بے رنگ پھول

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بے رنگ پھول
بنت مولانا عبدالمجیدغفر اللہ لہ
پر فریب اصطلاحات،دلکش نعرے،پر کشش الفاظ، اور بھاری بھرکم الفا ظ کا استعمال مغربی تہذیب کے علم برداروں کا بڑا قدیم حربہ ہے، ہم کسی سے کم نہیں اور مردوں کے شانہ بشانہ چل کر اوجِ ثریا کا خواب شباب کی دہلیز تک پہنچنے والی ہر بنتِ حوا کے تخیلات میں سمِ قاتل کی طرح سمو دینے کی کوششیں نہ کوئی نئی رسم ہے اور نہ کوئی نا آشنا پروپیگنڈا.... جدید کلچر کا آوازہ لگا کر شمعِ خانہ کو چراغِ انجمن بنانے کا رسوا کن تماشہ ہر روز فلک آب دیدہ ہو کر دیکھتا ہے، سر شام آفتاب ان حیا باختہ مناظر کو دیکھتے ہوئے اپنی تاب ناک کرنیں مدہم کرتے کرتے گہرے بادلوں کی اوٹ میں پناہ گزیں ہوجاتا ہے۔ لیکن انسانیت کی عزت و حرمت ہر روز نئے آ ئینے میں پا ما ل سے پا مال تر ہوتی جا رہی ہے، جس کی سب سے بنیادی وجہ وہی مساوات کا نعرہ نے بہت سوں کو صم بکم بنا دیا ہے ، اوریہ حقیقت بھی ہے کہ عورت اور مرد کی مکمل مساوات کانظریہ موجودہ دور کی تاریخ کا سب سے بڑا مغالطہ ہے اور فطرتِ انسانی کے ساتھ انتہائی ظالمانہ مذاق ہے ، تاریخِ عالم میں نہ کبھی ایسا ممکن ہو سکتا ہے اور نہ قیامت تک ہو سکے گا کیونکہ یہ قانونِ فطرت سے نا واقف محض اندھوں ،بہروں اور گونگوں کی وضع کردہ ایسی اصطلاح ہے جو سراسردھوکا اور فریب ہے جس میں عصرِ حاضر کے سادہ لوحوں کو آسانی سے مبتلا کر دیا گیا ہے۔معاملہ اتنا پیچیدہ بھی نہیں جتنا اسے بنا دیا گیا ہے کوئی عورت کو پاؤں کی جوتی سے بھی حقیر مرتبہ دے بیٹھا ہے اور کئی نے دہشت زدہ آنکھوں ہی کے ساتھ فرنگی عورتوں کی زینت و آرائش ،ان کی آزادانہ نقل و حرکت اور فرنگی معاشرے میں ان کی سر گرمیوں کو دیکھا تو فتورِ عقل نے انہیں اضطراری طور پر مجبور کیا کہ وہ اپنے معاشرے کو بھی اسی رنگ ڈھنگ میں ڈھال لیں۔
ہوئی نہ زاغ میں پیدا کبھی

بلند پروازی

خراب کر گئی شاہین

فطرت کو صحبتِ زاغ

بے لگام آزادی کی باگ و ڈور صنفِ نازک کے ہاتھ میں دینے کے بعد جو نتیجہ ظاہر ہونا تھا اس پر عقل ہزار ماتم بھی کرے تو کم ہے ... صنفِ نازک چراغِ خانہ سے چراغِ محفل بن کر رہ گئی۔ ہر وہ منصب جہاں عزتوں اور آبرؤں کا سودا سستا ہو وہ بنتِ حوا کے لئے منتخب ہوا اور شیطاں طینت کھڑے تماشہ دیکھتے رہے،آزادی اور مساوات کے اس نعرے نے وہ منظر دکھائے جس کا احاطہء تصور بھی ممکن نہیں۔گھر بھی اجڑے ، معیشت و ملت بھی داؤ پر لگی اور آزادی کا خواب دکھانے والے اس سے بھی کمتر مقامِ آخر پر جا پہنچے جہاں سے اپنے ہوس ناک خوابوں کا نقطہٗ آغاز کیا تھا۔
یوں ہوا آمادہ فطرت سے

بغاوت پر شباب

پڑ گئے رخسار پھیکے، جل

گئی چہرے کی آب

نازکی ،عزت ، محبت

مروت کچھ بھی نہیں

نام تو ہے پھول لیکن رنگ

و بو کچھ بھی نہیں

جدت کے دانشوروں کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن بات بہر حال یہی ہے کے اسلام نے جو ہمہ گیر نظامِ حیات انسانیت کو عطا کیا ہے اس کی نظیر نا ممکن ہے۔ جو عورت کو وہ حقوق دیتا ہے جس پر اقوامِ عالم کو فخرہوسکتا ہے،اسی میں ان تمام طبقوں کے بھلائی مضمر ہے جو آزادی کے جال میں بے یا ر و مددگار پنچھی کی مانند پھڑپھڑا رہے ہیں اور سیلِ جدت کی رو میں بہہ رہے ہیں اور اسلامی نظریا ت سے انحراف کی صورت میں انہیں منتظر رہنا چاہیے کہ باقی ماندہ سفینہ اب ڈوبا کہ کب ڈوبا۔