بس ……دیکھ لیا پاکستان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بس ……دیکھ لیا پاکستان
مولانا امان اللہ حنفی
ریاض نے خوشی خوشی اپنے موبائل فون پر نمبر ڈائل کئے۔ تھوڑی دیر بعد
السلام علیکم۔۔۔۔ اشفاق! کیا حال ہے ؟
وعلیکم السلام۔۔۔۔ ۔۔ اللہ کا شکر ہے۔ تم سناؤ!
اشفاق بھائی! میں بہت خوش ہوں کہ ابو مان گئے ہیں۔ میں نے پاکستان جانے کی مکمل تیاری کر لی ہے اور میرے والد صاحب بھی میرے ساتھ ہی جائیں گے کیونکہ جب میں نے والد صاحب کوپہلے کہا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ جب آپ میٹرک میں Aگریڈ کے نمبر لیں گے تو پا کستان لے کر جاؤں گا۔ میں نے ان کی خواہش کو پورا کر دکھایا ہے۔ ریاض یہ سب کچھ ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا وہ خوشی میں بے قابو ہوا جا رہا تھا۔
ریا ض انڈیا میں رہتے ہوئے ہر وقت پاکستا ن کے بارے میں سوچتا رہتا کہ وہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے۔ جس کی بنیاد ہی یہ تھی کہ انگریزوں کے تسلط سے آزادی حاصل کر کے مسلمانوں کا اپنا الگ ملک ہونا چاہئے جس میں رہتے ہوئے وہ اسلامی نظام رائج کرکے شریعت پر عمل پیرا ہوں۔ ریاض یہ باتیں کبھی کبھی اپنے دوست اشفاق سے بھی کرتا تھا کہ پاکستان میں سب مسلمان ہوں گے۔ وہاں اسلامی نظام لوگوں کی عادت اور کلچر بن چکا ہوگا اسی وجہ سے پاکستان کے مسلمانوں کیلئے شریعت پر عمل کرنامشکل کام نہ ہوگا۔
مسلمان ہونے کی وجہ سے وہاں کی مستورات بھی کتنی خوش قسمتی سے گھروں میں رہتی ہوں گی اور اگر کبھی گھر سےباہر نکلنے کی ضرورت بھی ہو تو خوب باپردہ نکلتی ہوں گی اور وہاں با پردہ عورت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہوگا اسلام میں بے پردگی کا تصور ہی نہیں ہوتا۔
ہاں اشفاق آپ کو میں یہ بھی بتاؤں کہ وہاں کے والدین اس لئے بھی خوش قسمت ہیں کہ اسلام میں والدین کے بہت حقوق ہیں اور بچے ان حقوق کی خوب پاسداری کرتے ہوں گے جس کی وجہ سے ان کے والدین بچوں سے خوب خوش ہوں گے بیٹیاں ماں باپ کی خوب خدمت کرتی ہوں گی اور مائیں اپنی اولادکی تربیت بھی اسلام کے مطابق کرتی ہوں گی۔
اشفاق یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان دیکھنے کا اتنا مشتاق تھا اورہاں اگر پاکستان میں کوئی ایسی ترتیب بن گئی کہ ہماری وہاں ایڈجسٹمنٹ ہو سکے تو ہم سب گھر والے پاکستان ہی چلے جائیں گے تاکہ ہم آزادی سے اسلام پر عمل کر یں۔ کیونکہ میری بہنیں پردہ کا بہت شوق رکھتی ہیں اور انڈیا میں رہتے ہوئے یہ کچھ نا کچھ مشکل لگتا ہے جبکہ پاکستان میں تو ماحول ہی پردہ کا ہوگا اس وجہ سے پاکستان میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہوگی۔
بس اشفاق آپ دعا کر نا ہم پاکستان پہنچ جائیں اور ویزہ آسانی سے مل جائے پھر تو مزہ ہی آجائے گا ہاں اشفاق پاکستان کی سیر گاہوں کا بھی عجیب ہی منظر ہوگا کہ اول تو مسلمان بچیاں سیرگاہوں پر جاتی ہی نہ ہوں گی اور اگر جاتی بھی ہوں گی تو ان کی سیر کیلئے باپردہ اور مردوں سے الگ انتظام ہوگا کہ بد نظری نہ ہو۔ تو اس ماحول میں سیر کرنے کا بھی الگ مزہ ہوگا آزادی سے سیر کریں گے کسی قسم کی فکر نہ ہوگی اور چوری کا تو امکان ہی پیدا نہ ہوگا کیونکہ اسلام نے مسلمانوں کے مال کے تحفظ پر بھی بہت زور دیا ہے جو چوری کرتا ہے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے تو اس حالت میں کوئی بھی انسان چوری کی ہمت نہیں کرتا جس کی وجہ سے مال کا تحفظ بھی رہتا ہے۔
اشفاق ہاں دوست اس حال میں تو میں آپ کیلئے ضرور دعا کروں گا کہ اللہ آپ کو اس پاک ماحول میں جلد لے جائے جہاں اسلام کی بہاریں ہوں گی۔
