بیٹی ...جہنم کیلئے رکاوٹ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بیٹی ...جہنم کیلئے رکاوٹ!
مفتی محمد معاویہ اسماعیل
جامعہ اشرفیہ مان کوٹ
ابھی تین ماہ پہلے ہی راحیل کی شادی ہوئی تھی،وہ ابھی اس کی خوشی میں سرشارتھا،کہ اللہ تعالی نے اس کوحمنہ کی شکل میں نیک صورت ونیک سیرت بیوی عطافرمائی ہے،وہ اس خوشی سے ابھی باہرنکلاہی نہیں تھاکہ حمنہ امیدسے ہوگئی،راحیل اوراس کے والدین کی خوشی اس خبرسے دوبالاہوگئی۔
وہ اس بات سے بے پناہ خوش ہوئے،اورراحیل کے والدین توابھی سے دبی دبی آوازمیں وقتاوفوقتاآپس میں اس بات کاتذکرہ بھی کرنے لگے کہ اللہ ہمارے بیٹے کو بیٹاعطاکریں،اللہ تعالی ہمارے بیٹے کوپہلی اولادمیں توبس وارث عطاکردے،اس کے بعداگربیٹی بھی پیدا ہوجائے توکوئی بات نہیں۔
خوش توحمنہ بھی تھی،مگرجب بھی وہ راحیل کے والدین کی ایسی باتیں سنتی توسوچ میں پڑجاتی،اس کوایک قسم کاخوف سامحسوس ہونے لگتا،وہ سوچتی بھلابیٹی یابیٹاکسی انسان کے بس میں ہے کیا؟یہ تواللہ کی مرضی ہوتی ہے جسے چاہے بیٹے دے جسے چاہے بیٹی دے،وہ کبھی یہ بھی سوچتی کہ اس کی ساس جوبیٹے بیٹے کی رٹ لگاتی رہتی ہیں، خودبھی تویہ سوچیں کہ وہ بھی توایک عورت ہیں،مگروہ یہ سوچ کررہ جاتی کہ آج کون یہ چیزیں سوچتاہے،کسی کی دل آزاری کی کون پرواکرتاہے؟
ہرایک اپناالوسیدھاکرنے کے چکرمیں رہتاہے،حمنہ کویہ سمجھنے میں بھی دیرنہ لگی کہ اس کے شوہرکی بھی یہی خواہش ہے کہ ان کابیٹاپیداہو،جس کااظہاروہ وقتافوقتااس سے کرتارہتاتھا،لیکن ہوتاوہی ہے جومنظورخداہوتاہے،شادی کے ایک سال کے بعداللہ تعالی نے ان کوایک چاندسی بیٹی عطاکی،راحیل کوبیٹا نہ ہونے کادکھ توہوالیکن چونکہ پہلی اولادتھی،اس لئے تھوڑے ہی دنوں میں اس کاموڈ توٹھیک ہوگیا،لیکن راحیل کے ماں باپ کاموڑاس وقت جاکرتھوڑاساٹھیک ہواجب وہ دوبارہ امیدسے ہوگئی،اب اس کے والدین نے پکی امیدباندھ لی تھی کہ اب توبیٹاہی ہوگا، لیکن اس باربھی بیٹی ہی پیداہوئی،دوسال میں دوبیٹیاں۔
ایک دن توراحیل نے بھی کہ دیاکہ حمنہ اب تومیرادل کرتاہے کہ ہماراایک بیٹابھی ہوناچاہیے ،جوہماراوارث بنے، لیکن اس میں میں کیاکرسکتی ہوں؟چاہتی تومیں بھی ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں بیٹا عطا کریں،دعابھی کرتی ہوں لیکن اولادتووہی ہوتی جواللہ چاہتے ہیں،کسی کازورتواس میں نہیں ہے،حمنہ نے دھیمے سے اندازمیں راحیل کوسمجھانے کی کوشش کی،راحیل اس کی بات سن کرچپ ہوگیا،کیونکہ وہ خودبھی اس بات کوسمجھتاتھاکہ ہوتاوہی ہے جو منظور خداہوتاہے۔
