7 ستمبر ……یومِ دفاعِ ختمِ نبوت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
7 ستمبر ……یومِ دفاعِ ختمِ نبوت
محمد داؤد الرحمٰن علی
7 ستمبر کا دن پاکستان کے مسلمانوں کے لئے خصوصی طور پر اور دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے عمومی طور پر ایک یاد گار اور تاریخی دن ہے۔ یہ دن جب ہر سال ستمبر کے مہینے میں لوٹ کر آتا ہے تو ہمیں اس تاریخ ساز فیصلے کی یاد دلاتا ہے جو پاکستان کی قومی اسمبلی نے عقیدۂ ختمِ نبوّت کی حقانیت کا بر ملا اور متفقہ اعلان کرتے ہوئے جاری کیا تھا۔ اسی عظیم اور تاریخ ساز فیصلے کی رو سے قادیانی نبوّت اور اس کے ماننے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی نے جمہوری طریقے کے مطابق متفقہ طور پر یہ بل پاس کیا۔ عقیدۂ ختمِ نبوّت مسلمانوں کے ایمان کی اصل اور اساس ہے۔ ختمِ نبوّت کا منکر بالاتفاق دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوّت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخر الزماں ہیں۔ قرآن پاک اور احادیث میں اس کا واضح اعلان موجود ہے۔
جھوٹے مدّعیان نبوّت کا سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور سے شروع ہوتا ہے۔ مگر رحمن وشیطان کی جنگ تو ازل سے جاری ہے، بلکہ اس دن سے جاری ہے کہ جس روز سے ابلیس ملعون نے رب کعبہ کے حکم پر انسان کو سجدہ کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا او رحضرت انسان کو گمراہ کرنے کے عزم صمیم کا اظہار کیا۔ شیطان نے اپنے رب سے انسان کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرنے کا دعوی کیا اور اعلان کیا کہ روز قیامت اپنی تباہی و بربادی سے قبل آدم کی زیادہ سے زیادہ اولاد کو واصل جہنم کروانا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے انسانوں میں سے اپنے نمائندے چنے، جنہوں نے مختلف طریقوں سے دین حنیف پر چلنے والوں کو گمراہ کیا۔ انہیں میں سے ایک طریقہ نبوّت کے جھوٹے دعوے کا تھا۔
یہ دعویٰ نبوّت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد بھی دنیا کے مختلف حصوں اور کوچوں میں جاری رہا۔ اب تلک 72 کے قریب سیاہ بختوں نے نبوّت کی عظیم دیوار میں نقب لگانے کی کوشش کی۔ ان میں سے چند بدبختوں کے نام یہ ہیں : اسود، طلحہ اسدی، مسیلمہ کذّاب ، سجاح بنت حارث تمیمیہ، مختار ابن ابوعبید ثقفی، حارث کذّاب دمشقی ، مغیرہ بن سعید عجلی، بیان بن سمعان تمیمی، صالح بن ظریف برغواطی، بہاد نرید زوزانی نیشاپوری، اسحق اخرس مغربی، استاد میس خراسانی، یحییٰ بن فارس ساباطی، علی بن محمد خارجی ، یحییٰ بن زکریا ،علی بن فضل، یحییٰ ابو الطیب احمد بن حسین متنبی، حسین بن حمدان خصیمی یادورِ جدید کا محمدیوسف کذّاب۔ ان تمام کو امت مسلمہ نے بالاتفاق مسترد کردیا۔ بعض کے خلاف تو جہاد کیا ،بعض کو دیس نکالا دے ڈالا اور بعض کے خلاف تردیدی مہم چلائی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق نبوّت کے ہر مدّعی کو کذّاب اور دجال قرار دے کر اسلام کی مہکتی ہوئی بستی سے کوسوں دور پھینک دیا۔ ان میں سے کئی تو اہل ایمان کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے اور گزشتہ زمانے کی ایک کہانی بن گئے۔
اسی تناظر میں ہم مرزا غلام قادیانی کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے بپا کردہ اس صدی کی عظیم تحریک کا جائزہ لیتے ہیں۔ مرزا قادیانی کسی گمنام خاندان کے فرد نہیں ؟بلکہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کا تذکرہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔ مرزا قادیانی کا خاندان سکھوں کے دور اقتدار میں بھی سکھوں کے ساتھ مل کر پنجاب کے مختلف علاقوں میں مسلمان حریت پسندوں کے خلاف شمشیر بکف رہا۔ جب انگریز پنجاب میں آئے اور سکھ دور حکومت زوال پذیر ہوا تو مرزا قادیانی کے اسلاف انگریزوں کے ساتھ مل کر ان حریت پسندوں کے خلاف بھی نبرد آزما ہوگئے جو انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لئے مصروف جہاد تھے۔
مرزاقادیانی کے والد مرزا غلام مرتضیٰ نے رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازم رہ کر مہاراجہ کی ہر فوجی مہم میں قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔ رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں سید احمد شہید کے حریت پسند وں کا جہاد در اصل اسی سکھ حکومت کے خلاف تھا ، اس لئے کشمیر پشاور اور ہزارہ پر سکھوں نے جتنے بھی حملے کئے ‘وہ صرف مسلمانوں کے خلاف تھے۔ ان حملوں میں مرزا قادیانی کے والد اور بھائی غلام مرتضیٰ اور مرزا غلام قادر سکھ فوج میں ملازم ہو کر مسلمانوں کے خلاف مصروف پیکار رہے۔ مرزا غلام مرتضیٰ نے اپنی فوجی زندگی کا بیشتر حصہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کی ملازمت میں بسر کیا اور یہ وہی شیر سنگھ ہے جس کی قیادت میں بالا کوٹ کے مقام پر سید احمد شہید کے مجاہدوں کی آخری جھڑپ ہوئی ،جس میں جذبۂجہاد سے سرشار اسلام کی عظیم تحریک اسلام کے نام پر قربان ہوگئی۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تاج وتخت ختمِ نبوّت پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کرنے والے طالع آزماؤں میں مرزاغلام احمد قادیانی ملعون بھی شامل تھا، جس نے سلطنت برطانیہ کے ایما پرجھوٹی نبوّت کااعلان کیااوراسلام کے عقائد پرتیشے چلانے شروع کیے،مرزا قادیانی1939؁ء یا 1940؁ء میں قادیان ضلع گورداسپور میں پیدا ہوا۔
