شادی باعث رحمت یا زحمت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اسامہ شعیب
اسلام میں شادی کا طریقہ بہت آسان اور سیدھا ہے۔ لڑکے اور لڑکی کے پسند ہونے اور قول و اقرار طے ہو جانے کے بعد لوگوں کے سامنے دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح سے شادی ہو جاتی ہے۔ مگر اب شادی کرناایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ حدیثِ نبوی میں رشتے کی بنیاد چار چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ دین ، مال،جمال اور حسب و نسب۔ اوردین کوترجیح دی گئی ہے مگر ہم لوگ دین کو چھوڑ کر بقیہ سب کو ترجیح دیا کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہو ا کرتا ہے کہ لڑکی کی عمر نکل جاتی ہے ےا وہ لَو میرج کر لیتی ہے یا دین چھوڑ دیتی ہے یا خود کووالدین پر بوجھ سمجھ کر خودکشی کر لیتی ہے۔ بعض علاقوں میں بہت ساری مسلم لڑکیاں غیر مسلموں سے شادی کر کے مرتد ہو رہی ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ نکاح کو آسان بناؤاور زنا کو مشکل۔نکاح کو جس قدر مشکل بنایا جائے گا نوجوان لڑکے لڑکیوں میں جنسی بے راہ روی ، خفیہ تعلقات،لَو میرج،کورٹ میرج اور زناکاری بڑھتی جائے گی کیونکہ مغربی تہذیب کے مخلوط تعلیمی نظام،مخلوط روزگار ،آزادیِ نسواں کا پر فریب نعرہ، انٹر نیٹ اوردوسرے ذرائع ابلاغ نے اس کا پورا موقع دے رکھاہے جس کے نتیجے میں میل ملاپ بڑھتے بڑھتے چوری چھپے آشنائی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔جبکہ اس سے قرآن کریم منع کرتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ولا متخذات اخدان۔
) سورة النساء(
(اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کرنے والی)
ولا متخذی اخدان
)سورة المائدة(
(او ر نہ چوری چھپے آشنائیاں کرنے والے) اور اس کے بعد ماں باپ کی مرضی کے بغیر یا ان کو اطلاع دیے بغیر نکاح کر لیا جاتا ہے اور بعض نادانی میں سول میرج کر لیتے ہیں جس کا خمیازہ انہیں بعد میں بھگتنا پڑتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن میں جہاں دعوت و تبلیغ ہے وہیں معاشرے میں پھیلی ہوئی بدعات و رسومات کو ختم کرنا ہے۔ ان رسومات میں شادی کے موقع پر ہونے والی بدعات و رسومات بھی ہیں جو انسان کے لیے ایک بوجھ بن چکی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
و یضع عنھم اصرھم و الاغلال التی کانت علیھم۔
)سورة الاعراف (
(اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے)’اصر‘ یعنی وہ بوجھ جسے انسان لے کر چل نہ سکے۔اس میں شادی کی مختلف رسومات بھی شامل ہیں۔یہ رسومات ایک بوجھ ہیں جن کو مسلمانوں نے اپنے سروں پر لاد لیا ہے مثلا منگنی ، ہلدی، ابٹن اور مہندی کی رسمیں،شادی کے شاندار کارڈ، ڈیکوریشن ، بارات ، سہرا ،نوٹوں کا ہار،رقص ،ڈھول پٹاخے ، جوتا چھپائی ،دودھ پلائی ،ویڈیو ریکارڈنگ اور فوٹو گرافی وغیرہ جو اب شادی کا لازمی جز بن چکی ہیں اور جس میں مسلمان اسراف و تبذیر سے کام لیتے ہیں۔
منگنی کی رسم :
شادی کا آغازِ رسمِ منگنی سے ہوتا ہے جس میں اب باقاعدہ دعوتِ طعام دی جانے لگی ہے جب کہ منگنی کی رسم اسلام میں ہے ہی نہیں۔ ہلدی کی رسم بھی ایک ہندوانہ رسم ہے اور مہندی یقینا دلہن کے لیے باعثِ زینت ہے مگر اس میں عورتوں کا جمع ہونا ،محرم اور نامحرم کاملنااور دعوتیں دینا محض دکھاوا اور مال کا بے جا خرچ ہے۔
نکاح کے لیے شاندار کارڈ چھپتے ہیں جس میں ہزاروں روپے خرچ کیے جاتے ہیں یہ تمام چیزیں اسراف میں شمار ہوں گی۔ قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے: ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین۔ وکان الشیطان لربہ کفورا
