وہ اسلام کا غدار ہے

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
وہ اسلام کا غدار ہے
حافظ سمیع اللہ طاہر، شیخوپورہ
اُف اللہ! آج یہ کیاہوا؟ جاگ ہی نہیں ہوئی۔ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے ارشد بولا۔ صبح کے سات7 بج چکے تھے، نماز فجر بھی قضاء گئی، اسکو ل سے بھی تاخیر ہو چکی تھی۔ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ارشد بستر سےتیزی سے نکلا اور سکول کی تیاری میں مگن ہوگیا۔
طارق یہ دیکھو شاہد!قاسم سے ارشد کا میسج آیا ہے کہ سٹاپ پر کھڑیں ہوں میں آناً فاناً آپ کے پاس آیا۔ پھر چلتے ہیں سکول۔ چاروں دوست سٹاپ پر کھڑے گاڑی کا انتظار کررہے تھے کہ اتنے میں پرویز آن پہنچا اب یہ اپنے بچپن کے دوست پرویز سے خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔
سر طاہر بھی اپنی گاڑی میں ان کے قریب سے بجلی کی طرح گزر گئے ، سر طاہر کے اسکول پہنچنے کے کچھ دیر بعد وہ چار دوست اسکول پہنچ گئے۔ اسکول میں اسمبلی جاری تھی کہ وہ چار دوست بھی قطاروں میں بت بن کر کھڑے ہوگئے۔ اسمبلی کے فوراً بعد سر طاہر نے بچوں اور تمام ٹیچرز کو مخاطب کرتے ہوئے لیکچر شروع کیا۔ پیارے بچو!آپ کو معلوم ہے کہ آج میں کس موضوع پر بات کرنا چاہتاہوں؟ سر طاہر بولے:
بچوں نے انکار میں جواب دیا۔
آج کچھ بچوں کی حرکات نے میرے دل پر خنجر کے وار کئے میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ مجھے افسوس اور دکھ ہور رہا ہے کہ ختم نبوت اور ہمارے ملک وملت کے دشمن مرزا غلام احمد قادیانی کے پیرو کار جو انگریز کی پیدار ہیں ہم ان کو اپنا دوست اور مہمان بنائیں ہم مسلمان وہ کافر غیر مسلم۔ یہ مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔ انہوں نے قادیانی عقائد سے آشنا کیا، قادیانیت کے دجل وفریب سے روشناس کرایا۔ اسلام وپاکستان کے بارے میں ان کی خطرناک سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔
قادیانیوں سے میل ملاقات، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا ، لین دین، شادی بیاہ، کاروبار وتجارت یہاں تک کے سلام دعا کرنا بھی بالکل حرام ہے، جو مسلمان؛ قادیانیوں کو اپنا دوست رکھتے ہیں ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوجاتے ہیں۔ اور جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوجائیں ان سے خالق کائنات اللہ جل جلالہ بھی ناراض ہوجاتے ہیں۔ جس سے اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوجائیں تو بتاؤ اس کا دنیا وآخرت میں کیا ٹھکانہ ہوگا؟سر طاہر نے جب یہ باتیں کی تو تمام بچے سن کر لرز گئے اور وہ چاروں دوست اپنے سابقہ افعال پر سخت نادم ہو کر اور شرم کے مارے ان کے سر جھکتے چلے گئے۔