خاندانی نمک خواری کے اثرات کا اظہار بعد میں اس طرح ہوا کہ مرزاقادیانی نے بدیسی انگریزوں کے خلاف جہاد کو حرام قرار دے دیا اور انگریز کی حکومت کو اللہ کا سایہ اور خود کو اس کا خود کاشتہ پودا قرار دیا : بقول مرزا قادیانی بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد درست ہے یا نہیں ؟ سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے ،کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین واجب ہے ، اس سے جہاد کیسا ؟سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بد خواہی کرنا ایک حرامی اور بد کار آدمی کا کام ہے۔
(شہاد ت القرآن ،ص45(
وہ تو خود 26 مئی 1908؁میں قضائے حاجت کے دوران طبّی موت کاشکار ہوکرنشان عبرت بن گیا،مگرحکومتی سرپرستی میں یہ فتنہ نہ صرف موجود رہا، بلکہ مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکے بھی ڈالتا رہا۔ قیام پاکستان کے بعدوطن عزیز کو ہائی جیک کرنے کی بھی کوشش کی گئی، بلکہ اعلیٰ حکومتی عہدوں پربراجمان قادیانیوں نے اس ملک کواس کے اصل مقصدقیام معنی یہاں احیائے اسلام کی منزل سے دورکرنے کی بھی سعی نامشکوربرابرجاری رکھی اور انگریز کاحق نمک اداکرتے ہوئے ‘اُن کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے سرگرم ہوگئے۔ انگریزوں کے ایماء پر پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ سرظفر اللہ خان قادیانی کو بنایا گیا۔جس نے تمام ریاستی وسائل کوقادیانی ارتداد کی تبلیغ اور اقتدار پر شب خون مارنے کی سازشوں کوپروان چڑھانے پر صرف کیا۔ملک پر عملاً قادیانیوں کی حکومت تھی۔ مرزا بشیرالدین 1952؁میں بلوچستان کو ’’احمدی سٹیٹ ‘‘ بنانے کی پیش گوئیاں کررہا تھا۔سفاک وظالم جنرل اعظم خان نے مارشل لاء لگادیا۔بدترین ریاستی تشدد کے ذریعے ہزاروں فدائیانِ ختمِ نبوّت کو گولیوں کانشانہ بنا کر شہید کیاگیا،تمام رہنما قید کرلیے گئے۔ ان کوتشدد کے ذریعے کچل دیا گیا۔ مختلف تحریکیں جو ختمِ نبوّت کوخلافِ قانون قراردے کر ملک بھر میں ان تنظیموں کے تمام دفاتر سربمہر اور ریکارڈ قبضہ میں لے کر تلف کردیاگیا۔
اس کی ایک جھلک ان سطورمیں ملاحظہ فرمایئے:
قادیانی منتخب ارکان نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان اور عوام کو نقصان پہنچانے کی کوششیں شروع کردی، وزیر خارجہ ظفر اللہ قادیانی نے 7سال کے عرصہ وزارت میں پاکستان کے اندر اور باہر قادیانیوں کی جڑوں کو خوب مضبوط کیا، پاکستان کے بیرون ملک سفارت خانوں میں چن چن کر قادیانی بھیجے گئے۔ پاکستان میں ایک نیا قادیان بسانے کے لئے ایک علیحدہ خطہ ربوہکے نام سے الاٹ کیاگیا،یوں پاکستان کے قلب میں ایک وسیع خطہ قادیانی ریاست کے لیے مخصوص ہوگیا۔ مشرقی و افریقی ممالک میں وسیع پیمانے پر مرزائی مبلغ بھیجے گئے، اورباوجوداس کے کہاگرچہ اسرائیل کی یہودی حکومت سے حکومت پاکستان کا کوئی تعلق اور رابطہ نہیں تھا، مگر تل ابیب اور حیفہ میں مرزائیوں کے مراکزقائم کیے گئے، یوں برطانیہ کا خودکاشتہ پودا نہ صرف پاکستان بلکہ تمام ممالک میں ایک تن آور درخت بنتا جارہا تھا۔ سکندر مرزا اور ایوب خاں کی غفلتوں یا چشم پوشی کی وجہ سے پاکستان کے کلیدی مناصب پرمرزائی چھا ئے ہوئے تھے۔
حکومت نے محکمۂ اوقاف کے ذریعے مسلمانوں کی تمام املاک وقف ایکٹ کے تحت قبضے میں لے رکھی تھیں اور قادیانی معاشی طور پرپاکستا ن میں مضبوط ہی نہیں ہورہے تھے، مٹھی بھر مرزائی، پاکستان پر حکومت کرنے کے خواب دیکھنے لگے تھے، ساتھ ہی مسلم اکثریت کے خلاف سازشوں اوربدمعاشیوں کاسلسلہ بھی جاری تھا۔
اس عظیم فتنے کے خلاف پہلی باقاعدہ تحریک 1953؁میں چلائی گئی، مگرحکومتی سرپرستی میں اس تحریک کو کچلنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا اور بے دریغ خون بہا کراور ہمہ قسم ریاستی مظالم کے پہاڑ توڑکراس تحریک کواگرچہ بظاہر منزل پرنہ پہنچنے دیا گیا، لیکن ان قربانیوں نے قادیانیت اوراس کے بہی خواہوں پریہ ضرورواضح کردیاکہ حق کے قافلے کویوں بازنہیں رکھا جاسکتا، جدوجہدجاری رہی، علمائے کرام نے اپنے فرض منصبی کے تحت بلاتفریق مسلک وفرقہ عقیدۂ ختمِ نبوّت کا پرچار جاری رکھا اور رائے عامہ کواس قدر ہموار کردیا کہ ایک کال پرپوری قوم لبیک کی صدائیں لگاتی علماکے شانہ بشانہ کھڑی ہوجائے۔ دوسری طرف قادیانی بدمعاشیاں بھی روزبروزبڑھ رہی تھیں ، مگراہل اسلام کوامن کادرس دیا گیا تھا، تاکہ کسی جذباتی فیصلے یااقدام کی وجہ سے یہ دوررس محنت رائیگاں نہ چلی جائے۔
