آزادئ نسواں یا بربادئ نسواں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
آزادئ نسواں یا بربادئ نسواں ؟؟
بنت عبدالمالک ، اٹک
آج مسلمانوں عورتیں یورپ کی تقلید میں آزادئ نسواں کے نام پر بے راہ روی کا شکار ہیں جبکہ یورپ کی عورتیں بے راہ روی اور بے پردگی کا مزہ چکھنے اور اس کے بھیانک نتائج کا مشاہدہ کرنے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہیں۔ عورت کی عزت اور حفاظت پردے ہی میں ہے جبکہ اس کے برعکس بے پردگی میں اس کی ذلت ہے۔
اور یہ آزادئ نسواں کا دل فریب نعرہ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے اس نعرہ کی آڑ میں ان کی عزتوں سے کھیلا جا رہا ہے اس نعرہ کا سہارا لے کر عورت سے ماں کا مرتبہ اور باپ کا سہارا چھینا جا رہا ہے اور اس دھوکے سے اولاد کو شفقت مادری اور تربیت پدری سے محروم کیا جا رہا ہے اور وہ خاتون جو گھر میں شرافت کا مجسم نمونہ بن کر احترام و توقیر کی علامت تھی جس کی خدمت کے نتیجے میں اسے ماں کی عظمت ، بہن کا احترام ، بیٹی کا تقدس اور بیوی کی محبت حاصل تھی لیکن اس نعرہ کی بدولت اس کی نسوانیت جیسی متاع بے بہا چھین کر ہولناک شہوانی نگاہوں کا شکار بنا دیا گیا۔ یہ سب استحصالی ٹولے کی کارستانی ہے کہ آج بنت حوا کی شرم و حیا اور عفت و عصمت سربازار نیلا ہو رہی ہے۔
میں نے دیکھا ہے کہ آزادی

نسواں میں الجھ کر اکثر

تم نے اسلاف کی عزت کے

کفن بیچے ہیں

نئی تہذیب کی بے روح

بہاروں کے عوض

اپنی تہذیب کے شاداب

چمن بیچے ہیں

اس مادیت پرست اور نفس پرستی کے دور میں کچھ مرد اور عورتوں نے اپنی کم فہمی اور کم عقلی کی وجہ سے مسئلہ بنا رکھا ہے کہ نظربینی )بد نظری(اور عشق مجازی سے کچھ نہیں ہوتا انسان کا دل پاک ہونا چاہیے کیونکہ اصل پردہ تو دل کا ہوتا ہے۔
پردہ کے احکام کے پہلے مخاطب صحابہ و ازواج مطہرات ہیں ازواج مطہرات کے دلوں کو پاک صاف رکھنے کا تو حق تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہےاور دوسری طرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جن کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ اللہ نے ان کو دنیا میں جنتی ہونے کا اعزاز بخش دیا لیکن ان سب کےباوجود بھی ان کی طہارت قلب اور نفسانی وساوس سے بچنے کے لیے پردہ کا حکم نازل ہوا۔ ان پردہ کی آیات کے نازل ہونے کے بعد تمام صحابیات کا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پردہ کرنا ثابت ہے۔
اس طرح ایک صحابیہ ام خلاد ایک روز چہرے پر نقاب ڈالے خدمت اقدس میں اپنے بیٹے کے متعلق پوچھنے کے لیے حاضرہوئیں ان کا بیٹا کسی غزوہ میں شہید ہوگیا تھا تو ان کا یہ حال دیکھ کسی نے کہا تم اپنے بیٹے کا حال دریافت کرنے آئی ہو اور چہرے پر نقاب ڈالے ہو تو اس پر ام خلاد نے جواب دیا : اگر میں نے اپنے ہر دلعزیز بیتے کو کھو دیا تو ہرگز اپنی شرم و حیاء نہ کھوؤں گی۔
اب آج کے دور کا وہ کون سا شخص ہے جو اپنے نفس کو صحابہ کرام کے نفس سے پاک اور اپنی عورتوں کے نفوس کو ازواج مطہرات کے نفوس سے زیادہ پاک ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے ؟؟
پردہ ہی پارسائی کا زریں اصول