اللہ کاکرناایساہواکہ تیسرے سال ان کے ہاں تیسری بیٹی کی ولادت ہو گئی، اب توراحیل کوبالکل چپ ہی لگ گئی،وہ رات گئے دیرسے گھرآنے لگا،نہ تواب وہ اپنی بیوی کاخیال کرتاتھانہ ہی اپنی بیٹیوں کا،اب تواس کی بڑی بیٹی توتلی زبان میں بولنے بھی لگی تھی،اگرکبھی راحیل اس کے جاگتے میں آجاتااوروہ اس کے پاس جانے کی ضدکرتی توراحیل ہمیشہ طبیعت کی خرابی کابہانہ بناکرلیٹ جاتا۔
حمنہ بھی سمجھ جاتی کہ راحیل اس کو نہیں اٹھاناچاہتا،اس کادل کٹ کررہ جاتامگروہ بیچاری کرہی کیاسکتی تھی،وہ بھی رافعہ کوکہتی بیٹی آپ کے ابوتھکے ہوئے ہیں،سارادن کام کرتے ہیں نا،آج تم سو جاؤکل وہ آپ کوضروراٹھائیں گے بھی سہی اورچیزبھی لاکردیں گے۔
امی آپ روزانہ ایساہی کہتے ہیں،حالانکہ ابونہ تومیرے کوئی چیزلاتے ہیں اورنہ ہی مجھے اٹھاتے ہیں، رافعہ جب ایسی باتیں کرتی توحمنہ کیلئے اس کوسنبھالنانہایت مشکل ہوجاتا،آخرکاروہ اس کویہ کہہ کربہلاتی آپ کے ابوآج تھکاوٹ کی وجہ سے چیزیں لانابھول گئے ہیں،کل ضرورآپ کوچیزبھی لاکردیں گے،اٹھائیں گے بھی سہی،اب چپ کرکے سوجاؤاوروہ بیچاری چپکے سے سوجاتی،پھریکے بعددیگرے ان کے ہاں چھ بیٹیاں پیداہوئیں اورہربارراحیل اس امیدسے ہوتاکہ اب توبیٹاہی پیداہوگا۔
جب ساتویں باراس کی بیوی امیدسے ہوئی تواس نے ایک فیصلہ کیا،ایک پختہ فیصلہ!”طلاق کافیصلہ “اس نے دل ہی دل میں طے کرلیاکہ اگراب کی باربھی بیٹی پیداہوئی تووہ حمنہ کوطلاق دے دے گا،اس طرح ماں باپ بھی راضی ہوجائیں گے،کیونکہ اس کے ماں باپ بھی اس کوکب کاکہہ رہے تھے کہ بیٹا تم دوسری شادی کر لو،اس کوچھوڑدو،انہوں نے کبھی یہ بھی نہ سوچاتھاکہ ان چھ بچیوں کاکیابنے گا؟
شام کے وقت سوتے ہوئے وہ اس فیصلے پرعمل کرنے کی صورت میں پیش آنے والے مسائل پرغورکرتاہواجانے کب سوگیا،تھکاوٹ ہی اتنی تھی کہ وہ ابھی تک اس فیصلے پرعمل کرنے کی صورت میں پیش آنے والے تحفظات پراچھی طرح غورہی نہ کرسکاتھا۔
اس نے خواب میں دیکھاکہ قیامت برپاہوگئی ہے،ہرطرف افراتفری کاعالم ہے،ہربندے کواپنی فکرہے،کسی کوکسی کوئی پروانہیں،اس کے ماں باپ جن سے وہ بہت زیادہ محبت کرتاتھا،جن کے حکم پروہ حمنہ جیسی فرمانبردارخدمت گزاراورکفایت شعاربیوی کوبھی طلاق دینے پرتیارہوگیا،پرجب اس کی نظرپڑی تووہ اماں ابا کہتا ہوا ان کی طرف دوڑالیکن وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ اس کے ماں باپ نے اس کواپنے ساتھ چمٹاناتودورکی بات اس کی طرف دیکھنابھی گوارانہ کیا۔
