خبردار!شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">خبردار!شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے !!

ام بریرہ جمشید
کیا ہم یہ انصاف کررہے ہیں ؟شیطان ہماراازلی دشمن ہے ،جو کسی بھی صورت میں ہمیں خوشیوں میں دیکھنا نہیں چاہتا ،اس کی چاہت یہ ہے کہ وہ انسانوں کو عداوتوں اوردشمنیوں کی زَد میں لاکر ذلیل بنا کررسوائے زمانہ بنائے اور آخرت میں جہنم کا مستحق ٹھہرائے، بالخصوص میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا ہونے سے وہ اتنا خوش ہوتا ہے کہ اپنے ہم نشینوں کو گلے لگاتا ہے اوروہ ان کو دیکھ کر تالیاں بجاتا ہوا اپنی خوشیوں کا اظہارکرتا ہے ،اس لئے میاں بیوی کی ناچاقیوں سے میاں بیوی نہیں بلکہ اس سے گھر اور خاندان کے سارے افراد متأثر ہوتے ہیں اوربنیاد یہیں سے ڈالی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمہارا حقیقی دشمن یہی ہے ،اس کو دشمن جانو ،ہم نے اس کے بجائے اپنوں کو دشمن قرار دیا تو کیا ہم یہ انصاف کررہے ہیں ؟
ہم اس ملعون کو خوشی کا موقع کیوں دے رہے ہیں جو ہمیں ایک لمحہ بھی خوش دیکھ کر برداشت نہیں کرسکتا اورغم سے نڈھال رہتا ہے ؟ہم اس کا منہ کا لاکیوں نہ کریں ؟اور ان باتوں کو جنہو ں نے ہمارے دلوں پہ آگ لگادی ہے یہ آگ کیوں نہ لگائیں ،جنہوں نے ہماری خوشیوں کو غمو ں اور ناراضگیوں سے بدل دیا اور ہمارے دلوں کے چین وراحت کو حزن وملال اورپریشانیوں میں تبد یل کردیا اور جتنے ہم ایک دوسرے سے قریب تر تھے اور دور ہوتے چلے جارہے ہیں ؟ہم ان باتوں کو پس ِ پشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کو خوش کیوں نہ کریں ؟پھر یہ کہ ہم تعلیم یافتہ ہیں ،دوسروں کے لئے مشعل راہ ہیں ،قرآن ہماری کتاب ہے ،اسلام ہمارا مذہب ہے ،اس میں ہربات کاحل موجود ہے ،ہم اس سے اپنے مسائل حل کیوں نہ کریں ؟ہمارا ضمیر ہمیں ملامت کررہا ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں ؟قرآ ن وسنت ہمیں ایک راستہ پر چلانا چاہتے ہیں اور ہم کہیں اورجارہے ہیں۔
گھریلو جھگڑے ،اختلافات اوران کے برے اثرات:
گھرمیں خاص طور پر اختلاف صرف میاں بیوی کا نہیں بلکہ یہ خاندانوں کا اختلاف ہواکرتا ہے،اس سے گھر نہیں بلکہ خاندان کا فردفردمتاثر ہوتا ہے اورنسلوں تک ،وہ پھر تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے ،اس سے ہمارے بچے کیاتاثر لیں گے ؟وہ ہمیں دیکھ کرہماری نقل اتارتے ہوئے ہمارے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں گے ، کیونکہ بچے اپنے بڑوں کی ایک ایک ادا کو نوٹ کرلیتے ہیں اور اسے اپنے لئے مشعل راہ تصور کرتے ہیں اوران کا طرز ِزندگی بھی ایسا ہی ہوگا جیسا ہمارا ہے۔
یہ تو ہم اپنے بچوں پر خود ظلم ڈھارہے ہیں اورانہیں یہ دکھارہے ہیں کہ زندگی گزارنے کا ایک ڈھنگ یہ بھی ہے۔ان تمام باتوں کا حاصل صرف یہی ہے کہ ہم ایک مسلمان کی حیثیت سے وہ سب کچھ اپنا لیں جو ہمیں قرآن وسنت نے دیا ہے،ان سے ہم سدھرسکتے ہیں ،شیطان کا منہ کا لاکرسکتے ہیں ،اپنے گھر سنوار سکتے ہیں ،اپنے رب کوخوش کرسکتے ہیں ،ہر ایک کے دل میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں ،دنیا وآخرت کی خوشیاں حاصل کرسکتے ہیں ،غموں ، خفگیوں اور تلخیوں کی داستانیں مٹاکرخوشیوں میں تبدیل کرسکتے ہیں تو پھر دیر کس بات کی !
