جہنمی ”بزرگ“

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
جہنمی ”بزرگ“
از قلم :حافظ سمیع اللہ طاہر
اف خدایا! اتنے سارے لوگ اس حویلی میں خیریت توہے کہیں چوہدری صاحب کا انتقال تو نہیں ہوگیا۔ تیز تیز قدموں سےچلتاہوا” اکرم“ حویلی کی طرف جاتے ہوئے بول رہاتھا، یہ حویلی” چوہدری خالد آرئیں“ کی ہےجو گاؤں کا سب سے بڑا نمبر دار تھا۔ 8 مربع زمین کا اکیلا مالک تھا۔ اور اس کے ساتھ خدا کی عطاء کردہ اولاد میں سے 7 بچوں،بچیوں کا پرورش کرنے والا بھی تھا۔ ایک بچی کم عمری میں اللہ کو پیاری ہوگئی۔
”چوہدری خالد“ کی حویلی تقریباً دو کنال پر مشتمل تھی۔ جہاں پر چوہدری خالد؛عوام الناس کےچھوٹےبڑے فیصلے کیا کرتاتھا۔ اس کی زندگی بڑے ٹھاٹھ بھاٹھ سے گزررہی تھی، پورے گاؤں میں یہ ہرایک کے لئے بہت محترم تھا، پنچائیت میں اس کے فیصلے کو آخری فیصلہ مانا جاتاتھا۔
اسے اپنی بیٹی کی شادی بھی بڑی دھوم دھام سے کی تھی۔
ایک دن چوہدری صاحب اپنی بیٹی سے ملنے اسلام آباد ڈیفنس چلاگیا۔ جب ہفتہ بھر واپس گھر نہ آیا تو گھر والوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
آخر کا بڑا بیٹا باپ کا پتہ کرنے بہن کے گھر جا پہنچا اور حیرت کے مارے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
جب اس کی بہن نے اسے بتایا کی اباجان تو ہمارےگھر آئے ہی نہیں۔ چوہدری کی بیٹی کا غم کے مارے برا حال ہوگیا۔ وہ روتی دھوتی چلاتی فوراً اپنے بھائی کے ساتھ ماں کے گھر آئی۔
چوہدری کا پورا گھرانہ غم کدہ بناہواتھا۔ بچے بلک بلک کر رورہےتھے۔ بیوی کو غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔
چوہدری کے گم ہونے کی خبر پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور سارا شہرچوہدری کے گھر امنڈ پڑا۔
گاؤں کے وڈیرے چوہدری کی گمشدکی پر مختلف خدشات کا اظہار کررہے تھے۔کوئی کہتا کہ اسے کسی نے قتل نہ کردیاہو، دوسرا کہتا اس کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔کوئی کہتا کہ اسے اغواء برائے تاوان نہ کرلیاگیا ہولیکن دوسرا کہتا کہ اگر اغواء برائے تاوان ہوتا تووہ فوراً رقم کا مطالبہ کرتے۔
گاؤں کے لوگوں کو اس بات کا شدید خدشہ تھا کہ کہیں وہ حادثہ کا شکار نہ ہو گیا ہو۔ توبڑوں نے 10 افراد پرمشتمل دو،دو افراد کی پانچ کمیٹیاں تشکیل دی کہ وہ مختلف شہروں کے مختلف ہسپتالوں،تھانوں سے پتہ کریں۔ ان افرادنے حاصل کردہ ہدایات لے کر مختلف شہروں کے ہسپتالوں اور تھانوں میں پھرتے رہے لیکن چوہدری خالد کاکوئی سراغ نہ لگ سکا۔
چوہدری صاحب کو گم ہوئے ایک مہینہ بیت چکاتھا، ایک دن سورج کالے بادلوں سے نکل کر افق پر آ ابھرا اور آس پاس اپنی کرنیں بکھیرتاہوا صبح کو روشن کررہاتھا۔
