مہمانوں کی آمد

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مہمانوں کی آمد
حافظ سمیع اللہ طاہر
عبداللہ کی امی معمول کے مطابق صبح سویرے جلدی بیدار ہو گئیں، سب سے پہلا کام یہ کیا کہ پمپ کا بٹن آن کر دیا سوچا کہ پانی والی ٹینکی بھر جائے ساتھ ہی عبداللہ کی آنکھ کھل گئی۔
امی جان! کیا بات ہے ؟ عبداللہ بولا آج آپ اتنی جلدی بیدار کیوں ہو گئیں؟ کیا امی نماز کا وقت ہوگیا؟
نہیں بیٹا! ابھی دو گھنٹے پڑے ہوئے یہ سنتے ہی وہ سو گیا۔ امی نے بھائی اور ہمشیرہ کو جگایا اٹھو نماز تہجد ادا کرو ، اتنے میں پانی کی ٹینکی بھر چکی تھی۔ جس کی وجہ سے چند قطرات پانی کے عبداللہ کے چہرے پر آلگے۔ ساتھ ہی اس کی آنکھ کھل گئی۔
امی؛ اسداللہ اور ثوبیہ کو کہہ رہی تھیں ، بیٹا! جلدی کرو نماز پڑھو مہمان آ رہے ہیں۔ عبداللہ کے کانوں میں یہ آواز پڑنے کی دیر تھی کہ وہ اسداللہ اور ثوبیہ کو بیدار ہوتا نہ دیکھتے ہوئے مسجد کی طرف چل دیا وہاں جاکر اس نے تہجد کی نماز ادا کی اور ذکر اللہ کیا۔
پھر فجر کی اذان دی نماز فجر ادا کی اور قرآن پاک کی تلاوت کی۔ اتنے میں سورج اپنی کرنیں بکھیرتا ہوا افق پر آن ابھر وہ مسجد سے گھر کی طرف لوٹا ابھی گھر میں داخل ہی ہوا تھا کہ اس کا منہ کھلے کا کھلا ہی رہ گیا۔ گھر کا سارا سامان الٹ پلٹ دیکھ کر وہ حیران ہوکر سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔
وہ یہ سوچ رہاتھا کہ گھر میں ضرور ڈاکو داخل ہوئے ہوں گے ، جنہوں نے لوٹ مار کے بعد سامان کا یہ حال کر ڈالا۔
یہ سوچ ہی رہا تھا کہ امی جان سر پر آکھڑی ہوئیں مجھے پریشان دیکھ کر وہ بولیں بیٹا کیا ہوا؟ عبداللہ نے آنکھوں سے سامان کی طرف اشارہ کر دیا ، امی نے کہا بیٹا گھر میں مہمان آرہے ہیں اس لیے گھر کی صفائی کا کام شروع ہے اور سامان سارا اس لیے بکھرا پڑا ہے۔
امی بار بار ثوبیہ کو کہہ رہی تھیں ،بیٹا ! جلدی کرو کہیں لائٹ نہ چلی جائے۔ مہمانوں کی آمد سے پہلے گھر کی صفائی ستھرائی کا کام مکمل کر لیا جائے۔
یہ بات سن کر عبداللہ حیرت سے بولا: امی جان! کیا حکومت والوں کو معلوم نہیں کہ ہمارے گھر مہمان آرہے ہیں ، وہ ہوش کے ناخن لیں کچھ دن لائٹ بند نہ کریں جب تک مہمان ہمارے گھر میں ہیں ، اسداللہ بولا۔
امی بولیں : بیٹا! کیا بتاؤں بس ہماری حکومت اتنی اچھی کہاں وہ ہمارے مہمانوں کا خیال رکھ سکے؟ثوبیہ گرم لہجے میں بولی کیا وہ ہم پر رحم نہیں کرتے ہر وقت ہم پر ظلم وستم کرتے رہتے ہیں۔امی! آخر ہماری حکمرانوں کو کیا مسئلہ ہے کہ وہ ہمیں چین سے نماز بھی پڑھنے نہیں دیتی ؟ اسداللہ بولا کتنا عرصہ گزر چکا ہے کہ ہم اذان کی آواز کو ترس رہے ہیں۔ جب بھی نماز کا وقت ہوتا ہے تو لائٹ بند ہوجاتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے ؟ امی بولیں: بیٹا! حکومت کہتی ہے ہمارے پاس پانی کی کمی ہے۔ ساتھ ہی کھڑی ثوبیہ نے برجستہ جواب دیا: امی! جب ہم لوگ اپنی ٹیچر ز کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیوں میں کاغان، ناران کی سیر کے لئے جب گئے تھے تو ہمارا جی چاہا ہم جھیل سیف الملوک کا بھی دیدار کر لیں کیونکہ اس کے بہت ترانے سنے تھے۔ جب ہم جھیل پر پہنچے تو وہ واقعی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ حسین مناظر بھی پیش کر رہی تھی اور زبان حال سے کہہ رہی تھی :سیاحو! میرا یہ پیغام حکومت کو پہنچا دینا اگر پانی کی ضرورت ہو تو میں پورےپاکستان کو پانی مہیا کر سکتی ہوں پھر کیوں پانی کم ہوگیا؟
دوسرے دن ابو جی نے عبداللہ کو کہا: بیٹا! کل صبح سویرے نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر سیدھا سبزی منڈی جائیں گے تاکہ مہمانوں کے لیے سامان خرید لائیں۔ جب وہ منڈی میں پہنچے تو بے پناہ رش دیکھنے کو ملا۔ عبداللہ نے حیرت زدہ لہجے میں کہا: ابو جی! یہاں کوئی بم دھماکہ تو نہیں ہوا؟ ابو نے نہیں میں جواب دیا۔
لوگ اپنے اپنے مہمانوں کے لیے اشیاء خورد نوش خرید رہے تھے ابو نے بھی کافی سارا سامان جمع کر لیاتھا۔ وہ سامان لے کر واپس لوٹے تو ایک دکان پر کافی شور غل تھا وہ بھی وہاں کھڑے ہو گئے۔ ساتھ ہی ایک آدمی نے اپنی بغل سے پستول نکال کر دوکان دار کوگولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ معلومات سے پتہ چلا کہ فلاں محلہ کا بڑا آدمی سیٹھ ہے جو چند روپوں کی خاطر دکان دار کو ابدی نیند سلا دیا۔
وہ منڈی سے باہر نکلے تو ارد گرد فروٹ کی لگی ہوئی دکانوں پر لوگوں کو بہت چہل پہل تھی وہ توبہ استغفار کا ورد کر رہے تھے۔ عبداللہ اور اس کے ابو نے سمجھا کوئی بہت بڑا گناہ کر بیٹھے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ توبہ استغفار کر رہےتھے۔
عبداللہ فوراً ایک آدمی کی طرف بڑھا وہ اس کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ عبداللہ نے اس سے پوچھا یہ لوگ کانوں کو کیوں ہاتھ لگا رہے ہیں؟ اس نے کہا گھر میں مہمان آنے والے ہیں۔ خورو نوش کی تمام اشیاء آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں اور کہہ رہے تھے یہ ظالموں کا سایہ ہمارے سر سے کب ٹلے گا کہ غریب عوام بھی اپنے مہمانوں کی احسن طریقے سے مہمان نواز کر سکیں۔ وہ حکمرانوں کو بہت کچھ بول رہےتھے۔
عبداللہ بولا میں ایک کان سے سنتا دوسرے سے نکال دیتا۔ عبداللہ دل ہی دل میں کہہ رہا تھا یہ ہمارے گناہوں کی شامت ہے اور اللہ کی نافرمانی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو چھوڑنا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شیطان ہمیں فحاشی ،عریانی اور زناکاری کی طرف دھکیل رہا ہے اس لیے آج ہم کو ناکامی کا سامنا کر نا پڑ رہاہے۔
