رمضان اورہمارےٹی وی چینلز

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
رمضان اورہمارےٹی وی چینلز
نجیم شاہ
رمضان المبارک میں ٹیلی ویژن پر دینی پروگراموں کے حوالے سے ملک کے ایک مؤقر قومی روزنامہ میں ایک تکلیف دہ رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ مختلف نجی ٹی وی چینلز پر ’’ریٹنگ‘‘ بڑھانے کے چکر میں علماء کی جگہ گلوکاروں، اداکاروں، فنکاروں اور کامیڈین نے لے رکھی ہے جو دین سے مکمل لاعلمی کے باوجود ٹی وی چینلوں پر عالم بن کر گفتگو فرما رہے ہیں۔
جب سے پاکستان میں پرائیویٹ ٹی وی چینل وجود میں آئے ہیں خود ساختہ علماء اور دانشوروں کی ایک نئی کھیپ مارکیٹ میں آ گئی ہے جن کا دین اور دانش سے اتنا ہی واسطہ ہے جتنا گدھے اور کتابوں کا۔ وہ حقیقی اور جید علماء جنہوں نے اپنی زندگیاں دینی علوم کے حصول کیلئے وقف کر ڈالیں ان کا کوئی نام تک نہیں لیتا اور وہ دانشور جنہوں نے علم و حکمت کے موتی سمیٹے ان کو کوئی گھاس تک نہیں ڈالتا۔
یہ میڈیائی خود ساختہ علماء راتوں رات کلف لگی شیروانی سے سلائی کرکے اور ایک عدد چشمہ لگا کر تیار کیے جاتے ہیں اور اگلے روز کتابوں بھری الماریوں کے ساتھ سکرین پر پیش کر دیئے جاتے ہیں۔ جہاں سیدھے سادھے عوام کے ایمانوں کی سرجری شروع کر دی جاتی ہے۔
ایسی پریشان کن صورتحال سے بے چین ہو کر دین کا درد رکھنے والا ہر مسلمان یہ تقاضا کرتا ہے کہ حقیقی اور جید علمائے کرام ٹی وی پروگراموں میں آ کر اسلام کے خلاف اُٹھنے والے ہر فتنہ کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کریں بلکہ عوام کو اصل حقائق سے بھی آگاہ کریں مگر افسوس کہ بدقسمتی سے دینِ اسلام کے محافظ علمائے کرام اب تک سوچوں میں گم ہیں۔
علمائے کرام کا ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ تصویر بنانا اور بنوانا دونوں حرام ہیں۔ چوں کہ ٹی وی میں تصویر ہوتی ہے اس لیے ٹی وی پروگرام کرنا اور دیکھنا دونوں ناجائز ہیں۔ دوسرا طبقہ جو تصویر بنانے اور بنوانے کو ناجائز نہیں سمجھتا مگر اسلام مخالف حساس اور سنگین معاملات سے خود کو قدرے درر ضرور رکھتا ہے۔
جبکہ علماء کا تیسرا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اسلام مخالف پروپیگنڈے جیسے نازک حالات میں اپنے مؤقف کی صحیح وضاحت اور پروپیگنڈے کے خاتمے کیلئے ٹی وی پر اضطراری طور پر بدرجہ مجبوری آیا جا سکتا ہے۔
ایسے علماء میں سے کچھ ذاتی حیثیت میں ٹی وی جلوہ افروز ضرور ہوتے ہیں مگر اکثریتی علمائے حق کی اس دوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ٹی وی چینلوں کے ذریعے کئی ایسے خود ساختہ عالمِ دین اور مذہبی اسکار متعارف ہو چکے ہیں جو اپنی اور اسلام دشمن قوتوں کی مرضی کے ’’رنگین اسلام ‘‘کو فروغ دینے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
ٹی وی چینلوں پر ایسے خود ساختہ مذہبی اسکالرز اور جاہل ماڈرن مولویوں کے ذریعے اخلاقیات، سماجی تعلقات، روشن خیالی، ذہنی کشادگی اور سوچ پر کاری ضرب لگائی جا رہی ہے۔
بہت سی این جی اوز اور شخصیات جو حدود آرڈیننس اور توہین رسالتؐ جیسے قوانین کے خاتمے کیلئے سرگرم رہتی ہیں وہ بھی ان قوانین سے منسلک حساس معاملات پر ایسے ہی جاہل خود ساختہ مذہبی اسکالرز کی رائے کو اپنے حق میں استعمال کرتی ہیں۔
ان خود ساختہ علماء کی دیکھا دیکھی پچھلے کچھ سالوں سے ایسی خواتین بھی رمضان المبارک کے اسلامی پروگرام کرنے لگی ہیں جو پارٹ ٹائم ڈانس کلبوں کی زینت بنی رہتی ہیں۔
اسلامی پروگرام ان عریاں اداکاراؤں کے حوالے کرنے پر پاکستان میں خاصا ردعمل دیکھا جا رہا ہے مگر ٹی وی چینلز کو کنٹرول کرنے والا سرکاری ادارہ پیمرا خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔
ٹی وی پر بحث و مباحثہ کے پروگراموں میں جو تماشا لگتا ہے اس تماشاگاہ میں بقول سینئر کالم نگاراوریا مقبول جان’’ تمسخر اور تضحیک کا نشانہ بنانے کے لیے سادہ لوح علماء کو بُلایا جاتا ہے پھر اُن کے منہ میں ایسے فقرے ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے جن میں ان تمام ظالمانہ اور جاہلانہ رسوم کو اسلام اور مولوی کے کھاتے میں ڈال کر بدنامی کی مہر لگا دی جاتی ہے۔‘‘
کچھ عرصہ قبل ایک مقبول ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے مذہبی پروگرام میں قبولِ اسلام کا جاہلانہ ڈرامہ رچایا گیا۔ پروگرام کے میزبان برائے راست ٹیلیفون کال پر ایک غیر مسلم خاتون کو مسلمان کر رہے تھے۔
کمال بات یہ ہے کہ موصوف اس بات سے بھی ناواقف نکلے کہ غیر مسلم کو کون سا کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا جاتا ہے، جبکہ جو معروف کلمہ پڑھایا گیا وہ جناب موصوف تو خود بھی صحیح طرح سے نہیں پڑھ سکتے تھے اور اس کلمہ کا جو ترجمہ فرما رہے تھے وہ بھی اپنی جگہ ایک شاہکار ہے کہ جو نہ کسی نے آج تک کیا نہ کسی نے سُنا ہوگا۔ جس خاتون کو وہ مسلمان کرنے کی ’’سعادت‘‘ حاصل کر رہے تھے وہ زیادہ بہتر طریقے سے کلمہ پڑھ رہی تھی۔
اسی طرح ایک اور لائیو ٹیلی ویژن شو میں ایک ہندو نوجوان کو اسلام قبول کرتے دکھایا گیا۔ جیسے ہی ہندو نوجوان نے امام کے ذریعہ اسلام قبول کیا تو اس پر نہ صرف بھرپور خوشیاں منائی گئیں بلکہ جس انداز سے مبارکباد کے پیغام آنے شروع ہوئے اُس سے یہی تاثر ابھرتا تھا کہ پاکستان میں کسی بھی مذہب کو وہ حیثیت حاصل نہیں جو کہ اسلام کو حاصل ہے۔ایسی صورتحال سے فائدہ وہ این جی اوز اور شخصیات اُٹھاتی ہیں جو اقلیتی حقوق کے نام پر واویلا کرکے حدود آرڈیننس اور توہین رسالت جیسے قوانین کے خاتمے کے لیے سرگرم ہیں۔
’’پروٹوکولز ‘‘ایک ایسی مقبولِ عام دستاویز ہے جسے دنیا بھر سے منتخب کی گئی یہودی داناؤں کی ایک پوری جماعت نے صدی پہلے تحریر کیا۔ اس کتاب کے بارہویں باب میں میڈیا کو کنٹرول کرنے اور اس کے ذریعے برین واشنگ اور ذہنی دھلائی کرکے اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا پلان بھی شامل ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہودی اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مقبول ٹی وی چینلز امریکی پروگرام برائے میڈیا سے مالی تعاون حاصل کرتے ہیں جبکہ تیکنیکی تعاون وہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے حاصل کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ چند برس سے امریکا اور برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے یہ دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ پاکستانی ٹی وی چینلز پر پیش کیے جانے والے اسلامی پروگرامز سے شدت پسندی پھیل رہی ہے لہٰذا انہیں بند کیا جائے۔
اسی دباؤ کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اسلامی پروگرامز تو بند نہ کیے جائیں البتہ ان کی میزبانی خود ساختہ علماء، اداکاراؤں اور کھلاڑیوں کے سپرد کر دی جائے تاکہ ان پروگرامز سے معاشرے میں اسلام پسندی بھی نہ پھیلے اور ٹی وی چینلز کا کاروبار بھی چلتا رہے۔ جو میڈیا یو ایس ایڈ کے پے رول پر چل رہا ہو یا پھر اس کے کچھ پروگرام بیرونی فنڈنگ اور ایجنڈے پر عمل پیرا ہوں ،اس سے یہ ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اسلام اور پاکستان کا صحیح تشخص اُجاگر کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔ اس لیے رمضان المبارک کی بابرکت ساعتیں ضائع ہونے سے بچائیں۔