گاؤں کے لوگ اپنے کھیتوں میں کام میں مگن ہوگئے عورتیں بھی مردوں کا ہاتھ بٹانے میں شریک تھی۔ بھینسیں گاؤں کے ایک بڑے تالاب میں نہارہی تھیں، شہر میں کام کاج کرنے والے اپنی اپنی سواریوں پر شہر کا رخ کئے ہوئے تھے، اسکول کے بچے اپنے بستے گلے میں لٹکائے اسکول کی جانب رواں دواں تھے کہ اسی دوران گاؤں کے کچھ فاصلے پر بچوں کےشورنے پورے گاؤں میں آوازوں کا ایک طوفان بر پا کردیا، بچوں کا اس قدر شورتھا کہ گھروں سے لوگ باہر آنے پر مجبور ہوگے۔
چوہدری آگیا،چوہدری آگیا کے نعروں سے پوری فضاء گونج اٹھی۔ یہ خوش کن آواز کانوں میں پڑتے ہی چوہدری صاحب کا پورا گھرانہ بچوں سمیت باہرکی جانب بھاگ نکلا۔ اچانک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ واقعتاً چوہدری صاحب چلے آرہے ہیں۔
مارے خوشی کے انہیں اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیاتھا۔ انہوں نے دیکھا کہ چوہدری صاحب کے ساتھ ایک بہت بڑا بزرگ سفید کپڑے، سفید داڑھی، سر پر ایک بہت بڑا پگڑا، ہاتھ میں ایک لمبی سی تسبیح پاؤں میں ایک سنہری کھسا پہنے ہلکی چال کے ساتھ چلا آرہاتھا۔ سب بچے روتے اور باپ سے جالپٹ گئے، سب کی آنکھوں میں بے پناہ آنسو تھے جو ان کےرخساروں پر بہہ رہے تھے۔
چوہدری صاحب کی آمد کی خبر پوری گاؤں بلکہ شہر تک جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور سب لوگ اپنا کام کاج وہیں پر چھوڑکر چوہدری صاحب کو ملنے چلے آئے۔ سب حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے چوہدری صاحب کو دیکھتے اور بغل گیر ہوجاتے،لوگ چوہدری صاحب کے ساتھ آئے بزرگ کو دیکھ کر حیران ہوئے جو عمر سے تقریباً سو سال کے لگ بھگ تھا لیکن صحت سے ہٹاکٹا لگ رہاتھا۔
وہ بزرگ کوئی ہوشیار قسم کا آدمی معلوم ہوتاتھا، گھروالوں نے کہا کہ ہمارا تو رورو کربراحال ہوچکاتھا آپ اتنے دن کہاں غائب رہے؟ یہ بزرگ کون ہے؟ چوہدری صاحب نے کہا کہ یہ بزرگ میرے محسن ہیں اور پیر ہیں، رہی بات میں اتنی عرصہ کہاں غائب رہا، وہ کل ایک بھرے مجمع میں اس کی تفصیل بتاؤں گا۔
نماز مغرب کے بعد گاؤں اور شہر میں اعلانات کروائے گئے کہ کل صبح 10 بجےچوہدری خالد آرئیں کی حویلی میں ایک بہت بڑا پروگرام ہے، تمام احباب کو شرکت کی دعوت ہے۔
اگلے دن چوہدری صاحب کی حویلی میں پروگرام کی تیاریاں عروج پر تھی، اسٹیج بن چکاتھا،کرسیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ چکی تھی۔ ایک کونے میں دیگیں پکائی جارہی تھی حویلی کا تقریباً چار کنال صحن لوگوں سے بھرا ہواتھا۔
