں اگر یہ گھروں میں اہتمام ہوتا،اتنی بڑی مقدار میں پیسہ بھی خرچ نہ ہوتا اور عورت اور عورتوں کی نمازیں بھی خراب نہ ہوتیں۔
نمازمیں کوتاہی کا تیسرا موقعہ:
میں سمجھا یہ رہا تھا کہ دو موقعوں پر خواتین عموما خواتین غفلت کر جاتی ہیں،عموماً اس میں کوتاہی کر جاتی ہیں بلکہ اگر میں کہہ دوں کہ تیسرا موقع بھی ساتھ ملا لیں تو شاید بےجا نہ ہوگا کہ عموماً جب کوئی خاتون امید کے ساتھ ہو،اور آخری دن ہوں تو ان دنوں میں بھی نماز میں کوتاہی کرتی ہیں۔حالانکہ نمازوں میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اگر بہت تکلیف ہو بڑی دِقَّت ہو اور نماز پڑھنے میں مشکل پیش آتی ہو تو کھڑے ہوکر نہ پڑھیں بیٹھ کر پڑھ لیں۔گنجائش موجود ہے اور اگر پھر بھی دقت ہو تو سنت اور نوافل چھوڑ دے لیکن فرض پھر بھی ادا کرےا ور اگر خدانخواستہ تکلیف یا درد زیادہ ہے تو پھر بعد میں اس نماز کو قضا کریں۔یہ تین موقعے ایسے ہیں جن میں عموماً خواتین نماز میں کوتاہی کرجاتی ہیں۔سفر میں،جب دلہن بنے،جب امید سے ہو۔تو اس بات بہت زیادہ خیال کرے کہ نماز میں کوتا ہی نہ کرے۔
زکوٰۃ کا حکم اور خواتین کی کوتاہی:
جب مرد وعورت کے پاس مال ہو اور نصاب کو پہنچ جائے او ر اس پر سال گزر جائے اور اس کی حاجات اصلیہ سے زائد ہو تو زکوٰۃ ادا کرے،اور خاتون کو بھی چاہیے زکوٰۃ ادا کرے۔اس زکوٰۃ کی ادائیگی میں ہرگز خواتین کوتاہی نہ کریں۔
زیوارات کی زکوٰۃ کا مسئلہ :
زکوٰۃ کے معاملے میں ہمارے ہاں جو کوتاہی ہوتی ہے وہ عموماً زکوٰۃ کے معاملے میں زیورات میں کوتاہی کرتی ہیں بعض عورتیں زکوٰۃ ادا کرتی ہیں پیسے میں اور گھر کے مال میں لیکن زیور میں ادا نہیں کرتیں حالانکہ جس طرح اس مال پر زکوٰۃ فرض ہے جو مال گھر یا بنک میں ہو تو اسی طرح اس مال پر بھی زکوٰۃ واجب ہے جو مال زیور کی صورت میں ہے۔ اس کا اہتمام کریں کہ زیورات میں زکوٰۃ ادا کریں
بیوی کی طرف شوہر زکوٰۃ ادا کر سکتا ہے :
اور یہ بات ذہن نشین فرمالیں خاتون کے زیور کی زکوۃ خاتون کے ذمہ ہے اس کے شوہر کے ذمہ نہیں ہے اگر شوہر اس کی طرف سے ادا کرتا ہے تو اچھی بات ہے،ان کا آپس کا تعلق ہے ان کے آپس کے معاملات ہیں اگر ادا کرے تو کر سکتا ہے لیکن ذمہ داری عورت کی ہے۔اب اگر شوہر بھی زکوۃ ادا نہ کرے اور خاتون بھی زکوۃ ادا نہ کرے اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے تو بتائیں زیور کا کیا فائدہ؟
زکوٰۃ کا بدلہ جنت کے زیورات :
اگر ان زیورات کی زکوٰۃ ادا کرتی رہےگی تو اللہ جنت کے زیور عطا فرمائے گا۔اللہ جنت کے کنگن عطا فرمائے گا۔اللہ جنت کی انگوٹھی عطا فرمائے گا۔اگر یہاں زکوٰۃ ادا نہ کی تو اللہ محفوظ فرمائے اگر ہم جنت کےزیورات سے محروم ہوگئے تو بتائیں کس قدر نقصان کی بات ہے تو خواتین کو چاہیے کہ بطور خاص زکوۃ کا اہتمام کریں۔
رمضان المبارک کے فرض روزے :
رمضان المبارک کا روزہ یہ بہت ضروری ہےاور فرض ہے۔ ابھی ہمارے سننے میں آیا ہے کہ ہماری بہت ساری خواتین ایسی ہیں جو صحت مند ہونے کے باوجود روزہ نہیں رکھتیں۔بتائیں کس قدر ظلم اور افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ

مسلمان خاتون ہو

مسلمان کی بیٹی ہو

مسلمان کی بیوی ہو

مسلمان کی ماں ہو

مسلمان بھائی کی بہن ہو
اللہ نے صحت بھی دی ہواور پھر بھی رمضان کا روزہ نہ رکھے۔یقین فرمائیں جب میں یہ بات سنتا ہوں دل خون کے آنسو روتا ہےاور انتہائی زیادہ دکھ ہوتا ہے اور انتہائی زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔نوجوان بچیاں ہیں اور روزہ نہیں رکھتیں۔تو روزے کے معاملے میں اللہ سے ڈریں کوتاہی ہرگز نہ کریں۔
روزے کی فضیلت:
رمضان کے روزے کی پابندی کریں،خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ رب العزت فرماتے ہیں:الصوم لی وانا اجزی بہ یا وانا اجزیٰ بہ،فرمایا روزہ خالص میرے لیے ہے اور روزے کا اجر میں اللہ خود دیتا ہوں یا اس روزے کا اجر میں خود بن جاتا ہوں۔ہیں تو باقی اعمال بھی اللہ کیلیے لیکن روزے کو بطور خاص اللہ رب العزت نے اس کا اعزاز کرتے ہوئے فرمایا کہ الصوم لی کہ روزہ میرے لیے ہے۔
نعمتوں کی ناشکری سے بچیں !
اب دیکھو کہ جس عمل کو اللہ کریم اپنی ذات کے لیے فرمایا ہم اس میں کوتا ہی کریں،کس قدر ہماری نالائقی ہے اور کس قدر اللہ کی نعمتوں کی ناشکری اور لاپرواہی ہے جس اللہ نے گیارہ ماہ اجازت دی ہے پھر رمضان میں غروب شمس سے لے کر صبح صادق تک اجازت دی ہے اگر چند گھنٹے اللہ فرما دے کہ چیز نہیں کھانی تو اللہ کی بات مان لینی چاہیے اگر انسان معدے کا مریض ہو اور ڈاکٹر کہہ دے آپ نے اتنے ماہ،اتنے گھنٹےروزانہ خوراک استعمال نہیں کرنی ،ہر بندہ ڈاکٹر کی بات کو ماننے کے لیے تیار ہے اور کوئی بھی ڈاکٹر کی بات کو ٹھکراتا نہیں ہے آخر اللہ کی بات کو ہم کیوں ٹھکراتے ہیں? اس لیے میں کہہ رہا تھا کہ اس کا اہتمام کریں کہ رمضان کا روزہ رکھیں۔
حج بیت اللہ :
جس کے پاس اتنے پیسے ہوں کہ یہاں سے لے کر حرم کا سفر کرے اور واپس آئے اور مانگنا نہ پڑے اور وہاں رہ کر کھانے کے پیسے موجود ہوں اور عورت کے ساتھ اس کا شوہر یا محرم بھی موجود ہو یعنی جاسکتا ہواس عورت پر حج فرض ہے اور حج کی ادائیگی میں قطعاً کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔یہ تو میں چار وہ موٹے موٹے اعمال بتائے ہیں کہ جس کو ہر بندہ سمجھتا ہے کہ اس کو ادا کرنا بہت ضروری ہے اس کے علاوہ بعض چیزیں اور ہیں جن کا تعلق اخلاق سے ہے اور ان کا اپنانا بہت ضروری ہے۔ میں چند ایک عرض کردیتا ہوں۔
سچ بولنا اور جھوٹ سے بچنا :
سچ کا اہتمام کریں اور جھوٹ سے بچیں اور کسی حال میں بھی جھوٹ نہ بولیں۔ہر حال میں سچ بولیں حدیث میں ہے: الصدق ینجی والکذب یہلکسچ انسان کو نجات دیتا ہے اور جھوٹ بولنا انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔آدمی جھوٹ بول کر دوسرے کو وقتی طور پر مطمئن کر سکتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے جب جھوٹ کا پردہ چاک ہوتا ہے تو اس وقت انسان کو شرمندگی،ندامت اوربہت زیادہ دکھ ہوتا ہےاس لیے سچ بولنے کا اہتمام کریں اور جھوٹ سے ہر صورت بچنے کی کوشش کریں۔
غیبت کا معنیٰ :
