ہم کیسے با شعور ہیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہم کیسے با شعور ہیں؟؟
فوزیہ چودھری۔ مانسہرہ
وہ ایک بد نصیب پروفیسر تھا ،جو گلی کے نکڑ پر اپنی ماں کی آہوں و سسکیوں سے کھیل رہا تھا ،اس کی لا شعور ٹانگیں کبھی ماں کی گردن اور کبھی پیٹ پر پڑتی تھیں گویاوہ مکمل طور پر اُس عظیم ہستی سے جان چھڑ وانا چاہتا تھا۔ اُسی گلی کے آخر میں اُس پروفیسر کا گھر تھا ،گھر کا دروازہ کھلا تھا اور غالباََ وہ عورت اُس کی بیوی تھی جو بار با ر جھانک کر دروازے سے دیکھ رہی تھی اُس کا چہرہ کھلا اور لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
یوں لگتا تھا جیسے پروفیسر بیوی کی خوشی میں یہ سب کر رہا ہے۔ لاچار و بے بس ماں کو اُٹھائے ،غصے سے ہلکان پروفیسر تھکن سے چور ہونے کے بعد اپنی جنت کو گندی نالی کے رحم و کرم پر چھوڑ کے چلا گیا۔ روز رو ز کے واقعات و حادثات کی طرح اس واقعے پر بھی ہم نے تہہ دل سے افسوس کر کے چھوڑ دیا مگر گاہے بگاہے اُس بے بس ماں کی سسکیاں کانوں میں گونجتی رہتیں اور ایک دن یہ بھی سن لیا کہ دربدر کی ٹھوکروں کے بعد وہ ماں اس جہاں ِ فانی کو چھوڑ کر جاچکی ہے۔
بہرحال دن گزرتے رہے حالات بدلتے رہے۔ دسمبر کا دور ان تھا سردی معمول سے زیادہ تھی۔ ایک سکول میں تقریب تھی مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا سخت سردی کے باوجود نہ چاہتے ہوئے بھی چل دی۔ بچوں کی تربیت اپنی تعریف اور دوسروں کی تذلیل سے کی جارہی تھی تقاریر کا سلسلہ جاری تھا پھر وہ چہرہ دیکھا جسے دیکھنا بھی یقیناََ گناہ ہے۔ یہ وہی پروفیسر تھا جو پانچ سال پہلے اپنی ماں کی آہوں اور سسکیوں سے کھیل رہا تھا پھر نہ جانے کیوں اپنے آنے پر پچھتاوا ہوا۔ تقریر شروع ہوئی، ایک ایک لفظ گویا مجھے کھا رہا تھا کیونکہ اُس کا موضوع تھا ”ہم کیسے باشعور ہیں۔“؟
اس کی زبان پر جو جملے تھے ان میں سے چند الفاظ ہی اوراق پر منتقل کرنے کی ہمت ہوئی ہے جو یہ ہیں ”کوئی ٹریفک حادثہ ہو جائے تو سب ادھر اُدھر کو بھاگتے ہیں زخمی کو اُٹھانے کوئی آگے نہیں بڑھتا۔ کوئی غیر مسلک پیا سا مر رہا ہو تو کوئی پانی تک نہیں دیتا کیونکہ وہ تو غیر مسلک ہے۔ بوڑھے والدین سردی میں پڑے کھانستے رہیں اولاد کانوں میں انگلیاں ٹھونسے بے غم سوئی رہتی ہے اندھا سڑک پار کرتا ہے تو ہماری اولاد اس کے بار بار گرنے اُٹھنے پر ہنستی ہے ہمیں ہزاروں جانوں سے زیادہ اپنی ایک جان قیمتی ہے۔ اس سب کے باوجود ہم اپنے آپ کو باشعور کہتے ہیں۔ ہماری تہذیب اور ہمارے معاشرے کے نزدیک دوسروں کو اذیت دینا ہی شعور ہے۔ آج کا شعور یہی ہے کہ اولاد سے والدین کو ،شاگرد سے استاد کو ، بیوی سے شوہر کو اور ہر خونی رشتے سے تکلیف پہنچے یہی اس معاشرے کی زندگی ہے جسے جینا آتا ہے نہ مرنا۔ مان لیجئے ایسے معاشرے زندہ ہی مرا کرتے ہیں زندہ ہی۔ “تقریر ختم ہونے کو تھی مگر میرا ذہن چند سال پہلے ہونے والے حادثے میں کھو گیا تھا مجھے یہ ساری تقریر سوائے ایک عام مضمون کے کچھ نہیں لگی ایسا لگا کہ شاید اس پروفیسر نے کسی کی لکھی یہ تحریر غور سے نہیں پڑھی یا الفاظ کی گہرائی میں جانے کی کوشش نہیں کی۔ سوچ رہی تھی کہ کیا ماؤں کی آہوں و سسکیوں سے کھیلنے والے باشعور ہو سکتے ہیں۔ پڑھ لکھ کر ماں کی عظمت سے بے خبر تعلیم یافتہ ہو سکتے ہیں۔ ماں کو عمر بھر ستانے والے معاشرے کو لاشعور کہنے کے حقدار کیسے ہو سکتے ہیں؟اتنے ستم کر کے آخر میں صرف ایک تقریر سے سب کچھ نہیں دھلتا ماں کی آہیں غضب الٰہی سے نہیں بچا سکتیں۔ پھر سوچتی ہوں کہ شاید اُس ماں نے دل سے بد دعائیں نہ نکالی ہوں کیونکہ ماں تو ماں ہوتی ہے نا۔ بہر حال ایک عظیم ہستی پر ستم ڈھانے والا اس بات کا حقدار نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی کو لا شعور کہے یا معاشرے میں کسی کو طعنہ دے۔