برسات میں جلتے گھر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
برسات میں جلتے گھر
معظمہ کنول
میاں بیوی کی چپقلش گھر کو جہنم بنا دیتی ہے جس میں وہ خود بھی جلتے ہیں اور اولاد کو بھی جلاتے ہیں.. یہ تو دُنیا کی سزا ہوئی آخرت کی سزا ابھی سر پرہے۔
گھر کا سکون برباد کرنے میں قصور کبھی مرد کاہوتا ہے کبھی عورت کا اور کبھی دونوں کا.. جب دونوں کے درمیان اَن بن ہوتی ہے تو ہر ایک اپنے کو مظلوم اور دُوسرے کو ظالم سمجھتا ہے.. گھر کی اصلاح کی صورت یہ ہے کہ ہر ایک دُوسرے کے حقوق ادا کرے ، خوش خلقی کا معاملہ کرے ، نرمی اور شیریں زبان اختیار کرے اور اگر کوئی ناگوار بات پیش آئے تو اس کو برداشت کرے۔
اگر بیوی مذہب کی طرف راغب ہوئی ہے تو گھر گرہستی کو عیب سمجھتی ہے،شوہر کے حقوق سے لاپرواہ ہو گئی ہے،اپنی ذات کو بھی بھول گئی ہے، نہ میک اپ نہ کپڑوں کا خیال ،نہ ہنسی مذاق ،بس ہر وقت سوچوں میں ڈوبی کہ مرنا ہے، ہائے مرنا ہے، کدھر جاؤں گی میرا کیا بنے گا؟ پورا گھر موت کے سناٹے میں ڈوباہے یا وظائف کی سرگوشیاں ہر کمرے میں ایک مصلیٰ بچھا ہے جس پر تسبیح اور اذکار کی کتاب رکھی ہے زیادہ سے زیادہ نوافل،وظائف ،منزلیں پڑھ پڑھ کے اپنی حقیقی منزل کھو بیٹھی ہے، اور پوچھنے پھر یہی آتی ہے کہ اگر کوئی کسر رہ گئی ہے تو وہ وظیفے سے پوری کی جائے۔
میرا مشورہ ان کو یہی ہوتا ہے کہ نماز اور فرض روزوں کا اہتمام کرو اور اپنے شوہر کے اردگرد رہا کرو یہ مٹی کا مادھو بڑی چیز ہے،تیری جنت اس کی خوشی میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے،جو عورت عصمت کی حفاظت کرتی ہے،فرائض کا اہتمام کرتی ہے اور اپنے شوہر کو خوش رکھتی ہے، وہ اگر اس حال میں مر جائے کہ اس کا شوہر اس سے خوش ہو تو اسے کہا جائے گا جنت کے جس دروازے سے چاہے جنت میں چلی جائے !
مگر میرا یہ کہنا کوئی خاص فرق اس لئے نہیں ڈالتا کہ اس کا تعلق عمل کے ساتھ ہے اور عمل کا تعلق اس سافٹ وئیر کے ساتھ ہے جو ہمارے دل و دماغ میں انسٹال ہے ! وہ خطرناک سافٹ ویئر نیک بندے یا ولی اللہ کا تصور ہے، ہم جس مذہب سے بدل کر نئے مذہب میں آئے ہیں، افسوس یہ ہے کہ یہاں بھی ایک مذہبی اور خدا ترس شخص کے بارے میں تصور سو فیصد وہی ہے، کسی بھی ڈرامے یا فلم میں آپ دیکھ لیں ہندو سادھو اور ہمارے فلمی ولی اللہ میں ایک منکے کا بھی فرق نہیں ہو گا۔
کٹے پھٹے کپڑے،سر اور داڑھی کے بے ہنگم بڑھےہوئے بال،ہاتھ میں کشکول ،گلے میں مالاؤں کی لمبی قطار ہاتھ رنگ برنگے پتھروں والی انگوٹھیوں سے مزین ، الغرض جوہمارے اجداد نے ہندو ازم میں نیک انسان کا روپ دیکھا تھا وہی اسلام میں بھی تخلیق کر لیا، عورت جب نیک ہوئی یا اسے نیکی کا دورہ پڑا تو اسے اپنی ازدواجی زندگی پر پچھتاوہ آیا کہ وہ کس گند میں پڑ گئی ہے،جس کا مداوا وہ نوافل کی زیادتی اور جھوٹ موٹ کے عاملین کے بتائے ہوئے وظائف کی کثرت سے کرتی ہے، جس کے نتیجے میں شوہر کے دل میں مذہب کے بارے میں ایک ری ایکشن پیدا ہونا شروع ہو جاتاہے جو اس سے اس کی بیوی چھینے لئے جا رہا ہے وہ اسے دین نہیں بلکہ آسیب سمجھتا ہے جو اس کی بیوی پر آ گیا ہے۔