دوسری تحریک، جوبظاہرایک حادثے کاردعمل تھی، الحمدللہ منزل سے ہم کنارہوئی اورقادیانی باقاعدہ طورپرغیرمسلم اقلیت قراردیے گیے، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مئی 1974؁کو نشتر میڈیکل کالج کے اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ طالب علموں نے ایک ٹور پر جاتے ہوئے چناب نگر ریلوے اسٹیشن پر ختمِ نبوّت زندہ باد کے نعرے لگائے واپسی میں قادیانیوں کی جانب سے چناب نگر ریلوے اسٹیشن پر ان طالب علموں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 30کے قریب طلبہ زخمی ہو ئے، ان کا قصورصرف یہ تھا کہ انہوں نے گزرتے ہوئےختمِ نبوّت زندہ بادکا نعرہ لگایاور قادیانی لٹریچر لینے سے انکار کیا تھا، جس کی پاداش میں اسٹیشن پر روک کر انہیں شدیدانسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے سے قادیانی عزائم کھل کرسامنے آگئے، یہاں تک کہ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوبھی یہ کہنے پرمجبورہوگئے:واقعہ ربوہ سنگین قومی مسئلہ ہے۔ یہ واقعہ ملک کی سا لمیت سے تعلق رکھتاہے اور در پردہ مقاصد کے کسی منصوبے کا حصہ نظر آتاہے۔انہوں نے یہ بھی کہا:قادیانی کتنے خطرناک ہیں ؟ اس کا احساس مجھے ان دنوں میں ہوا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ قادیانی مذہب کے لوگ اس قدر خوفناک ارادے رکھتے ہیں۔
( روززنامہ جسارت کراچی 5جون 1974ءومقالہ مولانا تاج محمود ، پنجاب یونیورسٹی 1991؁(
کسی بھی مذہب کی شناخت کیلئے اس مذہب کے بانی کی راہنمائی، اس مذہب کی سب سے بڑی شناخت ہے۔ اس بناء پر ہر مذہب کے پیرو کار ان تعلیمات کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جو اس مذہب کے بانی کی طرف سے براہ راست دی جاتی ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کی زندگی سے ہمیں ان کے مذہب کی تعلیمات ملے گی۔
یہی وجہ ہے کہ یہودی اپنی تعلیمات کو حضرت موسٰی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اگر آج ان مذہب والوں سے کہے کہ آپ کی تعلیمات حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہیں تو فوری طور پریہ عذر پیش کردیتے ہیں کہ ہمارے مذہب کا ان سے کیا واسطہ ہمارے لیے تو حق اور صحیح بات وہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملے اور ساری دنیا یہ عذر قبول کرتی ہے۔اگرچہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام سے جو تعلیمات منسوب ہیں وہ ہزاروں واسطوں سے منسوب ہونے کی بناء پر حقانیت کے ترازو پر پورا نہیں اترتیں اور مختلف فرقوں میں بٹے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کیلئے قابل قبول نہیں ہیں۔
اس اصول اور ضابطے کے مطابق پوری دنیا کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا چاہیےکہ اس کی حقیقت اور سچائی کو پرکھنے کے لئے اسلام کے بانی شارح نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت کی طرف رجوع کرنا چاہیئے مگر بد قسمتی سے جس طرح دیگر تمام معاملات میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح اس معاملے میں بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کے تعین اور تشخص کے سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت کی طرف رجوع کرنے کی بجائے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تو امریکہ اور مسلم ممالک نے اس کو امتیازی قانون قرار دیتے ہوئے اس کو واپس لینے کا مطالبہ کیا کہ جب قادیانی خود کو مسلمان کہتے ہیں تو ان کو مسلمان کہنے کیوں نہیں دیا جاتا۔
جب کہ ان کے کفر عقائد کی وجہ سے مسلم ممالک کے 140 مذہبی سکالروں اور علمائے کرام نے دلائل کی روشنی میں ان کو کافر قرار دیا تھا کوئی ان سے پوچھے کہ مسلمان کی تعر یف خاتمِ النبیّین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ملیں گی یا مغربی ممالک اور اقوام متحد کے چارٹر سے ؟ تواس کا کوئی جواب نہیں ہے تعصب کی آنکھ سے مسلمان کے معاملات کو دیکھ کر اس کے بارے میں فیصلہ اپنے مفادات کی روشنی میں کیا جاتا ہے کہ وہ اقوام متحد ہ کے قانون کے مطابق اپنے لوگو ں کو حقوق دیں۔ بدھ مت کے پیروکاروں کومجبور نہیں کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کو اقوام متحد کے منشور کے مطابق ڈھالیں۔ جاپان میں خود کشی کو مذہبی رسوم کے تحت ادا کرنے والوں کو مغرب کا کوئی قانون یا اقوام متحد کا چارٹر روکنے کی کوشش نہیں کرتا۔ مگر مسلمان پر پابندی ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تشریح اقوام متحد ہ کے مطابق کریں ورنہ افغانستان حکو مت کی طرح ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
پاکستان کی امداد روک لی جائے گی یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی امداد کو قادینوں سے متعلق قوانین کو ختم کرنے سے اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کو تبدیل کرنے سے مشروط کیا مندرجہ ذیل بالااصول کی روشنی میں جب ہم قادیانوں کے عقائد پرنگاہ ڈالتے ہے تو وہ قرآن کریم کی دوسوآیات، نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی 400حادیث اور 1400سالہ اجتماعات اور عقلی دلائل کے اعتبار سے دائرہ اسلام سے خارج اور ایک الگ ملت کی حیثیت سے رکھتے ہیں۔
1: عدالت
2: عوامی رائے