ذرا سوچئے !دوم یہ کہ آخر یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ اتنا عرصہ ہم نے خفگیوں میں گزارا تو ہم نے کیا کھویا اورکیاپایا ؟اگر ہم نے کچھ اچھا خاصا فائدہ حاصل کیا ہے تو چلواختلافات کومزید طول دیتے ہیں اوربڑھاتے ہیں اور اگر ہم نے نقصان اٹھایا ہے ،بے چینی ،بغض وحسد ،کینہ وغیرہ جیسی برائیوں کے شکار ہوئے ہیں ، ذہنی سکون وراحت کھوبیٹے ہیں تو پھر اس سلسلے کو یہی ختم کیوں نہ کریں اورزندگی بھر اس حال میں کیوں رہیں …؟
دنیا چونکہ مصائب اورمشقتوں کی جگہ ہے تو اس میں اللہ کے ہاں وہ بہترہے جو دوسروں کے لئے ساما ن ِ راحت بنے ،جیسے کہ مشہور حدیث ہے :"لوگوں میں بہتر وہ ہیں جولوگوں کوفائدہ دیتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے :"کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں "اورمیاں بیوی کی جورفاقت ہے تو وہ ابدی ہے وہ جس طرح دنیا میں ہیں اس طرح جنت میں بھی رہیں گے ،تو اس رفاقت کو وفاکا لباس پہناناچاہئے اورمشکلات اورتنگی میں اسے خیرآباد کہنا مناسب نہیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میاں بیوی کی ایک دوسرے کے ساتھ ضرورت بڑھ جاتی ہے ،اس لئے اس مشکل گھڑی میں دونوں ایک دوسرے کے لئے باعث ِسکون ہونے چاہئیں۔
بلاتحقیق کسی کی بات پر یقین نہ کیا جائے :
اگرکوئی ہمارے درمیان فساد کے بیج بونے کی ناپاک کوشش کررہا ہے تو ہم عقلمند انسان کی صورت میں سوچتے کیوں نہیں کہ یہ بات ہمارے فائدے کی ہورہی ہے یا نقصان کی ،اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اس کی بات کو بالکل اہمیت نہ دیں اوریہ حدیث بھی اسے سنا کرکہ چغل خور جنت میں نہیں جائے گا،اپنی بات کو ختم کرنا چاہئے
اپنے حقوق وفرائض میں کوتاہی نہ کی جائے :
اس کے ساتھ ساتھ جو حقوق وذمہ داریاں شریعت نے ہمارے ذمہ لگادی ہیں انہیں اپنا فرض سمجھ کر پورا کرنا چاہئے ،ان کی ادائیگی میں کوتا ہی سے کام نہ لیں ،بلکہ انہیں عملی جامہ پہنا نے کی بھر پورکوشش کرنی چاہئے ،ورنہ بصورت دیگر ہم خود گھر کی ویرانی اوربربادی کی خشت اول ثابت ہوں گے اور اپنے ہاتھوں اپنے گھر ویران کریں گے اور یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَھُمْ بِاَیْدِیْھِمْ وَأَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ کے صحیح مصداق ہوں گے ،اس لئے اپنی حیثیت کے مطابق اپنے حقوق وفرائض ادا کرتے رہنا چاہئے، چنانچہ مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں: حقوق ہمیشہ فرائض سے وابستہ ہوتے ہیں ،بلکہ درحقیقت انہی سے پیدا ہوتے ہیں اورجوشخص اپنے فرائض کماحقہ ادانہ کرے اس کیلیےاپنے متعلقہ حقوق کے مطالبے کاکوئی جواز نہیں اور ہم اپنے حقوق کے معاملے میں تو حساس ہیں لیکن فرائض کے معاملے میں حساس نہیں اورجب کسی بھی فریق کواپنے فرائض کی فکر نہ ہوتو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ سب کے حقوق پامال ہوجاتے ہیں۔ جب تک ہم میں سے ہر شخص فرائض کے احساس کومقدم نہ رکھے یاکم از کم فرائض کو اتنی اہمیت تودے جتنی اپنے حقوق کو دیتا ہے،لہٰذا ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ دلوں میں فرائض کااحساس کس طرح پیدا کیا جائے ؟
