نقوشِ بندگی کی تازگی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
نقوشِ بندگی کی تازگی
بنت مولانا عبدالمجید قدس سرہ
شعبان کا آخری دن تھا ، قدسی صفات انسانوں کا مجمع تھا، نور کی بارش تھی ، طلب سے چھلکنے والے دل تھے سراپا اشتیاق آنکھیں تھیں ، سننے کے لئے بے تاب کان اور نبوت کی شیریں زبان!!!! بول مختصر مگر پر اثر۔۔۔ الفاظ سادہ مگر معانی سے لبریز،،، منبعِ فصاحت و بلاغت برجستگی و شستگی سے فرما رہے تھے۔
لوگو!!! اک ماہِ عظیم و بابرکت تم پر سایہ فگن ہو رہا ھے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
آقا فرما رہے ہیں :یہ صبر کا مہینہ ہے ،جس میں اللہ نے روزے فرض کئے ہیں اور رات کے قیام کا حکم دیا ہے۔
مزید فرمایا؛ جو اس ماہ میں روزہ دار کو افطار کرائے گا اس کے گناہ معاف کردئے جائیں گے۔ اس کی گردن دوزخ سے آزاد کردی جائے گی اور روزہ دار کے اجر میں کمی کئے بغیر اسے روزہ کے برابر اجر سے نوازاجائے گا۔
یہ فرمان کیا کم لائقِ زر تھے کہ آقا مزید فرما رہے ہیں؛ کہ میرے غریب صحابہ و امتیو!!!یہ ثواب تو رب العالمین اس شخص کو بھی عطا کرے گا جو دودھ یا پانی کے گھونٹ یا کھجور سے افطار کروائے گا۔
کیونکہ رب العالمین کے دربار میں کمیت اور مقدار نھیں ، کیفیت اور معیار دیکھا جاتا ہے۔
لہذا اہلِ ایمان کو مبارک ہو کہ وہ ماہِ مقدس پھر سے جلوہ فگن ہے جس میں روحانیت کی فضا عام ہوتی ہے۔ بندگی و طاعت کی طرف دامنِ دل خود کھینچتا ہے۔ تراویح کے خوبصورت مناظر ہوتے ہیں اور قبولیت کی گھڑیاں منتظر رہتی ہیں۔ مغفرت کے پروانے اور مرادوں کے لمحے تاک میں رہتے ہیں لیکن افسوس کے غفلت کے اندھیروں سے پھر بھی کچھ لوگ نکلنے نہیں پاتے۔
اجتماعی زندگی کا تو اب قصہ ہی کیا چھیڑنا۔۔۔۔ اس سے کئی گنا تو انفرادی زندگی زخم خوردہ اور پارہ پارہ ہے جس میں با برکت ساعتیں بڑی آسانی سے نذرِ غفلت ہو جاتی ہیں یہ بھی دھیان نھیں رہتا کہ لیلۃ القدر جیسی عظیم رات بسترِ استراحت پر یا شوقِ سیاحت میں سرِ بازار گزر رہی ہے۔
خواتینِ اسلام کی رب سے راز و نیاز کی ساعتیں سحر و افطار کے لوازمات میں صرف ہو جاتی ہیں اور اس میں اس قدر لغو ہے کہ تھکن کے باعث پھر مانگنے ،طلب کرنے لجانے اور تڑپنے کے اوقات میں بس وہی ایک رسمی اور فرضی سی عبادت ہی ہو پاتی ہے جو مزاج میں پہلے ہی سے رچی ہو ،حالانکہ یہ وہ دن ہیں جس کی ہر ساعت ساعتِ دعا اور ہر وقت وقتِ التجا ہے
انہی کو وہ ملتے ہیں جن کو طلب

ہیں

وہی ڈھونڈتے ہیں جو ہیں پانے

والے

یوں تو ہم میں سے ہر ایک کواپنی زندگی کے نشیب و کھٹنائیوں کاالمیہ رونا آتا ہے ،درد کے قصے تو ہزار ہیں لیکن وائے رے نادانی!!! کہ دوائے درد سے نظریں چرالیں۔
ان لمحوں سے غافل رہے جب رب العالمین کی آواز عالمِ فنا میں گونج رہی ہوتی ہے۔
ہے کوئی گناہ گار جو مجھ سے مغفرت طلب کرے اور میں اس کی مغفرت کردوں؟؟ ہے کوئی رزق کا طلب گار جو میرے سامنے دامن پھیلائے اور میں اس کے دامن کو بھر دوں ؟؟؟
ہے کوئی جس کی سرکشی نے نقوشِ بندگی دھندلے کر دئے ہوں اور وہ آنسووں کے چند قطرے بہا کر انہیں اجلا اور روشن کر دے؟؟؟
پھر تو یقیناًوہ کوئی تہی دامانِ عقل ہی ہوگا جو امیدِ نو کے تابناک لمحے گنوادے۔اب پھر سے مہلت ہے اپنی حیاتِ مستعار سے انصاف و اعتدال کا معاملہ کیجئے۔۔
نامعلوم کتنے ہیں ،،شاید ہزاروں یا لاکھوں !!! جن کی گردنیں نیکیوں کے اس موسمِ بہار میں دوزخ سے آزاد کردی جائیں گی،،کیا ٹھکانہ ہو گا خوش نصیبی کا اگر ہمارا نام بھی اس فہرست میں آجائے۔
تو آئیے !!!
بہت شکم خوری ہوئی صرف ایک ماہ خورد و نوش کی بے اعتدالیوں پر بندش لگا کر دیکھیں۔۔
چولہے کی آگ کے سامنے ذرا نارِ جہنم کا تصور کر کے دیکھیں بہت عیش کوشی و نیند شبی ہوئی، اب کچھ شب عبادت کی لذت حاصل کر کے دیکھیں۔
بلاشبہ یہ مہینہ نقوشِ بندگی کی تازگی اور تجدیدِعہد کا مہینہ ہے اور رب کی شفقت کسی کو مایوس و محروم نہیں چھوڑتی بس اس کے حضور ایک بار ہاتھ پھیلا کرمانگنا آجائے کہ
درد ہا دادی در مانی ہنوز
)تونے درد دیا ہے تو اب دوا بھی دےدے(