صنفِ نازک ………روپ بہروپ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
صنفِ نازک ………روپ بہروپ
اہلیہ مفتی شبیر احمد حنفی
بات پرانی ہے لیکن سو فیصد درست ہے کے کمان سے تیر اور زبان سے نکلی بات کبھی واپس نہیں آتے اور جب شکاری کا نشانہ خطا ہو جاتے تو نہ صرف وہ اپنے شکار سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے بلکہ شکار بھی اپنے دشمن کو پہچان کر ہمیشہ چوکنا اور اس کی دسترس سے دور رہتا ہے .اسی طرح بغیر تحقیق و تصدیق اور سچائی جانے بغیر کسی جذباتی دباؤ کی تحت زبان سے جو بات نکل جاتی ہے اس کے اثرات نہ صرف دور رس ہوتے ہیں بلکہ کبھی تو ساری زندگی کا پچھتاوا بن جاتے ہیں۔
آج ہم اپنے گھروں میں بے سکونی بے امنی نفرت حسد اور ماحول میں ایک تناؤ دیکھتے ہیں جس کا بڑا سبب ہماری خواتین ہیں اور ان زہر اگلتی باتیں ہیں جو دلوں کے شفاف آئینوں پر بد گمانی اور بد اعتمادی کے جال بن کر ان کو بد نما اور داغ دار بنا دیتی ہیں اور جب اعتبار کے رشتوں میں دراڑیں پر جائیں تو زندگی جہنم بن جاتی ہے اور اس کارخیر میں خواتین کو اتنی مہارت حاصل ہوتی ہے کے ان کا کوئی تیر ضائع نہیں ہوتا بلکہ جا کر ٹھیک نشانے پر لگتا ہے ویسے تو عورت کے بہت روپ ہوتے ہیں اور ہر روپ میں قدرت نے شفقت محبت اور نزاکت کوٹ کوٹ کر بھری ہے ایثاروچارہ گری اس کی فطرت میں رکھی گئی ہے اور اس کے وجود کو عظمت وبلندی کی علامات قرار دیا گیا ہے لیکن جب یہی پیکر کردار کی بلندیوں سے پستیوں کی جانب گامزن ہو جاتا ہے اور اس نرم و نازک ہونٹوں سے پھولوں کی بجائے انگارے برسنے لگتے ہیں تو پھر وہ عورت نہیں رہتی بلکہ چڑیل کا روپ دھار کر گھر کی خوشیوں کو نگل لیتی ہے ایسی ہم کو کثرت سے ملیں گی جن کی تلخ کلامی طنزیہ جملے ہتک آمیز رویہ اپنوں اور پرایوں کو اذیت کی سولی پر لٹکائے رکھتے ہیں ایسی صنف نازک اپنی کچھ پل کی خوشی کے لیے دوسروں کو رلانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہیں ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کے بند ہونٹوں کے اندر بند رہنے والی زبان جب خاموشی کو توڑتی ہے تو بہت انقلابات جنم لے لیتے ہیں وہ خواتین جو اس دنیا کو صرف ایک تماشا گاہ سمجھتی ہیں شغل کے طور پر دوسروں کے جذبات سے کھیلتی ہیں اور جب بھی ان کے ہاتھ میں کسی کی کوئی خامی یا کمزوری لگتی ہے یا ان کے کردار کا کوئی منفی پہلو ان کے سامنے آتا ہے اسے زمانے بھر کے رو برو لانے کے لیے وہ بے قرار ہو جاتی ہیں کیوں کے ان پاس دل نہیں ہوتے اور دوسروں کی عزت اچھالنے میں ان کو بڑا مزہ آتا ہے حاض کر کسی ایسے کی جس سے ان کو زیادہ عزت ملی ہو۔
