بلکتی ماں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بلکتی ماں!!!...
مفتی محمدمعاویہ اسماعیل ،مخدوم پور
شادی کے ایک سال بعداللہ تعالی نے ان کوچاندجیسے ایک بیٹے سے نوازا، لیکن شوہرکی زندگی نے وفانہ کی اوروہ بیٹے کی پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعدفوت ہو گیا،پیچھے اس کی بیوی اکیلی رہ گئی،عدت گزرنے کے بعداس نے سوچاکہ اگرمیں دوسری شادی کرلوں تومجھے توخاوندمل جائے گامگرمیرے بیٹے کی زندگی بربادہوجائے گی،پتہ نہیں دوسراخاوند اس کے ساتھ کیاسلوک کرے گا،اس کی پرورش کیسے ہو گی؟یہ سوچ کراس نے دوسری شادی کاارادہ ترک کردیا،اورتہیہ کرلیاکہ وہ اس بچے کی پرورش اس طریقے سے کرے گی کہ اس کی عزت بھی محفوظ رہے،پھروہ کچھ سوچ کراپنے دورکے ایک بہت بڑے اللہ والے جن کولوگ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے نام سے جانتے تھے ،کے حلقہ درس میں شامل ہوگئی،ان کی شاگردی حاصل کرلی ، باقاعدہ ان کادرس سنتی اورنیکی پرزندگی گزارتی،ہرکام میں ان سے مشورہ کرتی،اوراسی درس میں اس کویہ حدیث بھی سننے کوملی جس کامفہوم یہ ہے کہ’’ جوبیوہ بچوں کی تربیت کی خاطر دوسرانکاح نہ کرے توباقی پوری زندگی اس کوغازی بن کرزندگی گزارنے کا ثواب دیاجاتاہے‘‘۔(راوہ البخاری)اس لیے کہ وہ اپنے جذبات کوکنٹرول کرکے زندگی گزاررہی ہے،جس سے اس کے اطمینان میں مزیداضافہ ہوگیا۔
آہستہ آہستہ بچہ بڑاہونے لگا،اس کودیکھ کراکثروہ یہ سوچاکرتی کہ جب میرا بیٹابڑاہوجائے گاتومیراسہارابنے گا،تھوڑا عرصہ مشقت کاہے،بیٹے کے جوان ہوتے ہی میری مشقت کم ہوجائے گی،اس طرح وہ اپنے بیٹے کاپوراخیال کرتی،اس کی ہر ضرورت کوپوراکرتی،اس کی ہرخواہش کوپوراکرنے کی کوشش کرتی،اوراسے باقاعدگی سے اپنے استاذحضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے درس میں بھی لے جاتی،وقتافوقتاان سے اپنے لئے اوربچے کیلئے دعابھی کرواتی۔
بچہ جب کچھ بڑاہوگیاتووہ کھیلنے کیلئے گھرسے باہرنکل جاتا،ساراسارادن گھر سے باہرکھیلتارہتا،گھرسے باہراس کی ماں اس کی نگرانی نہ کرسکتی تھی،جب وہ گھر آتا توکبھی اس کووہ پیارسے سمجھاتی اورکبھی ڈانٹ بھی دیتی،کہ اتنی دیرگھرسے باہرنہ رہا کرو!لیکن بچہ جیسے جیسے جوان ہوتاگیااس کی عادتیں بدلنے لگیں،اس کے پاس مال کی تو کمی تھی نہیں اورادھرسے جوانی تھی،گھرمیں توماں روکنے ٹوکنے والی تھی مگرگھرسے باہراس کوکوئی بھی روکنے والانہیں تھا،اس سے کوئی پوچھنے والانہیں تھا،کہ توکہاں جا رہاہے؟کن کی صحبت میں بیٹھ رہاہے؟کیاکررہاہے؟