3: اسمبلی
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے سلسلے میں ہم سب سے پہلے عدلیہ کے فیصلوں کو ملاحظہ کرتے ہیں :اس سلسلے میں سب سے پہلا مقدمہ ماریش کی عدالت میں اس وقت دائر کیا گیا جب قادیانیوں نے ”روز ہل” مسجد پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روک دیا۔ اس آبادی میں 12 قادیانی جب کہ 500 مسلمان آباد تھے۔ مسلمانوں نے 26 فروری 1919؁کو سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ کئی سال مقدمہ چلتا رہا۔ 21 شہادتیں پیش کی گئیں۔ دوسرے ممالک سے فریقین نے مشہور وکلاء بلائے مقدمہ میں دعویٰ کیا گیا کہ :
روز ہل کی مسجد جہاں مسلمان لوگ نماز پڑھتے تھے، یہ مسجد انہوں نے تعمیر کی تھی اور مسلسل قابض چلے آ رہے تھے، اس پر قادیانیوں نے قبضہ کر لیا، جن کا تعلق امت اسلامیہ سے نہیں ہے۔
قادیانی ہم مسلمان کو مسلمان نہیں سمجھتے، ہمارے پیچھے ان کی نماز نہیں ہوتی، ایسی صورت میں ان کو مسجد سے نکال دیا جائے۔ تفصیلی بحث کے بعد19 نومبر 1927؁کو چیف جج سرائے ہر چیز ووڈ نے یہ فیصلہ سنایا۔
عدالت عالیہ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ مدّعہ علیہ(قادیانی) کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ”روز ہل” مسجد میں اپنی پسند کے امام کے پیچھے نماز ادا کریں ، اس مسجد میں صرف مدّعی(مسلمان) نماز ادا کر سکیں گے، اپنے اعتقادات الگ” اس عدالت کے ایک دوسرے جج ٹی اے روز نے بھی اس فیصلے سے اتفاق کیا۔
برصغیر میں قادیانی کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے سلسلے میں پہلا مقدمہ1925؁میں ڈسٹرکٹ جج بہاولنگر ریاست بہاولپور میں غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش کا تینسخ نکاح کے سلسلے میں دائر ہوا، جو عبدالرازاق قادیانی کے ساتھ لاعلمی میں ہو گیا تھا۔
ابتدائی فیصلے کے بعد 1932؁میں یہ مقدمہ دوبارہ دائر کیا گیا، اس مقدمہ میں مولانا انور شاہ کشمیری شدید علالت اور ضیعف کے باوجود آئے اور عدالت میں اپنا بیان دیا:7فروری1935؁کو عدالت نے تاریخی فیصلہ دیا” چونکہ مدّعا علیہ مرتد ہو چکا ہے، اس لئے ارتداد کی وجہ سے نکاح تنسخ ہو گیا۔
قیام پاکستان کے بعد مختلف عدالتوں کی جانب سے ابتداء ہی سے اس قسم کی عدالتوں کی جانب سے ابتداء ہی سے اس قسم کے مقدمات میں قادیونیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا، بعد ازاں بلوچستان ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ، سرحد ہائی کورٹ، سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کی طرف سے بھی قادیانیوں کو دلائل کی بنیاد پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ اسی طرح افریقہ کی کورٹ کی جانب سے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ان کی اپیل خارج کی گئی۔ یہ تو موجودہ کے مروجہ طریقے میں عدلیہ کے جائزے کا مختصر سا فیصلہ تھا، عوامی رائے کے مطابق دنیا بھر کے ایک عرب سے زائد مسلمانوں کی متفقہ آراء اور دنیا بھر کے تمام دینی اداروں کی جانب سے متفقہ فتاوٰی کے مطابق قادیانی غیر مسلم اقلیت میں داخل ہیں۔
مکہ مکرمہ میں ربیع الاول1974؁میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت ایک کانفرنس ہوئی جس میں مسلم و غیر مسلم ممالک کی 144 مسلم تنظیموں کے سکالرز اور علامئے کرام شریک ہوئے۔ جس میں قادیانی عقائد کو واضح کرکے مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا کہ ان کے ساتھ غیر مسلموں والا معاملہ کرتے ہوئے، ان کی سرگرمیوں سے مسلمانوں کو بچانے کیلئے اقدامات کریں۔ گویا دنیا بھر کی عوامی رائے کی روشنی میں قادیانیوں کو ساتھ غیر مسلموں والا ہونا چاہئے۔
مروجہ طریقوں میں تیسرا طریقہ قومی اسمبلی کے ذریعہ فیصلہ کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔ بعد ازاں قومی اسمبلی نے 7 ستمبر1974؁کو متفقہ طور پر آئینی بل کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت دیکر پوری دنیا کے سامنے مسئلہ کو واضح کر دیا۔ اب ان تینوں مروجہ طریقوں سے قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے کے بعد نہ قادیانیوں کیلئے یہ مناسب ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کریں۔ اور نہ ہی غیر مسلم ممالک کے این جی اوز کے نمائندوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے مسلمانوں پر ٹھونسنے کی کوشش کریں۔
پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ قادیانی جماعت کے جھوٹے مدّعی نبوّت مرزا غلام قادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاءکرام کی ذات پر کیچڑ اچھالی ہے۔ اگر کوئی عیسائی یا یہودی اپنے مذہب پر صحیح معنوں میں عقیدہ کھتا ہو تو وہ کسی صورت میں قادیانیوں کی حمایت کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ یہ تو مسلمان ہی ہیں کہ اپنے پیغمبر کے تقدس کے ساتھ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کے تقدس اور اس عظمت کے تحفظ کے لئے سر گرم ہیں۔