)سورة بنی اسرائیل(
(فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے(فضول خرچی کرنے والوں کوشیطان کا بھائی کیوں کہا گیا؟ کیونکہ شیطان مومنوں کو آپس میں لڑانا چاہتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے ایک’ بڑے صاحب‘ کی بیٹی کی شادی ہواور پوری کوٹھی کو ڈیکوریشن کر کے سجایا گیا ہو اور لاکھوں روپے خرچ کیے گئے ہوں تو اس میں کام کرنے والے یہ تمام فضول خرچیاں دیکھیں گے جن کی بیٹیاں جہیز نہ دے پانے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہوں گی تو ان کے اندرحسد اور بغض پیدا ہوگا اور یہ لوگ موقع ملنے پر لوٹ مار کریں گے۔
آپ لاکھ ان کے سامنے ’کل مومن اخوة‘ (ہر مسلمان بھائی بھائی ہے) پیش کرتے رہیں مگر کیا یہ اس کو تسلیم کریں گے؟ شادیوں میں جو دولت کا اظہار ہوتا ہے وہ ’دولت مندوں ‘کے لیے تو محض ایک کھیل ہے مگر وہی شادی’ سفید پوشوں‘ کے لیے ایک بوجھ بن جاتی ہے اور ان کو بھی سماج اور محلہ میں اپنی ناک بچانے کے لیے تمام رسومات و لوازمات پورے کرنے پڑتے ہیں۔
جس کی تین یا چار بیٹیاں ہو جاتی ہیں تو ان کی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے کہ وہ ان کی شادیاں کیسے کرے گا؟چنانچہ وہ قرض ،زکوة اور مدد مانگ کر ان تمام رسومات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اکثر تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔
اس لیے شادی ’سادگی‘ سے ہونی چاہیے مگر سادگی کا پیمانہ کیا ہے؟ظاہر سی بات ہے کہ ایک امیر کی سادگی کچھ اور ہو گی اور ایک غریب کی سادگی کچھ اور ہو گی۔ تو ایک ایسی بنیاد ہونی چاہیے جس پر امیر اور غریب سب عمل کر سکیں۔ ایک اصول طے ہو کہ جو بھی رسم یا تقریب حضورصلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام سے ثابت ہو اس کو مضبوطی سے پکڑا جائے اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق پورا کیا جائے اور جو رسم یا تقریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو اس کو سرے سے ختم کر دیا جائے اس میں کمی نہ کی جائے۔
عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی شادی ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع بھی نہیں دی جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے کپڑوں پر زعفران کے نشان دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے جب کہ مدینہ اس وقت آج کے جدہ کے برابر تو تھا نہیں۔
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دینا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ اورہمارے یہاں یہ ہوتا ہے کہ لڑکی یا لڑکے کے ماموں ،خالویا دوسرے رشتہ دار امریکہ،سعودی عرب سے نہیں آ رہے ہیں اوراسی چکر میں شادی سال دو سال لیٹ ہوتی رہتی ہے۔
علمائے کرام کی اولین ذمے داری ہے کہ اس سلسلے میں مسلمانوں کو بیدار کریں مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ امیر اور بااثر لوگوں کی بیٹیوں کی شادیاں بڑی شان و شوکت سے ہوتی ہیں اور مزے کی بات یہ ہوتی ہے کہ نکاح تو مسجدوں میں ہوتے ہیں مگر لڑکی کا ’ولیمہ‘ شاندار ہال میں دیا جاتا ہے۔
علمائے کرام مسجدوں میں نکاح کرنے پر تعریف کرتے ہیں اور لڑکی کے ولیمے میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ اس کے لیے گھنٹوں کی زحمت بھی گوارہ کر لیتے ہیں۔ اگر علمائے کرام اپنے ’اسٹیٹس‘ سے نکل آئیں اور اپنی شرائط پر سنت کے مطابق نکاح پڑھائیں تو معاشرے میں شادی بہت آسان ہو جائے گی۔اس میں چند چیزیں قابلِ توجہ ہیں:
مسجد میں نکاح :
ترمذی شریف میں ہے کہ نکاح کا اعلان کرو اور مسجدوں میں کرو۔
(جامع ترمذی)
اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کا نکاح مسجد میں ہوا تو کون مسلم ہے جو یہ کہہ سکے کہ میری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ افضل ہے ؟کمی ہمارے علمائے کرام اور مولوی حضرات کی بھی ہے۔ بلانے پر انکار کیسے کردیں؟’انتظامیہ‘ نکال دے گی یا ’متولیان‘ ناراض ہو جائیں گے۔ جب کہ عیسائیوں میں یہ ہے کہ شہزادے کی شادی ہو یا شہزادی کی اس کو نکاح کے لیے چرچ میں آنا ہی پڑے گا۔
نکاح سے ایک خاندان وجود میں آتا ہے تو دعا مانگی جاتی ہے۔ جس کے لیے مسجد بہتر ہے۔ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ اعلی قسم کے شامیانے لگے ہوتے ہیں اور شور و غل کا ایک طوفان برپا ہے ،قہقہے بلند ہو رہے ہیں او ر سگریٹیں پی جا رہی ہیں اور ایک کونے میں مولوی بیچارہ بیٹھا نکاح کا کچھ مِن مِن کرکے پڑھ رہا ہوتا ہے جیسے صرف دلہا کو سنا رہا ہو اور پھرکہتا ہے کہ دعا مانگ لیں مگر کیا دعا کاکوئی ماحول ہے؟اور مسجد میں نکاح سے لڑکی والوں کے پیسے کی بچت ہو جاتی ہے۔فضول خرچی نہیں ہو پاتی ہے کیونکہ مسجد میں ساری چیزیں موجود رہتی ہیں۔
مہر میں اعتدال:
جہاں تک مہر کی بات ہے تو لوگ اس میں مہرِ فاطمی کی تقلید کرتے ہیں کہ مسنون ہے جب کہ آج کے دور سے اس سے کوئی مناسبت نہیں ہے۔ یہ صرف دولت بچانے کا حیلہ ہے۔ کچھ لوگ دکھاوے اور جھوٹی شان میں مہر کی بڑی اور ناقابلِ ادائیگی رقم طے کرتے ہیں اور پھر حیلے و بہانے سے معاف کرا کے بیوی کا ایک شرعی حق غصب کر لیتے ہیں جو کہ جائز نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اے لوگو سنو! عورتوں کے بھاری مہر نہ باندھا کرو۔ اگر یہ دنیا میں شرف کی چیز ہوتی اور اللہ تعالی کے نزدیک تقوی کی بات ہوتی تو اس کے سب سے زیادہ حقدار رسول اللہ علیہ وسلم ہوتے، مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ چاندی سے زائد پر کسی سے نکاح کیا ہو یا اپنی بیٹیوں کی شادی کی ہو۔
(صحیح بخاری(
بارات کی نفی:
مسجد میں نکاح سے بارات کی بھی نفی ہو گئی۔ ’بارات‘ لفظ نہ تو قرآن کریم میں ،نہ حدیث میں اور نہ ہی عربی زبان میں استعمال ہوا ہے۔یہ خالص ہندوانہ رسم ہے ہندوؤں میں جہیز کی حفاظت کے لیے لڑکے والوں کی طرف سے بہت سارے لوگ دلہا کے گھر والوں کے ساتھ جایا کرتے تھے کیونکہ اس زمانے میں ڈاکوؤں وغیرہ کا ڈر رہتا تھااسی کو بارات کا نام دیا گیا۔جو اب مسلمانوں میں بھی دیکھا دیکھی رواج پا چکی ہے اور اب تو اس میں بھی ایک نیا چونچلہ شروع ہو گیا ہے یعنی’ ہیلی کاپٹر‘سے آکر دلہن کو لے جانا(اگرچہ اس کا بِل بھی لڑکی والے دیتے ہیں(
رسمِ رخصتی کی نفی:
اس میں بھی مسلمانوں نے ہندؤوں کی تقلید میں رخصتی کی رسم بنا لی اور اس میں کیا کچھ ہوتا ہے آپ سب کو بخوبی معلوم ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مستورات انصاری صحابہ کے دیے ہوئے مکان میں چھوڑ آئی تھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ساتھ نہیں تھے۔ کیا یہ ہمارے لیے یہ قابلِ اسوہ نہیں ہے؟ اگر رخصتی کی رسم ہوگی اور لڑکے والے آئیں گے تو دعوتیں ہوں گی ساری رسومات ہوں گی۔بھلا بغیر کھلائے پلائے کون جانے دے گا؟
جہیز کی نفی:
جہیز کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے یہ بھی ہندوانہ ہی رسم ہے۔ ہندوؤں میں وارثت صرف لڑکوں میں تقسیم ہوتی ہے اورلڑکیوں کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملتا ہے لہٰذا جب وہ لڑکی کو رخصت کرتے ہیں تو لڑکی کو کچھ دے دلا دیتے ہیں یہی دان یا جہیز کہلاتا ہے۔