گھرمیں جب ہوتاتوماں اس کو پیار سے سمجھاتی اب وہ اس پرسختی بھی نہیں کرسکتی تھی،کہ وہ اب بڑا ہو گیا تھا، مگراس نے ماں کی کوئی بات نہ مانی،اسی وجہ سے وہ بری صحبت میں گرفتارہوگیا،شباب اور شراب میں مصروف ہوگیا،اس کی اس طرح ابترہوتی حالت کودیکھ کرماں سے برداشت نہ ہوسکا،اس نے سوچاکہ اس کواپنے شیخ کے پاس لے جاتی ہوں،ہوسکتاہے کہ ان کے سمجھانے سے اس کوکچھ عقل آجائے، اوریہ راہ راست پرآجائے،تووہ اس کواپنے استاذوشیخ کے پاس لے گئی،حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے بھی اس کوبہت سمجھایا،اس کواس کی ماں کااکیلاپن اس کی پرورش میں اس نے جومشقیتں اٹھائی تھیں،سب باتیں تفصیل سے بتائیں کہ شایدکوئی بات اس کی عقل کولگ جائے،لیکن اس کاتو نیکی کی طرف کوئی دھیان ہی نہ تھا،شیخ کی باتیں وہ بے دھیانی سے سنتارہاواپس آ کربھی وہ اپنی عادتوں سے بازنہ آیا۔
پھرآہستہ آہستہ یہ ہونے لگاکہ وہ رات کوبھی گھرنہ آتاباہرہی ساراوقت گزاردیتاکبھی کبھی آتا،توپھرماں اس کوسمجھاتی اس کی کبھی منت کرتی،کبھی کبھی تووہ اس کوسمجھاتے سمجھاتے روبھی پڑتی،اورحضرت کے پاس بھی لے کرآتی،مگراس کے کان پرجوں تک نہ رینگتی،وہ ہر نصیحت کی بات کوایک کان سے سن کردوسرے کان سے نکال دیتا،حتی کہ حضرت کے دل میںیہ بات آئی کہ شایداب اس کادل پتھربن گیاہے،اس کے دل پرمہرلگ گئی ہے،اب اس کوسمجھانافضول ہے،اب یہ کوئی بات بھی نہیں سمجھے گا،الاماشاء اللہ،مگرماں توماں تھی،اس نے ہمت نہ ہاری،وہ اس کوسمجھاسمجھاکرنہ تھکتی،اس کیلئے دعائیں بھی کرتی، اسکے لئے اللہ تعالی کے سامنے گڑاگڑاکرروتی،بچے کی ہدایت کی بھیک مانگتی،وہ اپنے اللہ سے ناامیدنہ تھی۔
واقعتادنیامیں ماں ہی توہے جواپنے اچھے بچوں سے بھی پیارکرتی ہے اوربروں سے بھی،اس کی نظرمیں تواس کے بچے بچے ہوتے ہیں، اولاد اولادہوتی ہے،وہ ان کوصرف اس نظرسے دیکھتی ہے کہ یہ میرے بچے ہیں یہ جیسے بھی ہیں،ہیں تومیرے بچے،حتی کہ باپ بھی کبھی کبھی تنگ آکرکہہ دیتاہے کہ نکل جاؤ،مجھے کبھی دوبارہ اپنی شکل نہ دکھانا،مگرماں کبھی نہیں کہتی۔
ماں کے دل میں اللہ تعالی نے محبت رکھی ہے،وہ اپنے بچوں کیلئے مشقیتں بھی بہت زیادہ اٹھاتی ہے،اسی وجہ سے حضورﷺسے جب یہ پوچھاکہ ہم پرکس کاحق ہے،توآپﷺنے فرمایاکہ تیری ماں کا،پھرپوچھاگیاکہ کس کاحق ہے فرمایاتیری ماں کا،پھرپوچھاگیاکہ کس کاحق ہے؟فرمایاتیری ماں کا،چوتھی مرتبہ پوچھے جانے پرفرمایاکہ تیرے باپ کا۔
چنانچہ جب کبھی وہ گھرآتاتوماں اس کوکھانابناکردیتی،اس کیلئے دروازہ کھولتی اورپھراس کواس امیدسے کہ شایدسمجھ جائے دوبارہ سمجھاتی،کہ میرے بیٹے نیک بن جا!زندگی اچھی کرلے!مگربیٹاتھاکہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