کچھ دنوں بعد ریاض کے والد صاحب نے بتایا بیٹا ہمارا ویزہ آگیا ہے اور ہم آج سےٹھیک 15دن بعد پاکستان جائیں گے اور سب سے پہلے پاکستان کے سب سے مشہور شہر لاہور جائیں گے پھر باقی شہروں کی سیر کریں گے بیٹا آپ نے جو تیاری کرنی جلد کر لو ہم پہلی مرتبہ پاکستان جارہے ہیں اور پاکستان میں 30دن کا قیام کریں گے۔
ریاض۔ ابو جی میں ایک کیمرہ اور ایک ڈائری لینا چاہتا ہوں کیمرے سے پاکستان کی قدیم اور جدید اشیاء اور مقامات کی تصاویر لوں گا اور ڈائری میں اپنی زندگی کی تاریخی لمحات کو قلم بند کروں گا۔اگلے ہی دن والد صاحب نے ریاض کو ایک عدد کیمرہ اور ڈائری لا کر دے دی اور ریاض تیاریوں میں لگا رہا اور جب تک تیاریاں مکمل نہ ہوئی تو روانگی کا دن بھی آگیا ریاض کی خوشی دیکھی نہ جارہی تھی وہ خوشی سے اچھل رہا تھا۔
خیر سفر شروع ہوا دونو ں باپ بیٹا باتیں کررہے تھے کہ ہم پہلے لاہور ہی میں ایک ہفتہ قیام کرنے کے بعد اسلام آباد کی طرف سفر کریں گے اور اس طرح مزید بڑے شہروں کی سیر کریں گے۔ریاض کا انتظار ختم ہوا اور وہ پاکستان کے شہرلاہور پہنچ گئے انہوں نے آنے سے پہلے ہی فون پر ایک ہوٹل میں اپنی رہائش کا انتظام کر لیا تھا۔
گاڑی سے اتر کر سامان کو ایک طرف رکھنے کے بعد دونوں باپ بیٹاٹیکسی لینے کیلئے ایک سمت میں چل پڑے۔ٹیکسی لے کر آئے تو ان کا سامان غائب تھا۔ ریاض اپنے ابو کےمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے ابو جی ہمارا سامان کہاں گیا؟ والد صاحب خود بھی پریشان تھے۔ٹیکسی ڈرائیور نے دیکھا دونوں باپ بیٹا پریشانی کی وجہ پوچھی تو ڈرائیور نے کہا چوری ہوگیا ہوگا، یہ سن کر ریاض کی آنکھوں سےآنسو آگئے اور ابو سے لپٹ کر بولا پاکستان میں بھی چوری۔ پھر وہ اپنی رہائش کی طرف گئےاور اگلے دن کا پروگرام ترتیب دینے لگے کہ کل ہم صبح لاہور کے چڑیا گھر جائیں گے پھر شام کو پاکستان کا کھیل دیکھنے قذافی سٹیڈیم جائیں گے اور رات کو جناح پارک کی سیر کریں گے۔
صبح 10بجے دونوں چڑیا گھر پہنچے تو ریاض کی چیخیں نکل گئی ابو جی اس جگہ توہر طرف بے پردگی ہے اور میں تو پاکستان کو اس نا م کی طرح پاک سمجھتا تھا اور اس کے بننے کے مقصد کو مدنظر رکھ کر میں نے سوچا تھا کہ پاکستان میں ہر طرف اسلام کی بہاریں ہوں گی پاکستان کی مائیں ،بہنیں با پردہ ہوں گی کیونکہ اس پاکستان کو بنانے میں پاکستان کی بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے وہ اس سیر گاہ کیلئے نہیں بلکہ اسلام پر عمل کرنے کی آزادی کی وجہ سے قربانیاں دی گئی تھیں۔
ریاض یہ کہتے ہوئے رورہا تھا اور کہہ رہا تھا ابو مجھے واپس لے چلو میں پاکستان نہیں رہتا میں واپس جانا چاہتا ہوں والد صاحب نے اسے تسلّی دی اور شام اور رات کے پروگرام پر عمل کرکے پھر مشورے کا کہا کہ رات کو بیٹھ کر مشورہ کریں گے۔شام کو سٹیڈیم میں گئے تو وہاں نوجوان لڑکوں کے ساتھ نوجوان لڑکیاں بھی کھیل رہی تھی جنہوں نے ہاف شرٹ ڈالی ہوئی تھی اور نقاب تو کیا سر پر دوپٹے کا بھی نام ونشان نہ تھا۔
ریاض نے یہ دیکھ کر اپنا کیمرہ زمین پر دے مارا اور ڈائری پھاڑتے ہوئے بولا پاکستان بنانے کا کیا فائدہ؟کیوں اتنی جانوں کی قربانی دی گئی تھی اگر یہی کچھ کرنا تھا تو انڈیا میں بھی ہورہا ہے اور برصغیر میں بھی ہوتا رہتا اپنے ابو کا بازو پکڑا اور کہا ابو مجھے جناح پارک لے چلو وہاں جاکر پارک میں بیٹھ کر کچھ چائے پیتے ہیں جب وہ جناح پارک پہنچے تو ابھی پارک میں پہنچے ہی تھے کہ ریاض نے دیکھا وہاں پر بھی ہر طرف بے حیائی ہی بے حیائی ہے۔اس سے رہا نہ گیا اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا : ابو! مجھے واپس لے چلو۔ مجھے واپس لے چلو۔ مجھے پاکستان بنتے وقت قربانیاں دینے والی مائیں ،بہنیں یاد آرہی ہے۔ مجھے واپس لے چلو۔بس دیکھ لیا پاکستان۔