ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر31:
امان اللہ کاظم
ظہیر الدین محمد بابر
یہ 1502ء تھا اس وقت بابر کی عمر انیس سال تھی جب کہ اس کی بیوی عائشہ کے ہاں ایک بچی نے جنم لیا یہ اس کی پہلی اولاد تھی اس بچی کا نام فخر النساء رکھا گیا فخر النساء چند روز زندہ رہی اور پھر اللہ کو پیاری ہوگئی۔
سمرقند کی فتح کے بعد اس کے گرد ونواح کے تمام قلعے بابر کے زیر تسلط آگئے ان قلعوں مین تو مان،تومانشاد دار اور تومان سفد شامل تھے ان دنوں شیبانی خان خواجہ دیدار اور علی آباد کے قریب خیمہ زن تھا اس کے عزیز واقارب اور اس کے قبیلے کے لوگ بڑی تعداد میں ترکسان سے اس کے پاس کھنچے چلے آرہے تھے جب ایک ایک کرکے کئی قلعے بابر کے زیر قبضہ آگئے اور وہاں کے باشندوں نے بابر کی اطاعت قبول کر لی تو شیبانی خان نے وہاں سے پسپائی اختیار کر لی اور بخارا کی طرف مراجعت کر لی یہ موسم سرما تھا بابر کی تقدیر اس کے ساتھ یاوری کر رہی جب کہ شیبانی خان پر تنزل وارد ہو رہا تھا۔
بابر اپنی خود نوشت”تُزک بابری“ کے صفحہ نمبر52 پر رقمطراز ہے کہ ” میری عمر اس وقت انیس برس کی ہے اور میں معاملات دنیا سے خوب واقف تو نہیں ہوں مگر اس کے باوجود میں نے اس شہر (سمر قند) کو شیبانی خان جیسے گرگِ باراں دیدہ سے جس انداز سے حاصل کیا ہے اس پر فخر تو مقصود نہیں تاہم اس میں میری جدوجہد اور سمجھ بوجھ کو بڑا دخل ہے۔ میں نے شہر والوں سے حملہ آور ہونے سے پہلے کوئی سازباز نہیں کی تھی۔ یہ بات درست ہے کہ شہر والے میرے وفادار تھےاور انہوں نے میرے حملہ آور ہونے کے وقت دلی خوشی محسوس کی تھی اور میرے ساتھ مل کر اُزبکیوں کا مار بھگایا تھا مگر شہر میں؛ میں اپنی محنت اور منصوبہ بندی سے داخل ہوا تھا۔“
سمر قند کے شہری بابر کےلیے بچھے جارہے تھے یہ مہذب اور سائشتہ شہری آوارہ گرد غیر مہذب ، بے رحم اور سفاک شیبانی خان اور اس کے اُزبک سپاہیوں سے عاجز آچکے تھے۔ یہ اُزبک ”قازق“ کہلاتے تھے، قازق کا مطلب ہی آوارہ گرد ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انیس سالہ تیموری شہزادہ بابر عقلی اور فکری لحاظ سے عمر رسیدہ اور تجربہ کاروں پر فوقیت رکھتاتھا۔
بابر کو شیبانی خان جیسے خونخوار ازبک سے کافی خوف محسوس ہوتا تھا۔اسے معلوم تھا کہ شیبانی خان اپنی شکست کا سوگ منا رہا ہوگا، انتقامی مزاج رکھنے والا یہ ازبک ایک بار ضرور پلٹے گا۔ بابر کے پاس دو سو سپاہی تھے۔ جب کہ اس دشمن کے پاس افرادی قوت کی فراوانی تھی۔ بابر کے پاس شیبانی خان کی متوقع انتقامی کارروائی سے بچنے کےلیے اپنی افرادی قوت میں اضافے کے بغیر کوئی چارہ کا ر نہیں تھا۔ وہ اپنے دو سو سپا ہیوں اور سمر قندی شہریوں کے بل بوتے طاقتور دشمن کا مقابلہ کرنے کی توقع نہیں رکھ سکتا تھا۔
اسی خیال کے پیش نظر اس نے اپنے ہمسائیوں، اپنے قرابت داروں اور بادشاہوں سے مدد مانگنے کا ارادہ کیا۔ ہر طرف سے اپنے ایلچیوں کو دوڑایا مگر کسی طرف سے بھی کوئی حوصلہ افزاء جواب موصول نہ ہوا، حالانکہ بابر نے انہیں متنبہ بھی کیا تھا کہ اگر انہوں نے اس کی مدد نہ کی تو ازبک سردار شیبانی خان چغتائیوں اور تیموریوں کی عظمت کو پیوندِ خاک کر دے گا۔