خواتین کی اکثریت حسد میں مبتلا ہو کر دوسروں کی زندگی اجیرن کر دیتی ہے کوئی خوش ہو خوش حال ہو خوش لباس ہو ذہین ہو یا پھر اپنے خلقہ احباب میں مقبول ہو تو خالی برتن کی طرح کھڑکنے والی خواتین سے یہ سب؛ بالکل برداشت نہیں ہوتا۔ کسی کی زندگی تباہ کر کے اپنی راہ ہو لیتی ہیں۔ ان کی مثال اس خود غرض باغبان جیسی ہوتی ہے جو گلستان میں کھلے حسین پھولوں سے لوگوں کو دور رکھنے کے لیے یہ مشہور کر دیتا ہے کے ان پودوں میں کانٹے اس قدر زہریلے ہیں کے اگر کسی نے ان کو چھو لیا تو اپنی جان سے جائے گا ان کا یہ حربہ اس قدر کامیاب ہوتا ہے کے لوگ خوف زدہ ہو کر ان پھولوں کے قریب جانا تو دور کی بات ان کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
ایسا کر کے نہ صرف ان کو وقتی خوشی ملتی ہے بلکہ ان کی آنا بھی تسکین پا جاتی ہے خواتین کی اس قسم کو کیا بولیں جوایسی حرکتیں اپنی ذات کے گھمنڈ اور برتری کی احساس سے مفلوج ہو کر کرتی ہیں اور ہمیشہ ان لوگوں کو ہی نشانہ بناتی ہیں جو ان کے تحت ہوتے ہیں یا حیثیت میں ان سے کم ہوتے ہیں جب بھی موقع ملتا ہے انہیں اپنے مذاق کا نشانہ بناتی ہیں اور اپنے طنزیہ چھبتے ہوئے جملوں سے ان کے دلوں پر نشتر لگاتی ہیں یہ لوگ یا تو اپنے حالات سے پریشان ہوتے ہیں یا فر کسی کی شادی ہونے میں تاخیر ہو رہی ہو یا بدقسمتی سے طلاق ہو گئی ہو یا فر کسی کا رنگ کالا ہو یا کسی کا قد چھوٹا ہو ان کی تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔
ایسی خواتین کی کی شناحت بالکل بھی مشکل نہیں ہوتی کیوں کے ان کے چہرے تازگی و شادابی اور دل کشی سے عاری ہوتے ہیں ان کی آنکھوں میں ہمیشہ ایک طنزیہ چمک ہوتی ہیں اور اپنی فطرت کی وجہ سے یہ سکون و اطمینان کی نعمت سے محروم ہوتی ہیں۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کے زبان سے نکلے تکلیف دہ اور دوسروں کی عزت نفس کو مجروح کرنے والے الفاظ کے وار سے روح پر جو گھاؤ لگتے ہیں وہ کبھی مند مل نہیں ہو پاتے کسی ناسور کی طرح تا عمر رستے ہی رہتے ہیں۔
ایسی خواتین کو چاہیے کے وہ اس بات کا یقین کر لیں کے آج جو وہ بول رہی ہیں کل کو وہ ہی کاٹیں گی آج اگر وہ اتنی با اختیار ہیں کے جس کو چاہے رلا دیں اور جس کو چاہے ہنسا دیں تو کل کو جب یا اختیار کسی اور کو مل جاتے گا اور وہ کم مایہ اور بے حثیت ہو جائیں گی تو تب کیا وہ مکافات عمل سے بچ سکیں گی ؟ یاد رکھیں کڑوی باتیں بول کر یا طعنوں سے نہ ہم معاشرے میں کوئی نمایاں مقام حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی خود عزت و تکریم کی سند پا سکتے ہیں بلکہ ان کا ہتک آمیز سلوک ایک دن اپنے پرائے سب کو ان سے دور کر دے گا اور وہ اس بھری دنیا میں تنہا ہو جائیں گی اور فٹ نہ ہی کوئی غم گسار ہو گا اور نہ ہی کوئی چارہ گر۔
بلاشبہ ہمارے معاشرے میں زیادہ خرابیوں کی جڑ ہماری” زبان“ ہے جو انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