بچہ ہوں میں لیکن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بچہ ہوں میں لیکن
اسامہ یونس
عمیر بیٹا ہوش کے ناخن لو یہ کس کو بغیر اطلاع کیے گھر میں لارہے ہو، گھر میں تمہاری بہنیں موجود ہیں، تمہاری ماں موجود ہے اتنی احمقانہ حرکت کہ ایک اجنبی نوجوان کو منہ اٹھائے اندر لے آئے ہو، دروازے کے ساتھ ہی گھنٹی کا بٹن ہے اسے دبانے کی بھی تمہیں توفیق نہ ہوئی، عمیر کے ابو نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
ابو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، عمیر نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔
اوہ احمق، اگر کسی غیر آدمی کو گھر میں لانا ہو تو خواتین سے کہتے ہیں کہ دوسرے کمرے میں چلی جائیں یا پردہ کرلیں۔ ابو نے سمجھایا۔
ابو، بجا فرمایا آپ نے کہ کسی غیر محرم نوجوان کو گلی سے پکڑ کر یوں اچانک گھر لے آنا بہت نازیبا حرکت ہے لیکن اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے یہ تدبیر سمجھائی۔
جب رات کو آپ دفتر سے آتے ہیں اور آتے ہی ٹی وی آن کردیتے ہیں اچانک کوئی نہ کوئی غیر محرم نوجوان پینٹ شرٹ پہنے، باقاعدہ میک اپ کیے ٹی وی اسکرین پر نمودار ہو کر ہمارے گھر آجاتا ہے۔ اس وقت بھی میری ماں بہنیں گھر میں موجود ہوتی ہیں، اس وقت تو آپ نے انہیں کبھی نہیں کہا کہ دوسرے کمرے میں چلی جائیں یا پردہ کریں وہ بھی بغیر اطلاع کیے آدھمکتا ہے۔ عمیر نے کہا۔
عمیر بیٹا یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کرنا شروع کردیں تم نے، اس میں اطلاع کی کون سی بات ہے یا پردہ کی کیا ضرورت ہے، ٹی وی والے کون سا ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں، ابو نے کہا۔
مگر ابو میری امی اور بہنیں تو دیکھ رہی ہیں۔
بیگم، سن لو اپنے اس نابالغ ملا کی تقریر، ہزار دفعہ تمہیں تاکید کی ہے کہ اس کا دھیان رکھا کرو یہ صبح نماز پڑھنے جاتا ہے اور دن چڑھے واپس آتا ہے تم چپکے سے کہہ دیتی ہو کہ درس سننے بیٹھ گیا ہوگا، اب دو جواب اس مذہبی جنونی کے سوال کا، باپ سے بات کرنے کا سلیقہ تک نہیں آتا اور بننے چلا ہے، ننھا مبلغ، بے ادب کہیں کا۔ ابو نے ذرا غصیلے انداز میں کہا۔
ابو! اللہ نہ کرے میری زندگی میں وہ دن آئے کہ میں آپ کے ساتھ بے ادبی سے پیش آؤں، اللہ گواہ ہے میں آپ سے کوئی مناظرہ نہیں کررہا پر مجھے اس بات کا بھی علم ہے کہ جس کا باپ ناراض اس کا رب ناراض۔
میں تو روزانہ پانچ وقت کی نمازوں میں باوضو، دوزانو بیٹھ کر بڑی عاجزی کے ساتھ اللہ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ اے ہمارے رب، میرے ماں اور باپ کو بخش دے، اکثر رو رو کر یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اے میرے رب، میرے والدین پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔
یااللہ! ان دونوں نے میرے ساتھ بچپن سے لے کر اب تک بڑی شفقت برتی ہے، آج ان دونوں پر وقت ہے تو بھی ان پر شفقت برت۔ یااللہ مجھے اپنی ماں اور باپ کا خدمت گزار بنا کر جنت کا حقدار کردے، ابو میں یہ کوئی احسان نہیں جتا رہا بلکہ اولاد پر حق ہی یہی ہے۔ بات ہورہی تھی کہ ٹی وی والے کون سا ہمیں دیکھتے ہیں جبکہ میرا موقف ہے کہ امی اور بہنیں تو انہیں دیکھتی ہیں۔
