مردہ اژدھا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مردہ اژدھا
مولانا خبیب احمد گھمن
مولانا روم نے اپنی مثنوی میں ایک حکایت نقل کی ہے کہ
ایک سپیراسانپ پکڑ کر اپنی روٹی روزی کا سامان کیا کرتا تھا.. دن رات نئے اور زھریلے سانپوں کی تلاش میں جنگلوں ویرانوں اورصحراؤں میں سرگرداں رہتا.. ایک بار برفباری کے موسم میں اسے ایک قوی الجثہ اژدھا مردہ حالت میں دکھائی دیا..
سپیرے نے اتنا بڑا اژدھا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا.. اس کے دیکھنے سے اس کے دل پرہیبت طاری ہوئی.. پھر خیال آیا کہ اگر اسے کسی طریقے اٹھا کر شہر میں لے جاؤں تو تماشیائیوں کا انبوہِ کثیر جمع ہو جائے گا اور میری آمدن میں بیش از بیش اضافہ ھو جائے گا.. سو وہ بڑی محنت اور مشقت سے اس مردہ اژدھے کو لے کر شہر میں آگیا..
اژدھا کیاتھا ' ایک طویل ستون محسوس ہو رہا تھا..
سپیرا اسے موٹے رسوں سے باندھ کرکھینچتا ھوا لایا اور شہر میں منادی کروا دی کہ میں نے بڑی مشکل سے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اس اژدھے کو قابو کیا لیکن افسوس کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے یہ مرگیا ہے..
سپیرے کے اس کارنامے سے شہر بغداد میں دھوم مچ گئی.. لوگ جوق درجوق وہاں پہنچنے لگے..
سینکڑوں اور ہزاروں احمق جمع ھوگئے.. سپیرے نے ان سے پیسے بٹورنے کیلئے یہ انتظام بھی کیا کہ اژدھے کو لپیٹ لپاٹ کر ایک بڑے سے ٹوکرے میں بند کردیا تاکہ جب زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوجائیں تب اس اژدھے کی رونمائی کرے.. تھوڑی ہی دیر میں اس قدر لوگ جمع ہو گئے کہ شہر کے چوک میں تل دھرنے کے جگہ باقی نہ رہی..
دوسری طرف حقیقت یہ تھی کہ سپیرا اپنے گمانِ فاسد کے مطابق اسے مردہ سمجھ رھا تھا جب کہ وہ اژدھا زندہ تھا.. شدت کی سردی اور برفباری کی وجہ سے اس کا جسم سُن ھوگیا تھا اور وہ مردہ دکھائی دے رہا تھا.. شہر کی دھوپ اور لوگوں کی اژدھام کی وجہ سے اس کے وجود میں کچھ حرارت پیدا ہوئی اور یکایک اس نے ایک جنبش لی اور اپنا منہ کھول دیا.. پھر کیا تھا ایک قیامت برپاہوگئی.. لوگ بدحواس ہوکر بھاگے.. بہت سے لوگ ہجوم میں بری طرح کچلے گئے..
اژدھے نے سارے رسے توڑ دیے.. دہشت کی وجہ سے سپیرے کےہاتھ پاؤں پھول گئے.. اس نے کہا یہ کیا غضب ہوگیا.. یہ پہاڑ سے میں کس آفت کو اٹھا لایا ہوں.. اس اندھے بھیڑیے کو میں نے ہوشیار کردیا ہے.. اپنےہاتھوں سے اپنی موت بُلالی ہے..
ابھی وہ اپنی جگہ سے ھلنے بھی نہ پایا تھا کہ اژدھے نے اپنا غار سا منہ کھول کر اسے نگل لیا.. پھر رینگتا ھوا آگے بڑھا اور ایک عمارت کے ستون سے اپنی آپ کو لپیٹ کر ایسا بل کھایا کہ اس سپیرے کی ہڈیاں بھی سرمہ ہوگئی ہوں گی..
اس لیے ہمیں اس پر غور کر نا ہے کہ ہمارا نفس بھی اژدھا ھے اسے مردہ مت سمجھیں.. وہ وقتی بےسروسامانی کی وجہ سے منجمد نظر آتا ہے..
کہتے ہیں کہ فرعون کے (استدراجی) حکم سے دریا کا پانی رواں ہوجاتا تھا.. اگر ویسی ہی قدرت تجھے بھی حاصل ہو جائے تو تو بھی فرعون بن جائے..
یاد رکھ جو غرور اس میں تھا وہ تیری ذات میں بھی موجود ہے لیکن فرق صرف اتنا ھے کہ تیرا اژدھا ابھی کنویں میں مقیّد ہے..!!