کوئی شخص تن تنہا معاشرے کے مزاج کو ایک دم نہیں بدل سکتا لیکن وہ خود اپنے مزاج کو تبدیل کرسکتا ہے اور اپنے حلقہ اثر میں اس مزاج کو فروغ دینے کی ممکنہ تدابیر بھی اختیار کرسکتا ہے اوراگر وہ ایسا کرے تو کم ازکم ایک گھرانے کو بھٹکنے سے بچا کر سیدھے راستہ پر لانے کا کارنامہ اس کے نامہ اعمال کو جگمگانے کیلئے کافی ہوسکتا ہے۔ نیک نیتی سے انجام دیا ہوایہ کارنامہ دوسروں پر بھی اپنے اثرات چھوڑ تاہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس طرح رفتہ رفتہ فرد سے گھرانے سے خاندان ، خاندان سے برادری اور برادری سے پوری قوم تعمیر وترقی کی راہ پرلگ جاتی ہے ،قومیں ہمیشہ اس طرح بنی ہیں آج بھی ان کے بننے کا یہی طریقہ ہے
میں تو اکیلا ہی چلا تھا جانب ِ منزل مگر
 
لوگ ملتے گئے اور کاررواں بنتا

گیا

اس لئے ایک گھر کی اصلاح ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ،اگر ہم سچی نیت سے قدم بڑھائیں گے اورخصوصاً اپنا گھر وہ تو ہم سیکنڈوں میں درست کرسکتے ہیں ،اگر ہم سننے والے ،برداشت کرنے والے اوراصلاح کرنے والے صحیح معنوں میں بن جائیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم پوری امت کی اصلاح کی فکر کرتے ،اس لئے کہ تعلیمی میدا ن میں ہمارا قدم رکھنا اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم دوسروں کے لئے کچھ کریں ،لیکن اگر یہ نہ کرسکیں توکم از کم اپنی اصلاح تو کر لیں۔
پرانی باتیں نہ دہرائی جائیں:
وہ پرانی باتیں جوگھر کی ویرانی کا سبب بنی تھیں انہیں اس طرح بھلا دینا چاہئے کہ وہ معرض ِوجود میں آئی ہی نہیں تھیں ،اگر وہ باتیں دوبارہ دہرائیں گے تو گھر کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوگا اورگھر کے فساد کو مزید تقویت ملے گی۔
صبر وتحمل اورعفوودرگذرکواپنا ئیے:
گھرمیں مختلف باتیں سامنے آتی ہیں ،اگر کوئی ناگوار بات سامنے آئے تو اسے نظرانداز کردینا چاہئے ،درگذرکردینا چاہئے اور یہ تاثردینا چاہئے کہ آپ کی بات میں نے سنی ہی نہیں ،اسی طرح صبر وتحمل ،عفوودرگذرسے کام لینا چاہئے ،تو گھر بھی بنے گا اوربڑے اجر کا مستحق بھی ہوگا اور یہی مسلمان کی شان ہونی چاہئے ،کسی بھی اختلاف کودور کرنے کے لئے شریعت نے کذب بیانی (جھو ٹ بولنے )کی بھی اجازت دی ہے کہ جس طرح ممکن ہواصلاح کرلی جائے۔
انسانیت کی قدر کی جائے:
گھروں ،خاندانوں کے اختلافات کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اوراپنے آپ کو بڑاتصور کرتے ہیں ، حالانکہ ہمارایہ تصور بالکل غلط ہے، حدیث میں سخت الفاظ میں اس کی ممانعت واردہوئی ہے ، چنانچہ ارشاد ہے:آدمی کےشر کیلیےیہی کافی ہے کہ وہ کسی مسلمان کی تحقیر کرے، اورجب اپنے آپ کو بڑا تصور کرنے کا داعیہ دل میں ہوگا تو کبھی بھی اصلاح نہیں ہوسکتی ،اس لئے کہ جب دل میں کسی کی حیثیت نہیں ہوگی تو اس سے محبت رکھنا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے ،اس لئے بنیادی چیز یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کا مقام وحیثیت دل میں پیدا کریں ، انسانیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں ،تب ہی سب کچھ کارگرثابت ہوسکتا ہے ،انسانیت کی قدر کیجئے اور اختلافات ختم کیجئے۔
ہر نووارد مسئلے کا فوری حل تلاش کیا جائے:
اگرکوئی معاملہ سامنے آئے تو فوری طورپراس کا حل تلاش کیا جائے ،کل تک بالکل نہ چھوڑ اجائے ،ورنہ اگرکل کوئی نیا مسئلہ نمودار ہواتو ایک کے بجائے دوبن جائیں گے اوراس طرح رفتہ رفتہ مسئلہ سے مسائل ،معاملے سے معاملات بن جائیں گے
صلح کے بعد ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے ملیں:
صلح ہوجانے کے بعد وہی پرانی مسکراہٹیں اورچہروں پر انبساط پیدا کرنا ہوگا جو اختلافات سے قبل تھا، اگر ایسا نہ کیا گیا اور خندہ پیشانی سے ایک دوسرے سے نہیں ملیں گے تو بات وہی رہی ،بنی نہیں۔
ہدیوں اورتحفوں کے ذریعے محبت کو فروغ دیا جائے:
مذکورہ بالا تجاویز کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک دوسر ے کو تحفے تحائف دینے کا سلسلہ جاری رکھنا بھی محبت کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور کدورتوں کو محبتوں میں تبدیل کرنے کا نسخۂ اکسیر ہے ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:آپس میں ایک دوسرے کو ہدیے دیا کرو،آپس میں محبت کرنے لگو گے۔
سوئے ظن سے پرہیز کیا جائے
کسی بھی اختلاف کے پیدا ہونے اوراس کو ہوادینے میں سوئے ظن (بدگمانی) کا بھی اہم کردار ہے ،بس ایک دوسرے پر بدگمانیاں کرنا اوریہ خیال کرنا کہ فلاں بات ہوئی ہے ،یہ فلاں نے کی ہوگی، بغیر کسی تحقیق کے اسے یقین کا درجہ دیا جاتا ہے اورحالات کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں ،اس لئے ایک خوشحال خاندان بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ سوئے ظن سے بچ کرایک دوسرے کے بارے میں خیر کا گمان رکھیں، قرآن کہتا ہے:بلاشبہ بعض گما ن گناہ ہیں، اور حدیث میں ہے:ایما ن والوں پر خیر کاگمان رکھو، ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:بدگمانی سے بچو! کیونکہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، اس لئے اس بری خصلت سے بچنے کی کوشش کی جائے اوراگر اس طرح کوئی بات سامنے آئے تو اسے پایۂ تحقیق تک پہنچا کرچھوڑ نا چاہئے ،سوئے ظن اس کا ہرگز حل نہیں۔
مصلحین کے فرائض وذمہ داریاں:
اگر کہیں اختلافات پیدا ہوں تو گردو نواح کے مسلمانوں ، ہمسایوں اورقرابت داروں پر فرض ہے کہ وہ ان میں باہم صلح کرائیں اوراختلافات کی رسی توڑدیں ،قرآن کہتا ہے:بلاشبہ ایمان رکھنے والے آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرالیا کرو۔ شریعت نے تو مصلحین کے لئے جھوٹ بولنے کی بھی اجازت دی ہے اگر صلح کرتے وقت ایسا موقع آئے کہ وہاں بغیر جھوٹ کے کام نہ چل سکتا ہوتو بقدر ضرورت اس کی بھی گنجائش ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جو حضرات بھی صلح کے لئے قدم اٹھائیں ان کے دل خلوص و للہیت سے لبریز ہونے چاہئیں اوریہ تڑپ لے کرجانا چاہئے کہ ان میں باہم صلح ہوجائے اور یہ دونوں فریق کسی طریقہ سے جڑ جائیں ،صلح کے لئے یہ نکتہ بنیادی رکن کی حیثیت رکھتا ہے ،اگر یہ نہ ہوتو صلح کی تمام ترکوششیں ناکام ثابت ہوں گی اور یہی قرآن کی تعلیمات میں سے ایک ہے۔
اس حوالہ سے چند احادیث:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آپس میں تواضع اختیار کرو،حتی کہ کوئی کسی پر زیادتی نہ کر ے اورنہ کوئی کسی پر فخر کرے۔[ یعنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اوردوسروں کوکمتر جاننا یہ اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ ]
بغض وحسد رکھنے والوں کے اعما ل مقبو ل نہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر پیر وجمعرات کو (بندوں کے ) اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو معاف فرمادیتے ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو،مگر اس شخص کو نہیں جس کے اوراس کے (مسلمان ) بھائی کے درمیان بغض ہو، اللہ تعالیٰ(فرشتوں سے ) فرماتے ہیں:ان دونوں کو چھوڑ دو، یہاں تک کہ باہم صلح کریں۔