اسلام میں تو لڑکی کا باقاعدہ وراثت میں حصہ ہے۔اور وراثت میں ان کو حصہ نہ دینا کفر ہے۔ جہیز کا جواز یہ پیدا کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو جہیز دیا تھا جب کہ جس نے بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے لیے لفظ جہیز کا استعمال کیا ہے اس نے امتِ مسلمہ پر ظلم کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہا سے کرنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مہر میں دینے کے لیے کچھ ہے؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ نہیں ،بس زرہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کو بیچ دو اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو30 درہم میں خرید لیا (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خودداری کی وجہ سے) اور پھر آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کووہ زرہ ہدیہ واپس کر دی تھی۔
انہیں 30 درہم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور ان پیسوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گدا،دو تکیہ ، ایک چکی اور ایک مشکیزہ وغیرہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے خریدااور یہ بھی اس وجہ سے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی سرپرستی میں تھے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیٹیوں کے نکاح میں ہمیں جہیز کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹیوں کے درمیان نا انصافی کریں گے؟؟ایک بیٹی کو دیں اور بقیہ بیٹیوں کو نہ دیں؟
پھر بھی جہیز کی جڑ کاٹنا آسان نہیں ہے۔ دولت بہت پیاری ہوتی ہے اور لڑکے والے منہ کھول کر مانگتے ہیں ورنہ لڑکی ہمیشہ کے لیے گھر پر بیٹھی رہ جاتی ہے۔تو دینا بھی ہے تو اس کی نمائش نہ کی جائے۔ پہلے دے دیں یا بعد میں دیں۔اور اس کو وراثت کی جگہ نہ سمجھ کے دیں۔ وراثت تو تقسیم کرنی ہی ہوگی چاہے وہ کم ہو یا زیادہ۔
شبِ زفاف:
اس میں دلہا دلہن کو سب سے پہلے شکرانے کی دو رکعت نماز ادا کرنی چاہیے اس کے بعد صحبت سے پہلے یہ دعا پڑھیں:
بسم اللہ اللھم جنبنا الشیطان و جنب الشیطان ما رزقتنا
)صحیح بخاری(
اللہ کے نام سے ،ائے اللہ دور کر ہم سے شیطان مردود کو اور دور کر شیطان مردود کو اس اولاد سے جو آپ ہمیں عطا کریں)اگر یہ دعا نہ پڑھی جائے تو صحبت میں شیطان شامل ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اولاد نافرمان ،بری عادتوں والی ،بے حیا، گمراہ اور بے دین ہوتی ہے۔ آج کل کی اولادوں میں بے حیائی و فحاشی اور زناکاری کا ایک اہم سب یہ بھی ہے۔
لڑکی کے ولیمہ کی نفی:
باراتیوں کو کھانا کھلانا ہی ایک طرح سے لڑکی کا ولیمہ ہے۔ لڑکی والوں کی طرف نکاح کی کوئی دعوت نہیں۔ ولیمہ صرف ایک ہے جو کہ لڑکے والوں کی طرف سے ہوتا ہے کیونکہ لڑکے والوں کے یہاں خوشی ہے کہ اسکا گھر آباد ہو اہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ نکاح کے موقع پر چھوہارے کون لائے گا؟؟لڑکے والے۔ اور باراتیوں کو مرغ پلاؤ کو ن کھلائے گا ؟لڑکی والے۔کیا لڑکی والے جب مرغ پلاؤ کھلا سکتے ہیں تو کیا ذرا سے چھوہارے نہیں بانٹ سکتے تھے؟اس لیے دعوت صرف ایک ہے اور وہ ہے ولیمہ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولیمہ ضرور کرو چاہے ایک بکری ہی کیوں نہ ہو
(صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ولیمہ کی دعوت ضرور قبول کرواور ساتھ میں یہ بھی فرما دیا کہ بد ترین کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے،جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ کی اتنی زیادہ تاکید کی ہے اور اس میں غریبوں کا بھی خیال رکھا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کے گھر کھانے اور ایسی دعوتوں میں جانے کو کہنے سے بخل سے کام لیا ہو؟اور اس کے لیے تاکید نہ فرمائی ہو؟آج کل بڑے پیمانے پر ولیمہ کرنااور اس میں زیادہ سے زیادہ پر تکلف کھانا پیش کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