اسی شش وپنج میں وہ ابھی مبتلاتھاکہ اس کانام پکاراگیااس کاحساب کتاب ہوااس نے دیکھاکہ اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں،جن کے سبب اس پرجہنم واجب کر دی گئی،لہذافرشتوں کوحکم ہواکہ اس کوجہنم میں ڈال دو،انہوں نے اس کوپکڑااورجہنم کی طرف لے جانے لگے۔
جب وہ اس کولےکرجہنم کے پہلے دروازے پرپہنچے تواس نے دیکھاکہ وہاں پراس کی بڑی بیٹی رافعہ اس دروازے پرکھڑی ہے،اوروہ یہ دیکھ کر ہکابکارہ گیاکہ اس کی وہ بیٹی جس کوکبھی اس نے بلایاتک نہ تھا،وہ فرشتوں کواس دروازے سے اس کوجہنم میں ڈالنے سے روک رہی تھی،اورکہہ رہی تھی کہ میں تمہیں اپنے ابوکواس دروازے سے جہنم میں نہیں ڈالنے دوں گی،فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پرآئے تو وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جواس کیلئے جہنم میں جانے سے آڑبنی اوراس کواس دروازے سے جہنم میں جانے سے روک دیا۔
اب وہ فرشتے اس کولے کرجہنم کے تیسرے دروازے پرگئے،تووہاں اس کی تیسری بیٹی کھڑی تھی جووہاں پرآڑبن گئی، اس طرح فرشتے اس کوجس دروازے پربھی لیکرجاتے وہاں اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی کھڑی ہوتی،جواس کادفاع کرتی اوراس کیلئے جہنم میں جانے سے آڑبنتی۔
غرض یہ کہ فرشتے اس کوجہنم کے چھ دروازوں پرلے گئے،مگرہردروازے پراس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی،اب ساتواں دروازہ باقی تھا،فرشتے اس کو لے کرجب اس دروازے کی طرف بڑھنے لگے،تواس پرگھبراہٹ طاری ہو گئی،اوروہ یہ سوچ کرہی ہلکان ہونے لگاکہ اس ساتویں دروازے پرمیرے لئے کون آڑ بنے گا؟ اس کی توکل چھ بیٹیاں تھیں۔
اسے معلوم ہوگیاکہ جونیت اس نے کی تھی وہ غلط تھی،وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیاتھا،انتہائی پریشانی اورخوف کے عالم میں اچانک اس کی آنکھ کھل گئی، اوروہ ہڑبڑاکراٹھ بیٹھا،صبح کی اذانیں ہورہی تھیں،اف خدایایہ کیاہوا؟اگرواقعتامیں مرگیاہوتاتومیں تواب تک جہنم کی آگ میں جل رہاہوتایہ سوچ کرہی اس کوپسینہ چھوٹ گیا،وہ جلدی سے اٹھاجاکروضوکیااورنمازپڑھنے کی نیت سے گھرسے نکلنے لگا تو اس کواچانک خیال آیا،اوروہ واپس مڑگیا،اپنی بیوی کے کمرے گیاجہاں وہ اس کی چھ معصوم بچیوں کواپنے سینے سے لگائے سورہی تھی،اس نے جاکرہلکے سے اندازمیں اس کے پاؤں کوہلایا،اورآوازدی حمنہ!حمنہ اچانک ہڑبڑاکراٹھ بیٹھی اورپھرراحیل کودیکھ کووہ حیران رہ گئی،آآآپ...؟؟؟وہ سمجھی کہ وہ خواب دیکھ رہی کہ جس راحیل نے مسلسل بیٹیوں کی پیدائش کی وجہ سے کئی دنوں سے اس سے بات کرناچھوڑی دی تھی اب وہ اس کاجگانے کیلئے آیاتھا۔