اسٹیج پر ایک صوفہ پر ”چوہدری خالد“ اور ساتھ والے صوفے پر وہ بزرگ بھی بڑی سی تسبیح کےمنکے گرانے میں مشغول تھے، چوہدری اپنی نشست سے اٹھا اور لوگوں کو مخاطب ہوکے بولا کہ میرے جانثارو !میں کہاں گیاتھا ؟اور میرے ساتھ کیا واقعہ رونما ہوا؟ میں اپنی بیٹی سے ملنے جب بس میں سوار ہوکرجارہاتھا میری خوش قسمتی کہ بس میرے ساتھ والی نشست پر یہ بزرگ تشریف فرماتھے، ان کا میرے ساتھ بیٹھنا میری فیروز بختی کا باعث بن گیا، انہوں نے میرےتو مقدر ہی بدل کر رکھ دیئے انہوں نے مجھے جہنم سے بچالیا۔
دوران سفر انہوں نے بتایا کہ ”حضرت عیسیٰ علیہ السلام“ فوت ہوچکے ہیں اور ان کی قبر کشمیر میں ہے، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جس مسیح موعود کے نزول کا ذکرکیاہے وہ مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی ہے، جس کا ظہور قادیان میں ہواہے، اور وہی امام مہدی ہیں،انہوں نے مجھے نصیحت فرماتے ہوئے کہا کہ اگر تم اپنے ایمان کی سلامتی چاہتے ہو تو اس مسیح موعود اور امام مہدی کے دامن کو مضبوطی سے تھام لو، یہ مجھے پھر ربوہ لے کر چلے گئے اور پھر میں مسیح موعود کے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور پھر تعلیم وتربیت کے لئے ایک مہینہ ربوہ میں رہنا پڑا، تاکہ مرزا غلام احمد قادیانی کی تعلیمات میرے ذہن میں راسخ ہوجائے بس پھر میرے لئے تعلیم وتربیت کا بھر پور اہتمام کیاگیا۔
یہ بزرگ میرے مرشد اورمحسن ہیں، میں ساری زندگی ان کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتا، اگر یہ مجھے نہ ملتے تو میری آخرت بربادہوجاتی اور میں جہنم کا ایندھن بن جاتا۔
میں نے آج کا یہ پروگرام اس لئے کیا ہے کہ آپ ذراسوچو، اور میں ان بزرگوں کو اس ضعیف العمری میں تکلیف دے کر اس لئے ساتھ لایاہوں کہ مجھے تمہاری آخرت کی بہت فکرہے۔کہ تم کہیں جہنم کا ایندھن نہ بن جاؤ۔
آخر تم سب میرے دوست اور عزیز واقارب ہو لہٰذا آج میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آپ لوگوں کی تڑپ رکھتے ہوئے التماس کرتاہوں کہ مرزا قادیانی کی مسیحیت، مہدویت اور نبوت پر ایمان لے آؤ تاکہ تم جہنم سے بچ جاؤ، اگرکوئی علمی شبہات ہوں تو جوابات کے لئے یہ بزرگ حاضر خدمت ہیں جنہوں نے انہیں آنکھوں سے مرزا{جیسے لعین، مرتد،کذاب} صاحب کی زیارت کی ہیں، اور ان کے ساتھ اپنی زندگی کا اکثرو بیشتر حصہ گزاراہے اور یہ ان کی نبوت کے عینی شاہد ہیں۔
