کامیابی کا راز

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کامیابی کا راز
امت مسلمہ کے انفرادی واجتماعی مسائل اور ان کاحل
محمد جنید حنفی ، کراچی
جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ جب اللہ کا کوئی بندہ گناہ کرنے جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کے سامنے ایسی رکاوٹیں ڈالتا ہے جس سے وہ بندہ گناہ سے رک جاتا ہے تو مجھے اللہ کی محبت کا اندازہ بہت زیادہ ہوا۔ اور پھر مجھے اللہ کے ایک صفاتی نام کا معنی معلوم ہوا تو اس کی محبت کا مجھے مزید اندازہ ہوا وہ نام ”حنان“ہے یعنی حنان وہ ذات ہے کہ جس سے بندہ روٹھنا چاہے تو وہ روٹھنے نہ دیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تمام رشتے فانی ہوتے ہیں لیکن تعلق مع اللہ ہمیشہ کا تعلق ہے وہ بڑی کریم ذات ہے کہ انہوں نے انسان کو اپنے اہل وعیال سے پیارومحبت پر کوئی قیدوبند نہیں لگائی۔ اولاد سے محبت منع نہیں ماںباپ سے محبت کو عظیم ثواب کے زمرے میں ڈالاہے۔ بھائیوں سے محبت کو اعلیٰ حقوق میں شمار کیا ہے بیوی سے محبت کو اعلی اخلاق میں شمارکیا ہے۔ بس پابندی جو لگائی ہے وہ اس ضمن میں کہ یہ ان کی یاد سے غفلت کا سبب نہ بنے ماں کے قدموں میں جنت ہے تو باپ کی رضا میں اللہ کی رضا ہےلیکن یہ بھی یاد رہے کہ والدین کی ایسی بات قطعاً نہیں مانی جائیگی جو شریعت کے خلاف ہو۔
اللہ کی طرف سے اتنی محبت اپنے بندوں کے ساتھ جس کی کوئی انتہا نہیں ہزار غلطیوں کے باوجود وہ ہمارے عیوب پر پردہ کرتے ہیں ہزار غلطیوں کے باوجود وہ پکڑنہیں فرماتے ہزار غلطیوں کے باوجود وہ مہربانی والامعاملہ فرماتے ہیں ہمیشہ کی کوتاہیوں کے باوجود وہ رحمت کا معاملہ فرماتے ہیں ایک ہم ہیں کہ سمجھتے نہیں اس کی رحمتوں مہربانیوں کا اُلٹا فائدہ لے رہے ہیں۔نافرمانیوں کا نقصان ہمارا اپنا ہی تو ہےاللہ ہمیں انتہائی محبت میں یوں کہتے ہیں کہ تو اگرمیرا نہیں بنتا تو اپنا تو بن اے انسان کس چیز نے تجھے میری محبت اور میرے ساتھ تعلق سے روک دیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے مسلمانوں کی کامیابی کس چیز میں پنہاں ہےاور ہم کس جانب رواں دواں ہیں یہ بات اٹل ہے کہ جسے اللہ ملا انہیں سب کچھ ملا اور جسے اللہ نہ ملا اُسے کچھ نہ ملا۔
سلطان محمود غزنوی رحمہ اللہ کا واقعہ تو سنا ہوگا کہ وزرا ہیرے کی قدر تو جانتے تھے مگر سلطان کے حکم کی اُسے کوئی پرواہ نہ تھی لیکن ایاز ان میں ایسا وزیر تھاکہ بادشاہ کے حکم کے سامنے ہیرے کی کوئی قدر نہ تھی آج کل ہم بھی کچھ یوں چل رہے ہیں کہ اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کی قدر و منزلت تو ہماری نظروں میں ہے لیکن اللہ کے احکام کی کوئی پرواہ نہیں یہ بات اٹل ہے کہ تمام رشتے تمام رونقیں تمام لذتیں فناءہوجائیں گی لیکن ایک اللہ کی ذات ہوگی جو باقی رہے گی ایک اللہ کی محبت باقی رہےگی، ہم پریشان حال ہیں اور اپنی پریشانیوں کا حل ڈھونڈتے ہیں ہر پریشانی کا حل اللہ کے پاس ہے اللہ کو پالو اللہ کو اپنا بنالو سب پریشانیاں حل ہو جائیں گی ہر مقصد پورا ہوگا۔
بڑے دکھ اور تعجب کی بات ہے کہ مسلمان ہوکر بھی ہم ذلیل ورسوا ہیں بے چین ہیں پریشان حال ہیں بے اطمینان ہیں خوف وخطر اور فقروفاقہ اور تنگدستی میں مبتلا ہیں معیشت ہماری خراب ہے اولاد ہماری نافرمان ہے کفار کے ہاتھوں ہم مظلوم ہیں زمین ہم پر تنگ ہے امن وسکون ہم سے رخصت ہے کام ہمارے بگڑرہے ہیں بے سہارا ہم ہیں قتل وغارت کا بازار ہمارے ہاں گرم ہیں فتنے پھوٹ رہے ہیں انفرادی اجتماعی مسائل کا شکار ہیں گھریلو مسائل الگ ہیں رزق وکاروبار میں برکت نہیں ہے بیماریاں ہمارے ہاں زوروں پر ہیں غرض سینکڑوں مسائل کے شکار ہو چکے ہیں۔
