بوجھ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">بوجھ

بنتِ مولانا عبدالمجید
)جامعہ بنوریہ عالمیہ، کراچی(
چوھدری سکندر کرسی پر سر جھکائے بیٹھا تھا ، اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ پورے شہر کو تہہ و بالا کر دے ، اس کا دل شدتِ غصب سے پھٹنے کو تھا ، آ نکھیں قہر اُگل رہی تھی ، اس نے اپنی مٹھی کو مزید مضبوطی سے بھینچ لیا ،یکایک ہی اسے اپنی اربوں کی جائیداد ، کئی مربع میل تک پھیلی ہوئی زمین ، حویلی اور خود اسے اپنا وجود لاوارث سا لگنے لگا ، اب تک جو گردن تکبر اور نخوت سے کسی موہوم اُمید کی بنا پر اکڑی رہاکرتی تھی آج اس کے خوابوں کا طلسم فنا ہوگیا تھا، سراب کا محل نگاہوں سے اوجھل ہوگیا تھا، اس کے کندھے قبل از وقت ہی ضعفِ پیری محسوس کرنے لگے تھے ، اسے شباب کی رعنائیاں بھلا دینے کو یہی خبر کافی تھی کہ شادی کے بارہ سال بعد اس کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی۔
جہاں جھولے میں لیٹی ننھی سلمیٰ کی مسکراہٹ اسے
من کانت لہ ابنۃ واحدۃ جعلھا اللہ لہ سترا من النار
کی نوید سنا رہی تھی وہیں اس کے کمزور ایمان پر شیطان نے حملہ کردیا تھا، وہ غصے سے اُٹھا اور پنکھوڑے کو پاؤں سے ٹھوکر مارتا ہوا باہر نکل آیا، اِدھر ایک معصوم سی چیخ فضا میں بلند ہوئی اُدھر شیطان نے اس کی کمر تھپک
کر واِذا بُشر احدھم بالاُنثیٰ ظل وجھہ مسودا وھو کظیم
کا نقارہ بجا کر زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کردی۔
سلمیٰ ماں کے سایہ پناہ میں آگئی ،باپ کے دستِ شفقت کا لمس اس نے کبھی محسوس نہ کیا، وہ اب گھر میں باپ اور شوہر بن کر داخل نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ درونِ خانہ بھی ویسا ہی چوہدری تھا جیسا کہ بیرونِ خانہ۔۔۔۔ !!!
بھلا وہ اس وجود سے کیسے محبت کرسکتا تھا جس کی پیدائش نے اسے بیٹی کا باپ بنا دیا تھا، افکارِجاہلیت اس کی رگ رگ میں سرایت کر چکے تھے،وارث نہ ہونے کا غم اسے گھائل کرتا تو کبھی معاشرے میں سر نہ اٹھاکر جی سکنے کا غم اسے گھائل کردیتا،،۔
وہ فراموش کر چکا تھا کہ یہ وہ بیٹی ہے جس کا وجود اس کے لئے باعثِ رحمت ہے ،جس کی بہترین تربیت اس کے لیے جنت کی ضمانت ہے،جس پر نظرِ شفقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑوس ملنے کی نوید با سعادت ہے ،جس پر انفاق نارِجہنم سے آڑ ہے۔
بہر کیف وقت اپنی رفتار سے رواں دواں رہا، چوہدری سکندر چوہدری ہی رہا،بیٹی کے وجود نے اس کے احساسات میں کوئی تبدیلی نہیں کی ، ہاں البتہ!!!! اتنا ضرور ہوا تھا کہ اسے اپنے کپڑے وقت پر دھلے ہوئے اور استری کئے ہوئے ملتے،اس کے جوتے ڈیرے پر جانے سے پہلے ہی صاف ستھرے ،چمکدار دروازے پر رکھے ہوتے،اس کی واپسی ہوتے ہی اس کی چارپائی پر ٹھندا پانی اور گرم کھانا موجود ہوتا،یہ خدمات کس کی مرہونِ منت تھی ؟اسے اس سے کوئی سروکار نہ تھا،، وہ تو بس اتنا شعور رکھتا تھا کہ بیٹی ایک بوجھ ہے اور عورت پاؤں کی ٹھوکر، یا پھر اس سے بھی ذلیل۔۔۔۔
ٹھاہ!!! ٹھاہ!!! فضا میں گولی کی آواز گونجی اور ماحول لرز کر رہ گیا، سکندر نے نمبردار کے بیٹے کو شطرنج کے دوران کسی بات پر جھگڑتے قتل کردیا،جوشِ جنوں میں کئے گئے اقدام نے اسے نمبردار اور اہلِ علاقہ کے زیرِ عتاب کردیا۔
نمبردار نے خون بہا کے طور پر سکندر سے اس کی کئی سو ایکڑ پر پھیلی ہوئی زمینوں کا مطالبہ کر دیا تھااور اس سے انکار کی صورت میں ایک ہی قدیم روایتِ جاہلیّت رہ جاتی تھی اور وہ تھی۔۔۔ سکندر کی بیٹی کو اپنی ملکیّت میں لے لینا!!
زمینیں تو سکندر کا بہت بڑا اثاثہ تھیں، جس کا سودا اسے کسی قیمت قبول نہ تھا، ہاں البتہ رہ گئی بیٹی! وہ تو اس کی نظر میں ازل سے ہی کندھوں کا بوجھ تھی اگر یہ بوجھ ٹل جائے تو اس کی جان ،جائیداد دونوں بچ سکتی تھیں۔
خاموش رہ!!تیرے باپ کی عزّت کا مسئلہ ہے، اگر تونے ایک لفظ بھی زبان سے نکالا تو چوہدری تجھے گولی مار دے گا،تقدیر کے لکھے پر راضی ہوجا، بیٹیاں تو ہوتی ہی باپ پر قربان ہونے کے لئے ہوتی ہیں۔ چوہدری کی بیوی اپنی بیٹی کو سمجھا رہی تھی، شاید وہ بھی کبھی یوں ہی قربان ہوئی ہوگی۔
سرِشام افق کے کنارے سرخ ہوتے ہی نمبردار کے آدمی چوہدری کی دہلیز پر آن وارد ہوئے۔ اگلے کچھ لمحوں میں ہی تیرہ برس کی سلمیٰ سکندر دبی دبی سسکیوں میں پیکرِ فریاد بنی پچاسی برس کے نمبردار کی حویلی میں موت وحیات سے عمر بھر لڑنے کے لئے جھونک دی گئی۔
آفتاب بھی بنتِ حوّا کی رسوائی کا نظارہ نہ کر سکا اور گہرے بادلوں کی اوٹ میں پناہ گزیں ہو گیا۔۔۔ دور کہیں کوئل چہکی اور ایک اور بیٹی باپ کی خاطر قربان ہوگئی۔۔۔ عمر بھر بیٹی کے وجود کو بوجھ سمجھنے والے انسان کے ’’ بہت بڑے بوجھ‘‘ کو اسی ’’بوجھ بیٹی ‘‘نے اتار دیا۔