ماں کا خط

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ماں کا خط
عائشہ افتخار
اے میرے بیٹے یہ خط تمہاری زخمی دل اورمسکین ماں کی طرف سے ہے!
بہت انتظار کے بعد میں نے یہ خط لکھا ہے!
کیونکہ جب بھی خط لکھنے کے لیے قلم اٹھایا!
آنسووں نے مجھے لکھنے سے روک دیا!
اور
بہت دفعہ آنسو تھامنے کی کوشش کی !
تو
دل خون کے آنسو رو پڑا۔
اے میرے بیٹے!! اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اب میں نے تمہیں ایک مکمل عقل مند انسان پایا ہے!!اس لیے تمہارا فرض بنتا ہے کہ تم میرا خط پورا پڑھوچاہے پڑھنے کے بعد جس طرح میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اسی طرح اس خط کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا۔
اے میری جان!!میری زندگی کا سب سے زیادہ خوشی کا لمحہ وہ تھا جب ڈاکٹر نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ میں ماں بننے والی ہوں۔ ہر ماں اس لفظ کا مطلب اچھی طرح جانتی ہے۔جہاں یہ بات اپنے اندر خوشی سمائے ہوئے ہے وہیں اس بات میں ہزاروں تکالیف بھی چھپی ہوئی ہیں۔
تم شاید نہیں جانتے کہ تمہاری تخلیق کے دوران مجھے کن کن مراحل میں سے گزرنا پڑا اور کن کن تکلیفوں کو برداشت کرنا پڑا۔۔۔
پھر وہ وقت آیا جب تم اس دنیا میں آ گئے۔۔
خوشی سے میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔۔
تمام درد بھول گئی۔۔۔
اتنی تکالیف سہنے کے بعد تمہیں پیدا ہوتے ہی اپنے سینے سے لگایا۔۔
اے میری جان!!
اس کے بعد کتنے سالوں تک میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے نہلاتی دھلاتی رہی
اپنی گود کو تمہارے لیے بستر بنایا۔۔۔
تمہاری خاطر راتوں کو جاگتی رہی کہ میرا لخت جگر سو جائے۔۔
اور دن کو تمہارے کام کر کے تھک جاتی کہ تم خوش رہو۔۔
تمہیں اپنا سب خوشیاں قربان کر کے پالا۔۔
ہر وقت تمہیں خوش دیکھنا ہی میری تمنا تھی۔۔
اس لیے جو تم مانگتے تمہاری خوشی کی خاطر تمہیں دیتی تھی۔۔
تمہیں خوش دیکھنا ہی میری خوشیوں کی انتہا تھی۔۔
دن اور رات گزرتے گئے۔۔
میرا یہ حال تھا کہ میں تمہاری ایسی خادمہ بن گئی کہ جس نے کبھی کوئی کمی بیشی نہیں کی۔
جس نے کبھی اپنے سکون کا خیال نہیں رکھا۔۔۔
جس نے کبھی آرام نہیں کیا۔۔۔
اور ہر وقت تمہارے لیے خیر و بھلائی کی دعا کرتی رہی۔۔
اپنی نیند ، آرام ، خواہشات اور سکون قربان کر کے تمہاری نگہبانی کرتی رہی
یہاں تک کہ تم جوان ہو گئے۔۔۔
پھر تمہاری خوشیاں پوری کرنے کے لیے دائیں بائیں تمہارے لیے دلہن کی تلاش شروع کی۔۔۔
اور پھر۔۔۔۔تمہاری شادی کا وقت قریب آ گیا۔۔
تمہاری جدائی کی غمی اور تمہاری نئی زندگی کی خوشی سے میرے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
اور آخر کار تمہاری شادی ہو گئی۔۔
آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا۔
تم میرے وہ بیٹے نہیں رہے جسے میں نے اپنے ہاتھوں میں پالا تھا۔۔
تمہاری مسکراہٹ چھپ گئی اور آواز غائب ہو گئی۔۔
تمہاری تمام محبتیں مجھ سے روٹھ گئیں۔۔
تم میرے تمام حقوق بھول گئے۔۔
تمہارے انتظار میں دن اور رات گزرتے گئے۔۔
تمہاری آواز سننے کو ترس گئی۔۔۔
اب راتیں اندھیری ہو گئی ہیں اور دن لمبے!!۔۔۔
نہ تمہیں دیکھ سکتی ہوں نہ تمہاری آواز سن سکتی ہوں!!
تم اس ذات کو بھول گئے جس نے تمہاری دن رات خدمت کی!!
اے میری بیٹے!!
میں تم سے کوئی بہت بڑا مطالبہ نہیں کرتی..
میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ تم مجھے اپنے دور کے دوستوں میں سے ایک دوست بنا لو..
جس سے تم کبھی کبھار ملتے ہو..
یا ...
اپنی زندگی کی گاڑی کا اسٹیشن بنا لو۔۔
جس پر سے تمہارا ہر ماہ گزر ہو۔۔
تاکہ میں تمہارا چند منٹوں تک دیدار ہی کر سکوں۔۔
اے میرے لخت جگر!