وہاں کے لوگ اگرچہ غریب تھے،چوہدری کے کئی احسانات بھی ان پرتھے لیکن چوہدری کی اس کفریہ تقریر نے ان کے تن بدن میں آگ لگادی، انہوں نے ”چوہدری“ پر بہت لعنتیں کی ، لیکن گاؤں میں ایک کم ذات غریب حاکم داد جس کو گاؤں کے سارے لوگ کم ذات کی وجہ سے کلام کرنا پسند نہیں کرتے تھے، وہ اٹھا،اپنے پاؤں سے جوتا اتارا اور ایمانی جذبہ کے ساتھ اس بزرگ کے چہرے پر دے مارا پھر سب لوگوں نے فلک شگاف نعرہ تکبیر اللہ اکبر شان مصطفیٰ زندہ باد لگایا ،حاکم داد کو خوب داد دی سب نے، لوگوں نے اس بزرگ پر بھی لعن طعن کی اور چوہدری کا مکمل سوشل بائیکاٹ کا اعلان کردیا، تو دوسری طرف شہر کے جید علماء نے چوہدری کر مرتد قرار دے دیا، چوہدری کے بیوی بچوں نے اس سے اپنا رشتہ ناتا توڑدیا اور گھر سے نکال دیا،دوستوں نے اپنے یارانے توڑلئے وہ لوگ جو کبھی اپنی پلکوں پہ بٹھاتے تھے اب اس سے بات کرنے کو تیار نہیں۔
چوہدری گھر بار چھوڑکر اپنےمربعوں پر چلاگیا اور وہاں ایک مکان بناکر قادیانی {لفنڑد} بزرگ کے ساتھ رہنے لگا، وہ صبح وشام اس کی خدمت میں مست رہتا،ٹانگیں دباتا، مالش کرتا، کپڑے بڑی عقیدت سے دھوتا، جوتے پالش کرتا، بازار سے بہترین سے بہترین پھل لاتا، اعلیٰ سے اعلیٰ پکوان پیش کرتا جو شاید کسی رئیس کے دسترخوان پر بھی موجود نہ ہوں، وہ بزرگ بھی کھانوں کو یوں صاف کرتا جیسے ”گدھا“ چوکر کو صاف کرتا ہے۔ ایک دن چوہدری نے اس قادیانی کے لئے چار مختلف کھانےپکائے اور پکانے کا حق ادا کردیااور قادیانی بزرگ نے کھانے کا حق ادا کردیا،اس کا پیٹ کا مٹکا منہ تک بھرگیا، بس کچھ دیر کے بعد وہ چارپاِئی کا مہمان بن گیا۔
رات کے 12 بچ چکے تھے کہ سوئی پر سوئی چڑھی ہوئی تھی کہ بزرگ لعنتی پر ہیضےنے حملہ کردیا بس پھر اس کا وہ حشرہیضے نے کیا کہ اندر کا مال اوپر نیچے سے باہر آنا شروع ہوگیا، وہ پورے کا پورا اپنے گند میں گھل مل گیا۔ دوسری طرف سے بالکل موت نے حملہ کرکے ابدی نیند سلادیا اور لقمہ جہنم بنادیا۔چوہدری اس کی موت پر خوب رویا، وہ لاش پر بین کررہاتھا کہ اس کے گویا کہ سارے خاندان کے افراد مرگئے ہوں۔ چوہدری نے جلدی جلدی اس کی غلاظتیں اپنے ہاتھ سے صاف کی اسے غسل دیا اور چار گھوڑا مار کہ بوسکی کا کفن پہناکر رات کی تاریکی میں گاؤں کے قبرستان میں دفن کردیا۔
صبح ہوتے ہی چوہدری صاحب شہر کو نکل گئے وہاں سے پانچ من پھول خریدلایا، اور آکر قبر پر ڈال دیے اور قسما قسم کی عطریات چھڑکیں جس سے پورا قبرستان مہک اٹھا،جب صبح سویرے گاؤں کے چند چرواہے اپنے جانور چراتے ہوئے قبرستان کے پاس سے گزرے تو چوہدری نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ یہ دیکھو مرزا غلام احمدقادیانی {لعنتی، مرتد، فاسق، کذاب} کےصحابی کی قبر ہے{نعوذباللہ} کتنی حسین، دلکش ہے دیکھو اس سے کتنی خوشبوؤں کے قافلے اٹھ کر ہوامیں مجتمع ہو رہے ہیں جتنی اوپر سے خوبصورت اتنی اندر سے بھی خوبصورت ہے جس طرح اوپر سے خوشبو کی ہوائیں اٹھ رہی ہیں اسی طرح یہ قبر کے اندر سے بھی مہک رہی ہے۔
