ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر30:
امان اللہ کاظم
ظہیر الدین محمد بابر
سلطان علی مرزا کی دردناک موت کی ذمہ دار اس کی ماں تھی ،اس بےوقوف عورت نے فقط خاوند کرنے کی ہوس میں اپنے بیٹے کو بدعہد ازبک سردار شیبانی خانی کے حوالے کردیا اور اس ظالم نے نوجوان سلطان علی مرزا کو تختہ دار پر لٹکا دیا،اس پر مستزاد یہ کہ اس نے سلطان علی مرزا کی ماں سے نکاح کرنے کے بجائے اپنی ذلیل ترین داشتہ بنا کے اپنے حرم میں داخل کرلیا۔ہوس پرست لوگوں کا عموماً یہی حشر ہوا کرتا ہے جو سلطان احمد مرزا کی ماں کا ہوا۔اس شعر کے مصداق کہ
نہ خدا ہی ملا نہ ہی وصال

صنم

نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے

رہے

بابر نے جب یہ اندو ہناک خبر سنی تو اس کے تن بدن میں اک آگ سی لگ گئی اس نے اب یہ مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ سمرقند کو ازبک سردار سے چھین کر ہی رہے گا دوسری طرف شیبانی خان کو اپنی افرادی قوت بڑا ناز تھا وہ اپنے تئیں سمجھ رہا تھا کہ کچی عمر کا یہ چھوکرا اس کی مقاومت کی تاب کب لاسکتا ہے ؟ اگر بالفرض اس نے سمر قند پر حملہ کرنے کی حماقت بھی کی تو میں اسے مکھی کی طرح مسل کے رکھ دوں گا۔
ازبک سردار کے کچھ فوجی تو سمر قند کے گلی کوچوں پر اپنا قبضہ جمائے بیٹھے تھے اور شہر سے کچھ فاصلے پر اس کے تین چار ہزار آزمودہ کار جنگجو پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اتنی ہی تعداد میں اس نے مقامی لوگوں کو اپنی فوج میں بھرتی کرلیا تھا۔ دوسری طرف بابر کے پاس فقط کل فوجی نفری دو سو چالیس سپاہیوں پر مشتمل تھی،کیا پدی کیا پدی کا شوربا۔
بابر اپنی خود نوشت تزک بابری کے ص50 پر رقم طراز ہے کہ
”جب ازبکوی سردار[شیبانی خان]سمرقندپر قابض ہوگیا تو میں کیش سے حصار کی طرف پلٹا اور خسرو شاہ کی قلمرو میں داخل ہوگیا ، اس وقت میری حالت کچھ یوں تھی کہ نہ تو میں اندجان جا سکتا تھا اور نہ کسی اور جگہ۔ ناچار میں نے” درہ کھرود“ کی راہ لی جو بہت ہی دشوار گزار گھاٹی تھی اس سفر نے ہماری حالت سخت تباہ کردی، میرے ساتھیوں کے بہت سے گھوڑے مر گئے، اس کے باوجود میرے حوصلے ابھی پست نہیں ہوئے تھے، جو نہی مجھے خبر ملی کہ شیبانی خان سمرقند سے نکل آیا ہے اور وہاں اس کا ایک امیر خان وفامرزا پانچ چھ سو آدمیوں کے ساتھ مقیم ہے تو میں نے سمرقند پر ایک بار اور قسمت آزمانے کا ارادہ کرلیا۔حالانکہ میرے ساتھ اس وقت صرف دو سو چالیس سپاہی تھے۔“
اندریں حالات بابر نے اپنے چھوٹے ماموں [مغلستان کے خاقان ]سے مدد مانگنے کا سوچا مگر اس نے اپنے اس خیال کو ترک کردیا ور اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لیے فقط اپنے وسائل پر ہی بھروسہ کرے گا اور یا پھر کچھ بھی نہیں کرے گا۔
بابر نے اس گھمبیر صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنے سرداروں کی ایک مجلس مشاورت بلائی اور ان کے سامنے سمرقند کے حالات اور اپنی ناگفتہ بہ حالت کا تذکرہ کیا اور ان سے مشورہ چاہا کہ اب ہمیں مستقبل کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔؟ اب جبکہ شیبانی خان سمرقند میں موجود نہیں ہیں ، کیا ہمیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سمرقند پر حملہ آور نہیں ہونا چاہیے؟بابر کی اس بات پر تمام شرکائےمجلس نے اتفاق کیا۔
تمام سرداروں کے متفقہ رائے کے پیش نظر بابر نے” یار ایلاق “سے سمرقند کی طرف کوچ کا حکم دے دیا،وہ دو ایک روز کے بعد قلعہ” اسفنداک“ سے قلعہ ”دسمند“ پہنچے اور پھر اپنے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے سمرقند پر یلغار کردی۔