اللہ کی شان کئی سالوں تک برے کاموں میں لگ کراس نے اپنی صحت کے ساتھ ساتھ ساری دولت بھی بالکل تباہ کرڈالی،اس کے جسم میں کئی بیماریاں پیدا ہو گئیں،حتی کہ ڈاکٹروں نے بیماری بھی لاعلاج قراردے دی،اب اس میں اٹھنے بیٹھنے کی سکت ہی نہ رہی،اوروہ آخرکار بستر پر پڑ گیا، اور اتنا کمزورہوگیاکہ اس کوآخرت کا سفرسامنے نظرآنے لگا،اس کویقین ہوگیاکہ اب وہ بسترسے نہیں اٹھ سکے گا،اب اٹھے گاتواس کاجنازہ ہی اٹھے گا۔
ماں پھرامیدلے کراس کے پاس بیٹھی ہوئی محبت سے سمجھانے لگی، میرے بیٹے اب تک تونے زندگی کاجوحشرکرلیاہے وہ توکرلیا،اب بھی وقت ہے تومعافی مانگ لے،توبہ کرلے،اللہ گناہوں کومعاف کرنے والاہے،وہ معاف کردے گا،دیکھ تیرے اس سب کچھ کرنے کے باوجودبھی مجھے تجھ سے محبت ہے کیونکہ میں تیری ماں ہوں،مجھے تجھ سے نفرت نہیں ہورہی،توجیساکیسابھی ہے میراتوبیٹاہے،اسی وجہ سے میں تجھ سے محبت کرتی ہوں،اوراللہ تعالی تواپنے بندے کے ساتھ سترماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں،تومعافی مانگ لے اللہ تعالی تجھے ضرورمعاف کردیں گے۔
جب ماں نے پھرپیارومحبت سے اس کوسمجھاناشروع کیاتواس کے دل پراس کابہت اثرہوا،کہنے لگا ماں مجھے بتاؤمیں کیسے توبہ کروں؟مجھے توتوبہ کرنی ہی نہیں آتی،مجھے طریقہ بتاؤ!میں نے بہت گناہ کیے ہیں،ماں !کیااللہ تعالی مجھے معاف کردیں گے؟ماں نے کہابیٹااللہ تعالی اپنے بندوں کوکبھی ناامیدنہیں کرتے،توناامیدمت ہو، معافی تومانگ کردیکھ،اللہ تعالی ضرورمعاف کردیں گے،ماں میں معافی کس طرح مانگوں؟مجھے تو پتہ نہیں،ماں نے کہابیٹاحضرت کے پاس چلتے ہیں ان سے دعاکرواتے ہیں، کہاامی! میں تو چل کرنہیں جاسکتا،میرے جسم میں چلنے کی طاقت تو دورکی بات اٹھ کربیٹھنے کی ہمت اورسکت بھی نہیں ہے،اورآپ بھی مجھے اٹھاکرحضرت کے پاس نہیں لے جاسکتیں،تومیں کیسے ان تک پہنچوں؟بلکہ امی آپ ایساکریں کہ آپ خودحضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس جائیں اورحضرت کومیری یہ حالت بتلائیں،ان کو بلا لائیں،ماں نے کہاٹھیک ہے بیٹا!میں حضرت کے پاس جاتی ہوں،ماں جب جانے لگی تو بچے نے کہاامی اگرآپ کے آنے تک میں دنیاسے رخصت ہوجاؤں،تو حسن بصری رحمہ اللہ سے کہناکہ میرے جنازے کی نمازوہی پڑھائیں،ہوسکتاہے ان کے جنازہ پڑھانے کی برکت سے اللہ تعالی میری بخشش فرمادیں۔
