بی بی زہراء بتول ……جگر گوشہ رسول

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بی بی زہراء بتول ……جگر گوشہ رسول
مولانا نجیب احمد قاسمی
ریاض ،سعودی عرب
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ولادت:
حضرت حسن وحضرت حسین رضی اللہ عنہماکی والدہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کی ولادت‘ بعثت نبوی سے تقریباً پانچ سال قبل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ولادت کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تقریباً35 سال تھی۔ اور یہ وہ وقت تھا جب کعبہ کی تعمیر نو ہورہی تھی۔ اسی تعمیر کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین تدبیر کے ساتھ حجر اسود کو اس کی جگہ رکھ کر باہمی جنگ کے بہت بڑے خطرے کو ٹالا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تدبیر نے عرب کے تمام قبائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت واحترام میں اضافہ کردیا تھا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد نرینہ کی وفات بالکل بچپن ہی میں ہوگئی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تینوں بیٹوں میں سے کوئی بھی بیٹا2۔3 سال سے زیادہ باحیات نہ رہ سکا۔ چاروں بیٹیوں میں سے بھی تین کی وفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ ہی میں ہوگئی تھی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں بیٹیوں میں سے کوئی بھی بیٹی30 سال سے زیادہ با حیات نہ رہ سکی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سالوں میں تو رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی توجہات ومحبت کا مرکز فطری طور پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بن گئی تھیں، یوں بھی وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی چہیتی بیٹی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں بیٹیاں مدینہ منورہ کے مشہور قبرستان (البقیع) میں مدفون ہیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تربیت:
حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے زیر سایہ تربیت اور پرورش پائی۔ ابھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا15 سال کی تھیں کہ ماں کی شفقت سے محروم ہوگئیں۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خصوصی تربیت فرمائی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آیا (مربیہ) حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ؛ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد نے بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تربیت اور پرورش میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بہنوں نے بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ہمہ وقت دل جوئی فرمائی۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺ کے مشابہ تھیں:
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جس وقت چلتیں تو آپ کی چال ڈھال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل مشابہ ہوتی تھی (صحیح مسلم) اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے اور عادات واطوار میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ نہیں دیکھا۔ (ترمذی) غرضیکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی چال ڈھال اور گفتگو وغیرہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک نمایاں نظر آتی تھی۔
رسول اللہ ﷺ کی خدمت:
حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا بچپن سے ہی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی خدمت کرتی تھیں۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں نماز پڑھ رہے تھے، قریش کے چند بدمعاشوں نے اونٹ کی اوجھڑی لاکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈال دی اور خوشی سے تالیاں پیٹنے لگے۔ کسی نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر دی تو وہ دوڑی دوڑی آئیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سے اوجھڑی کو اتار کر پھینکا۔
اسی طرح ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ کسی بدبخت نے مکان کی چھت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر گندگی پھینک دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں گھر تشریف لائے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ حالت دیکھی تو رونے لگیں اور پھر سر مبارک اور کپڑوں کو دھویا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نہ صرف عمومی حالات میں بلکہ سخت ترین حالات میں بھی نہایت دلیری اور ثابت قدمی سے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتی تھیں چنانچہ جنگ احد میں جب اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوگئے تھے اور پیشانی پر بھی زخم آئے تھے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا احد کے میدان پہنچیں اور اپنے والد محترم کے چہرے کو پانی سے دھویا اور خون صاف کیاغرضیکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد کی خدمت کا حق ادا کیا۔
مدینہ منورہ کو ہجرت:
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بچپن دین کے لئے تکلیفیں سہنے میں گزراحتی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی ایذاؤں سے بچنے کے لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رفیق سفر بناکر مدینہ منورہ کو ہجرت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال کو مکہ مکرمہ میں چھوڑ گئے تھے۔ کچھ مدت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل وعیال اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اہل وعیال کو مدینہ منورہ بلانے کا انتظام کیا۔ اس طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے والد کے پاس مدینہ منورہ ہجرت فرما گئیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح:
