ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط نمبر32:
امان اللہ کاظم
ظہیر الدین محمد بابر
اہل سمر قند کی جان پر بَن آئی تھی۔ باہر سے آنے والے سامان کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا۔اناج ، سبزیاں ا ور پھل وغیرہ حتیٰ کہ جانوروں کا چارہ تک شیبانی خان جیسے شقی القلب ازبک کے قبضے میں تھا۔ شہریوں کے اشیائے صرف کے ذخائر بھی کم سے کم ہو چلے جار ہے تھے ، وہ دن دور نہیں تھا جب کھانے پینے کی تمام اشیاء معدوم ہو جائیں مویشی چارے سے محروم ہوکر لقمہ اجل بنتے جا رہےتھے۔ اب تو درختوں کے پتوں کا بھی صفایا ہو گیا تھا کیونکہ شہری اور فوجی ان پتوں کو بطور غذا ابال ابال کر اپنے گھوڑوں اور دیگر مویشیوں کو کھلا چکے تھے۔ تمام اہل شہر کی نظر میں اب صرف بابر کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔
اندریں حالات جن لوگوں کی قوتِ مدافعت جواب دیتی جارہی تھی وہ چوری چھپے شہر پناہ کے سنسان حصوں سے پھاند پھاند کر بھاگتے ہوئے شہر سے نکلتے چلے جا رہےتھے۔ کیونکہ ان لوگوں کو اب یقین ہوتا چلاجا رہا تھا کہ بابر کسی طرح بھی اب سمر قند کو شیبانی خان کے ہاتھ میں جانے سے نہیں روک سکتا تھا۔ بالفرض اگر شیبانی خان کا سمر قند پر قبضہ ہو گیا تو پھر وہ شہریوں پر بالائے ناگہانی کی طرح آ مسلط ہوگا اور انہین چُن چُن کر قتل کروادےگا کیونکہ شیبانی خان جیسے بے رحم اور خونخوار شخص کو لوگوں کی نہیں بلکہ قطعہ زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے چنگیز خان کا مقولہ تھا:
”شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دو ، شہر کی عمارتیں گرا کر اسے قطعہ زمین میں بدل دو اور پھر اس پر گھاس اُگا دو تاکہ ہمارے گھوڑے اور جانور وہ گھاس کھا کر فربہ ہو جائیں اور ہمیں سواری اور خوراک مہیا کریں۔“
شیبانی خان بھی چنگیز خان ہی کےقبیل کا آدمی تھا۔ اس لیے سمر قند کے شہری شیبانی خان کے خوف سے ادھ موئے ہوئے چلے جا رہے تھے۔
روز بروز شہر پناہ پر شیبانی خان کا دباؤ بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ بابر اکثر اوقات اپنی نانی اماں کے پاس چلا جاتا اور اس سے مشورہ طلب کرتا جب کہ بابر کی دو سوتیلی مائیں سمر قند کو چھوڑ کر جانا چاہتی تھیں کیونکہ یہ دونوں بابر کو ناکام ونامراد دیکھنا چاہتی تھیں۔ اگرچہ بابر کو ان دونوں ماؤوں کے چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا مگر اس حساس دل کو ان کے چھوڑ جانے سے تکلیف ضرور ہوتی۔ جب کبھی بابر ان سے شہر چھوڑنے کی وجہ پوچھتا تو وہ اسے صرف یہی جواب دیتیں کہ
”ہمیں یہ خوف بے چین کیے جا رہا ہے کہ جب شیبانی خان کاسمرقند پر قبضہ ہوجائےگا (جو عنقریب ہونے والا ہے) تو وہ ہمیں گرفتار کر کے قیدی بنالے گا اور پھر اپنی داشتائیں بنا کر ذلیل کرنے کےلیے اپنے حرم میں داخل کرلے گا جوہمیں قطعاً منظور نہیں ہے۔“
نانی اماں کو ان عورتوں کا یہ جواب سخت ناگوار گزرا اور اس نے بابر سے کہا ان دونوں بے وفا عورتوں کو مت روکو یہ جہاں جانا چاہتی ہیں ،چلی جائیں۔ بنا بریں بابر نے ان دونوں کو سمر قند سے چلے جانے کی اجازت دے دی۔
شیبانی خان باب شیخ زادہ اور آہنی دروازے کے درمیان واقع فصیل پر اپنا دباؤ بڑھائے چلا جا رہاتھا بابر نے نانی اماں سے مشورہ طلب کیا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ نانی اماں نے تھوڑی دیر سکوت کے بعد کہا کہ تجھے فصیل کے اس حصے کی بجائے جہاں پر شیبانی خان نے دباؤ ڈالا ہوا ہے فصیل کے دیگر حصوں پر زیادہ توجہ دینا چاہیےکیونکہ فصیل کے اس مختصرسے حصے پر دباؤ اس کی جنگی چال ہے تاکہ وہ تمہیں مصروف رکھ کر فصیل کے کسی دوسرے حصے سے شہر میں داخل ہوکر اس پر قبضہ کر لے۔