بڑھاپے نے میری کمر توڑ دی ہے۔۔۔
جسم کمزور ہو گیا ہے۔۔۔
بیماریوں نے مجھ پر حملہ کر دیا ہے۔۔
اگر تم پر کوئی شخص احسان کرے تم اس کے احسان کا بہت اچھا بدلہ دو گے
اور تمہاری ماں نے تم پر زندگی کے 25 سال احسان کیے۔۔۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔
تم میرے احسانات کو احسانات ہی نہیں سمجھتے۔۔
اگر
تم میرے احسانات کو احسانات سمجھتے۔۔۔
تو مجھے اس کا ضرور بدلہ دیتے۔۔
میں نے اپنی ساری زندگی تمہاری خدمت میں گزار دی۔۔
لیکن
تم نے مجھے کیا بدلہ دیا؟؟!!
کیا تمہارے دل کی سختی اس حد تک بڑھ گئی ہے؟!
اے میرے بیٹے جب بھی مجھے پتا چلتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں خوش ہو
تو میری خوشی بھی بڑھ جاتی ہے۔۔
اور میں حیران ہوتی ہوں کہ
تم میری ہی گود میں پلے بڑھے ہو
اور میرے ایسے دشمن بن گئے ہو کہ
نہ مجھے دیکھنا پسند کرتے ہو
نہ ملنا
آخر میں نے کون سا ایسا گناہ کیا؟!!
کیا کبھی میں نے تمہارے ساتھ برا سلوک کیا؟؟!!
یا کبھی تمہاری خدمت میں کمی بیشی کی؟؟!
مجھے اپنے نوکروں میں سے ایک نوکر ہی بنا لو جنہیں تم تنخواہ دیتے ہو
اپنی محبت کا ایک حصہ مجھے بھی دے دو..
اور جو احسانات میں نے تم پر کیے ہیں اس کا تھوڑا سا بدلہ ہی دے دو
احسان کرو!!
''اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے''
اے میری جان!!
میں صرف تمہارا دیدار کرناچاہتی ہوں
چاہے تم مجھے اپنا ترش رو چہرہ ہی دکھا دو..!!
میری جان تمہاری موجودگی میں...
میرا دل غم سے پھٹ رہا ہے!!
میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں!!
جبکہ لوگ تمہارے حسن خلق اور جود وکرم کی باتیں کرتے ہیں...
اے میرے لخت جگر!!
کیا ابھی تک تمہارا دل ایک ایسی عورت کے لیے نرم نہیں ہو اجس پر بیماریوں نے حملہ کیا ہوا ہے!!
اورغموں نے اسے گھیر رکھا ہے!!
تم نے اس کے آنسو بہائے!
اس کے دل کو غمگین کر دیا!!
اور اس سے تعلق توڑ لیا!
اے بیٹے ! میں جانتی ہوں جب سے تم جوان ہوئے ہو ہمیشہ نیک کاموں کی تلاش میں رہتے ہو
اے میری جان!میں تمہیں اس بات سے ڈراتی ہوں کہ کہیں تم ان لوگوں میں سے نہ ہو جانا جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اس کا ناک خاک آلود ہو...اس کا ناک خاک آلود ہو...اس کا ناک خاک آلود ہو... ''صحابہ کرام نے پوچھا: کون ہے وہ ؟اے اللہ کے رسول !آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا 'ایک کو یا دونوں کو 'ا ور پھر وہ جنت میں داخل نہ ہوا''رواہ مسلم
اے میرے لخت جگر!!
میں اپنے غم و حزن کی شکایت اللہ سے نہیں کرتی!
اگر میری آواز بلند ہو کر آسمانوں تک پہنچ گئی تو تم پر میری نافرمانی کرنے کی سزا نازل ہو جائے گی۔
اور تمہارا گھر مصیبت کا گھر بن جائے گا!!
نہیں !! ہر گز نہیں!! میں کبھی بھی ایسا نہیں کروں گی!!
تم ابھی تک میرے دل کے ٹکڑے ہو!!
میری دنیا کی خوشی ہو!!
میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو!!
اے میرے بیٹے!
کچھ سال گزرنے کے بعد تم پر بھی بڑھاپے کے اثرات دکھائی دینے لگیں گے...
کچھ سال گزرنے کے بعد تم بھی بوڑھے ہو جائو گے...
جو سلوک تم نے میرے ساتھ کیا ہے .. تمہارے بچے تمہارے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں گے...
جس طرح میں تمہیں آنسوؤں کے ساتھ خط لکھ رہی ہوں!!
تم بھی اپنے بیٹوں کو اسی طرح خط لکھو گے...
اور اللہ کے پاس تو سب نے ہی حساب دینا ہے۔
اے میرے بیٹے !اللہ سے ڈرو۔ اپنی ماں کا حق ادا کرو۔
''ماں سے چمٹ جائو.. کیونکہ ماں کے پاؤں تلے جنت ہے''
اس کے آنسووں کو صاف کرو..اس کے دکھ کو ختم کرو ..
یا
یا
یا
اس کے خط کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو...!!
جس نے نیک عمل کیا اپنے لیے کیا، او ر جس نے برا کام کیا اپنے ہی لیے کیا۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
تمہاری ماں