یہ صورت حال دیکھ کرراحیل مسکرادیا،حمنہ اٹھو وضوکرواورنمازپڑھومیں بھی نمازکیلئے جارہاہوں،تم گھربیٹھ کرنمازکے بعدیہ دعاکرنااورمیں مسجدمیں نمازکے بعدیہ دعاکروں گاکہ اللہم ارزقناالسابعۃ اے اللہ ہمیں ساتویں بیٹی بھی عطا فرما، یہ کہہ کروہ حمنہ کوحیرت زدہ چھوڑکرمسجد کی طرف چلاگیا،اورحمنہ نے معصوم شکلوں کو نہایت ہی محبت سے دیکھااورنمازکی تیاری کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
ابھی اس کونمازبھی پڑھنی تھی اورخداکاشکربھی کرناتھاکیونکہ اس کی دعائیں رنگ لے آئیں تھیں،حمنہ کیلئے لمحے بھرمیں ہرچیزخوشگواربن چکی تھی،چندہی دنوں میں اس کی مسلسل گرتی صحت بھی بہترہونے لگی،دن جوپہلے کاٹے نہیں کٹتے تھے اب وہ پرلگاکراڑنے لگے، بچیاں بھی گھربھرمیں خوش خوش گھومتی نظرآتیں،جیسے موسم بہارمیں پھولوں کے اردگردتتلیاں اڑتی ہوئی نظرآتی ہیں۔
راحیل بھی دفترسے واپسی پرہربچی کیلئے اس کی من پسندچیزیں لانے لگا،ایک دن اچانک رات کے وقت حمنہ کوتکلیف شروع ہو گئی،راحیل جلدی سے گاڑی لےکرآیااورفوارہی ہسپتال لے گیا،ابھی اسی وقت آپریشن کرناپڑے گا،ڈاکٹرنے کہا توراحیل نے ہاں کردی۔
اب وہ راہداری میں ادھر ادھرچکرلگانے لگا،اوردعامیں مصروف ہو گیا کہ یااللہ مجھے ایک اوربیٹی عطاکردے تاکہ وہ میرے لئے جہنم سے نجات کاذریعہ بن جائے،تھوڑی دیرکے بعداس کوآپریشن تھیڑکی طرف سے آتے قدموں کی چاپ سنا دی تواس نے اپنی طرف ایک نرس کوآتے دیکھااس کے ہاتھوں پرپسینہ آ گیا، مبارک ہوراحیل صاحب اللہ تعالی نے آپ کوبیٹاعطافرمایاہے،یہ سنتے ہیں راحیل سجدے میں گرپڑاکہ یااللہ اب اگرمجھے آپ ساتویں بیٹی دے دیتے توبھی مجھے اس کی بیٹے سے بڑھ کرخوشی ہوتی۔
سجدے سے سر اٹھایاتواس نے نرس کوکہتے ہوئے سناکہ اب آپ اپنی بیوی کومل سکتے ہیں،راحیل چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتاہواکمرے کی طرف بڑھاجہاں اس کی بیوی اس کے وارث کو اپنے پہلومیں سلائے اس کاانتظارکررہی تھی،وہ آہستہ سے دروازہ کھول کراندرداخل ہوگیا،اورآکرحمنہ کے قریب بیٹھ گیا،حمنہ نے دھیمی سی آوازمیں کہاکہ آپ کووارث مبارک ہو!
یہ سن کرراحیل کاسرشرم سے جھک گیا،حمنہ اب مجھے مزیدشرمندہ نہ کرو، یہ صورت حال دیکھ کرحمنہ کے دل میں خوشی کے لڈوپھوٹنے لگے،اورمطمئن ہوکر اس نے آنکھیں بندکرلیں،ادھرراحیل بھی اپنافیصلہ بدل چکاتھا،اب اس کواس گھر میں مزیدخوشیاں لانی تھیں،ہرایک کے ساتھ کی گئی زیادتی کاحساب چکاناتھا،اس طرح ایک گھرکے آنگن میں دوبارہ خوشیاں بھرگئی تھیں۔