ہم ان تمام مسائل کے حل کے تلاش میں ہیں لیکن کوئی حل نہیں نکلتا مسلمان بدستور پریشان ہوتے جارہے ہیں کوئی کمی نہیں ہورہی ہاں مسائل دن بدن زیادہ ہورہے ہیں تو کیا کیا جائے کوئی حل تو ہوگا اور ایسا کوئی بندہ نہیں ہوگا جو اپنی پریشانیوں کا حل نہ چاہتا ہوگا لیکن حل کرے تو کیسے حل کرے کوئی راستہ تو ہو۔ لیکن دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ اول تو معلوم نہیں لیکن جس کو معلوم ہوا تو وہ اس میں سنجیدہ نہیں یاتو ایمانی پیمانہ اتنا کمزور اور ضعیف ہوگیا کہ اسے اعتماداور اطمینان نہیں کہ اس طریقے سے ہمارے مسائل حل ہونگے۔ ہاں کوئی مانے یانہ مانے کوئی تسلیم کرے یانہ کرے لیکن یہ حقیقت ہے کہ دلوں کاچین و اطمینان اللہ کے ساتھ تعلق میں ہے۔ دنیا وآخرت کا سکون اللہ کے ساتھ دوستی میں ہے اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنے سے سکون ہی سکون ملے گا کھانے میں مزاآئے گا نیند میں راحت محسوس ہوگی اپنوں کیساتھ محبت میں اضافہ ہوگا مال کمانے اور خرچ کرنے میں خوشی محسوس ہوگی غرض زندگی کا ہر شعبہ صحیح ڈگر پر آ ئے گا پوری پٹری صحیح ہوگی اور زندگی کی ریل گاڑی اپنی منزل کی جانب صحیح وسلامت رواں دواں ہوگی”الا بذکراللہ تطمئن القلوب“ خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہوجاتا ہے۔
ماضی میں مسلمانوں میں ایک خوبی موجود تھی کہ جتنے زیادہ ایک جگہ جمع ہوتے تھے اتنے ہی خوش ہوتے تھے ا ور آپس میں ایک دوسرے کے ہمدرد بھی رہتے تھے خود بھوک کی حالت میں گزارتے لیکن اپنے پڑوسی کو کھلاتے آج حالت اسکے برعکس ہوگئی ہے۔مسلمان ایک دوسرے کے قریب بھی نہیں ہورہے ایک دوسرے سے دوربھاگ رہے ہیں جب ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں تو رحمت کے بجائے ایک دوسرے کیلئے زحمت بن جاتے ہیں کوئی امریکہ بھاگ رہا ہے تو کوئی برطانیہ اور فرانس۔اور کہتے ہیں اس سے تو وہاں اچھے ہیں حالانکہ یہ ذلت کی وجہ ہے اور ایک جگہ جب جمع ہوتے ہیں تو آپس میں ہمدرد ی کے بجائے ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں ایک دوسرے کی غیبت، چغلی،بغض،حسد،کینہ،ناچاقی،اور بدگمانی شروع ہوجاتی ہے۔نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ مسلمان آپس میں دست و گریبان ہوجاتے ہیں پھراغیار کے ہاں بھی قدر ومنزلت نہیں رہتی تو ذلیل ورسوا ہوتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابرے گمانوں سے بچو کیونکہ گمان جھوٹی بات ہے(بخاری)حضرت ابوسعید اور جابر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا غیبت زنا سے بھی بڑا گناہ ہے(شعب الایمان)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان کی غیبت کبھی بھی نہ کرو اور مسلمان کی عیب کو تلاش بھی نہ کرو
(سنن ابی داود)
بے چینی اور پریشانی کا حل کیا ہے؟
سورةبقرہ میں ہے۔سو تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کیا کروں گا اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا۔
