حجاب! خواتین کا محافظ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حجاب! خواتین کا محافظ
مولانا محمد مبشر بدر
اللہ تعالیٰ نے عورت کو شرم و حیا کا وافر حصہ عطا فرمایا ہے۔بلکہ یہ چیزیں اس کی فطرت اور جبلت میں شامل کردی گئیں ہیں۔ چنانچہ وہ فطری طور پر حیادار اور عفت پسند ہوتی ہے۔اس کی مثال ایک خوبصورت نگینے کی سی ہے جس کی طرف آنکھیں متوجہ ہوتیں اور ہاتھ چھونے کے لیے بڑہتے ہیں۔ اگر اسے چھپا کر نہ رکھا جائے تو چوروں کی نظریں اس کے تعاقب میں رہتی ہیں تاکہ موقع پا کر اس کی نزاکت پر حملہ کردیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے پردہ کرنے کا حکم دیا، دورِ جاہلیت کی طرح گھروں سے باہر نکلنے سے منع کیااور اجنبی مردوں سےکھردرے لہجے میں بات کرنے کا امر دیا ہے تاکہ کسی بدباطن شخص کی طبیعت میں نرم گفتگو کی وجہ سے فتور واقع نہ ہو جائے۔ پاکیزہ معاشرہ اور صاف ستھری سوسائٹی کے لیے عورتوں کو گھروں میں رکھ کر گھریلو ذمہ داریاں ان کو دی گئیں اور مردوں کو باہر کی ذمہ داریوں کا پابند کرکے مردوں اور عورتوں کو باہمی اختلاط سے روکا گیا؛ تاکہ ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکے اور مسلم معاشرے کی یہ خصوصیت اب تک باقی تھی اور تقریباً پچاس سال سے غیروں کی حیاسوزی کی تحریک؛ بلکہ یلغار سے ہمارا معاشرہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور افسوس اور حد درجہ ماتم کی چیز یہ ہے کہ اس کا مقابلہ اورفحاشی کا خاتمہ کرنے اور اس پر روک لگانے کے بجائے بعض مسلم دانشوران اس کوشش میں ہیں کہ بے حجابی کو جواز کا درجہ دے دیا جائے؛ بلکہ بعض نے تو چہرہ کے حجاب کو غیر ضروری قرار دے دیا ہے اور اس بات کا دعوی ہی نہیں؛ بلکہ دعوت دینی شروع کردی ہے کہ چہرہ، ہتھیلیوں اور پیروں کو کھلا رکھا جائے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کو حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:’’ اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ‘‘
(سورۃ الاحزاب،آیت 59)
اسلام نے یہ بتایا کہ عورت کا اصلی مقام اس کا گھر ہے: اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے کو دکھاتی نہ پھرو۔
(سورۃ الاحزاب:33)
اس سے ظاہر ہے کہ نمائش کے لئے بن سنور کر نکلنا درست نہیں البتہ کسی ضرورت کے لئے باہر نکلنا شرعا جائز ہے چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے : ترجمہ: تم کو اپنی ضرورتوں کے لئے باہر نکلنے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے-
(صحیح بخاری شریف ، کتاب النکاح ،باب خروج النساء لحوائجہن، حدیث نمبر:4836 (
لیکن اس کے لئے اصول وقوانین دے گئے ہیں کہ وہ کس طرح پردہ کا اہتمام کریں کیونکہ پردہ ان کی عفت وعصمت کا محافظ ہے اور عفت وعصمت عورت کا جوہر ہے ، جس عورت کا یہ جوہرداغ دار ہوجاتاہے وہ اخلاق کی بلندی سے اتر کر قعر مذلت میں جا پڑتی ہے اس لئے پردے کا حکم دیا گیا۔
حجاب کے درجات :
اسلام نے عورت کے اصولی طور پر گھر میں رہنے اور بوقت ضرورت باہر نکلنے ہردو صورتوں میں پردے کے معتدل ومتوازن حدود وقیود مقرر کئے ہیں۔
پہلا درجہ:
حجاب کے سلسلہ میں پہلا درجہ حجاب اشخاص کا ہے کہ عورتوں کا شخصی وجود اور ان کی نقل وحرکت مردوں کی نظروں سے مستور ہو ، وہ اپنے گھروں میں رہیں اور ان کے لباس وپوشاک پر بھی اجنبی مردوں کی نظرنہ پڑے ، یہ اعلیٰ درجہ کا پردہ ہے چنانچہ اس سلسلہ میں باری تعالی کا ارشاد ہے۔ :اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے کو دکھاتی نہ پھرو۔
(سورۃ الاحزاب:33)
اور ارشاد خداوندی ہے:اور جب عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔
(سورۃ الاحزاب:53)
جامع ترمذی ،سنن ابوداؤد اور مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے:
’’سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما حضرت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھیں ، اتنے میں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں سے ارشاد فرمایا : ان سے پردہ کرو!حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تونا بینا ہیں ، ہم کو تو وہ دیکھ نہیں سکتے ، آپ نے جواب میں فرمایا: کیا تم بھی نابینا ہو؟ اور فرمایا : تم ان کو نہیں دیکھ سکتیں۔‘‘