اس یلغار میں خواجہ ابوالمکارم بھی بابر کے ہمراہ تھا۔ نصف شب تک ان لوگوں نے سایہ دار راستے پر سفر کرتے ہوئے خندق عتیق کے پل” مفاک“ تک رسائی حاصل کرلی وہاں سے بابر نے ستر اسی آزمودہ کار سپاہیوں کو ہر اول دستے کے طور پر ”غار عاشقاں“ تک پہنچنے اور پھر اس کے مقابل فصیل پر سیڑھیاں لگا کر چڑھنے کا حکم دیا۔ انہیں یہ بھی ہدایت کی گئی کہ وہ” بابِ فیروزہ“ کی سمت سے شہر پناہ پر چڑھیں اور صدر دروازے پر قبضہ کرلیں۔
بابر کی اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے جری جوانوں نے ”بابِ فیروزہ“ تک رسائی پاکر دروازے کو توڑ دیا دروازہ کھلتے ہی بابر اپنی باقی ماندہ فوجی نفری کے ہمراہ شہر میں داخل ہوگیا۔اہل شہر کو بابر نے اپنی آمد سے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کیونکہ اسے پورا یقین تھا کہ اہل شہر بہرطور اس کا ساتھ دیں گے کیونکہ وہ لوگ ازبکیوں سے شدید نفرت کرتے تھے۔
اگرچہ سارا شہر گہری نیند میں ڈوب رہا تھا مگر بابر کے حامی اس کی آمد کے منتظر تھے اور جاگ رہے تھے کچھ دیر میں بابر کے شہر میں داخلے کی خبر پورے شہر میں پھیل گئی لوگوں کے چہروں پر مسرت اور طمانیت چھلکی پڑتی تھی ان کے گھروں میں جو بھی ہتھیار تھے وہ انہیں اٹھائے گھروں سے امنڈ پڑے۔اور جن لوگوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا تو وہ لاٹھیوں اور پتھروں سے ازبکوں پر پِل پڑے۔اس طرح انہوں نے چارپانچ سو ازبکوں کو دیکھتے ہی دیکھتے پاگل کتوں کی طرح مار ڈالا۔ہر سمت مارو مارو کا شور وغل برپا تھا۔حاکم شہر جان وفا جان بچا کر بھاگ نکلا۔
عمائدین شہر نے بابر اور اس کے ساتھیوں کا پر مسرت انداز میں استقبال کیا صبح ہوئی تو اہل شہر اور دوکاندار،بابر کو مبارکباد دینے کے لیے کھنچے چلے آئے۔اندرون شہر سے اکثر ازبکوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا شیبانی خان کو جب سمرقند پر بابر کے قبضے کی خبر ملی تو وہ اپنے چند سو آزمودہ کار فوجیوں کی مدد سے سمرقند پر حملہ آور ہوا مگر اسے منہ کی کھانا پڑی۔
ایک حقیقت ہے کہ خاندان تیموریہ تقریباً ڈیڑھ سو برس تک سمرقند پر حکمران رہا تھا خدا جانے یہ ازبکی لیٹرا شیبانی کہاں سے ادھر آ ٹپکا تھا بفضلہ تعالیٰ بابر نے اس لٹیرے کو سمرقند سے نکال باہر کیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ شیبانی خان کے دل ودماغ پر ازبکوی کی اس ناکامی کا کوئی خاطر خواہ اثرنہیں ہوا تھا کیونکہ وہ اس نوخیز لاوارث شہزادے کو اپنا حریف سمجھتا ہی نہیں تھا اسے مکمل یقین تھا کہ وہ جب چاہے گا اس نوعمر لڑکے کو مسل کر رکھ دے گا۔البتہ بابر اس ازبکی شیطان سے خوفزدہ ضرور تھا۔
سمرقند پر قبضے کے بعد بابر نے اپنی ماں،نانی،بہن خانزاد ہ بیگم اور اپنی منکوحہ عائشہ کو بھی سمرقند بلوالیا۔اگرچہ بابر کو عائشہ سے کوئی لگاؤ اب باقی نہیں رہا تھا مگر وہ اس کی منکوحہ تو تھی۔اگرچہ سمر قند دوبارہ بابر کے زیر تسلط آگیا تھا مگر شیبانی خان نے واپس جاتے جاتے بابر کے نام ایک پیغام بھجوایا تھا جو کچھ یوں تھا:
”یہ الگ بات کہ تونے چوروں کی طرح رات کے اندھیرے میں شہر یوں کی مدد سے سمرقند میں داخل ہوکر اس پر قبضہ تو کرلیا ہے مگر مردوں کی طرح تو اس کی حفاظت نہ کرسکے گا۔میں بہت جلد سمرقند سے تجھے بےدخل کرنے لیے واپس آؤں گا میں تیری طرح رات کے اندھیرے میں چوروں کی مانند نہیں آؤں گا بلکہ اس طرح آؤں گا کہ جیسے کوئی حقیقی حقدار چوری کی ہوئی اپنی چیز واپس لینے کے لیے آتا ہے۔پھر میں دیکھوں گا تو خود کو اور سمرقند کو میری دست برد سے کس طرح بچاتا ہے۔یاد رکھو! میں نے جب بھی تجھ پر وارکیا تو دوسرا سانس نہیں لے سکے گا۔“ ) جاری ہے(