اب دیکھا جائے کہ آج یہ بے چینی اور پریشانی بے اطمینانی کیوں ہے تواس کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم نے اپنے خالق و مالک سے منہ موڑ لیا ہے بس ہر کوئی غرور وکبر میں مبتلا ہوگیا ہے اللہ کویاد ہی نہیں کرتے۔ حالانکہ اگر اللہ کو ہم یاد کرتے تو وہ بھی ہمیں یاد کرتااور جسے اللہ یاد رکھے تو وہ بے چین پریشان ،بے اطمینان کیوں ہوگا حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے غارثور میں گھبراہٹ بے چینی بے اطمینانی اور پریشانی کا ذکر کیا تو جواب میں میرے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”لاتحزن ان اللہ معنا“کہ غم نہ کرو خد اہمارے ساتھ ہے۔ اللہ کو یاد کرو گے تو اللہ تمہیں یاد کرے گا پھر دنیا کی کوئی طاقت صاحب ذکر آدمی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔کتنا بڑا ظلم ہے کہ دن تو کیا پوراپورا مہینہ اور سالوں گزرجاتے ہیں ہم اللہ کو یاد ہی نہیں کرتے ظاہر ہے کہ پھر بے چینی اور پریشانی تو ہوگی۔
ہمارے بزرگوں نے بہت بہترین طریقہ بتایا ہے صبح وشام مسنون دعاؤں کے ساتھ ساتھ صبح وشام تین تسبیحات کا معمول بنالیا جائے تیسرا کلمہ100مرتبہ درودشریف سو100مرتبہ اور استغفار سو100مرتبہ ورد کیا جائے ذکر کے جو برکات ہیں اور ذکر سے جو ثواب ملے گا اس معمول سے وہ بندہ انہی میں شمار ہوگاتیسرے کلمہ کے فضائل وفوائد بہت زیادہ ہیں۔ درود شریف کے پڑھنے والے پر اللہ کی خصوصی رحمتیں ہوتی ہیں جہاں استغفار کی کثرت ہوتی ہو وہاں عذاب نہیں ہوتا اور ان کے مال اولاد میں برکت ہوتی ہے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کا بھی یہی معمول تھا کہ ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے۔
خوف وخطرنے آج کے مسلمانوں کو ہرطرف سے گھیر رکھا ہے وہ تو صحابہ تھے کہ شیر کو کان سے پکڑکر بھگاتے تھےجنگل کے جانوروں کو وارننگ دیتے تھے تو جنگل چھوڑ جاتے تھے کفار کو تنبیہ کرتے تو کیا مجال تھی کہ وہ ایک قدم بھی آگے بڑھ پاتے جس راستے سے وہ گزرجاتے وہاں سے شیطان نہ گزر سکتا تھاسنسان جنگلوں ویران وادیوں میں اکیلے رات گزارتے نہ کوئی خوف ہوتا تھا اور نہ خطرہ۔ وجہ یہ تھی کہ وہ صرف ایک اللہ سے ڈرتے تھے اس لئے ان کو اور مخلوق سے نہ ڈر تھا نہ خطرہ۔جو اللہ سے ڈرتا ہے اس سے تمام مخلوق ڈرتی ہے اور جو اللہ سے نہیں ڈرتا اس کو ہر چیز سے ڈر لگتا ہےلہٰذااللہ سے ڈرو انہوں نے جس چیز سے منع کیا ہے ان سے دور ر ہو اور جس چیز کا حکم دیا ہے انہیں بجا لاؤ۔
سورۃ توبہ میں ہے:اور جان رکھو کہ خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
آج معاشرے کو دیکھا جائے تو جتنا ایک بندہ فقروفاقہ اور تنگدستی سے ڈرتا ہے اتنا کسی چیز سے بھی نہیں ڈرتا اگر اتنا خوف رزق کے بجائے رازق سے کیا جائے تو ہماری تنگدستی فقرفاقہ بہت دور چلا جائے گا۔سورہ الطلاق میں ہے کہ’’اور جوکوئی خدا سے ڈرے گا وہ اس کیلئے (رنج ومحن سے ) مخلصی(کی صورت )پیدا کردے گااور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیگاجہاں سے (وہم و)گمان بھی نہ ہو(جالندھری ؒ)الحبائک فی اخبارالملائک جس کا ترجمہ فرشتوں کے عجیب حالات کے نام سے کیا گیاہے اس میں لکھا ہے کہ اللہ کے بعد انسان کے موت کا علم مخلوق میں سب سے پہلے رزق کے فرشتے کو ہوتا ہے کیونکہ ان کو بتایا جاتا ہے کہ فلاں بندے کا شام سے رزق بند ہے کیونکہ اس کا وقت ظہر کو پورا ہوگا تو لہذا اسکے شام کے رزق کا بندوبست نہ کرنا۔ اس لئے جب تک بندہ زندہ ہے رازق اس کو رزق دے گا اس لئے رزق کی فکر مت کریں رازق کو راضی کریں۔ایک طویل حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے حق تعالی شانہ پانچ طرح سے اس کا اکرام واعزاز فرماتے ہیں ایک یہ کہ اس پر سے رزق کی تنگی ہٹا دی جاتی ہےآخر تک۔(بحوالہ فضائل نماز)