غیبت سےبچیں کسی انسان کی غیبت نہ کریں غیبت کا مطلب کیا ہے؟ غیبت کا معنیٰ کیا ہے؟غیبت کا معنیٰ یہ ہے کہ ایسا عیب بیان کرے جو کسی دوسرے میں موجود ہے اور اس کی کمر کے پیچھے بیان کرے،اگر ایسا عیب بیان کیا جو اس میں موجود نہیں ہے تو یہ بہتان ہے بہتان غیبت سے بڑا جرم ہے۔اب دیکھیں اسلام نے انسان کی کس قدر عزت کا خیال کیا۔انسان کی عزت کا دفاع کیا ہے کہ جو کسی کے اندر ہے تو غیبت ہے۔بہتان سے بھی بچنا چاہیے اور غیبت سے بھی بچنا چاہیے۔
استہزاء اور مذاق اڑانا :
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے صاف ارشاد فرمایا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسٰى أَنْ يَّكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔
)سورۃ الحجرات:11(
اللہ نے فرمایا کوئی مرد کسی دوسرے مرد سے مذاق نہ کرے۔ ہوسکتا ہے جس کا استہزاء اور مذاق کیاہے وہ بندہ اس سے بہتر ہو،اسی طرح قرآن کریم میں خواتین کو حکم دیا گیا ہے کہ کوئی خاتون کسی خاتون سے ہرگز یہ تمسخر اور مذاق بازی نہ کرے ہوسکتا ہے جس کا مذاق اڑایا ہے وہ عورت اس سے بہتر ہو۔
غیبت کا گناہ …… قرآن کی نظرمیں :
آگے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا۔
) سورۃ الحجرات:12(
اور کوئی آدمی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔
< أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللهَ۔
[ سورۃ الحجرات:12(
تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کے گوشت کو کھائے جب تم اس کو پسند نہیں کرتے تو کسی بھائی کی غیبت کیسے برداشت کر تے ہو؟گویا کسی انسان کی غیبت کو مردہ کھانے سے تعبیر فرمایا ہے۔
غیبت کا گناہ ……حدیث کی روشنی میں :
اس لیے غیبت سے بہت زیادہ بچنا چاہیے بلکہ حدیث مبارک میں ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:الغیبۃ اشد من الزنا،زنا اور بدکرداری سے بھی سخت گناہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھا جا رہا،تو غیبت سے بہت زیادہ بچنے کا اہتمام کریں،اور یہ ذہن نشین فرما لیں غیبت ہمیشہ وہی دوسرے کی کرتی ہے جو خود کو دوسرے سے بہتر سمجھتی ہے اگر اس کو اپنے سے بہتر سمجھتی تو کبھی اس کی غیبت نہ کرتی،اس لیے غیبت سے بچنے کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔
بہتان بازی سے بھی بچیں :
تو جس طرح قرآن کریم نے غیبت سے منع فرمایا،اسی طرح قرآن کریم نے بہتان سے بھی منع فرمایا ہے خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ۔
) سورۃ الممتحنۃ:12(
اے میرے پیغمبر! اگر کچھ عورتیں آپ کے پاس آئیں اور یہ عورتیں آپ سے بیعت کرنا چاہیں،میرے پیغمبر بیعت کے لیے جو آپ نے شرطیں لگانی ہیں ان میں یہ شرط بھی ہے کہ یہ عورت کسی پر بہتان نہ باندھے۔
خواتین کی بیعت کی خدائی شرائط :
گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کے لیے اس کو شرط لگا دیا گیا۔اے میرے پیغمبر! اگر ایمان والی خواتین آپ کے پاس آئیں اور بیعت کرنا چاہیں تو ان شرطوں کے ساتھ آپ ان کو کریں۔

