حضرت ابوذر کاقبولِ اسلام

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حضرت ابوذر کاقبولِ اسلام
اہلیہ مفتی شبیر احمد حنفی
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح بخاری میں کتاب مناقب الانصار حدیث نمبر: 3861کے تحت حضرت ابو ذر غِفاری رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ جب ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا مکہ جانے کے لئے سواری تیار کر اور اس شخص کے متعلق جو نبی ہونے کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبرآتی ہے۔مجھے اس سے باخبر رکھ۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا اور پھر میرے پاس آنا۔ ان کے بھائی وہاں سے چلے اور مکہ حاضر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں خود سنیں پھر واپس ہو کر انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے، وہ اچھے اخلاق کا لوگوں کوحکم کرتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ اس پر ابو ذررضی اللہ عنہ نے کہا جس مقصد کے لئے میں نے تمہیں بھیجاتھا مجھے اس پر پوری طرح تشفی نہیں ہوئی، آخر انہوں نے خودتوشہ باندھا، پانی سے بھر ا ہوا ایک پر انا مشکیزہ ساتھ لیا اور مکہ آئے، مسجدالحرام میں حاضری دی اور یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہیں تھے اور کسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پو چھنا بھی مناسب نہیں سمجھا، کچھ رات گزرگئی کہ وہ لیٹے ہوئے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے، علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ میرے گھر پر چل کر آرام کیجئے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے لیکن کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں بات نہیں کی۔ جب صبح ہوئی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا مشکیزہ اور توشہ اٹھایا اور مسجدالحرام میں آ گئے۔ یہ دن بھی یونہی گزر گیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے۔ شام ہوئی تو سونے کی تیاری کرنے لگے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے گزرے اور سمجھ گئے کہ ابھی اپنے ٹھکانے جانے کا وقت اس شخص پر نہیں آیا، وہ انہیں وہاں سے پھر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی۔ تیسرا دن جب ہوا اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ یہی کام کیا اور اپنے ساتھ لے گئے تو ان سے پوچھا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہاں آنے کا باعث کیا ہے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کر لو کہ میری راہ نمائی کرو گے تو میں تم کو سب کچھ بتا دوں گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کر لیا تو انہوں نے اپنے خیالات کی خبر دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلاشبہ وہ حق پر ہیں اور اللہ کے سچے رسول ہیں اچھا صبح کو تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا۔ اگر میں (راستے میں) کوئی ایسی بات دیکھوں گا جس سے مجھے تمہارے بارے میں خطرہ ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا۔ اس وقت تم میرا انتظار نہ کر نا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آ جانا تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں اور اس طرح جس گھر میں، میں داخل ہوں تم بھی داخل ہو جانا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، آپ کی باتیں سنیں اور وہیں اسلام لے آئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اب اپنی قوم غِفار [ یہ لفظ {غ} کی زیر کے ساتھ ہے بعض لوگ اس کو غلطی سے غَفاری یعنی{ غ} کے زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں] میں واپس جاؤ اور انہیں میرا حال بتاؤ یہاں تک کہ جب ہمارے غلبہ کا علم تم کو ہو جائے (تو پھر ہمارے پاس آ جانا) ابو ذررضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکا رکر کلمہ توحید کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہا ں سے واپس وہ مسجدالحرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔“یہ سنتے ہی سارا مجمع ان پر ٹوٹ پڑا اور انہیں اتنا مارا کہ زمین پر لٹا دیا اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے کو ڈال کر قریش سے کہا:”افسوس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غِفار سے ہے اور شام جانے والے تمہارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی پڑتاہے۔ “اس طرح سے ان سے ان کو بچایا پھر ابوذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجدحرام میں آئے اور اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ قوم پھر بری طرح ان پر ٹوٹ پڑی اور مارنے لگی اس دن بھی عباس ان پر اوندھے پڑ گئے۔