مچھروں سے بچیے
ڈاکٹر فوزیہ جمال
ماہرین نے اس سلسلے میں تحقیقات کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مچھروں کو کاربن ڈئی آکسائیڈ پسند ہے۔
اور چونکہ انسانی جسم سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج ہوتا رہتا ہےاس لیے مچھروں کا انسان کی ناک میں دم کردینا کوئی غیر فطری عمل نہیں۔
بظاہر معمولی دکھائی دینے والی اس حقیقت کو استعمال کرکےامریکن بائیو فزکس کارپوریشن نامی ادارے نے"موسکیٹو میگنیٹ آرایس"کے نام سے ایک آلہ ایجاد کیا ہے۔
اس آلے میں پروپین نامی جزوکی ایک 20 پونڈ وزنی بوتل نصب ہوتی ہےجو کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے میں عمل انگیز(catalyst) کا کام کرتی ہے۔ اس لیے مچھر انسانوں کے قریب جانے کے بجائے اس آلے کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور جوں ہی وہ اس کے اندر داخل ہوتے ہیں مقید ہو کر مرجاتے ہیں۔اس آلے کا مقصد بڑی جگہوں کو مچھروں سے پاک کرنا ہے۔اس میں موجود پروپین 18 سے 21 دنوں تک باقی رہتی ہے۔
اس موسم میں مچھروں کی کثرت کے باعث مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں ہسپتالوں میں کئی مریض ایسے آتے ہیں جو اس موسمی مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ اس لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ خاص طور پر مائیں اپنے بچوں کو مچھروں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ کیونکہ مچھروں سے کئی مہلک اور جان لیوا بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ڈینگی ، ملیریا وغیرہ جیسے امراض سے خود کو بچائیں۔