بابر کو نانی اماں کا یہ مشورہ صائب معلوم ہوا اس نے فصیل پر موجود فوجیوں کےسردار قوچ بیگ کو حکم دیا کہ وہ فصیل پر اپنے آدمیوں کی نفری بڑھادے اور اسے پُوری فصیل پر پھیلا دے۔ بعد ازاں خود بھی فصیل پر چڑھ کر اس کا جائز ہ لینے لگا۔ بابر یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ نانی اماں نے شیبانی خان کی جنگی چال کاخوب اندازہ لگایا تھا۔ واقعی شیبانی خان فصیل کےمختصر حصے پر دباؤ ڈال کر بابر کی توجہ یہیں تک محدود رکھنا چاہتا تھا تاکہ وہ کسی دوسری جگہ سے فصیل پار کر کے شہر پر قبضہ کرلے۔
بابر نے قوچ بیگ کو حکم دیا کہ وہ فصیل کے ساتھ سیڑھیاں لگاکر فصیل پر پہنچنے کے متمنیٰ ازبکو ں پر پتھر لڑھکا کر انہیں فصیل پھلانگ سے باز رکھے۔ فصیل اتنی چوڑی تھی کہ بابر گھوڑے پر سوار ہو کر ساری فصیل پر گشت لگا سکتا تھا۔ وہ بڑی خوش اسلوبی سے محاصرے کی شدت برداشت کرتارہا۔ مگر شہری آہستہ آہستہ شہر خالی کرتے چلے چا رہےتھے۔ بابر کی سوتیلی مائیں بھی سمر قند کی کثیر آبادی سے نقل مکانی کر چکی تھیں بابر کے پاس اب اس کے فوجی اورچند نامی گرامی سردار باقی رہ گئے تھے۔
بابر رات اور دن کا اکثر حصہ فصیل شہر پر گشت کرتے ہوئے گزارتا۔ کئی دنوں سے بابر دیکھ رہا تھا کہ فصیل شہر سے دور دور تک میدان خالی نظر آرہا تھا وہاں شیبانی خان کا ایک بھی آدمی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ یہ صورت حال کئی دنوں تک اسی طرح برقرار رہی۔ بابر اور اس کے فوجی یہی سمجھے شیبانی خان محاصرے کی طوالت سے گھبرا کر واپس چلا گیا ہے مگر یہ ان کی خوش فہمی تھی۔ شیبانی خان کی یہ بھی ایک جنگی چال تھی، وہ بابر اور اس کے ساتھیوں کو غافل اور مطمئن کر دینا چاہتا تھا اور یہی ہوا۔ بابر اور اس فوجی سردار کچھ غافل ہو گئے تھے۔ شیبانی خان انہی لمحات کی تلاش میں تھا اس کے جاسوس اُسے لمحے لمحے کی خبریں پہنچا رہےتھے۔جب اسے بابر اور اس کے فوجیوں کے معمولات کی خبر ہوئی تو آناً فاناً اس نے فصیل کے خالی حصوں پر دباؤ بڑھا دیا۔
ازبکی فصیل کی دیوار سے سیڑھیاں لگا کر اوپر پہنچ گئے فصیل فوجیوں سے خالی تھی۔ قوچ بیگ اور قاسم بیگ نے بڑی جرات سے ازبکوں کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے فصیل پر موجود ازبکوں کا بڑی جوان مردی سے صفایا کردیا دیوار سے لگی ہوئی سیڑھیاں کاٹ ڈالیں۔ ازبک سپاہی جو ابھی تک سیڑھیوں پر موجود تھے پتھریلی زمین پر گر زخمی اورہلاک ہوگئے۔ سمر قند کے باقی ماندہ شہری بھی اس طویل محاصرے سےتنگ آ چکےتھے باہر ان کی فصلیں تیار کھڑی تھیں مگر یہ کس قدر المیہ تھا کہ وہ دانے دانے کیلیے محتاج ہوگئے تھے۔ محاصرے کے ایک سو بیس دن مکمل ہو چکے تھے۔ ان شدائد اور مشکلات کے باوجود بابر اپنی ماں، نانی اماں اور اپنی بہن خانزادہ بیگم کی طرف سے غافل نہیں تھا۔ اسے جب بھی موقع ملتا وہ ان کے پاس پہنچ جاتا اور انہیں تسلی دیتا نانی اماں کو اپنے دونوں خاقان بیٹوں پر بے حد غصہ آرہاتھا جنہوں نے اپنے نوعمر بھانجے کو شیبانی خان جیسے خونخوار شخص کے مقابلے میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا تھا، یہ کیسے مغل تھے جنہوں نے تیموری خاندان کو ازبکوں کےرحم وکرم کے حوالے کر دیا تھا۔