فائدہ : غور کا مقام ہے ،جن دومسلمانوں میں بغض ہوتو ان کے اعمال اللہ کے ہاں مقبول نہیں تو ہماری مسلمانی کا کیا فائدہ رہا ؟ اس اختلاف کو ہم آگ کیوں نہ لگائیں جس نے ہمارے دلوں اور ہمارے اعمال کو آگ لگادی ہے، ایک حدیث میں ہے:حسد سے بچو،کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتی ہے جس طرح آگ لکڑی کوکھاجاتی ہے۔
کسی بھی مسلمان سے قطع تعلق حرام وناجائز ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان ) بھائی کو تین دن سے زیاد ہ چھوڑ دے (یعنی تعلق ختم کرے ) جس نے تین دن سے زیادہ چھوڑ ااورمرگیا تو جہنم میں داخل ہوگا۔
فائدہ : دیکھئے !ہم کتنا بڑا خسارہ اٹھارہے ہیں۔
مسلمان سے قطع تعلق اس کے قتل کی مانند ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جس نے اپنے (مسلمان ) بھائی کو ایک سال تک چھوڑا (یعنی اس سے لاتعلق رہا ) تویہ اس کے خون بہانے اورقتل کرنے کی مانند ہے۔
فائدہ : یعنی اس نے اتنا بڑا جرم کیا کہ گویا اس نے اس کو قتل کردیا ،تو یہ ہمارے لئے غور کا مقام ہے ، حضرت لدھیانوی شہید رحمہ اللہ اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے کچھ یوں تحریر فرماتے ہیں :آپس کے معاملات کی درستگی نماز، روزہ اور صدقہ سے بھی افضل ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جو درجہ میں روزہ ،نماز اورصدقہ سے بھی افضل ہے؟صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیے،فرمایا: وہ آپس کے معاملات کی درستگی ہے ،کیونکہ آپس کا بگاڑ مونڈنے والی چیز ہے(اور ایک روایت میں ہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ بالوں کومونڈ نے والی ہے بلکہ وہ دین کو مونڈ نے والی اوراس کا صفایا کرنے والی ہے۔
آپس کے معاملات کی درستگی:
سے مراد یہ ہے کہ آپس کے ان تمام امور ومعاملات کودرست کیا جائے جن سے آپس کی ناچاقی راہ پاتی ہے تاکہ کسی کوکسی سے کوئی شکایت نہ ہواور اسلامی معاشرے میں الفت ومحبت اور اتفاق واتحاد کی فضاقائم ہو"آپس کے معاملات کی درستگی"کوروزہ ،زکوٰۃ اور صدقہ سے افضل قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ نماز، ،روزہ ، صدقہ اورخیر ات بھی نفس پر شاق ( مشکل )گزرتے ہیں …
ہرموقع پر تمام اہل حقوق کے حقوق ادا کرنا اوران میں حدودشرعیہ کی نزاکتوں کوپوری طرح ملحوظ رکھنا ایک ایسا مجاہد ہ ہے جوانفرادی اعمال میں نہیں ، خداشاہد ہے کہ ساری رات نفلیں پڑھنا اور ہمیشہ روزے رکھنا آسان لیکن مجاہد ے کی اس بھٹی سے جسے باہمی تعلقات کا میدان کہتے ہیں کندن بن کرنکلنا مشکل اورنہایت مشکل ہے ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگراسے نماز ،روزہ سے افضل درجہ کی چیز فرمایا تو بالکل بجافرمایا ہے۔
حسد اورکینہ دین ودنیا کی تباہی کا باعث ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم سے پہلے امتوں کی بیماری آہستہ آہستہ تم میں سرایت کرگئی، یعنی حسد اور کینہ اوریہ چیز امتوں کو مونڈنے والی(اورصفایا کرنے والی) ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بالوں کو مونڈتی ہے ،نہیں دین کو مونڈتی ہے (اور اس کاصفایا کرتی ہے )، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہےتم جنت میں داخل نہ ہوگے یہاں تک کہ ایمان لاؤاور (کامل طورپر ) مومن نہیں ہوگے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔حسد اور بغض امم سابقہ کی بیماری ہے ،جس کے جراثیم آہستہ آہستہ اس امت