چنانچہ ماں جب حضرت رحمہ اللہ کے پاس گئی تواسی وقت حضرت کھانے سے فارغ ہوئے تھے اورتھکے ہوئے تھے ، درس بھی دیناتھااس لئے وہ درس سے پہلے تھوڑی دیرکیلئے قیلولہ کیلئے لیٹناچاہتے تھے ، ماں نے دروازہ کھٹکھٹایا، پوچھا گیا کون؟ عرض کیاحضرت میں ہوں آپ کی شاگردہ ہوں،حضرت! میرابچہ اب آخری حالت میں ہے،لگتاہے اس کاآخری وقت آ گیا ہے،اب وہ توبہ کرناچاہتاہے لہذا آپ ہمارے گھرتشریف لے چلیں،اورمیرے بچے کو توبہ کرادیں،اس کے لئے دعابھی کردیں، حضرت نے سوچاکہ اب پھروہ اس کو دھوکا دے رہاہے ،پھروہ اس کاوقت ضائع کرے گااوراپنابھی ،سالوں گزرگئے اب تک کوئی بات اس پراثرنہ کرسکی،اب کیاکرے گی؟ اس کے پاس جاکراس کوسمجھانافضول ہے،لہذافرمایا کہ بیٹی اس کے پاس جاناوقت ضائع کرناہے،اورمیں اپنا وقت ضائع نہیں کرسکتا،لہٰذامیں نہیں آ سکتا ، کیونکہ اب بھی توبہ نہیں کرے گا،پہلے بھی ایساکئی مرتبہ کرچکاہے۔
ماں نے کہاحضرت اس نے تویہ بھی کہاہے،کہ اگر میرا انتقال ہو جائے تو میری جنازہ کی نمازحضرت حسن بصری رحمہ اللہ ہی پڑھائیں،مجھے امیدہے کہ وہ اب دل سے شرمندہ ہے وہ واقعتاتوبہ کرنا چاہتا ہے، حضرت رحمہ اللہ نے فرمایاکہ میں اس کے جنازہ کی نمازکیسے پڑھاؤں گا؟مجھے تولگتاہے کہ اس نے توکبھی نمازہی نہیں پڑھی،یہ سن کر وہ شاگردہ بھی خاموشی سے اٹھی اورمغموم دل کے ساتھ واپس چل پڑی،ایک طرف بیٹاہے دوسری طرف سے حضرت کاانکار،اس کاغم تو دوگناہوگیا،وہ بے چاری آنکھوں میں آنسولئے گھرواپس آئی بچے نے ماں کو زار و قطار روتا ہوا دیکھا تو اس کادل اورموم ہوگیاکہنے لگاامی آپ کیوں اتنارورہی ہیں؟ ماں نے کہا بیٹا ایک تیری حالت یہ ہے اوردوسری طرف حضرت نے تیرے پاس آنے سے انکار کر دیاہے، تو اتنابراکیوں ہے کہ وہ تیرے جنازے کی نمازبھی نہیں پڑھانا چاہتے،اب میں کیاکروں؟مجھ سے تیری یہ حالت دیکھی نہیں جارہی،اورمیں حضرت کوبھی کچھ نہیں کہہ سکتی۔
یہ بات اس نوجوان نے سنی تواس کے دل پرایک گہری چوٹ لگی اس کے دل کوبہت صدمہ ہوا،اب اس کواحساس ہواکہ وہ کتنابراہے،اس نے خدا کتنی نافرمانی کی،جس کے نتیجے میں اللہ والے میرے پاس آناتودورکی بات میراجنازہ پڑھانے کیلئے بھی تیارنہیں ہیں،کہنے لگاامی آپ پریشان نہ ہونا،یہ کہتے ہی وہ لمبی لمبی سانسیں لینے لگا،امی!امی!امی!امی ی ی ی ی !مم...مجھے ، مجھے مشکل سے سانسیں آ رہی ہیں،اے اے ایسانہ ہوکہ میری سانس اکھڑجائے اورمم میں کچھ کہنے سے پہلے ہی مم مرجاؤں،امی !میری ایک وصیت سن لو! ماں نے روتے ہوئے اس کاسراپنی گودمیں رکھ لیااوربولی بیٹابتاتوکیاکہناچاہتاہے؟میں تیری ہرخواہش کوپوراکرنے کی کوشش کروں گی،اللہ تجھے لمبی زندگی دے،کہاامی میں کچھ وصیت کرناچاہتاہوں،مجھے لگ رہا ہے کہ میراوقت آگیاہے۔
میری وصیت یہ ہے کہ جب میری جان نکل جائے،میں مر جاؤں توسب سے پہلے اپنادوپٹہ میرے گلے میں ڈالنا،میری لاش کوکتے کی طرح گھرکے صحن میں گھسیٹنا،جس طرح مرے ہوئے کتے کی لاش گھسیٹی جاتی ہے،اوراچھی طرح گھسیٹنا..