1)

اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔

2)

چوری نہ کریں گی۔

3)

بدکرداری نہیں کریں گی۔

4)

اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔

5)

کسی پر بہتان نہیں باندھیں گی۔

6)

آپ کی نیک باتوں میں کبھی نافرمانی نہیں کریں گی۔
میرے پیغمبر! آپ ان کو بیعت بھی کریں اور آپ ان کے لیے اللہ سے معافی بھی مانگیں،اللہ غفور رحیم ہے۔اللہ پاک نے یہ چھ شرطیں بیان فرمائی ہیں۔

1.

شرک نہ کرنا۔

2.

چوری نہ کرنا۔

3.

زنا نہ کرنا۔

4.

اولاد قتل نہ کرنا۔

5.

بہتان نہ باندھنا۔

6.

پیغمبر کی نافرمانی نہ کرنا۔
تو بہتان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی شرطوں میں سے شرط قرار دیا ہے۔اور فرمایا کہ ان چیزوں پر بہتان سے بچیں۔اسی طرح ہمیں چاہیے۔
دوسرے کی چیز کا بلا اجازت استعمال :
اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائےکسی بھی انسان کی چیز کو بلا اجازت استعمال کرنے سے بچیں۔ایک ہوتاہے چوری یہ تو بہت بڑا گناہ ہے۔ ایک ہوتا ہے بلا اجازت استعمال کرنا یہ چیز الگ ہے اس سے بڑھ کر ہے کہ کسی بھی انسان کا مال اس کی خوشی کے بغیر استعمال کرنا جائز ہی نہیں۔تو چوری کرنا کیسے جائز ہوگا؟میں بتا یہ رہا تھا کہ

ہم چوری سے بچیں

غیبت سے بچیں

بہتان سے بچیں

بغیر اجازت کسی کا مال استعمال کرنے سے بچیں

بغیر کسی کی خوشنودی اور رضامندی سے کسی کا ایک لقمہ کھانے سے بھی بچیں۔
اللہ ہماری حفاظت فرمائےیہ وہ کام ہیں جن سے ہمیں بچنا چاہیے میں بالکل دو چار باتیں عرض کی ہیں۔
غصے کا مرض اور نقصانات:
بلاوجہ کسی کے اوپر غصہ ہونے سے بچیں۔اپنے غصے کو کنٹرول کریں۔اپنے غصے کو سنبھالیں انسان کی شان کے لائق نہیں ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر انسان غصہ ہوتا رہے۔آپس میں غصے کی وجہ سے حالات خراب ہوتے ہیں۔گھروں کا ماحول بگڑتا ہے۔اولاد برباد ہوتی ہے۔
طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ ہونے کی وجہ سے مزاج میں برداشت نہیں ہوتی اور گھر کے خواندگی امور بالکل تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔اگر خاوند گھر میں بول پڑے خاوند کو چاہیے برداشت کرے۔جب ایک گھر میں دو رہتے ہیں پیارو محبت کی زندگی گزرتی ہے کچھ نہ کچھ انسان کی طبیعت میں کچھ کوئی بات آجاتی ہے۔تو اس کو برداشت کریں۔
شرح طلاق میں غصے کا عمل دخل :
میں کہہ رہا تھا کہ غصہ کرنے سے بچیں،غصے میں انسان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔اس وقت دنیا میں جتنی طلاقیں ہو رہی ہیں میرے خیال کے مطابق 95 فیصد ان کی وجہ صرف اور صرف غصہ ہے کہ ہلکی سی بات کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا،غصے میں آ کر طلاق دے دی۔ آج کل اکثر گھروں میں معمولی معمولی باتوں کی وجہ سے طلاقیں دی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے مرد سے زیادہ عورت کو احتیاط کی ضرورت ہے۔
تین طلاق کا مسئلہ اورشرعی حلالہ:
اور جب تین طلاقیں دے دیتے ہیں اور واقع ہوجاتی ہیں اور عورت نکاح سے نکل جاتی اس کے واپس آنے کی ساری صورتیں ختم ایک صورت ایسی ہے جو بہت کم پیش آتی ہے کہ وہ شخص کسی عورت کو طلاق دے دے اور اس کی بیوی کسی اور سے نکاح کرے اور وہ کسی اپنی وجہ سے اس کو طلاق دے دےاب یہ خاتون پہلے خاوند کے لیے حلال ہے۔اب نکاح کرنا چاہے تو کر سکتے ہیں۔اس کہتے ہیں شرعی حلالہ
حلالہ کرنے کرانے والے پر لعنت :
لیکن یہ جو آج کل طریقہ چل نکلا ہے کہ ایک جگہ طلاق ہوجاتی ہے پھر کسی اور سے نکاح کرتے ہیں وہ ایک گھنٹہ اپنے پاس رکھتا ہے عورت سے صحبت کرتا ہے طلاق دیتا ہے۔پہلے خاوند کے پاس آجاتی ہے ایسے حلالے پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔لعن اللہ المحلل،اللہ کے نبی نے فرمایا والمحللۃ،کہ جس آدمی نے حلالہ کیا اس پر بھی لعنت اور جس کے لیے کیا اس پر بھی اللہ لعنت کرے۔
احکام شریعت میں اب تبدیلی نہیں ہو سکتی :
اللہ کے احکام کی پابندی کرنی چاہیےاحکام میں رد وبدل نہیں کرنا چاہیے۔یہ یہودیوں کا کام ہے کہ احکام شریعت میں تبدیلیاں کریں اور بدل دیں دین۔ہم ایسے احکام کو نہیں بدل سکتے۔
غصے کا نبوی علاج :
غصے سے انسان کو بچنا چاہیے کنٹرول کرنا چاہیے۔احادیث میں اس کا علاج موجود ہے آدمی کھڑا ہے غصہ آیا تو بیٹھ جائےاگر بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔غصہ نہیں جاتا تو وضو کر لے غصہ ختم ہوجائے گا۔کیونکہ غصہ آگ سے ہے اور پانی آگ کو بجھا دیتا ہے،تو غصے کا بہترین علاج پانی ہے آدمی وضو کرے اللہ غصہ ختم فرمادیتے ہیں بہرحال غصے سے اجتناب کرنا چاہیے اور غصے سے بچنا چاہیے۔
زبان کے گناہوں سے بچیں!
اس کا اہتمام بھی کریں کہ جس حد تک ممکن ہو اپنی زبان کو کنٹرول کریں۔