میں سرایت کرتے چلے گئے ،جن خوش قسمت حضرات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا،ان کے درمیا ن الفت ،محبت کی فضا پیدا ہوئی ،جس کو اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا: فاصبحتم بنعمتہ اخوانا (پس ہوگئے تم اللہ تعالیٰ کے فضل وانعام سے بھائی بھائی)یہ وہ دشمن تھے کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، انہوں نے قرآن وسنت کو سینے سے لگایا تو وہ ایسے بھائی بنے کہ ایک دوسرے پر جان لٹانے لگے۔
شوہر کو راضی رکھنے کا صلہ اورناراض رکھنے کاوبال:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو بھی عورت مرے اوراس کا شوہر اس سے راضی ہووہ جنت میں جائے گی۔
فائدہ : اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اور جنت کا داخلہ شوہر کی اطاعت میں رکھا ہے ،ایک حدیث میں ہے: جس عورت سے شوہر ناراض ہوتو اس کاعمل زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک وہ اپنے شوہر کو راضی نہ کرے، ارشاد ہے اگر غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر وں کو سجدہ کیا کریں۔
عورت ہی گھر کے ماحول کو بدل سکتی ہے:
گھر کے ماحول کی ویرانی وخرابی جس کی وجہ سے بھی ہواور قصور جس کا بھی ہولیکن عورت جس کو گھر کی ملکہ کی حیثیت حاصل ہے وہ ان تمام پر یشانیوں کو حل کر سکتی ہے اورتمام ناچاقیوں کوختم کرسکتی ہے اوریہ میں نہیں کہتا بلکہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ عقلمند کو بے وقوف بنا سکتی ہے ،جب یہ کام انجام دے سکتی ہے تو گھر یلوحالات کی درستگی کیا مشکل ہے،اس نیک کام کی طرف جو بھی پہلے قدم اٹھائے گا تو ساری نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں درج ہوں گی۔
گھریلوناچاقیوں اورتلخیوں کے اسباب اوران کا سد ِباب:
ایسے امور سے اجتناب کیا جائے جو خاندانوں ،گھر اور قوموں میں جھگڑوں ، ناچاقیوں اورتلخیوں کا باعث بنتے ہوں ،ایسے چند امور سورۂ حجرات میں تفصیلاً مذکور ہیں
قرآن وسنت کا عملی احترام:
اے مومنو!اللہ اوراس کے رسول کے آگے پیش قدمی مت کرواوراللہ سے ڈرتے رہا کرو،بلاشبہ اللہ سننے ،خوب جاننے والا ہے۔
بلاتحقیق کوئی بات نہ کہی جائے اورنہ کوئی اقدام کیا جائے :اے ایمان والو!اگرکوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لے کرآئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو ، ایسا نہ ہوکہ کسی قوم کو نادانی سے نقصا ن پہنچا دو، پھر تم اپنے کئے پرشرمندہ ہو۔
اپنے بھائیوں میں صلح کرادیا کرو:
مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ، تو اپنے دوبھائیوں میں صلح کرادیاکرو،اللہ سے ڈرتے رہو ،تاکہ تم پر رحم ہو…اے ایمان والو!کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ،اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دواورنہ ایک دوسرے کوبرے لقب سے پکارو ، ایمان لانے کے بعد برانام رکھنا گناہ ہے اورجو توبہ نہ کریں تو وہ ظالم ہیں……اے ایمان والو!بہت گمان کرنے سے بچا کرو ،کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے بھید نہ ٹٹولا کرواورنہ کوئی کسی کی غیبت کیا کرے۔ یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جرنزاع بننے کے قوی اسباب ہیں ،اس لئے شریعت نے ان پر سختی سے پابندی عائد کردی ہے،تاکہ کوئی فرد کسی سے متاثرنہ ہواور ایک اسلامی معاشرہ وجود میں آئے ،اگر ان کواپنا ئیں تو خوشیاں ہی ہماری مقدر بنیں گی۔