سلطان حسین مرزا اور بدیع الزمان مرزا ( جو کہ بابر کے نہایت ہی قریبی تھے) نے بابر کی درخواست کو درخورِاعتنا ء ہی نہ سمجھا۔ البتہ قشقہ محمود بیگ نے چار پانچ سو اور جہانگیر مرزا نے دوسومغلستان سے پانچ سو اس کی مدد کو آ پہنچے۔ دیگر تیموری شہزادوں نے معذرت کر لی کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ بابر زیادہ دیر تک ازبک سردار کا مقابلہ نہیں کر سکے گا ا ور پھر جن جن لوگوں نے بابر کی مدد کی ہوگی ان کی شامت آ جائے گی۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کسی طاقتور کے مقابلے میں کمزور کا ساتھ دینے کا مطلب یہی ہے فقط اپنی بربادی۔ بابر اپنی کتاب ”تزک بابری “کے صفحہ نمبر53 پر لکھتا ہے کہ
”شیبانی خان جیسے آزمودہ کار اور طاقت ور دشمن سے لڑنے کےلیے اگرچہ میرے پاس فوجی افرادی قوت نہ ہونے کے برابر تھی تاہم میں حوصلہ نہ ہارا اور شیبانی سے مقابلے کےلیے سمر قند سے نکل پڑا۔ ادھر شیبانی خان بھی اپنی ایک بڑی فوج کے ساتھ خواجہ گاذردن کے نواح میں آ ٹھہرا تھا۔“
خواجہ گاذرن سمر قند سے زیادہ دور نہیں تھا۔ بابر بھی شہرسے نکلا اور ”باغ نو“سے گزرتا ہوا، سرپُل کے نواح میں آ ٹھہرا۔ یہ علاقہ فوجی چھاؤنی کےلیے کافی موزوں تھا۔ بابر نے اپنے فوجی مستقر کے گرد خندق کھدوا ڈالی اور اسے گھنی جھاڑیوں سے ڈھانپ ڈالا۔ دونوں فوجی چھاؤ نیوں کے درمیان ایک فرسنگ کا فاصلہ تھا۔ کچھ دنوں تک دونوں فوجوں نے ایک دوسرے سے معمولی جھڑپوں پر ہی اکتفا کی۔
ایک رات شیبانی خان نے بابری مستقر پر شب خون مارنے کی کوشش کی مگر اس کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا گیا۔ تیسرے دن ”خان دادا“ کی طرف سے ایک ہزار سپاہی اور باقی ترخان کی طرف سے دو ہزار سپاہی باہر کے کیمپ میں آ پہنچے۔ بابر کو ان کی آمد کی وجہ سے کافی حوصلہ تو ملا مگر اب بھی اس کی فوجی قوت شیبانی خان کی فوجی قوت سے بہت کم تھی۔ بابر نے اب شیبانی خان سے دو دو ہاتھ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔
دونوں طرف سے صفیں بندھ گئیں اور دونوں فوجیں مرنے مارنے پر تُل گئیں؛تلواروں سے تلواریں ٹکرائیں اور نیزوں سے نیزے۔ میدان جنگ میں ایک شور ِ ہا ؤہو برپا ہو گیا۔ دونوں طرف سے فوجیوں کے سر کٹتے رہے اور میدانِ جنگ میں ہر آن لاشوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ سمر قندیوں کی زبردست رزم آرائی کے باوجود ازبکوں کا پلڑا بھاری نظر آرہا تھا۔ منگولوں نے اپنی آزمودہ خاندانی ترکیب ”طلغمہ“ کا استعمال بھی کیا مگر اس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔
ازبکوں کے دباؤ کی وجہ سے بابر ی فوجی بڑی مشکل صورت حال سے دوچار ہو گئے۔ ان میں انتشار پیدا ہوگیا اور اس پر مستزاد یہ کہ منگولوں کی فطری رذالت نے کام اور بھی خراب کر دیا۔ یعنی منگول لوٹ مار میں مشغول ہوگئے۔ جس کی وجہ سے ازبکوں نے بابری فوج پر یکبارگی ہلہ بول دیا۔ سمر قندی میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ بابر کے پاس اب شکست سے بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔ اس کے ارد گرد اب صرف دس پندرہ فوجی رہ گئے جنہو ں نے اسے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا تاکہ اسے دشمن کی دست بُرد سے بچایا جا سکے۔