اپنی زبان سے کسی کو طعنہ دینا

اپنی زبان سےکسی کی چغلی کرنا

اپنی زبان سے کسی کو گالی دینا

اپنی زبان سے گانا گانا

اپنی زبان سے کے اشارے سے کسی کو برا کہنایہ سب باتیں جائزنہیں۔
بہترین مسلمان کون ہے ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ،صحیح اور بہترین مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے لوگ محفوظ رہ جائیں۔ہم اپنے ہاتھ سے بھی لوگوں کو محفوظ رکھیں اور اپنی زبان سے بھی۔ کبھی زبان سے بول کر گالی دی جاتی ہے،کبھی زبان سے بول کر الزام دیا جاتا ہے کبھی زبان سے گفتگو کر کے کسی کے اوپر بات کی جاتی ہےاور کبھی محض زبان کے اشاروں سے بھی ہمارے ہاں گالیاں ہوتی ہیں۔تو اشارے والی توہین سے بھی بچیں اور صراحت والی توہین سے بھی بچیں اپنی زبان کا استعمال بالکل ٹھیک کریں۔
جہنم میں کثرت خواتین کی وجہ :
حدیث مبارک میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں جہنم میں گیا تو اس میں اکثر اور زیادہ تعداد میں مجھے عورتیں نظر آئیں۔کیوں؟ فرمایا اس لیے کہ ایک تو خاوند کی نافرمانیاں کرتی تھیں اور دوسرا وہ لعن طعن بہت کرتی تھیں یہ دو باتیں جہنم میں جانے کا سبب بنی ہیں۔
گناہوں اور فتنوں سے بچنے کا نبوی گر :
ایک صحابی نے پوچھا یارسول اللہ فتنوں سے بچنے کی مجھے ترکیب بتائیں۔میں فتنوں اور گناہوں سے بچ سکوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عجیب بات ارشاد فرمائی اگر تم فتنوں سے بچنا چاہتے ہو گناہوں سے بچنا چاہتے ہو تین باتوں کا اہتمام کرو۔

1)

اپنی زبان کی حفاظت کر۔

2)

اپنے گھر سے بلاضرورت باہر مت نکلو۔

3)