2؁ھ میں غزوۂ بدر کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابو طالب کے ساتھ کردیا۔ مسند احمد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ خود ان کی زبانی نقل کیا گیا ہے : جب میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں اپنے نکاح کا پیغام دینے کا ارادہ کیا تو میں نے (دل میں) کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ، پھر یہ کام کیونکر انجام پائے گا؟ لیکن اس کے بعد ہی دل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور نوازش کا خیال آگیا۔ لہذا میں نے حاضر خدمت ہوکر پیغام نکاح دے دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال فرمایا : تمہارے پاس (مہر میں دینے کے لئے) کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری زرہ (Shield) کہاں گئی؟ میں نے کہا: جی ہاں وہ تو موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو (فروخت کرکے مہر میں) دے دو۔
﴿وضاحت﴾اہل سیر ومؤرخین نے تحریر کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زرہ فروخت کی تھی جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے خریدی تھی لیکن بعد میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ زرہ بطور ِ ہدیہ واپس کردی تھی۔ اِس واقعہ سے مہر کی ادائیگی کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر کی ادائیگی کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پسندیدہ چیز کو فروخت کرادیا تھا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مہر :
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مہر کی مقدار کے متعلق چند روایات وارد ہوئی ہیں جن کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مہر 400 درہم سے 500 درہم کے درمیان تھا۔ درہم چاندی کا ایک سکہ ہوا کرتا تھا جو عموماً 2.975 گرام چاندی پر مشتمل ہوتا تھا۔ جس کو امت مسلمہ مہر فاطمی سے جانتی ہے۔
﴿وضاحت﴾: مہر عورت کا حق ہے، اس کو نکاح کے وقت متعین اور رخصتی سے قبل ادا کرنا چاہئے۔ مہر میں حسب استطاعت درمیانہ روی اختیار کرنی چاہئے نہ بہت کم اور نہ بہت زیادہ۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر قرآن کریم میں تقریباً 7 جگہوں پر مہر کا ذکر فرمایا ہے، لہذا ہمیں مہر ضرور ادا کرنا چاہئے۔ اگر ہم بڑی رقم مہر میں ادا نہیں کرسکتے ہیں اور لڑکی کے گھر والے مہر میں بڑی رقم متعین کرنے پر بضد ہیں جیساکہ ہمارے ملکوں میں عموماً ہوتا ہے،تو ہمیں حسب استطاعت کچھ نہ کچھ مہر ضرور نقد ادا کرنی چاہئے( اورباقی مؤجل طے کرلیں) جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زرہ فروخت کراکے مہر کی ادائیگی کرائی۔ آج ہم جہیز اور شادی کے اخراجات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لیکن مہر کی ادائیگی جو اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے اس سے کتراتے ہیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جہیز :
تمام روایات کو جمع کرنے کے بعد جنت میں ساری عورتوں کی سردار کا جہیز صرف چند چیزوں پر مشتمل تھا:
1: ایک چارپائی
2: ایک بچھونا
3: ایک چمڑے کا تکیہ) جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی(
4: ایک چکی (بعض روایات میں 2چکیوں کا تذکرہ ہے)
5: دو مشکیزے(جس کے ذریعہ کنوئیں وغیرہ سے پانی بھر کے لایا جاتا ہے(
﴿وضاحت﴾:حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ پیاری اور چہیتی صاحبزادی تھیں، ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی عورتوں کی سردار بتایا ہے، ان کی شادی کس سادگی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس کا تذکرہ کیا ، آپ خاموش رہیں جو رضامندی کی دلیل ہوا کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح کے پیغام کو قبول فرمالیا اور مہر متعین کرکے اسی وقت چند صحابۂ کرام کی موجودگی میں نکاح پڑھادیا۔ چند ماہ بعد سادگی کے ساتھ رخصتی ہوگئی۔ کتب حدیث وتاریخ میں مذکور ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو جہیز دیا تھا وہ درحقیقت اسی رقم سے خریدا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بطور مہر ادا کی تھی۔ اور جہیز بھی انتہائی مختصر تھا جس کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کسی سے ادھار لیا اور نہ اس کی فہرست لوگوں کو دکھائی اور نہ جہیز کی چیزوں کی تشہیر کی۔
آج بیشتر لوگ جہیز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں خواہ اس کے لئے کتنی بھی رقم ادھار لینی پڑے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہر شخص کسی نہ کسی حد تک اس میں مبتلا ہے جس کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ جہیز کی کثرت کی وجہ سے بے شمار لڑکے اور لڑکیاں شادی سے رکے رہتے ہیں اور سماج میں متعدد برائیاں پھیلنے کا سبب بھی جہیز ہے۔ لڑکے یا ان کے گھرانے کی طرف سے اب جہیز کے لئے متعین سامان یا پیسوں کا عموماً مطالبہ بھی ہونے لگا ہے، نیز جہیز دینے کے پیچھے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا جذبہ بھی کارفرما ہوتا ہے خواہ اس کے لئے ناجائز طریقوں سے مال حاصل کرکے ہی خرچ کرنا پڑے، جو جائز نہیں ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی:
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی صرف اس طرح ہوئی کہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دولہا کے گھر بھیج دیا۔ یہ دونوں جہاں میں سب سے افضل بشر کی صاحبزادی کی رخصتی تھی جس میں نہ دھوم دھام نہ پالکی اور نہ روپیوں کی بکھیر، نہ حضرت علیؓ گھوڑے پر سوار ہوئے، نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بارات چڑھائی، نہ آتش بازی کے ذریعے اپنا مال پھونکا۔ دونوں طرف سے سادگی سے کام لیا گیا، قرض ادھار لے کر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ آج ہم سب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کی اتباع اور اقتداء میں اپنی اور خاندان کی ذلت اور عار سمجھتے ہیں۔
ولیمہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوسرے روز (مختصر) اپنا ولیمہ کیا جس میں سادگی کے ساتھ جو میسر آیا کھلادیا۔ ولیمہ میں جو کی روٹی، کھجوریں، حریرہ ، پنیر اور گوشت تھا۔
(سیرت سرور کونین۔ مفتی محمد عاشق الہی مدنی ؒ(
کام کی تقسیم:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی خادم یا خادمہ نہیں تھی، اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان کام کو اس طرح تقسیم کردیا تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے اندر کے کام کیا کرتی تھیں مثلاً چکی سے آٹا پیسنا، آٹا گوندھنا، کھانا پکانا اور گھر کی صفائی وغیرہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر سے باہر کے کام انجام دیا کرتے تھے۔
(زاد المعاد(
تسبیح فاطمی:
ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ غلام اور باندیاں آئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مشورہ دیا کہ اس موقع پر تم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاکر ایک خادمہ کا مطالبہ کرو ، جو تمہاری گھریلو ضروریات میں تمہارے ساتھ تعاون کرسکے۔ چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اسی غرض سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ لوگ حاضر تھے ، اس لئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا واپس آگئیں۔ بعد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ بیٹی فاطمہ! تم اُس وقت مجھ سے کیا کہنا چاہتی تھیں؟ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تو حیا کی بنا پر خاموش رہیں، لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم! چکی پیسنے کی وجہ سے فاطمہ کے ہاتھوں میں چھالے اور مشکیزہ اٹھانے کی وجہ سے جسم پر نشان پڑ گئے ہیں۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ خادم ہیں تو میں نے ہی ان کو مشورہ دیا تھا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادم طلب کرلیں تاکہ اس مشقت سے بچ سکیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اے فاطمہ! کیا تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں جو تمہارے لئے خادم سے بہتر ہے۔ جب تم رات کو سونے لگو تو 33 مرتبہ سبحان اللّٰہ،33 مرتبہ الحمد للّٰہ اور34 مرتبہ اللّٰہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ (ابو داؤد ج2 ص 64) غرضیکہ آپ انے اپنی چہیتی بیٹی کو خادم یا خادمہ نہیں دی بلکہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے اس کا بہترین بدلہ یعنی تسبیحات عطا فرمائیں، ان تسبیحات کو امت مسلمہ تسبیح فاطمی کے نام سے جانتی ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعض فضائل ومناقب:
٭ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فاطمہ کے رنج سے مجھے رنج ہوتا ہے اور اس کی تکلیف سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔
(صحیح مسلم(
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے مل کر روانہ ہوتے تھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے تھے۔
(مشکوۃ شریف(
٭ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا کہ بے شک یہ فرشتہ ہے جوزمین پر آج کی اس رات سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا ، اپنے رب سے اجازت لے کر مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کے لئے آیا ہے کہ یقیناً حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور حضرت حسن وحضرت حسین رضی اللہ عنہما جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
(مشکوۃشریف(
وفات نبوی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا :
حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بہت شدید رنج ہوا تھا،چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے بعد انہوں نے خادم رسول حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایسی بات کہی تھی جس سے اُن کے دلی کرب وبے چینی کا اظہارہوتا ہے اور جو اُن کے دلی غم کی عکاسی کرتا ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اے انس! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر مٹی ڈالنا تم لوگوں نے کس طرح گوارا کرلیا۔
(مشکوۃشریف (
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ، تین بہنیں اور تمام چھوٹے بھائی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں ہی وفات پاگئے تھے۔ اور پھر آخر میں آپ کو بہت چاہنے والے باپ کی وفات ہوگئی، باپ کی وفات پر جتنا بھی رنج ہوا ہو ،کم ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال پر اگرچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے پورے صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ، لیکن پھر بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت مغموم رہا کرتی تھیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا صرف 6ماہ ہی باحیات رہ سکیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد:
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تین صاحبزادے حسن ، حسین اور محسن رضی اللہ عنہم اور دو صاحبزادیاں زینب اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما پیدا ہوئیں۔ حضرت محسن رضی اللہ عنہ کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے ذریعہ ان کے نانامحترم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلۂ نسب چلا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سے جو نسل چلی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل سمجھی گئی ورنہ قاعدہ یہ ہے کہ انسان کی نسل اس کے بیٹوں سے چلتی ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا چند روز کی علالت کے بعد3 رمضان المبارک 11 ہجری کو بعد نماز مغرب 29 سال کی عمر میں انتقال فرماگئیں اور عشاء کی نماز کے بعد دفن کر دی گئیں۔