بدنظری اور پردہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بدنظری اور پردہ
اہلیہ ڈاکٹر محمد مزمل
ایک مسلم نوجوان ایک عام عوامی مقام (Public Place)پربیٹھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا پر غور کر رہا تھا کہ
”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النِّسَاءِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ“
اے اللہ میں عورتوں کے فتنہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور عذاب قبر سے تیری پناہ مانگتاہوں۔
پھر اُس نے سوچا کہ عورتوں کے فتنہ سے کیسے بچا جا سکتاہے؟اُسے تصوراتی طور پر ایک خاتون کی طرف سے جواب ملا کہ میں ڈھیلا ڈھالا عبایا پہن لوں تو آپ بچ سکتے ہو؟نوجوان نے کہا نہیں کیونکہ عبایا تو جسم کو ڈھانپ لے گا مگر آپ کا چہرہ مجھے بدنظری والے گناہ سے نہیں بچا سکے گا۔خاتون نے کہاکہ میں چہرہ بھی ڈھانپ لوں گی،یعنی نقاب کر لوں گی،پھر تو آپ میرے فتنہ سے بچ جاؤ گے؟ نوجوان نےجواب دیاکہ شاید نہیں کیونکہ آپ کی لمبی لمبی پلکیں اور انتہائی نفیس آئی برو میرے جذبات کو گرمانے میں بھرپور کردار ادا کریں گئے،اور فتنۃ النسا اپنی جگہ برقرار رہے گا۔
خاتون نے دلیری دکھاتے ہوئے جواب دیاکہ میں اپنے سر کی چادر ایسی بنواؤں گی کہ اس سے میرا ماتھا اور آنکھیں چھپ جائیں گی اور مجھے صرف سامنے کی طرف ہی نظر آئے گا،لہٰذا اب آپ گناہ سے بچ جاؤ گے۔ نوجوان سوچتے ہوئے گویا ہوانہیں آپ کے ہاتھوں کی سفید اور ملائمیت سے لبریز جلد مجھے اپنی طرف متوجہ کرے گی اور اس طرح میں دل ہی دل میں آپ کو سوچتا رہوں گا۔
خاتون نے نوجوان کی بات کو تسلیم کیا اور کہا کہ ہاں ہاتھوں میں بہت کشش ہوتی ہے،پھر اس نے باہمت جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں ہاتھوں پر بھی دستانے ڈال لوں گی اب تو آپ کے پاس کوئی جواز نہیں بچے گا؟اس بار نوجوان نے قدرے رک کر جواب دیا کہ مسئلہ تو یہ ہے کہ مجھے فتنۃ النسا سے بچنا ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عورتوں کے فتنہ سے بچنے کی دعا فرمائی تھی۔
خاتون نے پوچھا کہ آپ کھل کر بات کرو اور مزید کوئی اعتراض ہے تو وہ بتاؤ؟ تونوجوان نے جلدی سے کہا کہ آپ کے پاؤں کی چمکتی ہوئی سرخ و سفید ایڑیاں میری نظروں کو کھینچ لیں گی،تو ذہن میں تو فتنہ پھر سے بیٹھ جائے گا،اس بار خاتون نے مزید صبر اور حوصلے کے ساتھ انتہائی متاثر کن جواب دیا کہ میں بند شوز اور جرابیں پہن لوں گی،اب تو میرا سارا جسم کپڑے میں کور ہو جائے گااور اب آپ عورتوں کے فتنے سے محفوظ ہوجائیں گے۔
نوجوان، تحمل کے ساتھ بولا،نہیں،کیونکہ آپ کے سلم اور سمارٹ جسم پر نگینوں سے چمکتا ہوا عبایا میری نظر کو متوجہ نہ ہونے میں رکاوٹ ہوگا،خاتون نے نوجوان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہاکہ ٹھیک ہے میں نگینوں،کڑہائیوں اور چمک دمک والا کامدار عبایا نہیں پہنوں گی۔ نوجوان نے ٹھنڈی آہ بھری اورخاموش ہوگیاکچھ بولنا چاہتا تھا مگر بول نہیں رہا تھا۔خاتون نے ازخود ہی پوچھ لیاکہ اب کیا مسئلہ ہے؟ نوجوان نے کہاعورت کی چال ڈھال میں بہت ادائیں ہوتی ہیں،حتی کہ عورت اپنےہاتھ کو بھی حرکت دیتی ہے توبے شمار اداؤں سے بھری تحریک فضا میں پھیل جاتی ہے اور یہی تحریک میرے وجود میں نفسانی تحریک برپا کردیتی ہے۔
خاتون نے ٹھنڈی آہ بھری اورجوان سے کہا کہ میں اپنی چال ڈھال میں میانہ روی اختیار کروں گی،اورجسم کو ایسی کوئی حرکت نہیں دوں گی کہ جس سے کوئی میری جانب متوجہ ہو سکے،اب تو کوئی بات باقی نہیں رہتی؟لیکن نوجوان نے پھر نفی میں سر ہلا دیا،اب خاتون اور نوجوان کے پاس کہنے کو کوئی لفظ نہیں بچا تھا،لیکن ابھی تک دل میں ابہام موجود تھا۔
اتنے میں ایک باعلم اور خیرخواہ دوست آگیا اوراس نے ان دونوں کی مکمل بات سننے کے بعددونوں کےلیےانتہائی اہم مشورہ دیاکہ اے جوان! تم اللہ کے حکم کے مطابق اپنی نظر نیچی رکھا کرواپنے آپ کو نظر کی برائی سے بچا لینے والا جوان عورت کے فتنہ سے کافی حد تک محفوظ ہو جاتا ہےاور یہ حکمِ الہی بھی ہےکہ مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہی ان کےلئے پاکیزگی ہےلوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب کچھ سے خبردار ہے۔
اے مسلم خاتون! آپ ازحد کوشش کرکے گھر کی چاردیواری میں رہا کریں،اوربوقت انتہائی امرِ مجبوری ہاہر نکلو اور ابھی آپ دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں سامنے آنے والی احتیاطوں کو ہمیشہ اپنایا کریں،آپ کا وجود کپڑے میں مستور ہونے کے باوجود مردوں کو مائل کرنے میں بہت زیادہ رغبت رکھتا ہے ،قرآن میں ہے:مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کےلئے مزین کردی گئی ہے جیسےعورتیں ، بیٹے، سونے ، چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان دار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔
لہذا آپ کا جسم مردوں کےلیے مرغوب اور زینت والی چیز ہے،اس لیے آپ اپنےجسم کو مائل کرنے والیوں کی طرح نہیں، بلکہ عائشہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کی طرح چھپانے والیوں میں شامل کریں،اوراللہ کے اس حکم کو ہمیشہ سامنے رکھتے ہوئے عمل کریں کہ،قرآن پاک میں اس کا حکم اس طرح ہے :مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ، سوائے اس کے جو ظاہر ہے اوراپنےگریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہرنہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنےبھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیده زینت معلوم ہوجائے ، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔
ان احکام سے سمجھ آتی ہےکہ آپ مائل کرنے والی مت بنیں،آپ زینت ظاہر کرنے والی مت بنیں،آپ طرح طرح کی ادائیں لگا کر چلنےوالی مت بنیں،آپ اپنا فیشن کسی دوسرے کے سامنے مت ظاہر کریں، جدید فیشن والا یا زیب و زینت والا لباس پہن کر گہر سے نکلنا حرام قرار دیا گیا ہےارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:اے لوگو!اپنی عورتوں کو زینت والا لباس پہن کر اجنبیوں کے سامنے نکلنے سے منع کرو۔