شادی کے بعد ایسا بھی ہوسکتا ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
شادی کے بعد ایسا بھی ہوسکتا ہے !!
امان اللہ حنفی
گلناز بی۔اے کے امتحان دے کر فارغ ہوئی تو اس کی شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں لیکن وہ ابھی بھی مزید کچھ پڑھنا چاہتی تھی کیونکہ اسے پڑھنے کا بے حد شوق تھا اگر اس کو کبھی تھکاوٹ یا کوئی ٹینشن اور پریشانی ہوتی تو وہ اسے اپنے ذہن سے ہٹانے کے لیے بھی پڑھنے میں مشغول ہو جاتی تھی۔ اب والدین کے کہنے پر ا س کو پڑھائی چھوڑنی پڑ رہی تھی کیونکہ اس اس کی شادی کا دن بھی مقرر ہو چکا تھا۔
آج خوب چہل پہل ہے اور گلناز کے گھر دولہا والے بارات لے کر آئے ہیں چھوٹے بڑے سب ہی بہت خوش تھے۔ زبیر؛ گلناز کا شوہر نامدار بن گیا۔ اب گلناز صرف ”گلناز“ نہیں تھی بلکہ” گلناز زبیر“ بن چکی تھی۔
زبیر جو گلناز کا زندگی کا ساتھی تھا ، اس سے بہت محبت کرتا تھا، گلناز زبیر کی والدہ کو امی کہہ کر پکارتی تھی اور اس کی ساس گلناز کو بیٹی کہتی تھی۔ اب وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ گلناز کو گھر کے کام کاج کا بھی کہا جانے لگا جو کام اس نے کرنا تو دور کی بات کبھی سوچے بھی نہیں تھے ،کیونکہ اس نے تواپنی پوری زندگی پڑھنے میں گزار دی تھی، جب بولنا اور چلنا شروع ہوئی تھی تو اس کوا سکول میں داخل کر دیا تھا جب پڑھنے سے فارغ ہوئی تو شادی ہوگئی۔
ایک دن اتفاق سے زبیر کام پر نہ گیا گھر پر ہی تھا دوپہر کے وقت ساس نے کہا بیٹی زبیر بھی آج گھر ہی ہے تو دونوں ماں بیٹی مل کر انڈے پیاز بنالیتے ہیں، دونوں اٹھیں اور باروچی خانے کی طرف چلی گئیں اورزبیر کو پتہ تھا کہ گلناز کو باروچی خانے کے کام نہیں آتے وہ اپنی ماں سے چھپ کر اس طرح کھڑا ہوا کہ ماں کو نظر نہ آئے اور گلناز کو پتہ چل جائے اور ضرورت پڑنے پر اشارے سے کچھ پوچھ بھی سکے۔
ساس نے کہا : بیٹی!جتنی دیر میں؛ مَیں پیاز کاٹ لیتی ہوں آپ انڈے توڑ کر ان کو پھینٹ لو۔ گلنازکو انڈاتوڑنے کا بھی طریقہ نہیں آتا تھا پہلے تو اس نے ناخن سے کوشش کی کہ اس کا چھلکا اترجائے جب نہ اترا تو اس نے سوالیہ نظروں سے زبیر کی طرف دیکھا تو زبیر نے ہاتھ ہلا کر اشارہ کیا کہ اس کو کسی چیز پر مارو اور اس نے ہاتھ کو کسی چیز سے ٹکرائے بغیر یہ اشارہ کیا تھا تو گلنازنے بھی انڈے کو کسی چیز سے ٹکرائے بغیر ہلانا شروع کر دیا جس سے انڈا نہ ٹوٹنا تھا اور نہ ٹوٹا۔
پھر زبیر نے دیوار کو ہاتھ لگایا کہ دیوار سے ٹکرا دے اورپھر اسی طرح ہاتھ ہلایا گلناز نے زبیر کو دیکھ کر دیوار سے ہاتھ لگایا اور پھر انڈے کو ہلانا شروع کر دیا جب زبیر مختلف انداز سے سمجھاتا رہا اور گلناز کو سمجھ نہ آئی تو زبیر نے بے بسی کی حالت میں اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی پر مارا ادھر گلناز نے انڈے ہتھیلی پر رکھ کر اپنی پیشانی پر دے مارا۔ اس سے انڈا رتو واقعی ٹوٹ گیا بس تھوڑا سے فرق کے ساتھ انڈا ڈالنا برتن میں تھا مگر وہ پھیل چہرے پر گیا اور اب اس کو پھینٹنے کی بھی ضرورت باقی نہ رہی کیونکہ یہ کام بھی خود ہی ہوگیا تھا۔ جب زبیر نے یہ حالت دیکھی تو وہ جلدی سے اندر داخل ہوا اور گلناز کو کندھےسے پکڑا اور یہ کہتا ہوا باروچی خانے سے باہر لےگیا کہ اس کا سر چکرا گیا ہے۔ شاید آگ کے پاس کھڑا ہونے کی وجہ سے اس کو گرمی لگ گئی ، امی کچھ دیر کےبعد گلناز کے کمرے میں گئی تو اتنے میں وہ اپنا چہرہ دھو چکی تھی اور بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھی تھی اور پریشان تھی کہ مجھے گھر کے کام کاج نہیں آتے۔ امی کچھ دیر گلناز کے پاس بیٹھی ،جب اطمینان ہوگیا کہ اب گلناز ٹھیک ہے تو کہا میں ہانڈی رکھ لیتی ہوں اور بیٹی تو جاکر روٹی بنالے چل بیٹی اکھٹے ہی چلتے ہیں۔گلناز پہلے تو پریشان ہوئی کہ اسے روٹی بنانی آتی ہی نہیں ، مگر ساس نے جتنی محبت سے اسے ”بیٹی“ کہا تھا وہ اپنی پریشانی کا اظہار کئے بغیر باروچی خانے کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ پھر امی نے کہا بیٹی جا کر فریزر سے آٹا لے آؤ، اتنے میں؛ میں ہانڈی چڑھا دوں پھر میں پیڑے بنا دوں گی اور تو روٹی بناتی رہنا اس طرح روٹی جلدی بن جائے گی۔
زبیر نے پہلے کی طرح چھپ کر کھڑا ہوگیا تاکہ اب پھر ضرورت پڑنے پر اشارے سے سمجھا سکے۔ اب امی نے پیڑا کر کے گلناز کے سامنے کیا ، گلناز نے پیڑا ہاتھ میں اٹھا کر زبیر کی طرف دیکھا تو زبیر نے دونوں ہاتھ کو بھینچ کر اشارہ کیا کہ اس چپٹا کر دے۔ گلناز نے ایسے ہی کیا پیڑے کو دونوں ہاتھوں کےدرمیان رکھ کر دبایا جس سے وہ چپٹا ہوگیا۔ پھر زبیر نے اپنے دونوں ہاتھوں کو سینے کےسامنے جوڑ کر ان کو کھولا اور اشارہ کیا کہ اس کو بڑا کرنا ہے۔ اشارہ تو گلناز کو سمجھ آگیا کہ اس کو بڑا کرنا ہے مگر کیسے کرے ؟ بے بسی سےزبیر کی طرف دیکھا تو زبیر نے سمجھا کہ شاید گلناز کو سمجھ نہ آئی تو زبیر نے کھینچ دینے کےاشارے سے ہاتھوں کو ایک دوسرے الگ کیا تو گلناز نے پیڑے کو رول بنا کر دونوں ہاتھوں کو میں پکڑا کر کھینچ دیا جس سے آٹا ربڑ کی طرح کھنچتا چلا گیا جب امی نے یہ دیکھا تو جھنجلاہٹ کے ساتھ بولی : بیٹی یہ کیا کر رہی ہو ؟
گلناز نے امی کے چہرے پر محبت اور پریشانی کے ملے جلے جذبات دیکھے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور زور سے امی کہتے ہوئے اپنی ساس کے گلے لگ گئی۔ اسی لمحے زبیر بھی اندر داخل ہوا اپنی ماں کو ساری بات بتا دی کہ گلناز نے ساری عمر پڑھنے میں گزار دی گھر کےکام کرنے نہیں سیکھے۔
بہو کی ندامت دیکھ کر ساس کو اور زیادہ پیار آگیا اور یہ کہتے ہوئے سینے سا ہٹا کر پیشانی پر بوسہ دیا کہ میں اپنی بیٹی کو سب کچھ سکھا دوں گی۔ اس لیے بچیوں کوپڑھائی کے ساتھ ساتھ گھریلو کام کاج کا بھی خیال کرنا چاہیے کیونکہ کل کو انہوں نے بیوی اور بہو بن کر کہیں جانا ہوتا ہے۔ اور ماں بن کر اولاد کی تربیت بھی کرنی ہے۔