محبت کے راستے کاسنہرا اصول

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
محبت کے راستے کاسنہرا اصول
ام طلحہ
اللہ تعالیٰ کی محبت ہر مسئلے کا آسان حل ہے۔ دنیاوی پریشانیاں ہوں یا اخروی عذاب کا خوف ، گھریلو ناچاقیاں ہوں یا ڈپریشن کا مرض ، نفیساتی الجھاؤ ہو یامعاشی تنگدستی ، اللہ تعالی کی محبت [ سچی محبت ] سے سب مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ ہاں سچی محبت کی پہچان یہ ہوگی کہ اسلامی احکامات پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے بلکہ اس کی فطرت بن جاتی ہے
یہ سنہری اصول یاد رکھیں کہ محبت کے اس راستے میں انسان کے لیے غیر کی طرف تھوڑا سا میلان بھی بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے، عوام الناس کی ان چیزوں سے کوئی پکڑ نہیں ہوتی اس لیے کہ ان سے تو توقع ہی نہیں کی جاتی لیکن جو محبت کے میدان میں قدم بڑھانے والے ہوں اور پروردگار سے اس کی محبت کے طلبگار ہوں اب اگر ان کے دل غیر کی طرف متوجہ ہوں تو محبوب بڑا غیور ہے۔
اس لیے حدیث پاک [حدیث قدسی]میں فرمایا :میں سب سے زیادہ غیور ہوں مجھ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں۔ تو جب انسان پسند اور چاہت کی نظر کسی غیر پر ڈال دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ سال کی عبادت کی لذت سے محروم فرمادیتے ہیں، تو اس راستے میں اس بات کا بڑاخیال رکھنا چاہیے کہ دل کے کسی کونے میں آپ ماسوا اللہ کے لیے کوئی جگہ خالی مت چھوڑیں اس دل کو اللہ رب العزت کی محبت سے لبریز رکھیں۔
اصل میں ہمارے سامنے اللہ رب العزت کے حسن وجمال کے جلوے نہیں کھلے، جس کی وجہ سے مخلوق کی طرف دھیان چلا جاتا ہے، ورنہ جو لوگ اللہ رب العزت کی محبت کا مزہ پا لیتے ہیں پھر ان کے سامنے دنیا کی شکلیں اور صورتیں بےمعنیٰ ہوجاتی ہیں پھر وہ ان میں نہیں الجھتے ان کا معاملہ اس سے بلند تر ہوجاتا ہے۔
کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے دلوں پر جو دھول جمی ہے وہ اتر جائے، دلوں کا زنگ اتر جائے۔مغربی روایتوں کو دل میں جگہ دینے کے بجائے زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کی رضا کو خاطر وملحوظ رکھیں۔ جب اللہ کی رضا غالب ہو گی تو تمام راستے سہل ہوجائیں گے۔بقول شاعر ؏
بس ایک ہی غلطی ہم تمام عمر کرتے رہے وصی
 
دھول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف

کرتے رہے

جس انسان کے دل میں اللہ رب العزت کی محبت بیٹھ جائے وہ بہت خوش قسمت انسان ہے ، ہر وقت اس چیز کو اپنے ذہن میں رکھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کسی غیر کا خیال دل میں لائیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت سے محروم ہوجائیں۔اس کی کئی مثالیں قرآن وحدیث سے ثابت ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام کو اپنے ہاں بیٹے کی بڑی چاہت تھی اکثر دعافرمایا کرتے تھے ، بالآخر اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بار پیار کی نظر سےاپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دیکھا۔ حکم الٰہی ہوا اے ابراہیم خلیل اللہ اپنے بیٹے لخت جگر کو ذبح کر دیجیے قربانی دیجیے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے فرمایا:
يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى۔
) الصافات:102(
بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں تیرا کیا خیال ہے ؟بیٹے نے جواب دیا:
يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِين.
)سورۃ الصافات:102(
ابا جان جو آپ کو حکم ہوا ہے آپ اسے پورا کیجیے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
جب دونوں اس پر باہم رضامند ہوگئے تو باپ نے بیٹے کو لٹا دیا اور قربانی کی آزمائش پر پورا اتر آئے۔تو اللہ تعالیٰ نےاسی وقت چھری سے کاٹنے کی صفت نکال دی اور جبرئیل جنت سے دنبہ لے کر آگئے۔اور چھری کے نیچے رکھ دیا،وہ ذبح ہوگیا اور اسماعیل علیہ السلام بچا لیے گئے۔ معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت قربانی لیتے نہیں بندے کو آزمانا مقصود ہوتا ہے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں تو پروردگار عالم نے ان کو کنویں میں ڈلوا دیا۔باپ بیٹا جدا ہوگئےاور ان کی بینائی بھی سلب کر لی۔آزمائش کے بعد اللہ رب العزت نے بینائی بھی لوٹا دی بیٹا بھی ملوا دیا۔جس دل میں اللہ کی محبت ہوگی وہاں گناہ نہیں ہوں گے، شروع میں یہ کام بہت مشکل لگتا ہے کیسے یہ سب چھوڑ دیا جائے اور اہ مستقیم پر گامزن ہوا جائے مگر بعد میں یہی تکلیف مزہ دیتی ہے جب یہ خیال آتا ہے کہ میں [ناجائز ]نفسانی خواہشات کی قربانی دے رہی ہوں اور اپنےومالک کے لیے اس کی رضا و محبت کی خاطر اسی کا حکم مان رہی ہوں۔ تو اس میں جوقلبی لطف ہے آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔
محبت کی تمنا ہے تو پھر وہ وصف پیدا کر
 
جہاں سے عشق چلتا ہے وہاں تک نام پیدا

کر

اگر سچا ہے میرے عشق میں تو اے بنی آدم

نگاہ عشق پیدا کر ، جمال ظرف پیدا کر

میں تجھ کو تجھ سے زیادہ اور سب زیادہ چاہوں گا

مگر شرط یہ ہے کہ اپنے اندر میری جستجو تو پیدا کر

اگر میں نہ بدلوں تیری خاطر ہر اک چیز کو تو کہنا
 
تو اپنے آپ میں پہلے انداز وفا تو پیدا کر