تمام دوستوں نے منٹوں میں یہ فیصلہ کرتے ہوئے ” سر طاہر“ سے معافی مانگنے کی ٹھانی اب وہ چاروں دوست سر طاہر کے پاس سر جھکاتے ہوئے حاضرہوئے اور اپنے استاد محترم سےمعافی مانگی اور اٹل وعدہ کیا کہ آج کے بعد ہم پرویز لعنتی قادیانی سے ہرقسم کا تعلق ختم کرتے ہیں اور اس کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرتے ہیں۔ سب دوستوں نے یک زبان ہوکر سر طاہر کو اطمینان دلایا ،پھر انتہائی جاندار سوشل بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ جس سے قادیانی کا بچہ سٹپٹا اٹھا اس لعین قادیانی نے اپنے دوستوں سے کئی دفعہ ملاقات کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن اسے ہر دفعہ ایک ٹکا سا جواب ملتا۔
اس بات کو کئی مہینے بیت گئے قادیانی اب اداس اداس اور پریشان الو کی طرح رہنے لگا اسے دوستوں کی تنہائی کاٹنے لگی، دوستوں کی حسین محفلیں ان کی باتیں اور یادیں دل کو کاٹ رہی تھیں۔ آخر پھر اس قادیانی نے اپنے غلطیوں پر دھیان دیا اور توبہ تائب ہو کر ایک دن وہ خوشی خوشی سے جھومتا ہوا اپنے دوستوں کےپاس آیا ، جو ایک دوست کے ڈارئنگ روم میں خوش گپیوں میں مصروف تھے جب وہ اندر داخل ہوا تو ان سب کے چہرے سرخ ہوگئے اور غصے سے اسے دیکھتے ہی اپنے منہ پھیر لیے۔
وہ ہنس کر بولا میں آج آپ کو ایک خوشخبری سنانے آیا ہوں جسے سن کر تمہارے چہرے گلاب کی طرح کھل جائیں گے دل باغ باغ ہوجائیں گے۔ سب حیرت ناک نظروں سے اسے دیکھنے لگ گئے وہ یک لخت بولا کہ تم سب کو مبارک ہو کہ میں نے قادیانیت پر لعنت بھیج دی ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لاکر اسلام قبول کر چکا ہوں۔
سب دوست خوشی سے اچھل پڑے اور اس کو گلے لگا لیا۔ پھر اسی نومسلم نے سب دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئےکہا ” الحمدللہ“ اب میں آپ کی طرح ایک پکا سچا مسلمان ہوں۔ وہ کہنے لگا آپ کے مسلمان ہی قادیانیت کو پال رہے ہیں جو قادیانیوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ آپ نے جب میر اسوشل بائیکاٹ کیا تو مجھے اپنے جرم پر احساس ہوا بلکہ ندامت اور شرمندگی بھی ہوئی اور جرم کا یہی احسان مجھے کھینچ کر گلشنِ اسلام میں لے آیا۔
اگر آپ کا بچہ رات گیارہ بجے آوارہ گردی کرتا ہوا گھر آئے اور آپ اسے کچھ نہ کہیں تو وہ اگلے دن اس سے بھی تاخیر سے آئےگا اگر آپ کا بچہ ایک دن ا سکول نہ جائے اور آپ اس سے باز پرس نہ کریں تو پورا پورا ہفتہ ا سکول نہیں جائے گا۔ اگر آپ کا بچہ سگریٹ نوشی کرے اور آپ اس کو نہ ڈانٹیں تو ہ پکا سگریٹ نوش بن جائے گا۔ اگر اس کے برعکس آ پ سختی سے ایکشن لیں تو یہ بچہ رات کو جلدی گھر آئے گا ، اسکول سے چھٹی تو درکنار کبھی سوچے گا بھی نہیں کیونکہ آپ کی سختی ڈانٹ اور آپ کے غصے نے اس جرم کا احسان دلایا ہے۔ اس کی غلطی سے آگاہ کیا ہے اس کے گناہوں سے آشنا کیا ہے۔ اگر آپ پانچ چھ سال پہلے میرا سوشل بائیکاٹ کر دیتے تو میں کب کا مسلمان ہوجاتا اگر یوں ہی ساری زندگی آپ درمیان ایک قادیانی کی حیثیت سے گزار دیتا اور مرکر جہنم واصل ہوتا تو۔ اس نے بآواز بلند کہا کہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قادیانیوں کو ان کے جرم کا احساس دلانا ہوگا ، ان کا بھر پور انداز میں بائیکاٹ کرنا ہوگا تاکہ ان کی عقل درست ہو جائے۔انہیں اپنے جرم کا احساس ہو، انہیں اپنے رویے پر ایک دھچکا لگے۔ اس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ جو مسلمان قادیانیوں کا سوشل بائیکاٹ نہیں کرتے وہ قادیانیت کی پرورش کرتے ہیں اور قادیانیوں کی قادیانیت پر پختہ کرنے پر معاون ومددگار ہیں۔ ایسے مسلمان اسلام وملت اسلامیہ کے بہت بڑے نادان دوست ہیں۔ وہ گرج دار آوازمیں بولا اگر محلے میں کوئی شخص اغوا ہوجائے تو پورے محلے میں کہرام مچ جاتا ہے۔ ہمار امحلہ مغوی کے گھر پہنچ جاتا ہے ،مغوی کے گھر والوں سے ہر قسم کا تعاون کرتا ہے ، تھانے کچہری تک جاتا ہے ، احتجاجی مظاہر ےکرتا ہے لیکن اگرکوئی شخص قادیانی ہوجائے تو کوئی نہیں بولتا کوئی احتجاج نہیں کرتا حالانکہ جب کوئی شخص اغوا ہوتا ہے تو اس کا جسم اغوا ہوتاہے اس کا ایمان اغوا نہیں ہوتا۔
جب ایمان جسم سے زیادہ قیمتی ہے جسم کے اغوا پر احتجاج اور ایمان کے اغوا اور قتل پر خاموشی کیوں؟ اہل ایمان ! یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟؟ وہ بولتا چلا جا رہا تھا محلے کے کسی مکان کو آگ لگ جائے تو پورے کا پورا محلہ چیخ اٹھتا ہے۔ ہر آدمی آتش زدہ مکان پر پانی ڈالتا ہے ، بالٹیاں لیے امڈ پڑ تاہے ، فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو لایا جاتا ہے ہوٹر بج رہے ہوتے ہیں ، پولیس کا سیلاب بھی آچکا ہوتاہے ہر طرف خوف وہراس پھیلا ہوتاہے۔ سکون اس وقت ہوتا ہے جب آگ مکمل پر طور پر بجھ جاتی ہے۔ لیکن اگر اسی محلے میں کوئی گھر قادیانی ہوگیا ہو ،کوئی واویلانہیں، کوئی چیخیں نہیں مارتا حالانکہ اس گھر میں ایسی آگ لگی ہے جس نے گھرکا سمان کیا بلکہ گھر کے افراد کا ایمان جلا دیاہے۔ اس آگ نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کےایمان بھسم کر کے انہیں قادیانی بنا دیا ہے ، محلے میں ایک گھر امت مسلمہ سے نکل کر کفر کے گھات میں اتر گیا ، ملت اسلامیہ کی نفری سے ایک گھرکی کی کمی ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو ایک کافر کے ایمان لانے کی فکر ہوتی تھی۔ ہمیں مسلمان کے ایمان کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت کی مثال دیوار کی اینٹوں کی طرح ہے جس طرح ایک اینٹ دوسری اینٹ کا سہاراہوتی ہے اسی طرح ایک امتی دوسرے امتی کا سہارا ہوتا ہے مسلمان ایک دوسرے کے ایمان کا پہرے دار ہے کیا ہم یہ پہرہ دے رہے ہیں؟ قیامت کے روز ہم اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دیں گے ؟ وہ بے تکان بولتا جارہا تھا اس کے جملوں میں تیر کی چبھن اور تلوار کی کاٹ تھی۔ سب دوست ندامت سے سر جھکائے بےحرکت بیٹھے تھے۔ زبانیں گنگ ہو چکی تھیں۔ آنکھوں سے آنسوؤں کے سمندر جاری تھے گویا انسان نہیں پتھر کے بت پڑے ہیں۔ ہر ایک بت خاموشی کی زبان سے بول رہا تھا۔
مرزائی کا جو یار ہے ، اسلام کا غدار ہے۔