اس کی وجہ سے لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ولیمہ کی دعوت میں سارے ہی جاننے والوں کو بلایا جائے ؟ ولیمہ میں اسراف سے کام نہ لے کر اگر ان پیسوں سے کسی غریب لڑکی شادی کرا دی جائے تو یہ زیادہ ثواب کا کام ہوگا دعوتِ ولیمہ میں بھی اب مغربی تہذیب کے اثر سے ’بوفے سسٹم‘ کا رواج ہو رہا ہے جس میں لوگ پلیٹیں لیے جانوروں کی طرح کھانے کے کاؤنٹرپر ٹوٹے پڑ رہے ہوتے ہیں اور کھڑے کھڑے کھاتے ہیں جو کہ شریعت کے خلاف ہے۔
ویڈیو ریکارڈنگ اور اختلاط مرد و زن:
آج کل شادی کی تقریب میں فلمی گانے اور ڈسکو ڈانس اور ویڈیو ریکارڈنگ وغیرہ ضروری ہو گئی ہے۔اسٹیج پر دلہا دلہن کو ساتھ بٹھا کے منٹ منٹ کے فوٹو لیناضروری سمجھ لیا گیا ہے جو کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ان فوٹو کو اجنبی مرد، غیر محرم رشتے داروں اور دوستوں کو دکھایا جاتا ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔
اس میں مردوں اور عورتوں کی مخلوط مجلسیں ہوا کرتی ہیں جس میں عورتیں زرق برق لباس میں بے پردہ مردوں کے درمیان گھومتی رہتی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ اس طرح کی شادیوں میں شرکت ہی نہ کی جائے اور اگر معلوم نہ ہو تو پہنچنے کے بعدداعی کے سامنے اظہارِ نفرت کرنا چاہیے اور واپس لوٹ آنا چاہیے۔
مگر اس میں علمائے کرام تک لاپر واہی برتے ہیں شاید یہ ان لوگوں کی ’مصلحت ،دور اندیشی‘ کے خلاف ہو۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔
ایک انصاری نے عرض کیا : یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم حمو کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تو موت ہے‘(صحیح بخاری) حمو سے مراد شوہر کے عزیز و اقارب ہیں جیسے شوہر کا بھائی (دیور ) یا اس کے چچا زاد بھائی وغیرہ۔ شوہر کے رشتے داروں کے ساتھ خلوت نشینی اجنبیوں کے ساتھ خلوت نشینی سے زیادہ خطرناک ہے۔ اسی کے ضمن میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اکثر لوگ شادی کے بعد ملازمت کے لیے خلیجی ممالک چلے جاتے ہیں اور واپسی دو سال یا تین سال پر ہوا کرتی ہے۔ بیوی کو دیور یا دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔طویل عرصہ تک شوہر کی غیر موجودگی کی وجہ سے بیوی کے حقوق ادا نہیں ہو پاتے جس کے بسا اوقات بہت خطرناک نتائج نکلتے ہیں اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ کر چار مہینہ سے زائد کسی کو بھی جہاد جیسے عظیم فریضے پر بھی جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ان تمام بدعات و رسومات کی اصلاح کرنے کا سب سے اچھا ذریعہ خطبہِ نکاح ہے۔اس کے ذریعے ہم اپنی بات آسانی سے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ تعلیم و تربیت کی ایک شکل ہی ہے جو کہ اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور قرآن کریم کی بعض آیات اور بعض احادیث پر مشتمل ہے تاکہ اس کے ذریعے مرد کو جو کہ اپنی ایک نئی زندگی کا آغاز کرنے جا رہا ہے اس کی رہنمائی ہو سکے۔ مگر ہمارے یہاں عربی زبان سے ناواقفیت ہونے کی وجہ سے مسنون خطبہِ نکاح رسمی طور سے پڑھا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی لوگوں کے سامنے نکاح کے مقصد اور شادی میں ہونے والی بدعات و رسومات سے بچنے کی تلقین کی جائے کہ اسلام کے نزدیک شادی اس خوشی کا نام نہیں ہے جس میں انسان اللہ تعالی کو بھول جائے بلکہ اس خوشی کا نام ہے جس میں انسان خدا شناسی اور خدا خوفی کا ثبوت دے۔