بیوی کا رویہ سرد مہری میں تبدیل ہوتا جاتا ہے، وہ ہنستی نہیں کہ اس کی ہنسی کہیں شوہر کےرومانوی جذبے کو ایکٹیویٹ نہ کر دے، وہ شوہر کو دور رکھنے کے لئے نماز لمبی کر دیتی ہے کہ شوہر سو جائے، وہ دن کو روزہ رکھتی ہے کہ شوہر مجبور نہ کر سکے اور شوہر پر یہ ستم کرنے کے بعد وہ یہ توقع بھی رکھتی ہے کہ شوہر اس کے پاؤں دھو کر بھی پیے کیونکہ وہ رابعہ بصریہ بن گئی ہے،جبکہ شوہر اس سے اور اس کی دینداری سے نفرت کرتا ہے، بچے بھی گھر کے افسردہ ماحول سے متأثر ہوتے ہیں، چند سال میں وہ گھرانہ بکھر کر رہ جاتا ہے، طلاق ہو جاتی ہے یا شوہر دوسری شادی کر لیتاہےکیونکہ اسے ہنسنے کھیلنے والی بیوی چاہئے مائی طوطی نہیں چاہیے ایسی ضرورت سے زیادہ نیک عورت کا شوہر کسی بھی عورت کی صرف ایک مسکراہٹ کی مارہوتاہے،اسے خوبصورتی سے بھی کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا،،عموماًخوبصورتی پہلی شادی میں اہم فیکٹر ہوتی ہے، دوسری شادی میں دیگر عوامل کو اہمیت اور اولیت حاصل ہوتی ہے۔
عام طور پر دوسری عورت پہلی عورت سے کم خوبصورت ہوتی ہےاور ساری عورتیں تبصرے کرتی پھرتی ہیں:ہائے یہ کیا؟ اتنی خوبصورت بیوی کے ہوتے ہوئے یہ دوسری چڑیل کیوں لے آیا ہے، جوتا جس کو چبھتا ہے اسی کو پتہ ہوتا ہے کہ خوبصورتی کہاں کاٹ رہی ہے، پہلی بیوی بھی اب کہتی پھرتی ہے مجھ میں کیا کمی تھی نیک پاک خوبصورت اللہ سے ڈرنے والی چھوڑ کر دوسری کیوں لے آیا ہے؟
انسان ایک وقت صرف ماں کے خون پر جیتا ہےاس کا اپنا منہ بند ہوتا ہے،پھر ماں کے دودھ پر پھر نرم غذا پر، پھر ٹھوس غذا پر۔ اسی طرح جوں جوں انسان سماج میں بڑا ہوتاہے، ذمہ داریاں بھی نرم سے ٹھوس ہوتی جاتی ہیں، عورت کا گھر گرہستی کرنا دین کا تقاضہ اور اللہ کی طرف سے ڈالی گئی ذمہ داری ہے کوئی بے دینی نہیں کہ جس پر پچھتایا جائے اور ڈیپریشن کا شکار ہوا جائے، ازدواجی تعلق کوئی گناہ نہیں دینی فرائض میں سے اہم فریضہ ہے، اس کا اجر نوافل سے بڑھ کر ہے،عورت نفل نماز اور نفلی روزہ شوہر کا موڈ پوچھ کر رکھ سکتی ہے، اگر اس کا پروگرام کوئی اور ہے تو باقی سارے پروگرام منسوخ، اس عورت پر اللہ اور اس کے رسول اور فرشتوں کی لعنت ہوتی ہے جو ضرورت کے وقت شوہر کو بلا شرعی عذر ” انکار“کر دے۔
جمعے کے دن اس بات کا خصوصی حکم دیا گیا ہے کہ جنسی طور پر دونوں میاں بیوی مطمئن ہوں من غسل واغتسل کا اشارہ اسی طرف کیا گیا ہے، بچوں اور شوہر کی ذمہ داریوں کی وجہ سے عورت کو جمعہ اور جماعت سے چھٹی دی گئی ہے، اس کا تنور پر روٹیاں پکانا ، اس کا جمعہ ہے، اپنی ظہر پڑھ لے۔ عورت اپنے ڈیپریشن سے نکلے، گھریلو ذمہ داریوں کو خدا سے دوری نہ سمجھے اور اس کا حل جھوٹے عاملوں کے بتائے ہوئے وظیفوں میں نہ ڈھونڈے، اس کا علاج اس کے اپنے بچوں میں ہے، ان سے ترشی سے پیش نہ آئے، وہ اس کی ذمہ داری ہیں جن کے بارے میں اس سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا، دل میں زنگ نہیں لگا بلکہ شک کا مرض لگ گیا،اللہ کا ذکر نماز کی صورت میں ظاہر میں موجود ہے اور دل میں وہ کام کاج کرتے وہ ہر وقت چلتا رہتا ہے، جہاں کمی ہے اسے پورا کرو،نوافل کی کثرت اس کمی کو پورا نہیں کر سکتی،تمہارے یہ ہنسنے کھیلنے کے دن ہیں۔اس ہنسی سے اللہ خوش ہوتا ہے،ناراض نہیں ہوتا،!