مجھے تو قبر دیکھ کر جنت کی یاد آرہی ہے جس نے دنیا میں جنت دیکھنی ہو تو اس قبر کو دیکھ لو۔ اگر جنت میں جاناچاہتاہے تو اس صاحب قبر سے رشتہ جوڑلو۔ چرواہوں نے یہ ساری کہانی گاؤں کے بڑوں کو سنائی، تو شام کو تمام لوگ گاؤں کی مسجد میں جمع ہوگے، امام صاحب کی موجودگی میں فیصلہ کیاگیا کہ ڈپٹی کمشنر شاہد آرئیں کو درخواست دی جائے کہ مذہبی نقطہ نظر سے قادیانی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں، یہ خبر اردگرد تمام دیہاتوں بلکہ پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔صبح 10 بجے کے قریب ڈپٹی کمشنر شاہد آرئیں اپنے پولیس نوجوانوں کے ہمراہ قبرستان پہنچ گئے، شہر کی انتظامیہ کے بڑے افسران بھی آپ کے ساتھ تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے شمع ختم نبوت کے پروانوں کا ایک بہت بڑا مجمع جمع ہوچکاتھا کہ ہر طرف سر ہی سرتھے، مرزا قادیانی کا حشر دیکھنے لوگ جمع تھے، دوسری طرف چوہدری لاش وصول کرنے کے لئے کھڑا تھا وہ بیچارہ اب کچھ کرتوسکتاتھا نہیں، وہ غصہ میں پھڑ پھڑاتاہوا بولا، دیکھنا ابھی میرے مرشدغلام احمد قادیانی کے صحابی کی قبر کھلے گی اور قبر سے ایسی خوشبوئیں نکلیں گے کہ فضائیں معطر ہوجائیں گے۔
خوشبوسے لدی ہوائیں ماحول پر ایک مستی طاری کردیں گی۔ بدبختو!جنت تمہارے مقدر میں نہیں آج دنیا میں جنت کی ٹھنڈی ہواؤں کو محسوس کرلو۔
جہنمیو! تماری آنکھوں کو تو بہشت بریں دیکھنا نہیں آج دنیا میں جنت کا ٹکڑا دیکھ لو، موقع پر موجود تھانیدار، ریاض وٹو نے چوہدری کو خاموش کرتے ہوئے پانچ، چھ چوہڑوں کو قبر کھولنے کا حکم دیا، قبر کے کھولنے کا منظر دیکھنے کے لئے قبر پر لوگ امنڈ پڑے ارد گرد لوگ درختوں پر چڑھے ہوئے بھی قبر کھولنے کا منظر دیکھ رہے تھے،قبر سے مٹی ہٹانے کا عمل شروع تھا، سامنے اب قبر پر پتھر کی سلیں پڑی تھیں۔
جب پہلی سل ہٹائی تو پھک کر کےبدبو کا ایک ایسا بھبھوکا نکلا کہ لوگوں کے دل ودماغ پھٹنے لگے۔ بدبو کی شدت کی وجہ سے لوگوں کے آنکھوں سے پانی کی سمندر بہنے لگے، سینکڑوں لوگ قے کرنے لگے، لوگ قبر سے کوسوں میل دور بھاگنے لگے، ہر طرف لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئےتوبہ توبہ کررہے تھے، کئی لوگ خوف خدا سے گڑگڑاکر رونے لگے، کمزور دل لوگ قبرستان سے بھاگ نکلے۔
چوہدری بھی شدت بدبوسے بے حال تھا باربار قے کرتا، آنکھوں سے پانی نکل کر رخساروں پر بہہ رہاتھا، شدت بدبو سے ناک پر کپڑارکھا، شدید بدبو اور تعفن سےچوہڑوں نے لاش نکالنے سے انکار کردیا۔جب ڈپٹی کمشنر نے ایک ایک ہزار روپے دینے کا اعلان کیا تو چوہڑے راضی ہوگئے، انہوں نے جب سلیں ہٹائیں توقبر سے بدبو کے ہولناک طوفان اٹھ رہے تھے، کہ عورتیں بھی اپنے گھروں میں بے حال ہوگئی۔