پاکستان کا استحکام اور قادیانیوں کےکردارکے حوالے سے چندواقعات آپ کے سامنے ہیں:قادیانیوں کے علاقے ر بوہ میں بہشتی مقبرہ قبرستان واقعہ ہے اس قبرستان میں بڑے نامی گرامی قادیانی آنجہانی دفن ہیں۔ مرزا بشیرالدین محمود جو سلسلہ احمدیہ میں دوسرے خلیفے کے طور پر مشہور ہے ، وہ بھی اسی جگہ دفن ہے۔ قادیانیوں نے پاکستان توڑنے کے لیے ہمیشہ اپنی کوششیں جاری رکھیں اور تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح کہہ لیں کہ انہوں نے پاکستان کے قیام کو دل سے آج تک تسلیم ہی نہیں کیا۔ پاکستان کی سالمیت مرزائیوں کے نزدیک کیسی رہی اس کے متعلق ان کے مقبرہ ربوہ میں مدفون مرزا بشیر الدین محمود کی قبر پر نصب کتبہ دیکھ لیا جائے تو آپ اس پر یہ تحریر کندہ دیکھیں گے۔ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ذہن میں محفوظ رہ سکا ہے کہ ایک دن پاکستان کو دوبارہ ہندوستان میں ضم ہو جانا ہے اور ایسا ہو جائے تو میرا تابوت اس مقبرے سے اکھاڑ کر قادیان میں دفن کر دیا جائے۔
دوسرا واقعہ جو استحکامِ پاکستان کے خلاف مرزائیوں کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں جب مرزائی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو اس کی بعض منفی سرگرمیوں کی وجہ سے بھٹو صاحب نے سائنسی ریسرچ کے ادارے سے اخراج کا نوٹس بھجوایا تھا تو اس نے اپنی سرگرمیاں مزید تیز کر دی تھیں اور اسرائیل و امریکہ کے پاس اپنے ادارے کے راز برابر بھجواتا رہا۔ جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا تو اس وقت بھٹو کی حکومت تھی۔ اس وقت عبدالسلام قادیانی نے اپنی نفرت کا اس طرح اظہار کیا اور یہ کہتے ہوئے میں اس سرزمین پر تھوکتا ہوں پھر خود ہی جلاوطن ہو کر ملک سے باہر چلا گیا۔
بدقسمتی سمجھئے ایسے لوگوں کو ائمہ کفر کی آشیر باد سے پھر وطن پاکستان کی دھرتی پر آنا پڑا۔ ایک سازش کے تحت جب اسی سائنس دان کو نوبل پرائز سے نوازا گیا تو پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق مرحوم نے بھی پاکستان کا نشانِ پاکستان اس قادیانی کے سینے پر سجا دیا۔ اتفاق دیکھئے یہ وہی دھرتی تھی جس پر اس سائنس دان نے تھوک کر جلاوطنی اختیار کر لی تھی اور اسی دھرتی پر اس کی قوم کو غیرمسلم قرار دیا گیا تھا ، پھر اسی دھرتی پر اس کے سینے کو نشانِ پاکستان جیسے پاک تمغے سے نوازا گیا۔
تیسرا واقعہ نوٹ فرمالیں کہ بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات پر پورا عالم اسلام اپنے افسوس و غم کا اظہار کر رہا تھا۔ پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان قادیانی تھا۔ اس وزیر خارجہ نے بانی پاکستان کے جنازے میں شرکت نہ کی تھی۔ 1979 ؁میں 28 دسمبر کو چنیوٹ میں مجلس تحفظ ختمِ نبوّت کی سالانہ کانفرنس ہوئی تھی۔ اس وقت ربوہ میں بھی قادیانی حضرات اپنا تین روزہ سالانہ جلسہ منعقد کر رہے تھے۔ وہاں بڑے اشتہاروں پر اس وزیر خارجہ ظفراللہ خان کی تصویر چھپی ہوئی تھی اور نیچے اقرار تھا”ہاں میں نے قائداعظم کے جنازے میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس سے آپ سمجھیں کہ ایک کافر نے مسلمان کا جنازہ یا کافر کا جنازہ ایک مسلمان نے نہیں پڑھا۔ “
گویا مرزائی حضرات اپنے زعم میں خود کو مسلمان تصور کرتے ہیں اور ان کے نزدیک باقی سب کافر ہیں۔ دوسرے یہ کہ باقی تو مسلمان ہیں اور اپنے آپ کو ان کے مقابل دوسری قوم قرار دیتے ہیں۔
7ستمبر 1974؁ کو پارلیمنٹ میں قادیانیوں کی شکست:
30جون 1974؁کو قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے کی قرارداد پیش کی جس پر مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالمصطفی الازھری، پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالحق، چوہدری ظہور الٰہی، شیر باز خان مزاری، مولانا محمد ظفر احمد انصاری، احمد رضا قصوری، مولانا نعمت اللہ، سردار شوکت حیات، علی احمد تالپور اور رئیس عطاءمحمد خاں مری سمیت چالیس کے قریب ممبرانِ اسمبلی نے دستخط کیے۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ قادیان کے آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے حضور نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا۔ قرآنی آیات کا تمسخر اڑایا۔ جہاد کو ختم کرنے کی مذموم کوششیں کیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیانیت سامراج کی پیداوار ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اور اسلام کو جھٹلانا ہے۔ قادیانی مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کا ایک فرقہ ہونے کا بہانہ کرکے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ لہٰذا اسمبلی مرزا قادیانی کے پیروکار قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر آئینِ پاکستان میں ضروری ترمیم کرے۔