ہے

یہ تو حکم خدا اور حکم رسول ہے
الغرض !دل کا پردہ یا آنکھ کی حیا دوانتہائی گمراہ کن اصطلاحات ہیں یہ اصل میں دل کے پردے کی آڑ میں ہر قسم کی بے پردگی ، اور ہرطرح کی آزادی کا جواز پیدا کرنا چاہتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دل کا پردہ اسلامی پردہ کے خلاف ایک سازش ہے شرعی حجاب سے فرار کا ایک نیا انداز ہے۔ یہ دل کا پردہ نہیں بلکہ دل پر جہالت کا پردہ ہے۔
اَلْحِجَابْ اَلْحِجَابْ ……قَبْلَ الْعَذَابْ
اہلیہ محمد واصل انور ، کراچی
اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر فطری خوبیوں سے مالا مال کیا ہے ان خوبیوں میں سے ایک خوبی شرم و حیاء ہے، شرم و حیا اس صفت کو کہتے ہیں جسکی وجہ سے انسان ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتا ہے۔
دین اسلام کامل ضابطہ حیات ہے لہذا دین اسلام نے حیاء کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے، حیاء کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرے سے عریانی اور فحاشی کو ختم کر دیا جائےیہ بات طے شدہ ہے کہ بےپردگی ہی زنا کا سبب بنتی ہے اس ليے دین اسلام نے عورت کو حجاب (پردے) میں رہنے کا حکم دیا ہے۔
مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ پردے سے متعلق قرآن مجید کی سات آیات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واسلم کی سترا حادیث ہیں کہ حتی الوسع عورت گھرمیں ہی رہے اگر کسی ضرورت کے تحت نکلنا پڑے تو اپنے جسم اور زیب و زینت کو چادر، برقعے کے ذریعے غیر محرم سے چھپائے۔
قرآن مجید میں ہے:
(وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھیلیۃ الاولی)
ترجمہ: اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور دکھلاتی پھرو جيسا کہ جاہلیت کے دور میں دکھلانے کا دستور تھا۔
اس آیت میں عورت کو اپنے گھر میں اپنے کا حکم دیا گیا ہے کہ گھر کی چار دیواری میں رہ کر اپنے فرائض کو اچھی طرح پورا کرے تاہم جتنا عورت گھر میں رہے گی اتنا ہی اللہ تعالی کا قرب پاۓ گی، حدیث پاک میں ہے کہ
(اقرب ماتکون من وجہ ربھا وھی فی قعربیتھا) (ابن خزیمہ، ابن حبان)
ترجمہ: عورت اپنے رب سے سب سے زیادہ اس وقت قریب ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے درمیان میں چھپی ہو۔
ازواج مطہرات عام حالات میں جب سفر کی حاجت نہ ہوتی تو گھر کی چاردیواری میں رہتی تھیں اور اگر کبھی سفر پیش آجاتا تو بھی پردے اور خیمے کے اندر رہتی تھیں عجیب بات تویہ ہے کہ اسلام کے شروع کے زمانے میں جاہلیت اولی بے پردگی کا سبب تھی اور آج کے دور میں جاہلیت آخری بے پردگی کا سبب ہے آجکل کی بعض انگریزی تعلیم یافتہ عورتیں تو پردے کی مخالفت کر کے اپنے پڑھے لکھے جاہل ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے قصاب کی دکان سے چند کلو گوشت خریدنا ہو تو اسے کپڑے یا تھیلے وغیرہ میں چھپا کر گھر لے جاتا ہے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ گوشت کو تھال میں ڈال کر سرپر رکھے اور راستے میں چلے اسے خطرہ ہوتا ہے کہ چیل، کوے وغیرہ جھپٹ پڑیں گے اور گوشت کو اڑا‎ لیے جائیں گے اسی طرح 50 کلو کی نوجوان لڑکی گھر سے بے پردہ حالت میں نکلے تو انسانی بھیڑے اس کے گرد منڈلانا شروع کردیتے ہیں اور کئ مرتبہ تو پورے کے پورے 50کلو کو ہی غائب کردیتے ہیں۔
ایک عورت کی بےپردگی کئی خاندانوں کی عزت خاک میں ملادیتی ہے، لہذا انسانی غیرت اور ایمانی غیرت کا تقاضا ہے کہ عورت پردے میں حجاب پہن کر نکلے۔قرآن کریم میں مال اور بیٹے کو دنیا کی زینت کہا گیا ہے بیٹی کو متثنی قرار دیا ہے اس لیے کہ وہ چھپانے کی چیز ہے نمائش کی چیز نہیں ہے، لہذا مسلمان عورت پردے کا خوب اہتمام کرے۔اللہ تعالی تمام مسلمان بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کو پردہ کرنے اور ازواج مطہرات کے نقشے قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
الحجاب الحجاب ……..قبل العذاب