چوہدری ڈھیٹ بنا قبر کے کنارے کھڑا رہا،اس نے جب قبر کے اندر دیکھا تو پوری قبر انتہائی خوفناک کیڑوں سے بھری پڑی تھی، جو بجلی کی طرف ادھر ادھر بھاگ رہے تھے چوہڑوں نے ہمت کرکے لاش باہر نکالی تو کیڑے نصف لاش ہضم کرچکے تھے، کیڑے لاش کی ناک سے داخل ہوکر منہ کی جانب سے نکل رہےتھے، کیڑوں نے ساری لاش میں اس طرح سوراخ کر رکھے تھے جیسے کسی ماہر کاریگر نے ڈرل مشین سے سوراخ کیے ہوں۔
آدھی سے زیادہ زبان پورے ہونٹ کیڑوں کی غذا بن چکے تھے، اور نسواری دانت باہر کو لٹکے ہوئے تھے، جسم اس طرح سیاہ ہوچکا تھا جیسے گرم سلاخوں سے داغاہواہو۔ پوری لاش سے انتہائی بدبو اور پانی نچڑ رہاتھا، کیڑوں نے اس مرتد کا حشر ایسا کیا تھا کہ جیسے اس نے چوہدری کی کھانے کے ساتھ کیا {جب کھاناشروع کیا تو پیچھے مڑکر نہیں دیکھا} پھرچوہڑوں نے لاش کوبوری میں بند کرکے تھانیدار کے حوالے کردیا۔تھانیدار نے چوہدری سے مخاطب ہوکر بولا یہ لو اپنی امانت جو تم نے جنتی تصور کرتے تھے، لے جاؤ اپنی جنت مسلمانوں کے قبرستان سے اٹھا کر لے جاؤ۔
چوہدری بت بنے ساکت وجامد کھڑا رہا،تھانیدار نے اسے ہلایا بلایا لیکن وہ خاموش رہا، جب تھانیدار نے دوبارہ ہلایا تو وہ دھڑم سے زمین پر گرپڑا۔ وہ حالت سجدہ میں چیخ چیخ کر اپنے خدا{اللہ تعالیٰ} سے اپنے کئے ہوئے پر شرمندہ ہوا اور معافی مانگ رہاتھا، اس کے پورے بدن پر لرزہ طاری تھا، تھانیدار نے جب بڑی بے دردی سے اسے اٹھایا تو اس کی زبان پرتھا،میرے کریم مالک،تو باپ سے زیادہ کریم ہے، ماں سے زیادہ رحیم ہے میں تیری رحمت پر قربان، آپ نے میری ہدایت بلکہ امت مسلمہ کے لئے بھی کتنا بڑا سامان کیا اگر میں زندگی کے بقیہ ایام تیری راہ میں سربسجود رہوں تو تیراحق ادا نہ کر پاؤں گا۔
میں نے تجھ سے بغاوت کی، میں نے تجھ سے جفاکی،لیکن آپ نے اپنا دست کرم مجھ سے نہ کھینچا، میں فاتر العقل قادیانیت کے جہنم میں کود گیا، لیکن تیری رحمت کےہاتھوں نے مجھے اٹھاکر دوبارہ گلشن اسلام میں پہنچادیا۔
چوہدری صاحب غضب ناک آنکھوں سے دیکھتاہوا ہاتھ میں جوتا پکڑا اور قادیانی بزرگ کی لاش پر مارنے شروع کردیے، ڈپٹی کمشنر صاحب کےحکم پر لاش کتوں کے حوالے کردی گئی۔ پھر ایک زور دار نعرہ تکبیر اللہ اکبر ختم نبوت زندہ باد شان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زندہ بادسے ہراطراف گونج اٹھا۔ایسے بھی لعنتی ہوتے ہیں {قادیانی} تھانیدار یہ کہتاہوا اپنی فوج کے ہمراہ واپس چل دیا۔