5اگست 1974؁کو صبح دس بجے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خاں کی صدارت میں اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ جس میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مولانا کوثر نیازی سمیت پوری کابینہ نے شرکت کی۔ تلاوتِ قرآن مجید کے بعد قادیانی جماعت کے وفد کو جس کی سربراہی قادیانی خلیفہ مرزا ناصر کر رہا تھا، بلایا گیا۔ اسمبلی میں طے پایا گیا کہ کوئی رکن قومی اسمبلی براہِ راست مرزا ناصر سے سوال نہ کرے بلکہ وہ اپنا سوال لکھ کر اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کو دے دے جو خود مرزا ناصر سے اس بارے میں دریافت کریں گے۔ دنیا کی تاریخ میں جمہوری نظامِ حکومت کا یہ واحد واقعہ ہے کہ اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے بجائے قادیانی مذہب کے دونوں فرقوں (ربوی و لاہوری) کے سربراہوں کو اپنا اپنا موقف پیش کرنے کے لیے بلایا گیا۔
تعارفی کلمات کے بعد اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے قادیانی عقائد پر بحث شروع کی تو مرزا ناصر نے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 کے تحت ہر شہری کو مذہبی طورپر آزادی اظہار حاصل ہے۔ آپ کسی پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک شخص خود کو مسلمان بھی کہتا ہے اور اسلام کے بنیادی ارکان اور قرآنِ مجید کی متعدد آیات کا بھی منکر ہے تو کیا اس پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اس پر مرزا ناصر مختصر خاموشی کے بعد بولا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہمیں غیرمسلم اقلیت قرار دے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ آپ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کافر، دائرہ اسلام سے خارج اور جہنمی قرار دیں ؟ مرزا ناصر نے کہا کہ ہم کسی کافر قرار نہیں دیتے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے مرزا ناصر کو اس کے دادا (آنجہانی مرزا قادیانی) اس کے والد (قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود) اور اس کے چچا (مرزا بشیر احمد ایم اے) کی اپنی تحریریں پڑھ کر سنائیں :اور (جو) ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔
(انوارِ اسلام صفحہ30مندرجہ روحانی خزائن جلد9 صفحہ 31 از مرزا قادیانی(>
جو میرے مخالف تھے، ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا۔
(نزول المسیح (حاشیہ) صفحہ4 مندرجہ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 382 از مرزا قادیانی(
میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے مگر کنجریوں (بدکار عورتوں ) کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی۔
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ547 (
دشمن ہمارے بیانوں کے خنزیر ہوگئے۔ اور ان کی عورتیں کُتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔
(نجم الہدیٰ صفحہ53 مندرجہ روحانی خزائن جلد14صفحہ 53 از مرزا قادیانی(
ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ ؑ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰؑ کو نہیں مانتا یا عیسیٰؑ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا اور یا محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعودؑ کو نہیں مانتاوہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
(کلمۃ الفصل صفحہ110 از مرزا بشیر احمد (
اب معاملہ صاف ہے، اگر نبی کریم کا انکار کفر ہے تو مسیح موعودؑ کا انکار بھی کفر ہونا چاہیے۔ کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے اور اگر مسیح موعودؑ کا منکر کافر نہیں تو نعوذ باللہ نبی کریم کا منکر بھی کافر نہیں کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پہلی بعثت میں تو آپ کا انکار کفر ہو مگر دوسری بعثت میں جس میں بقول حضرت مسیح موعودؑ آپ کی روحانیت اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے، آپ کا انکار کفر نہ ہو۔
(کلمۃ الفصل صفحہ146،147 از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی(
خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا، وہ مسلمان نہیں ہے۔
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 519 طبع چہارم از مرزا قادیانی(
کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
(آئینہ صداقت ص35 ج 6 صفحہ 110 از مرزا بشیر الدین محمود (
جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا۔ وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 280 طبع چہارم از مرزا قادیانی(
ان حوالہ جات پر مرزا ناصر نہایت شرمندہ ہوا۔ پھر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے پوچھا کہ جب آپ کا نبی الگ، قرآن الگ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰة الگ ہے تو پھر آپ خود کو مسلمان کہلوانے اور شعائر اسلامی استعمال کرنے پر بضد کیوں ہیں ؟ اس پر مرزا ناصر نے کہا کہ ہماری کوئی چیز الگ نہیں ہے، ہم مسلمانوں کا ہی ایک حصہ ہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے مندرجہ ذیل حوالے پڑھ کر سنائے تو مرزا ناصر بے حد پریشان ہوا۔کل میں نے سنا تھا کہ ایک شخص نے کہا کہ اس (قادیانی) فرقہ میں اور دوسرے لوگوں (مسلمانوں ) میں سوائے اس کے اور کچھ فرق نہیں کہ یہ لوگ وفاتِ مسیح کے قائل ہیں اور وہ لوگ وفاتِ مسیح کے قائل نہیں۔ باقی سب عملی حالت مثلاً نماز، روزہ اور زکوٰة اور حج وہی ہیں۔ سو سمجھنا چاہیے کہ یہ بات صحیح نہیں کہ میرا دنیا میں آنا صرف حیاتِ مسیح کی غلطی کودورکرنے کے واسطے ہے۔ اگر مسلمانوں کے درمیان صرف یہی ایک غلطی ہوتی تو اتنے کے واسطے ضرورت نہ تھی کہ ایک شخص خاص مبعوث کیا جاتا اور الگ جماعت بنائی جاتی اور ایک بڑا شور بپا کیا جاتا۔
(احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ از مرزا قادیانی صفحہ 2(
قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود کا کہنا ہے: حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں (مسلمانوں ) سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے آپ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، رسول کریم، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰة، غرض کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ہمیں ان (مسلمانوں ) سے اختلاف ہے۔
) الفضل قادیان، 30 جولائی 1931؁(
حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے تو فرمایا ہے کہ ان (مسلمانوں ) کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا خدا اور ہے، ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور۔ اسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے۔
(روزنامہ الفضل قادیان 21 اگست 1917ءجلد 5 نمبر 15 ص 8(
ایک موقع پر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے قادیانی خلیفہ مرزا ناصر سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس مرزا قادیانی کی تمام کتب موجود ہیں ؟ مرزا ناصر نے کہا کہ ہاں ! ہمارے پاس مرزا صاحب کی تمام کتب موجود ہیں۔ اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ ان کی تعداد کیا ہے؟ مرزا ناصر نے کہا کہ 80 کے قریب ہیں۔ یحییٰ بختیار نے کہا کہ آپ نے ان 80 کتب کو روحانی خزائن کے نام سے شائع کیا۔ اس کے علاوہ ملفوظات دس جلدوں میں ، مجموعہ اشتہارات تین جلدوں میں اور مکتوبات وغیرہ تین جلدوں میں شائع کیے۔ یہ ساری کتب ایک الماری کے دو شیلفوں میں آسکتی ہیں۔ مگر آپ کے مرزا صاحب نے اپنی کتاب تریاق القلوب میں لکھا ہے:میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھرسکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہوجائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہادکے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ، ان کے دلوں سے معدوم ہوجائیں۔
(تریاق القلوب صفحہ27، روحانی خزائن جلد15 ص155، از مرزا قادیانی(
اٹارنی جنرل نے مرزا ناصر سے پوچھا کہ باقی کتب کہاں اور ان کے نام کیا ہیں؟ اس پر مرزا ناصر نے کہا کہ اتنی تعداد میں شائع ہوئیں کہ 50 الماریاں بھر جائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر آپ صرف ایک کتاب کو ایک لاکھ کی تعداد میں شائع کردیں تو اس سے سیکڑوں الماریاں بھر جائیں گی۔ مرزا صاحب تو کہتے ہیں کہ انگریز کی حمایت اور جہاد کی ممانعت کے سلسلہ میں اتنی کتابیں لکھی ہیں کہ 50 الماریاں بھر جائیں۔ اس پر مرزا ناصر کو کوئی جواب نہ آیا۔
ایک اور موقع پر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے پوچھا کہ آپ مرزا قادیانی کو کیا مانتے ہیں ؟ مرزا ناصر نے کہا کہ ہم مرزا غلام احمد صاحب کو مہدی اور مسیح موعود مانتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ اس کے علاوہ آپ مرزا صاحب کو کیا مانتے ہیں ؟ مرزا ناصر نے کہا کہ کچھ نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مرزا قادیانی نے اپنی کتابوں میں صراحتاً دعویٰ کیا ہے کہ وہ خود محمد رسول اللہ ہے۔ اور آپ جب کلمہ طیبہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں تو محمد رسول اللہ سے مراد مرزا قادیانی لیتے ہیں۔
اس پر مرزا ناصر نے کہا کہ ہم مرزا صاحب کو محمد رسول اللہ نہیں مانتے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا آپ مرزا قادیانی کے دعویٰ محمد رسول اللہ کو جھوٹا مانتے ہیں ؟ اس پر مرزا ناصر خاموش ہوگیا۔ پھر اٹارنی جنرل نے مندرجہ ذیل اقتباسات پیش کیے:پھر اسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے
محمد رسول اللہ والذین معہ اشداءعلی الکفار رحماءبینھم
اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 4، روحانی خزائن جلد18صفحہ207 از مرزا قادیانی(
مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اسی بنا پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا مگر بروزی صورت میں۔ میرا نفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفےٰ ہے۔ اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا۔ پس نبوّت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی۔
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 12 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 216 از مرزا قادیانی(
میں آدمؑ ہوں ، میں نوحؑ ہوں ، میں ابراہیمؑ ہوں ، میں اسحاقؑ ہوں ، میں یعقوبؑ ہوں ، میں اسماعیل ؑ ہوں ، میں موسیٰ ؑ ہوں ، میں داؤدؑ ہوں ، میں عیسیٰ ؑ ابن مریم ہوں،میں محمد ہوں۔
(تتمہ حقیقت الوحی ص 521 (
کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمد کو اتارا تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے جو اس نے
اٰخرین منھم لما یلحقوا بھم
میں فرمایا
(کلمۃ الفصل صفحہ 104، 105، از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی(
ہر ایک نبی کو اپنی استعداد اور کام کے مطابق کمالات عطا ہوتے تھے کسی کو بہت، کسی کو کم۔ مگر مسیح موعودؑ کو تو تب نبوّت ملی جب اس نے نبوّت محمدیہ کے تمام کمالات کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہوگیا کہ ظلی نبی کہلائے پس ظلی نبوّت نے مسیح موعودؑ کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم کے پہلوبہ پہلو لاکھڑا کیا۔
(کلمۃ الفصل صفحہ113، از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی(
ہم کو نئے کلمہ کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود (مرزا قادیانی) نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی وبین المصطفی فما عرفنی و ماریٰ اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبیین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت اٰخرین منھم سے ظاہر ہے ، پس مسیح موعودؑ خود محمد رسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے، اس لیے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں ، ہاں اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی۔
)کلمۃ الفصل صفحہ 158از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی(
اے محمدی سلسلہ کے برگزیدہ مسیح تجھ پر خدا کا لاکھ لاکھ درُود اور لاکھ لاکھ سلام ہو۔
)سیرت المہدی جلد سوئم صفحہ 208 از مرزا بشیراحمد ابن مرزا قادیانی(
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
)روزنامہ بدر قادیان، 25 اکتوبر1906ءاز مرزا قادیانی(
جب اٹارنی جنرل نے مرزا قادیانی کی کتب سے مذکورہ بالا حوالہ جات پیش کیے تو ممبران اسمبلی غم و غصہ میں ڈوب گئے۔ بہرحال 13 روز کی طویل بحث اور جرح کے بعد مرزا ناصر نے نہ صرف اپنے تمام کفریہ عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ لایعنی تاویلات کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا۔ 5 اور 6 ستمبر کو اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے 13 روز کی بحث کو سمیٹتے ہوئے اراکین اسمبلی کو مفصل بریفنگ دی۔ ان کا بیان اس قدر مدلل، جامع اور ایمان افروز تھا کہ کئی آزاد خیال اور سیکولر ممبران اسمبلی بھی قادیانیوں کے عقائد و عزائم سن کو پریشان ہوگئے۔
چنانچہ 7 ستمبر 1974ءکو شام 4 بج کر 35 منٹ پر پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کے دونوں فرقوں (ربوی و لاہوری) کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور آئین پاکستان کی شق (2) 160 اور (3) 260 میں ا س کا مستقل اندراج کردیا۔
ایک موقع پر قومی اسمبلی میں یہ حیران کن منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ جب قادیانی خلیفہ مرزا ناصر اپنے کفریہ عقائد کے دفاع میں دلائل دے رہا تھا کہ اچانک ایک پرندہ اڑتا ہوا آیا اور مرزا ناصر پر بیٹ کردی جس سے وہ نہایت سٹپٹایا اور بڑبڑاتا ہوا تھوڑی دیر کے لیے اسمبلی سے باہر چلا گیا۔ جس نے بھی یہ منظر دیکھا، وہ ششدر رہ گیا کہ جدید عمارت کے بند کمرے میں اچانک پرندہ کہاں سے آگیا؟ اور پھر پرندے کا صرف مرزا ناصر کو ٹارگٹ کرنا بھی باعث تعجب تھا۔
آخر کار 7ستمبر1974؁ کو مسلمانانِ پاکستان کی عظیم جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں دستورِ پاکستان میں مسلمان کی واضح تعریف کی جاچکی ہے، جو یہ ہے کہ مسلمان وہ شخص ہے جو الله تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی اکملیت پر یقین رکھتا ہو اور نبی اکرم ﷺپر آخری نبی کے بطور مکمل ایمان رکھتا ہو اور ایسے شخص پر ایمان اور تعلق نہ رکھتا ہو جو نبوّت کی کسی بھی شکل میں دعویٰ نبوّت کرتا ہے او رنبوّت کے لفظ کی کسی بھی معنوی لحاظ سے نبوّت کا اظہار کرتا ہےاورغیر مسلم وہ شخص ہے جو عیسائیت، یہودیت، سکھ ، بدھ، پارسی یا قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھتا ہو۔
حال ہی میں سپیکر قومی اسمبلی نے اپنے خصوصی اختیارات کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے سے متعلق پارلیمنٹ کے بند کمرے کے اجلاس میں ہونے کی والی خصوصی بحث کے ریکارڈ کو 38سال بعد اوپن کرنے کی منظوری دے دی ہے۔)اب شائع ہو چکی ہے (۔ قادیانیوں نے پروپیگنڈہ کیا تھا کہ اگر اسمبلی کی یہ کاروائی شائع ہوجائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہو جائے گا۔ اس کے جواب میں اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے کہا تھا کہ قادیانی جھوٹ بولتے ہیں وہ اسمبلی کے اندر اپنے تمام کفریہ اور گستاخانہ عقائد کا اعتراف کر چکے ہیں۔ اگر یہ کارروائی سرکاری سطح پر شائع ہوگئی تو لوگ انہیں ماریں گے۔
7 ستمبر کا دن یوم دفاع ختم نبوت ہے۔