اللہ اپنے دوست مقربین بندوں کی ہی نہیں بلکہ ان کی آل واولادکے رزق اور مال کی بھی حفاظت فرماتے ہیں جیساکہ دو یتیموں کا قصہ سورہ کہف میں مذکور ہے کہ ان کے خزانے کی حفاظت اسلئے کی گئی کہ ان کے والدنیک صالح آدمی تھے ”
وکان ابو ھما صالحا
(سورہ کہف)
رزق کے معاملے کے علاو ہ ہماری مسلمانوں کی اجتماعی معیشت کا کیا حال ہے وہ ہر مسلمان جانتا ہےدیکھاجائے تو امت مسلمہ کی معیشت کا برا حال ہے چاہئے تھاکہ اس دلدل سے نکل جاتے لیکن دن بدن پھنستے جا رہے ہیں اور پھر افسوس کی حد یہ ہوگئی کہ جو صورت نکلنے کا ہے خلاصی کا ہے معیشت کی بہتری کا ہے اس کو اختیار کرنے کے بجائے اس پر عمل پیراہیں جو سنگین ہے اغیار سے قرضے لیتے ہیں پھر اس کی مد میں سود بھی لگتا ہے کبھی کبھی نوبت بھیک کی بھی آجاتی ہے اب جو بھیک مانگتا ہے اللہ اس کو اور بھی محتاج بناتے ہیں اور سود کا معاملہ تو کسی سے اخفاءنہیں کہ سود سے مال گٹتا ہے اور اپنے خالق ،مالک ورازق سے جنگ کرناہے اب یہ صورت رہےگی توکس بناءپر ہماری معیشت درست ہوسکتی ہے ظاہرہے کہ حالات دن بدن ابتر ہوتے چلے جائیں گے مسائل مزید سنگین ہونگے،حالانکہ معیشت کا مضبوط ہونامسلمانوں کے لئے بہت ضروری ہے جبکہ وہ ایمان اخلاص بھی نہیں کہ پیٹ پر پتھر باندھے جائیں ایک دو وقت کا کھانا نہ ملے تو ہماری برداشت پھر ناقابل برداشت ہوجاتی ہے بعض مواقع پر یہی فقر بندے کو کفر پر لے جاتی ہے اس لئے امت کو فقر سے پناہ کی تلقین کی گئی ہے یہ اتنا اہم مسئلہ ہے ،اب اگر یہ اتنا اہم ہے تو کیاکیا جائے کون سی صورت اپنا لی جائے جواب یہی بلکہ صرف یہی جواب ملے گا کہ شریعت کے اصولوں کے مطابق ضروری اور رائج شدہ ذرائعوں کو اختیارکرنے کے ساتھ ساتھ رازق سے دوستی کرنی پڑےگی جو ہمارا رب ہے جو ہمیں ماں کے پیٹ میں بھی کھلاتے ہیں اور جو دنیا میں بھی ہماری معیشت کو سنبھالنے والا ہے اور جو عالم آخرت میں بھی ہماری بہترین مہمان نوازی کرینگے ،اوراگر اللہ سے منہ موڑا اس کی دوستی سے اعراض کیا تو معاملہ بگڑتا چلا جائےگا ،سورہ طٰہٰ میں ہے کہ”
ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکاونحشرہ یوم القیامةاعمیٰ
“اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گااس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔
یہ بہت بڑی ناگہانی پریشانی ہے اس شخص کیلئے جس کی اولاد نافر مان ہو اولاد بہت بڑی نعمت ہے لیکن اگر نافرمان ہوگئی تو بہت بڑی مصیبت ہے اولاد نافرمان کیوں ہوتی ہے اس جواب کے تقریبا ً تمام والدین متلاشی ہوتے ہیں ،ہم اگر اللہ کے نافرمان رہیں گے تو اولاد ہماری نافرمان رہےگی ،ہم اولاد سے شکوہ رکھتے ہیں کہ انہوں نے میری یہ بات نہیں مانی حالانکہ ہم اللہ کے بندے ہوکر اس کی کتنی نافرمانیاں کرتے ہیں نماز کی مثال لیجئے پہلے تو پڑھتے نہیں اگر پڑھتے ہیں تو اپنی مرضی کے اوقات میں پڑھتے ہیں اذان ہوگئی لیکن جماعت کی فکر نہیں اس طرح بقایا احکام کو بھی دیکھ لیں اگر چاہتے ہو کہ اولاد نافرمان نہ ہو تو اللہ کی نافرمانی نہ کرو۔ اگر اولاد دینے والا اللہ ہے تو فرماں بردار بنانے والا بھی اللہ ہے اس لئے اللہ کے فرماں بردار بن جاؤ اولاد تمہاری فرماں بردار بن جائیگی۔ سورۃ مریم میں حضرت یحیی علیہ السلام کی پرہیزگاری کاذکر ہواہے کہ”پھر وہ (عبادت کے) حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام (خدا کو)یاد کرتے رہو۔ اے یحیی (ہماری )کتاب کو زور سے پکڑے رہو،اور ہم نے ان کو لڑکپن ہی میں دانائی عطافرمائی تھی ،اور اپنے پاس سے شفقت اور پاکیزگی دی تھی اوروہ پرہیزگار تھے۔ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کر نے والے تھے اور سرکش اور نافرمان نہیں تھے۔
مسلمان کفار کے ہاتھوں مظلوم کیوں ہیں؟
جب مسلمانوں کی توجہ اللہ سے ہٹ جا تی ہے اپنی مرضی کی جیتے ہیں تو یہ حالات آتے ہیں کفار اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور زمین اس پر تنگ کر دیجاتی ہے۔سورہ توبہ میں ہے کہ ”اور (جنگ)حنین کے دن جبکہ تم کو اپنی (جماعت کی)کثرت پر غرہ تھاتو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی،اور زمین باوجود (اتنی بڑی)فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی،پھر تم پیٹھ پھیر کر پھر گئے۔
یہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ معاملہ تھا ہماری حیثیت تو بہت ہی کم ہے بلکہ ہمارا حال تو بہت برا ہے۔اس لئے اللہ سے تعلق جوڑنے میں مسلمان پھر سے عروج کا وقت دیکھ سکیں گے۔
امن وسکون چاہئے تو اس کو کیسے پائیں گے؟تو اس کا جواب قرآن سے پوچھتے ہیں۔ سورہ ابراھیم میں ابراھیم علیہ السلام کی دعامذکور ہے کہ ”اور جب ابراھیم نے دعا کی کہ میرے پروردگار اس شہر کو(لوگوں کیلئے)امن کی جگہ بنادے۔اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھ۔
بڑا صاف اور واضح اشارہ ہے وہ یوں کہ پہلے امن کی دعا مانگی گئی پھر اس کے بعد اس چیز سے پناہ مانگی گئی کہ اللہ سے تعلق کٹ جائے یعنی امن چاہتے ہو تو اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا۔سکون کا معاملہ بھی ایسے ہی ہے ،جنگ حنین میں جب کفار کی طرف سے ہزیمت کا سامنا کرناپڑا تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رجوع الی اللہ کیا ،جب اللہ کی طرف توجہ کی پھر کیا ہوا اس کے بارے میں قرآن مجید سورہ توبہمیں ہے کہ”پھر خدا نے اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی۔
آج اگر دیکھا جائے تو حالات ہمارے خلاف چل رہے ہیں ہمارے کام بگڑ رہے ہیں چاہے وہ جیسے بھی کام ہو چھوٹے ہو بڑے ہوںبالکل برعکس حالات ہے کوئی کام شروع کریں تو پایہ تکمیل کو پہنچنے سے پہلے ہی ادھورے رہ جاتے ہیں،پرانے زمانے میں جب کسی کا گھوڑا یا اونٹ نافرما ن ہوتا تھا تو فورا اعمال کی طرف متوجہ ہوتے تھے کہ اللہ سے شاید بے رخی ہو گئی ہے اعمال میں کوئی کمی ہو گئی ہے اللہ کی یاد سے غفلت ہو گئی ہے تو وہ لو گ اللہ سے دوستی کی تجدید کرتے تھے اُس تعلق میں کمی کو پورا کرتے تھے کسی کا گدھا راستے میں مرجاتا تو فورا اللہ کو یاد کرکے اللہ سے مانگتے تھے اس کی مانگ اوراس کی دوستی بھی ایسے نہ تھی جیسے ہماری دوستی ہے کہ اللہ کی یاد سے اعراض ہے لیکن جب ضرورت پڑ گئی تو اللہ کو یاد کیا ایسے میں وہ فریاد قبول نہیں ہوتی توہم اُلٹاشکوہ بھی اللہ سے کرتے ہیں کہ اللہ تو ہمارا سنتا ہی نہیں ہماری فریاد ودعاؤں کو قبول بھی نہیں کرتا ،حالانکہ سوچ اور فکر کی بات ہے کہ مہینے اور سالوں سال کے بعد جب کوئی بندہ ضرورت کے وقت اتنے عرصے کے بعد اللہ کو یاد کرتا ہے تو فرشتے تو کہینگے کہ یہ آواز تواجنبی بندے کی ہے کہ اس سے پہلے سننے میں نہیں آئی تو وہ ایسی غیر جانی پہچانی آواز کو کیا توجہ دیں گے؟