آپ شاید مجھے چھوٹا سمجھ کر میری بات کو رد کردیں مگر میں آپ کو ان کی بات سنتا ہوں جن کی بات کو دنیا کی کوئی طاقت رد نہیں کرسکتی۔ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے حق میں فیصلہ فرمادیں پھر تو بحث کی کوئی گنجائش نہیں، ابو ایک دن کلاس میں اسلامیات کے ٹیچر سراشرف نے لیکچر کے دوران ایک حدیث سنائی جو اسی دن سے میرے ذہن میں نقش ہوگئی۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں، اسی اثناءمیں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ (نابینا صحابی) تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
تم دونوں ان سے پردہ کرو، ہم نے کہا۔ اے اللہ کے رسول، یہ تو نابینا ہیں، یہ نہ ہم کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی پہچانتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم بھی نابینا ہو، کیا تم ان کو نہیں دیکھتیں۔
ابو اب آپ ہی انصاف کیجیے اگر ٹی وی والے ہمیں نہیں دیکھتے تو ہمارے خواتین تو انہیں دیکھ رہی ہوتی ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ شیطان دھوکے باز یہ بات ہمارے ذہن میں آنے ہی نہیں دیتا، وہ یہی کہتا ہے کہ ٹھیک ہے یہ فلم انتہا درجے کی غلیظ ہے مگر تو اس سے پورا پورا لطف اٹھا۔
بالکل اسی طرح جیسے شروع میں جب اس ٹی وی کو گھر لایا گیا تو آپ نے یہ کہا تھا کہ خبرنامہ اور زیادہ سے زیادہ پاکستانی ڈرامے اس سے زیادہ دیکھنے کی کسی کو اجازت نہیں ہوگی، رہے فلمی چینلز اور بے ہودہ ڈرامے وہ تو آپ کے ہوتے ہوئے کوئی دیکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
اس وقت حالت یہ تھی کہ اگر کسی بچے سے اچانک کوئی بٹن دب جاتا تو سارے گھر میں شور برپا ہوجاتا کہ بند کرو فلمی چینل لگ گیا ہے، کہیں ابو نہ آجائیں۔
مجھے بھی اچھی طرح یاد ہے کہ شام ہوتے ہی سارا محلہ ہمارے گھر امڈ آتا اس لیے کہ اس نیک کام کی ابتداءہمارے گھر سے ہوئی، اب پورے محلے میں پھیلے ہوئے اس صدقہ جاریہ میں ہمارا اچھا خاصا حصہ بنتا ہے، جب آپ گھر پر نہیں ہوتے تھے تو سب بیٹھ کر فلمی چینلز دیکھتے تھے جونہی آپ کی انگلی گھنٹی کے بٹن کو چھوتی، فوراً چینل تبدیل ہوجاتا، اتنا خوف اور دبدبہ تھا کہ کہیں آپ کو پتا نہ چل جائے مگر آج کیا ہوگیا ہے؟؟
اب تو ہمارے گھر میں اتنی بڑی ڈش لگی ہوئی ہے اور گھر میں ہر روز نئی نئی فلمیں آتی ہیں اور ان میں فحش فلموں میں انتہا درجے کے فحش گیت، اتنے عریاں اور بے حیا مناظر کہ سن کر اور دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن آج آپ کی موجودگی میں پہلے سے ہزار گنا زیادہ فلمیں دیکھتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
اب کہاں گیا آپ کا وہ حکم کہ صرف خبرنامہ اور پاکستانی ڈرامہ؟ کہاں گیا وہ رعب اور دبدبہ؟ ابو خدا کے لیے ہم سب کدھر بہکے جارہے ہیں یہ بھی شیطان کا بہت بڑا فریب ہے۔
پھر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بہت سے رشتوں کی تذلیل کی جارہی ہے، ایک فلم یا ڈرامے میں ایک عورت کسی کی ماں ہوتی ہے تو دوسری جگہ وہی عورت اس کی بیوی ہوتی ہے، کبھی بہن ہوتی ہے اور کبھی کچھ اور، کیا یہ انسانیت ہے، بہن بھائی ایک دوسرے سے یار کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں۔
ابو! یقین کیجیے ان پاکیزہ رشتوں کا تقدس کو پامال کیا جارہا ہے پھر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس سارے لچڑپن کو ثقافت کا نام دے کر فخر کیا جارہاہے، اگر یہی ثقافت ہے تو علی الاعلان میں یہ کہوں گا کہ یہ انتہائی مکروہ، غلیظ اور عذاب الٰہی کو دعوت دینے والی ثقافت ہے۔ عمیر شدت جذبات سے بولتا چلاگیا۔
عمیر کی بات سنتے ہی ابو جان شرم سے پانی پانی ہوگئے اور بیٹے کو گلے لگالیا۔