دوسری طرف اس کےابو جان بولے : بیٹا! مہمان آرہے ہیں اللہ کے ہاں سر بسجود ہوجانا اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا تاکہ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔ تمام معاملات درست ہوجائیں گے۔ اتنے میں ایک گدھا گاڑی والا بھی ان کے پیچھے آ پہنچا اتنے میں گھر کی گھنٹی بجی۔ ابوجان ہی باہر آئے ان کے ساتھ پیچھے عبداللہ بھی آوازیں لگاتا ہوا آ پہنچا۔۔ ابو جان نے ایک لال نوٹ کڑکتا ہو گدھا گاڑی والے آدمی کی بڑھایا۔ یہ کیا بات ہے کہ ابھی تک اس نے سامان نہیں اتارا آ پ اس کو پہلے ہی مزدوری دے رہے ہیں عبداللہ اپنے ابو سے بولا۔ ابو نے کہا :بیٹا! اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کی جائے۔ ریڑھی بان گھر پر سارا سامان اتارا اور اس نے سو روپے میں سے بیس روپے واپس کر دیے۔ لیکن ابو نے نہ لئے عبداللہ گرم لہجے میں بولا ابو جان کرایہ تو اسی (80) روپے طے پایا تھا آپ نے بیس روپے واپس کیوں نہیں لئے؟ ابو نے کہا بیٹا غریب آدمی ہے میں صدقہ سمجھ کر اس کی مدد کی۔ یہ بھی ہمارےپیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ساتھ ہی ابو نے پچاس کا نوٹ اس کی طرف بڑھادیا یہ لو میر ی طرف سے آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کر لینا اس کے ابو بولے۔
دوسرے دن ابو نے نماز مغرب کے بعد مسجد سے واپسی آتے ہی سب گھر والوں کو جمع کیا اور گول میز کانفرنس شروع کر دی۔ ابو کہنے لگ تم سب کومعلوم ہے کہ ہمارے گھر میں مہمان آرہے ہیں اور آپ سب نے اچھی طرح ان کی خاطر تواضع کرنی ہے۔
ٹی وی ، گانا بجانا اور تمام ایسے فحاشی کے کاموں سے بچنا ہے دوسروں کو بھی اس سے بچنے کا کہنا ہے۔ خوب اللہ کی عبادت میں ہر وقت مگن رہنا ہے ساتھ ہی کہہ دیا کہ مہمانوں کی آمد سے پہلے آپ کے چاند ماموں آپ کے مہمانوں کی خوش خبری دینے آئیں گے۔ جب آپ چاند ماموں کو دیکھ تو یہ دعا پڑھ لینا:
اللہم اھلہ علینا بالیمنی والایمان والسلامۃ والسلام والتوفیق لما تحب وترضیٰ ربی وربک اللہ
انہوں نے یکجاں ہو کر لبیک کہا پھر ابو نے کہا پہلے مہمان کی آمد پر آپ نے یہ دعا پڑھنی ہے
:وبصوم غدنویت من شہر رمضان
اور کہا مہمان کا خوب جوش وخروش کے ساتھ نماز، قرآن اور ذکر وغیرہ سے استقبال کرنا جب وہ شام کو رخصت ہو تو یہ دعا پڑھ لینا
:اللہم انی لک صمت وبک امنت وعلیک توکلت وعلیٰ رزقک افطرت۔
ثوبیہ ، عبداللہ، اسداللہ نے یہ دعائیں فوراً یاد کر کے ابو کو گول میز کانفرنس کے اختتام ہونے سے ہی سنا دی ان کو شاباش ملی اور ابو نے ساتھ ہی ان کو انعامات سے بھی نوازا۔ وہ سب مہمانوں کے استقبال کے لیے تیار ہوگئے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو اچھی طرح مہمانوں کو خوش آمدید کرنے کی توفیق بخشے اور ہماری نجات کا ذریعہ بن جائے۔
آمین یا رب العالمین