بیٹی اللّہ کی رحمت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بیٹی اللّہ کی رحمت
مفتی محمد نجیب قاسمی، ریاض
اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن کریم میں ارشاد فرمایا :
لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ، یَخْلُقُ مَا یَشَائُ، یَہَبُ لِمَن یَّشَآئُ اِنَاثاً وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَ۔ اَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَاناً وَّاِنَاثاً وَیَجْعَلُ مَنْ یَشَآئُ عَقِیْماً۔
(سورہ الشوریٰ 49۔ 50)
آسمانوں اور زمین کی سلطنت وبادشاہت صرف اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دنوں عطا کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔۔ اس کے ہاں نہ لڑکا پیدا ہوتا ہے اور نہ لڑکی پیدا ہوتی ہے، لاکھ کوشش کرے مگر اولاد نہیں ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے۔ جس کے لئے جو مناسب سمجھتا ہے وہ اس کو عطا فرمادیتا ہے۔ لڑکیاں اور لڑکے دونوں اللہ کی نعمت ہیں۔ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی ضرورت ہے۔ عورتیں مرد کی محتاج ہیں، اور مرد عورتوں کے محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے دنیا میں ایسا نظام قائم کیا ہے کہ جس میں دونوں کی ضرورت ہے اور دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔
اللہ کی اِس حکمت اور مصلحت کی روشنی میں جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو ہم میں سے بعض احباب ایسے نظر آئیں گے کہ جن کے یہاں لڑکے کی بڑی آرزوئیں اور تمنائیں کی جاتی ہیں، جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اس وقت بہت خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اور اگر لڑکی پیدا ہوجائے تو خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات بچی کی پیدائش پر شوہر اپنی بیوی پر، اسی طرح گھر کے دیگر افراد عورت پر ناراض ہوتے ہیں، حالانکہ اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کی عطا ہے۔ کسی کو ذرہ برابر بھی اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ لڑکیوں کو کم تر سمجھنا زمانۂ جاہلیت کے کافروں کا عمل تھا، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔ {ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے۔۔ خوب سن لو کہ وہ (کفار مکہ) بہت برا فیصلہ کرتے ہیں} (سورۂ النحل58۔59 ) ہمیں بیٹی کے پیدا ہونے پر بھی یقیناً خوشی کا اظہار کرنا چاہئے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کی پرورش پر جتنے فضائل بیان فرمائے ہیں ، بیٹے کی پرورش پر اس قدر بیان نہیں فرمائے۔
لڑکیوں کی پرورش کے فضائل سے متعلق چند احادیث :
٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے (یعنی ان کے جو حقوق شریعت نے مقرر فرمائے ہیں وہ ادا کرے، ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے) اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بدولت اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔
(ترمذی۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات(
٭ اسی مضمون کی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد فرمانے پر کسی نے سوال کیا اگر کسی کی ایک بیٹی ہو (تو کیا وہ اس ثواب عظیم سے محروم رہے گا؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایک بیٹی کی اسی طرح پرورش کرے گا، اس کے لئے بھی جنت ہے۔
(اتحاف السادۃ المتقین(
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ہو اور وہ اس کو صبر وتحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔
(جامع الترمذی(
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے (اور جب شادی کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کردے) تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح داخل ہوں گے جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔
(ترمذی۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات(
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک قصہ منقول ہے ، وہ فرماتی ہیں کہ ایک خاتون میرے پاس آئی جس کے ساتھ اس کی دو لڑکیاں تھیں، اس خاتون نے مجھ سے کچھ سوال کیا، اس وقت میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہیں تھا ، وہ کھجور میں نے اس عورت کو دےدی، اس اللہ کی بندی نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بچیوں کے ہاتھ پر رکھ دیا، خود کچھ نہیں کھایا، حالانکہ خود اسے بھی ضرورت تھی، اس کے بعد وہ خاتون بچیوں کو لے کر چلی گئی۔
تھوڑی دیر کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے اس خاتون کے آنے اور ایک کھجور کے دو ٹکڑے کرکے بچیوں کو دینے کا پورا واقعہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کو دو بچیوں کی پرورش کرنے کا موقع ملے اور وہ ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرے تو وہ بچیاں اس کو جہنم سے بچانے کے لئے آڑ بن جائیں گی۔
(جامع الترمذی (
وضاحت: مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کی شریعت اسلامیہ کے مطابق تعلیم وتربیت اور پھر ان کی شادی کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تین فضیلتیں حاصل ہوں گی:

جہنم سے چھٹکارا۔

جنت میں داخلہ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں ہمراہی۔
قرآن کی آیات ودیگر احادیث کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شریعت ِاسلامیہ کے مطابق اولاد کی بہتر تعلیم وتربیت وہی کرسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو، جیسا کہ پہلی حدیث میں گزرا (ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے )
حضور اکرم ﷺ کا طرزِ عمل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں : حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ، حضرت زینب رضی اللہ عنہا ، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا ، اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چاروں بیٹیوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین بیٹیوں کا انتقال آپ کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے چھ ماہ بعد ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں بیٹیاں جنت البقیع میں مدفون ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بہت ہی شفقت اور محبت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملتے اور جب سفر سے واپسی ہوتی تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے۔
مسئلہ:
جہاں تک محبت کا تعلق ہے، اس کا تعلق دل سے ہے اور اس میں انسان کو اختیار نہیں ہے، اس لئے اس میں انسان برابری کرنے کا مکلف نہیں ہے۔ یعنی کسی ایک بچہ یا بچی سے محبت زیادہ کرسکتا ہے۔ مگر اس محبت کا بہت زیادہ اظہار کرنا کہ جس سے دوسرے بچوں کو احساس ہو ، منع ہے۔
مسئلہ:
اولاد کو ہدیہ اور تحفہ دینے میں برابری ضروری ہے۔ لہذا ماں باپ اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان اگر پیسے یا کپڑا یا کھانے پینے کی کوئی چیز تقسیم کریں تو اس میں برابری ضروری ہے اور لڑکی کو بھی اتنا ہی دیں جتنا لڑکے کو دیں۔ شریعت کا یہ حکم کہ لڑکی کا لڑکے کے مقابلے میں آدھا حصہ ہے، یہ حکم باپ کے انتقال کے بعد اس کی میراث میں ہے۔ زندگی کا قاعدہ یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے دونوں کو برابر دیا جائے۔
مسئلہ:
اگر ماں باپ کو ضرورت کے موقع پر اولاد میں کسی ایک پر کچھ زیادہ خرچ کرنا پڑے، تو کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً بیماری، تعلیم اور اسی طرح کوئی دوسری ضرورت ہو تو خرچ کرنے میں کمی بیشی کرنے میں کوئی گناہ اور پکڑ نہیں ہے۔ لہٰذا حسب ضرورت کمی بیشی ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
مسئلہ:
بیٹی کی شادی کے بعد بھی بیٹی کا حق میراث ختم نہیں ہوتا ہے۔ یعنی باپ کے انتقال کے بعد وہ بھی باپ کی جائیداد میں شریک رہتی ہے۔