ماں نے پوچھابیٹاوہ کیوں؟ کہاامی اس لئے تاکہ دنیاوالوں کوپتہ چل جائے کہ جواپنے رب کااوراپنے ماں باپ کانافرمان ہوتاہے اس کاانجام یہی ہوتاہے،وہ دنیا اورآخرت دونوں جہانوں میں ذلیل ہوتا ہے، ہو سکتاہے میری اس حالت سے کسی کوعبرت حاصل ہو،اورمیری طرح کا کوئی دوسرا اس حالت کوپہنچنے سے پہلے ہی توبہ کرلے،امی اسی وجہ سے توحضرت بصری رحمہ اللہ میرے پاس نہیں آئے،کہ میں بہت براہوں،جی امی جی میں واقعتابہت براہوں،مم میں ہوں بھی اسی قابل کہ دنیا کا ہربندہ مجھے دھتکاردے۔
امی مجھے قبرستان میں بھی دفن نہ کرنا،امی مجھے اسی صحن میں دفن کردینا،اسی گھرکے صحن میں دبادینا،ماں نے کہا بیٹے کیوں؟کہا ایسانہ ہوکہ میرے گناہوں کی وجہ سے قبرستان کے دوسرے مردوں کو تکلیف پہنچے، خدارا مجھے عام قبرستان میں دفن نہ کرنا،امی !امی !امی!امی ...ی ی ی ی ی یہ کہتے کہتے اس کی روح اس کے جسم کاساتھ چھوڑگئی۔
اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی،اس کاجسم بے جان ہوگیا،وہ مر چکا تھا،اورادھراس کی مرتے وقت کی کی ہوئی یہ باتیں اللہ تعالی کوبہت زیادہ پسندآگئیں تھیں،ماں ابھی روتے ہوئے اس کی آنکھیں بندکرہی رہی تھی کہ باہر سے دروازہ کھٹکھٹایاگیا،ماں نے اندرسے پوچھا کون ؟ جواب آیا حسن بصری!ماں جلدی سے باہرکی طرف لپکی اورپردے کے پیچھے سے پوچھاحضرت آپ کیسے؟
یہ کہتے ہی اس سے برداشت نہ ہوسکااوروہ رونے لگی،حضرت !حضرت! میرابیٹاچلاگیا،میرالخت جگرآپ کی انتظارکرتاہوااس جہاں کوچھوڑگیا،اب وہ کبھی نہیں آئے گا،حضرت اس نے اپنے آخری وقت میں آپ کوبہت یادکیاتھا،وہ آپ کوبہت ہی یادکررہاتھا،وہ واقعتاتوبہ کرناچاہتاتھا،وہ بہت شرمندہ تھا،ماں روتی جاتی تھی اورکہتی جاتی تھی،حضرت حسن بصری نے یہ حالت دیکھ کرفرمایابیٹی تم پریشان نہ ہو،اب بھی میں نے آنے میں دیرنہیں کی،اگرپہلے آتاتوشایداپنی مرضی سے آتالیکن اب جوآیاہوں یہ آیانہیں بلکہ بھیجاگیاہوں۔
حضرت !وہ کیسے؟نوجوان کی ماں نے پوچھا،توحضرت فرمانے لگے کہ جب میں نے تمہیں جواب دے دیااورنہ آیاتواس کے فورابعدمیں سوگیا،مجھے اسی وقت خواب میں اللہ تعالی کادیدارنصیب ہوا،پرودگارنے فرمایاکہ حسن بصری تومیراکیساولی ہے؟میرے ایک ولی کے جنازہ پڑھنے سے انکارکرتاہے؟
میں سمجھ گیاکہ اللہ تعالی نے تیرے بیٹے کی توبہ قبول کرلی ہے،لہذا تیرے بچے کی نمازجنازہ پڑھنے کیلئے حسن بصری حاضرہے،اب اس جنازے میں شرکت کومیں اپنے لئے نجات کاذریعہ سمجھ کرپڑھاؤں گا،یہ سن کرنوجوان کی ماں نے خدا کا شکر ادا کیا،جس نے اس کی دعاؤں کوقبول کرلیاتھااوراس کارونارائیگاں نہیں ہواتھا،اوراس کے بیٹے کی آخرت کوسرخروکردیاتھا،ادھرحضرت حسن بصری رحمہ اللہ سوچ رہے تھے کہ یہ سب کچھ صرف اورصرف اس نوجوان کی ماں کے رونے تڑپنے بلکنے اور دعاؤں کااثرہے۔
یقیناماں باپ کااپنی اولادکیلئے روناکبھی رائیگاں نہیں جاتا،خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کواللہ تعالی نے ایسے ماں باپ دیے ہیں جوصرف ماں باپ ہی نہیں بلکہ ماں باپ ہونے کاحق اداکرتے ہیں،اپنی اولادکیلئے ہمیشہ دعائیں کرتے ہیں،اولادکی طرف سے پہنچنے والی کسی بھی تکلیف کویہ سمجھ کرمعاف کردیتے ہیں،کہ چلوکوئی بات نہیں بچے ہیں،تکلیف پہنچنے کے باوجودبھی ان کوکبھی بددعانہیں دیتے۔
اللہ تعالی ہرایک کے ماں باپ کاسایہ ان کے سروں پرتادیرقائم ودائم رکھے،اوراولادوں کوماں باپ کی صحیح خدمت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائیں۔
آمین ثم آمین بجاہ النبی الامی الکریم۔