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ کو صبح وشام یاد کیا جائے اُسے پکارا جائے اعمال کا اہتمام کیا جائے احکام خداوندی اور اطاعت خداوند ی میں کوئی کوتاہی نہ کی جائے اللہ سے تعلق مضبوط کیا جائے تا کہ جو فرشتے اللہ نے بندوں کی دعاؤں پر مقررکیے ہیں ان سے جان پہچان ہوجائے اور اللہ کی نظروں میں محبوب بن جائیں تو ایسے میں ہماری فریاد کو سنا بھی جائےگاتوجہ بھی دی جائے گی اور اس فریاد وپکار کو قبولیت دیکر ضروریات کو پورا بھی کیا جائے گا تو پھر ہم اپنے بگڑے ہوئے کام کو بھی صحیح کر سکتے ہیں حالات ہمارے لئے سازگار ہوجائیں گے ہمارے کام و منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ پائینگے بارشیں وقت پر ہوں گی کوئی پریشانی نہیں ہوگی ٹینشن ختم ہوجائیں گے۔خوشحالی ہوگی۔ پھر مسلمان یوں بے سہارا نہیں ہوں گے۔
مسلمان جب اللہ سے کٹ جاتا ہے تو دل کالا پڑ جاتا ہے سفاکی انتہاءکو پہنچ جاتی ہے ظلم عام ہو جاتا ہے رحم کا مادہ ہی ختم ہوجاتا ہے جب رحیم سے واسطہ ختم ہوتا ہے نرمی کا دوردور تک نام ونشان ہی نہیں رہتا لوگ سخت دل ہوجاتے ہیں دوسروں کاغم وتڑپ ختم ہوتاہے مسلمان دوسرے مسلمان کے خون کا پیاسا ہوجاتا ہے بات بات پر لڑائی جھگڑے عام ہوجاتے ہیں مسلمان مسلمان کیلئے درندہ بن جاتا ہے اس کا خون ان کیلئے انتہائی سستا پڑتا ہے پھر قتل وغارت کا بازار یوں گرم ہوجاتاہے کہ جیسے یہ بہت بڑا حق ادا کر رہے ہوں مسلمان کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے اللہ کے غصہ وقہر کو دعوت دیجاتی ہے حالانکہ مسلمان کا تو شیوہ یہ تھا کہ چیونٹی کو روندنے سے اجتناب وپرہیز کرتے ہیں،قتل وغارت کا عام ہوجانایہ فساد کی بہت بڑی نشانی ہے ،بے چینی ، امن وسکون اس سے رخصت ہوتا ہے اس کا حل کیا ہے؟
یہ کہ لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیجائے لوگون کو اللہ سے جوڑا جائے جب لوگ اللہ سے جڑجائیں گے تو یہ غرور وکبر یہ اناپرستی ختم ہوگی پھر مسلمان مسلمان کیلئے نرم ہوگا خیرخواہ ہوگا مومن مسلمان کی نشانی یہی ہے کہ امن وسلامتی والے ہونگے،مسلمان دوسرے مسلمان کے سامنے اپنے آپ کو حقیر سمجھے ذلیل سمجھے نرمی کرے اور کافر پر رعب اور دبدبہ جمائے
”اذلةعلی المومنین اعزة علی الکفرین
(المائدة)
آج جب مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ پرامن نہیں رہ سکتاتو کفار تو بدرجہ اولی ان کے ساتھ سختی والا معاملہ کریگا اس لئے مسلمان آپس میں نرم رویہ اور بہترین تعلقات رکھے اللہ کے احکام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو مضبوطی سے تھامیں رکھیں اللہ کےقرب ومحبت اور اس کی یاد سے ہمیشہ دل منور رکھیں کہ اس سے دل منور اور امت مسلمہ کی اصلاح ہوتی ہے پھر نہ تو قتل وغارت ہوگی اورنہ فتنہ وفساد ہوگا۔