بابر کے پاس اب پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہیں بچا تھا۔ بنایریں اس نے سمر قند کی طرف بھاگنے میں اپنی عافیت سمجھی۔ اس نے بھاری زرہ اور ملبوس کے باوجود اپنے گھوڑے کو ایک دریا میں ڈال دیا۔ دریا پار کرکے اس نے سمر قند کا رخ کیا۔
بابر کا کافی جانی نقصان ہواتھا اس لیے اس نے سمر قند میں محصور رہ کر طاقتور دشمن سے نبر د آزما ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس نے شہر کے وسط کو اپنا فوجی مستقر بیانا۔ بابر کا خیمہ ”الغ بیگ مرزا“کی چھت پر لگا دیا گیا شیبانی خان نے شکست خوردہ سمر قندیوں کا تعاقب شروع کر دیا اور پھر سمر قند کے قریب پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا۔
بابر کی شکست نے سارے سمر قند میں ہلچل مچادی تھی۔ جن لوگوں نے کچھ عرصہ قبل از بکوں کو پتھر اور ڈنڈے مارمار کر شہر سے بھگا دیا اب بھی وہ وہ پوری استقامت سے ازبکوں کا مقابلہ کرنے کےلیے تیار بیٹھے تھے۔ انہوں اس مرتبہ بھی پتھروں ، اینٹوں اور لاٹھیوں کی بہت بڑی مقدار جمع کر لی تھی تاکہ ازبکوں کو عبرت انگیز سبق سکھایا جا سکے۔
بابر نے شہر کی فصیلوں پر اپنی فوج کا پہرا بٹھادیا تھا مگر اس کی ناکافی فوج فصیلوں پر ہر جگہ نہیں بٹھائی جاسکتی تھی۔ سمر قندیوں کا خیال تھا اس دفعہ وہ ازبکوں کو دوڑا دوڑا کر قتل کر دیں گے۔ ادھر شیبانی خان نے سمر قند کی شہر پناہ کے آہنی دروازوں پر اپنے فوجیوں کا پہرا بٹھا دیا۔
بابر بذات خود رات کے وقت شہر پناہ پر موجود اپنے فوجیوں کو بیدار رکھنے کےلیے چکر لگاتا رہا اور انہیں ہوشیار کا حکم دیتا رہتا تھا۔
ازبکی فوجوں اور سمر قندی محافظوں کے درمیان وقتاً فوقتاً چشمک جاری رہتی تھی۔ ازبکی سیڑھیوں کے ذریعے فصیل پر چڑھنے کی کوشش کرتے رہے اور سمر قندی ان کی ہر کوشش کو ناکام دیتے تھے۔ محاصرے نے طول کھینچا یہاں تک فصل کی کٹائی کا موسم آ پہنچا مگر محاصرے کے سبب شہر کے لوگ فصل کاٹنے کےلیے شہر سے باہر نہیں جاسکتے تھے اور نہ ہی باہر سے غلہ شہر میں آسکتا تھا۔ اس طرح محصورین بھوکوں مرنے لگے۔
جوں جوں وقت گزرتا جا رہاتھا محصورین کی قوتِ مدافعت جواب دیتی جا رہی تھی۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ شہری کتوں ،گدھوں او رکئی جانوروں کا گوشت کھانے پر مجبور ہوگئے۔ دوسری طرف شہری جانوروں کا یہ حال تھا کہ انہیں چارہ میسر نہیں تھا اور مرتے جارہے تھے۔ چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ لوگوں کے ساتھ ساتھ فوجیوں کی قوت مدافعت بھی جواب دیتی جارہی تھی۔ محاصرے سے خلاصی کا کوئی ذریعہ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اب سمر قندیوں کو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ ) جاری ہے(