وقت کی انگڑائی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
وقت کی انگڑائی
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
کسی بھی معاشرے کی اصلاح اور فساد میں ”فرد“کو پہلے تیار کیا جاتا ہے۔ اورفرد کی اصلاح وبگاڑ میں سب سے پہلے اس کے فکری واعتقادی پہلوؤں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اہل حق کا طبقہ (انبیاء،صحابہ،اہل بیت ،اولیاء)انسانیت کے فکر واعتقاد کو اس زاویے پر ڈھالتے ہیں جس کا حکم خود خالق کائنات نے دیا ہے۔ تعلیم ِکتاب وحکمۃ اور تزکیہِ نفوس کی بدولت ظلمتوں سے نور کی طرف کھینچ لاتے ہیں ، عقائد واعمال کو اسلامی قالب میں ڈھالتے ہیں ،انسان کو فطرت پر قائم رکھتے ہیں اور دنیا وآخرت میں کامیابی کے سہرے اس کے سر پر سجاتے ہیں۔
اہل حق کی محنت کا میدان انسانی قلوب ہوتے ہیں۔ وہ ان کو عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ سے مزین اور مرصع کرتے ہیں۔ اس میں ایمان وایقان کی ایسی شمعیں روشن کرتے ہیں جس سے دنیوی واخروی حقائق کا کما حقہ ادراک بآسانی کہا جاتا ہے۔ اس کو” فراست ِمومن “سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اہل حق کے بالمقابل شیطان اور اس کے حواری بھی اسی قلب ِ انسانی کو تختہِ مشق بناتے ہیں۔ وساوس واوہام کی کالک سے اس کو ظلمت کے کھنڈر میں تبدیل کر دیتے ہیں اور یہ دل کو شرک،الحاد ،بدعت ، فسق ،فجور ،ظلم اور ناانصافی” بھوت بنگلہ“ بن جاتا ہے۔ اہل حق انسانیت کی فلاح اور ابدی نجات کےلیے اسے زندگی گذارنے کےایسے” زریں اصول“دیتے ہیں جس سے اس کی دنیا بھی بہتر ہوتی ہے اور آخرت میں بھی سرخروئی نصیب ہوتی ہے۔ دنیا میں عزت ،خوداعتمادی ،غیرت وحمیت اور جذبہ خیر خواہی کو اس کے خمیر میں گوندھتے ہیں۔ یہی ”فرد “جب ایک اجتماعی شکل میں رونما ہوتا ہے تو ”اصلاح معاشرہ “کی جیتی جاگتی تصویر بن جاتا ہے۔
جبکہ شیطان کے آلہ کار بھی اپنی محنت میں مگن رہتے ہیں اور انسانی قلب پر بدگمانی،بداعتقادی،بےغیرتی کے اتنے نشتر چبھوتے ہیں کہ اس چھلنی دل میں حمیت وغیرت ،خوداعتمادی اور خیر خواہی کے جوہر نہیں ٹھہر سکتے۔پھر یہی ”فرد“ جب جتھے اور فرقہ واریت کی بد نما صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو معاشرے میں برائی اور بَدی عام ہو جاتی ہے۔ تاریخ عالم بتاتی ہے کہ مسلم قوم کا المیہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ اس کو راہ راست پر لانے والے رہبر اور اس کی متاع زندگی کو لوٹنے والے رہزن؛ تقریباً ”ہم شکل“ ہیں۔ اس قوم کے جسم کو گھائل کرنے والے اور اس کے مسیحا دونوں دِکھنے میں ”ایک جیسے“ ہیں۔ اس کے عقائد ونظریات کے رکھوالے اور ان کو لوٹنے والے آپس میں ”ملتے جلتے“ ہیں۔ اس کی عبادات ومعاشرت کے محافظ اور ان میں رخنہ اندازی والوں کی شکل شباہت زیادہ مختلف نہیں۔ الغرض راہنما اور قزاق جسم اور سائے کی طرح ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ آج بھی دیکھے کہ مسلم قوم جہاں کہیں بھی ہے مثلاً فلسطین ، شام ، عراق ، افغانستان ، کشمیر وغیرہ اس کو بے شمار ایسی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس سے انسانیت کا دل پسیج جاتا ہے اوربالخصوص وطن عزیز کے مسلمانان کے لیے تو حالات بہت نازک اور حساس ہیں۔ رہزنوں کا ایک ٹولہ ہے جوان سادہ لوح لوگوں کو وطن عزیز کی تقدیر بدلنے کے سنہری نعرے کے جال میں پھنسانے میں سر توڑ محنت کر رہے ہیں۔
وقت ایک بار پھر انگڑائی لے رہا ہے اس لیے تمام اہلیان وطن سے گزارش ہے کہ حق وباطل میں فرق کو سمجھیں بھی اور باطل کو ناکام بنا کر اہل حق کا بھرپور ساتھ دیں بخارا ،سمرقند اوراندلس کی تاریخ ہمیں سوچنے کی بھرپور دعوت دے رہی ہے۔ اے اہلیان وطن! تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