اس کی ایک بہت بڑی مثال ہم لوگ مکہ مکرمہ کی لے سکتے ہیں جو امن کا شہر ہے جو امن کا گہوارہ ہے جو امن کا نمونہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے جس کی نظیر پوری دنیا میں نہیں ملتی اور اس کے بعد دوسرا مقدس شہر مدینہ منورہ ہے ان دونوں شہروں میں شروفساد وفتنہ کے سربراہ دجال ملعون بھی داخل نہ ہوسکے گا ان دونوں شہروں میں امن وامان کیوں ہے؟اس لئے کہ وہاں ہمیشہ اللہ اللہ کی صدائیں گو نجتی ہیں اللہ کی یاد سے دل منورہیں زبان تر ہے انسان معطر ہے اللہ سے ہمیشہ ربط ہے اسی بناء پر وہاں قتل وقتا ل اور فتنہ وفسادنہیں یہ دونوں مثالی شہر ہیں اس کی تائیدوہ دعا کرتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر اور مکہ مکرمہ کو آباد کرتے ہوئے مانگی تھی۔
سورہ ابراہیم میں ہے”اور جب ابراہیم نے دعاکی کہ میرے پروردگاراس شہر کو(لوگوں کیلئے)امن کی جگہ بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھ۔اے پروردگار انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے سو جس شخص نے میرا کہا مانا وہ میرا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو تو بخشنے والا مہربان ہے اے پروردگار میں نے اپنی اولاد میدا ن(مکہ)میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت (وادب )والے گھر کے پاس لابسائی ہے اے پروردگار تاکہ یہ نمازپڑھیں تو لوگوں کے دلوں کوایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں اور ان کو میوؤں سے روزی دے تاکہ(تیرا)شکر کریں“۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ کا قرب اور اس کی یاد ہوگی تو امن وامان ہوگا اور اگر اس کی یاد سے غفلت اور لاپرواہی ہوگی تو فتنہ وفساد اور قتل وغارت ہوگی۔ مطلب ومقصود یہ ہے کہ امت مسلمہ کے جتنے بھی مسائل ہیں انفرادی ہیں یا اجتماعی گھریلوہیں یا معاشرتی،صحت،و رزق وکاروبارہیں یاامن وامان کا مسئلہ وغیرہ تمام مسائل چاہے وہ دنیاہو یا آخرت تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ
”ادخلو افی السلم کافة“
یعنی اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔
اب تک جو مسائل اور ان کے حل ذکر کئے وہ صرف مثال دینے کیلئے اور چونکہ ان مسائل سے مسلمانوں کو عام سامنا بھی ہے اس لئے بھی ذکر کئے ورنہ دونوں جہاں کے تمام مسائل کا حل اس میں ہے کہ اللہ کے احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرز زندگی کو اپنے اکابر علماء سے سیکھ کر مر نے سے پہلے پہلے اپنائی جائیں اسی میں کامیابی بھی ہے اور یہ” کامیابی کا راز“ بھی ہے۔
اکابر علماءجو اس دارفانی سے رخصت ہوگئے ہیں۔جیسے امام اعظم امام ابو حنیفہؒ سے لے کر مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مولانا محمدزکریاکاندھلوی ؒتک کی کتابوں کو پڑھ کر قرآن وسنت اورآثار صحابہ ؓ کی اہمیت اوراصول سیکھ سکتے ہیں۔ اورموجودہ دور میں جو علماءحیات ہیں ان کے ملفوظات سے براہ راست ہم مستفید ہو سکتے ہیں ان کے حلقہ دروس میں علم کے جواہر اور تبلیغی مراکزوخانقاہوں میں ان کے سامنے دوزانوں ہوکر اپنی اصلاح کرسکتے ہیں دلوں کو اللہ کی یاد سے منور اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر عمل کرکے زندگی کو معطر کرسکتے ہیں۔
اللہ کے احکام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر عمل کرنے سے دنیاوآخرت کی فلاح ہے،ایک عجیب کیفیت ہے کہ جب کوئی انسان کسی چیز کو چکھتا نہیں تو انہیں اس کا ذائقہ معلوم نہیں ہوتا،جس نے شہدکا ذائقہ چکا نہیں انہیں شہد کی مٹھاس کیا معلوم ہو۔
یہی مثال اسلام کی لے لیں کہ جس نے نماز کی خشوع کو کبھی محسوس نہیں کیا انہیں کیا اندازہ ہو۔ جنہوں نے رمضان کے روزوں کی حقیقت کو نہیں جانا،جو زکوة کے اسرار وحکم سے نابلد ہو وہ زکوة کی ادائیگی میں کیا فرحت وخوشی محسوس کریگا،جو حرم شریف کے تقدس سے بے خبر ہو وہ کیا جانیں حرم کی فضاؤں کو۔
جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ناواقف اور بے علم ہو وہ درود شریف کے پڑھنے میں کیا مزہ پائے گا۔جس نے مسلمان کو معاف کرنانہ سیکھا ہو وہ اخلاق کے باب کو کیا سمجھے جس کو ہمیشہ اپنے نام ونمودکی فکرہو وہ اخلاص کے اسرار ورموز سے کیا خبر رکھتاہوگا وہ اخلاص کی مٹھاس کیا جانتا ہو گا۔جس کے دن رات گانے بجانے میں گزرے اس کو قرآن کی تلاوت میں کیا مزہ آئےگا جس کی آئیڈئل شخصیت بروسلی ، ٹنڈولکر یا اوباما ہو اُنہیں ڈاڑھی کی قدر وقیمت کیا معلوم ہوگی؟
ہاں جنہیں ایک سجدے کی لذ ت مل گئی جس نے اللہ کے راستے میں تکالیف اٹھائیں ،جس کو اخلاص کا پروانہ مل گیا ،جس کو اپنی زندگی کا مقصد معلوم ہوگیا جس کو اللہ کی محبت نے گھیر لیا ،جس کو میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت معلوم ہو گئی تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اللہ کا ہوگیا اور اللہ اس کا ہوگیا ،پھر جہاں وہ اکیلا ہوگا تو اللہ اس کے ساتھ دوسرا ہوگا ویسے تو ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن یہاں ساتھ ہونے سے مراد اللہ کی مدد ونصرت اور اس کا ساتھی وہمدرد ہونا مرادہے پھر وہ ویران جنگلوں وادیوں میں ہوگا تو اللہ ان کے ساتھ ہوگا۔
دنیا کے ہر موڑ پر ہر خوف وخطر میں اللہ ان کے ساتھ ہوگا ،سخت آندھی ، طوفان ہویا زلزلہ ،سیلاب ہو ،بھوک افلاس ہو یا پریشانی وغم ہو اس کا دل مطمئن ہوگا ”
فا ذ کرونی اذکرکم“اور”ان اللہ مع الصٰبرین
یہ بڑا عجیب تعلق ہے بڑ ا مضبوط واسطہ ہے ایک دفعہ یہ عزم کرلو کہ اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا پھر دیکھو وہ بھی حنان ذات ہے وفادار ذات ہے اگر کبھی بندہ اس سے روٹھنا چاہے تو اس کو روٹھنے نہیں دیتا۔
حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حق تعالی شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں بندہ کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہو ں جیسا کہ وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہو ں پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اگر وہ میرا مجمع میں ذکر کرتا ہے تو میں اس مجمع سے بہتر یعنی فرشتو ں کے مجمع میں (جو معصوم اور بے گناہ ہیں ) تذکرہ کرتا ہوں اورا گر بندہ میری طرف ایک بالشت متوجہ ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ ادھر متوجہ ہو تا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کرآتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑکر چلتا ہوں۔ (احمد،بخاری،مسلم ،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ بحوالہ فضائل ذکر باب اول)
بس اللہ کے بن جائیں دنیاوآخرت کی فلاح اسی میں پوشیدہ ہے اللہ کے احکام بجا لائیں خاتم الانبیا ء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو اپنائیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرز زندگی کو اپنامشغلہ اوڑھنا بچھونااور یہی شیوہ بنائیں علماءحق اہل السنت والجماعت کے سامنے دوزانو ہوکر دین اسلام کو سیکھیں۔ رب ذوالجلال وجبار ،رحمن وعزیزاور اس اللہ کی قسم جو تمام انبیاءوصحابہ اور تمام کائنات کا خالق ومالک ہے کہ دونوں جہانوں میں کا میاب ہوں گے۔