(جامع ترمذی ،سنن ابوداؤد، کتاب اللباس ،مسند امام احمد (
دوسرا درجہ:
ضرورت کے وقت عورت کو جب باہر نکلنا پڑے تو حکم دیا گیا کہ وہ کسی برقع یا لمبی چادر کو سرسے پیر تک اوڑھ کر نکلے ، اس طرح کہ بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہواور وہ خوشبولگائے ہوئے نہ ہو، بجنے والا کوئی زیور نہ پہنے ، راستہ کے کنارے پر چلے ، مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہو ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی ازواج مطہرات و بنات طیبات اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیجئے کہ اپنے اوپر ایک بڑی چادر اوڑھ لیں ، اس سے بآسانی ان کا شریف زادی ہونا معلوم ہوجائے گا ، انہیں ستایا نہیں جائے گا۔
(سورۃ الاحزاب: 59)
تیسرا درجہ:
گھر کے اندر رشتہ داروں ، عزیزوں ، ملازمین کے آنے جانے اور انفرادی واجتماعی طور پر کھانے پینے سے منع نہیں کیا گیا اس سلسلہ میں اصولی ہدایات دی گئیں : آپ حکم فرمادیجئے ایماندار عورتوں کو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور حفاظت کیا کریں اپنی عصمتوں کی اور نہ ظاہر کیا کریں اپنی آرائش کو مگر جتنا اس سے خود بخود نمایاں ہو اور ڈالے رہیں اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر،نہ ظاہر ہونے دیں اپنی آرائش کو مگر اپنے شوہروں کیلیےیا اپنے باپ کے لئے یا شوہر کے باپ کے لئے یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوند کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں کے لئے اپنے بھانجوں کےلئے یا اپنی ہم مذہب عورتوں پر یا اپنی باندیوں پر یا اپنے ایسے نوکروں پر جو عورت کے خواہشمند نہ ہوں یا ان بچوں پر جو عورتوں کی پوشیدہ چیزوں سے واقف نہ ہوں اور نہ زور سے ماریں اپنے پاؤں زمین پر کہ معلوم ہوجائے وہ بناؤسنگار جس کو وہ چھپائے ہوئے ہیں اور رجوع کرو اللہ کی طرف تم سب اے ایمان والو تاکہ تم بامراد ہوجاؤ۔
(سورۃ النور:31)
جہاں تک مرد اور عورت کے تعلق کا مسئلہ ہے تو اس میں بعض ایسے رشتے آتے ہیں جو فطرۃ ً عورت کی عصمت وعفت کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں یہ وہ رشتے ہیں جن سے ہمیشہ کے لئے نکاح کرنا حرام ہے ، ان کو محارم کہتے ہیں جیسے باپ ، دادا ، نانا، بھائی چچا، ماموں ، بھتیجا، بھانجہ ، پوتا ، نواسہ، خسر، وغیرہ اور بہت سے وہ رشتے ہیں جن سے نکاح کرنا جائز ودرست ہے ان کو غیر محارم کہا جاتاہے جیسے چچازاد بھائی ، ماموں زاد بھائی ، خالہ زاد بھائی ، پھوپھی زاد بھائی ، دیور جیٹھ وغیرہ۔ اوریہ ایک فطری بات ہے کہ تمام رشتے آپس میں برابر نہیں ہوسکتے ، بعض تو وہ ہیں جن کی طرف نظریں اٹھتی ہی نہیں اور وہ خود اس کی عفت وعصمت کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں ، اور بعض تو وہ ہیں جن کی طرف نظریں اٹھ سکتی ہیں اس لئے اسلام نے پردہ کے احکام میں بھی فرق کردیا ہے ، اس لحاظ سے اس کی دوقسمیں بنتی ہیں۔
عورت کے پردہ سے متعلق احکام قرآن مجید کی سات آیات میں بیان کئے گئے ہیں! سورۂ نور کی تین آیات اور سورۂ احزاب کی چار آیات -پردے کے بارے میں تقریبا ستر(70) احادیث شریفہ میں احکام بتلائے گئے ہیں -شوہر سے پردے کا تو کوئی مسئلہ نہیں وہ اپنی بیوی کے سرسے لےکر قدم تک کے ہر حصۂ بدن کو دیکھ سکتا ہے تاہم آداب میں یہ بات داخل ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی شرمگاہ کو نہ دیکھیں - البتہ باپ دادا اور دیگر محارم سے پردے کے سلسلہ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ عورت ناف سے لیکر گھٹنے تک ، پیٹ پیٹھ اور ران کو مستور رکھے۔
محارم میں سے کسی کو بھی ان اعضاء کے دیکھنے کی اجازت نہیں ، ان کے علاوہ دیگر اعضاء جیسے چہرہ ، سر، پنڈلی اور بازو وغیرہ تو اس کو دیکھنے میں شرعا کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