ڈیڈی پلیز

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ڈیڈی پلیز
زاہد خان وزیر آبادی
ایک بوڑھے کسان نے اپنے دو بیٹے شہر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجے۔ نوجوان وہاں جا کر پڑھتے رہے ، بوڑھا کسان بہت خوش تھا کہ اس کی اولاد پڑھ لکھ اس کے لیے سہارا بنے گی۔ اس کا نام روشن کرے گی۔
وقت گزرتا گیا۔۔۔۔ بڑھاپے کا شکنجہ کستا رہا اور کسان بہت ضعیف ہوگیا۔ کافی عرصے کے بعد جب یہ دونوں بیٹے پڑھ لکھ کر واپس لوٹے۔ ان کی وضع قطع ، طور طریقے ، رہن سہن کا انداز اور ان کی بود وباش اب کافی بدل چکی تھی۔ وہ اپ ٹو ڈیٹ نوجوان تھے۔
رات گئے تک اپنے دوستوں کے ساتھ میسج اور کال پیکچز پر خوش گپیوں میں مصروف رہتے۔ دیر تک جاگنے کی وجہ سے فجر کی نماز کے وقت بھی ان کی آنکھ نہ کھلتی۔ تلاوت قرآن وغیرہ کا تو انہیں احساس تک نہ تھا۔
بوڑھا کسان کچھ دن تک تو یہی سمجھتا رہا کہ چلو خیر ہے ابھی شہر سے لوٹے ہیں تھکاوٹ کی وجہ سے سستی ہو گئی ہوگی۔ سمجھدار پڑھے لکھے تعلیم یافتہ ہیں ایک دو دن میں نماز تلاوت وغیرہ کی پابندی شروع کر دیں گے۔
لیکن ………کہاں ؟ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔
ایک دن کی بات ہے کہ بوڑھا کسان کھیتوں میں مویشیوں کے لیے چارہ لینے گیا ہوا تھا۔ اور یہ دونوں صاحبزادگان ڈیرے پر پڑی ایک چارپائی پربیٹھ کر گپ شپ میں مصروف تھے کہ دور سے انہیں ایک بوڑھا دکھائی دیا جو اپنے سر پر گھاس کی گٹھڑی لادے بمشکل چلا آرہا تھا۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ جب وہ ڈیرے کے بالکل قریب پہنچا تو انہوں نے دیکھا کہ یہ تو ہمارا باپ ہے۔ اب بوڑھے کسان کے دل میں بھی یہ بات بار بار آ رہی تھی کہ میرے نوجوان ابھی اٹھ کر مجھ سے یہ گٹھڑی لے لیں گے۔ لیکن نوجوان بالکل بے پرواہ ہوکر آرام سے بیٹھے رہے۔
بوڑھا کسان ڈیرے میں موجود گھاس والے کمرے میں جانے لگا تو اس کی وہ گٹھڑی دروازے میں پھنس گئی۔ وہ بے چارہ کبھی ادھر زور لگاتا اور کبھی ادھر۔
نوجوانوں سے رہا نہ گیا۔ اور وہیں بیٹھ کر ہدایات دینے لگے : ڈیڈی تھوڑا اس طرف۔ پاپا اس طرف۔ تھوڑا اور اوپر کو۔۔ ڈیڈی۔۔ پاپا۔
ڈیڈی پلیز !ذرا زیادہ زور لگاؤ۔
بوڑھے باپ نے گٹھڑی وہیں پھینکی اور قریب پڑا ایک بڑا سا ڈنڈا اٹھا کر دو دو انہیں رسید کیے اور پھر زور زور سے چیخنے چلانے لگا۔ ہائے میں برباد ہوگیا ، میری خواہشیں مر گئیں۔ میرے خواب چکنا چور ہوگئے۔ لوگو !مجھ سے دو پڑھے لکھے لے لو اور ایک ان پڑھ دے دو۔ جو میرے بڑھاپے کا سہارا بن سکے۔
اصل تعلیم تو وہ ہے جس میں بڑے چھوٹے کے الگ الگ حقوق بیان کیے گئے ہیں والدین کا ادب و احترام سکھایا گیا ہے۔ ان کی عزت اور وقار کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ اپنی اولاد کو جہاں دنیاوی تعلیم دلاتے ہیں وہاں پہلے دینی تعلیم ضرور دلوائیں ورنہ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا۔