ماسی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
”ماسی “
احمد داؤد
اس وطن عزیز اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خواتین کے کیا مسائل ہیں اور کس طرح سے ہیں اور کس طرح حل ہو سکتے ہیں اس کیلئے ضروری ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ ہمارا معاشرہ طبقاتی ہے۔ہر کلاس اور طبقہ کی خواتین کے مسائل جدا جدا ہیں۔ نوکری پیشہ خواتین کے مسائل جدا ہیں۔ گھریلو خواتین کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ تنہائی کا شکار خواتین کے مسائل کیا ہے اور ان کے بارے مرد حضرات کے کیا نظریات ہوتے ہیں اور وہ کس طرح لاشعوری اور غیر ارادی طور پر معاشرتی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ مرد حضرات کو خود بھی نہیں کہ وہ کس طرح اپنے ظلم سے مظلوم عورتوں کو اپنا شکار بناتے ہیں۔
ہمارے معاشرہ کے ایک طبقہ کی خواتین لوگوں کے گھروں میں جاکر معمولی معاوضہ کے عوض کام کرتی ہیں، چند گھروں میں کپڑے دھو دیتی ہیں، چند گھروں میں برتن دھو دیتی ہیں ایک دو گھروں کی صفائی کر دیتی ہیں- اس طرح کل ملا جا کر پانچ سات گھروں میں مختلف کام کر کے چند ہزار روپے ماہانہ کمانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں- ان روپوں سے وہ اپنے گھر کا خرچہ چلانے میں اپنے خاوند یا اپنے گھر والوں کیلئے خوشحالی لانے کے خواب دیکھتی ہیں۔ ان لوگوں کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی گھر میں کوئی چیز ادھر ادھر ہو جائے سب سے پہلے اس گھر میں کام کرنے والی [جس کو عرف عام میں ”ماسی“ کہا جاتا ہے ]کا نام لیا جاتا ہے۔ اگر گھر میں چوری ہو جائے تو سب سے پہلے اس گھر کے کام کرنے والی پر شک کیا جاتا ہے اور اکثر اوقات پولیس کو پیسے دے کر ان کی جان خلاصی ہوتی ہے۔
تھانے میں جاکر بغیر پیسے خرچ کئے واپس آنا ایسے ہی ہے جیسے کنویں میں اینٹ گرے اور سوکھی باہر نکل آئے، گنہگار زیادہ پیسے دے کر باہر آئے گا اور بے گناہ کم پیسے دیکر آئے گا۔ یہ بات اب کائناتی سچائی بن گئی ہے کہ پاکستان کی پولیس رشوت کے بغیر اور بلیک میلنگ کے بغیر کچھ کر سکے۔ اس اعزاز میں صف اول کے ہیرو پنجاب پولیس کو سمجھا جا سکتا ہے حالانکہ وزیر اعلیٰ ان کی تنخواہیں ڈبل بھی کر چکے ہیں لیکن افاقہ نہ ہوا-
دوسرا سب سے بڑا خطرناک مسئلہ اسلام آباد کا ہے، یہاں پر زیادہ تر لوگ اپنے گھروں سے دور‘ اپنی برادری سے دور اور حتی کہ رشتہ داروں سے بھی دور رہ رہے ہوتے ہیں چنانچہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ یعنی جو اسلام آباد میں رہائش رکھتے ہیں کی اکثریت حیا سے بھی دور ہو جاتی ہے۔ ان کی نظروں میں بے حیائی اور اخلاقی پستی ابھر کر سامنے آ جاتی ہے اور تمام حیوانی جذبات ابھر کر اسی طرح سامنے آتے ہیں جیسے جنگل کے گدھے اپنے صنف مخالف کو دیکھ کر جوش میں آتے ہیں۔ ان نودولتیوں اور نو واردوں کو ہر عورت بدکردار نظر آتی ہے۔
ہر خاتون یا لڑکی کوغلط نظر سے دیکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور ہر عورت یا لڑکی کو وہ بے حیائی نگاہوں سے تاڑتے ہیں اور اب اسلام آباد کا یہ حال ہو گیا ہے کہ اس اسلامی ملک کے دارالخلافہ جس کا نام بھی دین کے نام پر رکھا گیا ہے اس کی کوئی گلی اور کوئی سڑک ایسی نہیں ہے جہاں کوئی صنف نازک خود کو محفوظ سمجھ سکتی ہو، اس مسئلہ میں کوئی تفریق نہیں ہے اور صنف نازک کی عمر سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا خواہ یہ تنہا صنف نازک عالم شباب میں ہو یا عالم پیری میں بے حیا نظروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا اوروطن عزیز میں حیا سے عاری لوگوں کی کمی نہیں خواہ یہ چھ جوان بچیوں کے باپ ہوں اور شادی شدہ بچوں کے باپ ہوں‘ خواہ ان کی اپنی بیوی انتہا کی خوبصورت ہو لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ اپنی برادری اور خاندان سے دور ہیں اس لیے ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں، بدقسمتی سے اس بے حیائی کے رحجان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اب ساتھ میں ان عورتوں کے خاوند بدکرداری کیلئے ڈورے بھی ڈالتے ہیں اور لالچ بھی دیتے ہیں وہ کہہ رہی تھی کہ باجی ان کی اپنی بیویاں خوبصورت بھی ہوتی ہیں اور صاف ستھری‘ نہا دھو کر بیٹھی ہوئی خوشبو سے لدی ہوئی ہیں پھر بھی یہ بدمعاش مرد ہم غریبوں کے پیچھے کیوں پڑ جاتے ہیں۔ باجی سنا ہے ایک طبقہ اس مسئلہ میں بہت سخت ہیں اور وہ عورتوں کو سخت پردہ تو کرواتے ہیں لیکن اگر کوئی عورتوں کو تنگ کرے تو اس کو سخت سزا دیتے ہیں۔
میں اس دوشیزہ کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ عزت کتنی پیاری ہوتی ہے۔ وہ سات پردوں کے پیچھے اور اپنے آپ کو قید کروانے کیلئے تیار تھی لیکن بے حیا نظروں سے بچنا چاہتی تھی، وہ مجھ سے سوال کرتی ہے کہ کیا کیا جائے؟ میرے پاس اس کے سوالوں اور آنکھوں میں چھائے خوف کے سایوں سے نجات کاکوئی چارہ نہیں۔ اس میں کون قصوروار ہے‘ کیا اس کی بے پردگی قصور وار ہے‘ کیا اس کی مفلسی اس کا قصور ہے یا ہمارے مردوں کا اخلاق ہی ایسا ہے اور ان کی بے حیا نظروں کا قصور ہے۔میری اس کام کرنے والی دوشیزہ کے مسئلہ کوکون سے انسانی حقوق کے محافظ حل کریں گے۔وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خواتین کے مسائل کے حل کیلئے کیا طریقہ اختیار کرنا ہے؟یہ کام ارباب اختیار کا ہے لیکن ان کے مسائل اور ہیں اور کام کرنے والی خواتین کے مسائل اور ہیں۔ کلاس اور طبقہ کے فرق سے حل کرنے کی صلاحیت اور توجہ بٹ جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ مایوسی کفر ہے لیکن کیاکیا جائے کہ امید کی کوئی کرن بھی تو نظر نہیں آتی-