اگر گناہ ہوجائے اپنے گناہ اور خطا پر رویا کرو۔اللہ تمہیں محفوظ کر دیں گے۔
زبان کی حفاظت اور بلاضرورت گھر سے نہ نکلنا اور گناہ سے توبہ کرنا اس کا اہتمام کرو اللہ تمہارے ایمان کو بچائیں گے تو یہ کام ہیں جن سے ہمیں بچنا چاہیےاور بعض کام ایسے ہیں جو ہمیں کرنے چاہیے۔
سخاوت اور صدقہ
انسان سخاوت کا اہتمام کرے،صدقے کا اہتمام کرے کسی بھی کار خیر میں مردوں اور عورتوں کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔مردوں کے شانہ بشانہ عورتوں کو صدقات میں حصہ ڈالنا چاہیے۔سخاوت صرف یہ نہیں کہ مسجدکو پیسہ دیں۔صرف یہ نہیں کہ مدرسے کو پیسہ دیں۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں پر خرچ کرنا رشتہ داروں پہ خرچ کرنا،اپنی سہیلیوں پر ضرورت کے مطابق خرچ کرنا یہ سب اس کا حصہ ہے۔ ہمیں اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیےسخاوت کا اہتمام کریں اور بخل سے بچیں سخاوت کرنے والا اللہ کا محبوب ہوتا ہے۔
تواضع اور عاجزی :
تواضع کا اہتمام کریں اپنے اندر جھکاؤ پیدا کریں اپنے اندر عاجزی پیدا کریں اپنے اندر مسکنت پیدا کریں اللہ نے دولت دی ہے تو عاجزی کریں طاقت دی ہے تو عاجزی کریں۔اگر بڑا خاندان دیا ہے تو خدا کا شکر کریں اور عاجزی کریں دوسرے کو حقیر مت جانیں خود کو بڑا مت سمجھیں۔
تواضع کی فضیلت :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من تواضع للہ رفعہ اللہ ومن تکبر وضعہ اللہ،جو انسان اللہ کے لیے عاجزی کرتا ہے اللہ اس کو عزتیں رفعتیں عطا فرماتا ہے اور جو انسان تکبر کرتا ہے اللہ اس انسان کو ذلیل کرتے ہیں اور جھکا دیتے ہیں۔اپنے آپ کو دوسروں سے چھوٹا سمجھیں۔اللہ نے جو عزت مقدر میں لکھی ہے اللہ وہ عزت ضرور عطا فرمائے گا۔
صلہ رحمی اور ہمدردی :
صلہ رحمی اور ہمدردی کا بہت زیادہ خیال کریں۔رشتہ داروں کا خیال کرنا اپنے محرموں سے میل ملاپ رکھنا اپنی بچیوں کا خیال کرنا اور ان سب کے دکھ درد میں شریک ہونا ان کی خوشی پر ان کو مبارک دینا اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کریں کہ میں نے دوسروں کا خیال کرنا ہے۔
تحمل اور بردباری :

اپنے اندر حلم پیدا کریں۔

اپنے اندر بردباری پیدا کریں۔

اپنے اندر برداشت کی طاقت پیدا کریں۔

قوت برداشت پیدا کریں۔

اللہ بہت عطا کرتا ہے۔

اللہ بہت نوازتا ہے۔
کسی کی خطا سے درگزر کرنا یہ اللہ کی صفت ہے۔جب ہم کسی کی خطا سے درگزر کریں گے اللہ ہماری خطاؤں سے درگزر فرمائیں گے ہم پردہ پوشی کریں گے اللہ ہمارے گناہوں کو ڈھانپ لیں گے۔ ہم غریب کا خیال کریں گے اللہ کریم ہمارا خیال کریں گے۔اس کا بہت زیادہ اہمتام کریں کہ اپنے اندر بردباری اور تحمل پیدا کریں۔
اولاد کی تعلیم اور تربیت :
ہم اس کا بہت زیادہ خیال کریں کہ ہم نے اپنے آپ کو بنانا ہے اپنی اولاد کو بنانا ہے اپنے خاندان کو بنانا ہے ، بچوں کو دین کی تعلیم دیں قرآن کی تعلیم دیں۔یہ دنیا میں بھی کام آئے گی اور آخرت میں بھی کام آئے گی۔
موتیٰ کے لیے ایصال ثواب :
جو انسان زندہ ہیں ان کا بھی خیال کریں اور جو دنیا سے چلے گئے ہیں ان کا بھی خیال کریں جو زندہ ہیں ان کے دکھ درد میں شریک ہوں اور دنیا سے چلے گئے ہیں جو ان کے لیے ایصال ثواب کریں پڑھیں اور ان کو بخش دیں۔صدقہ کریں اور ان کو بخش دیں۔اپنی نفلی عبادات میں ان کو شریک کریں۔اللہ ہم سب کو ان باتوں کا اہتمام کرنے کی توفیق دے اللہ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے میں آج بطور خاص آپ کی خدمت میں یہ بات کہتا ہوں کہ ہماری یہاں بہت قریبی خاتون فوت ہوئی ہیں ان کے لیے خصوصی دعا کریں اللہ ان کی مغفرت فرمادے۔اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔اللہ کی قبر منور فرمائے۔اللہ ان کے شوہر کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین