صنف ِنازک اور اسلامی تعلیمات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">صنف ِنازک اور اسلامی تعلیمات

معظمہ کنول
خالق کائنات نے عورت کو جو مقام اور مرتبہ عطا کیا ہے وہ اہل بصیرت و اصحاب معرفت پر مخفی نہیں ہے دور حاضر میں مغربی تمدن اور لادینی تہذیب نے معاشرتی اقدار کو تباہ اور گھریلو ماحول کو بگاڑ کررکھ دیا ہے ، عورتوں کو بعافیت و پرسکون گھریلو ماحول سے نکال کر مختلف اداروں اور دفاتر کی زینت بنا دیا گیا ہے جس سے بچوں کی تربیت اور شوہر کے حقوق ہی پامال نہیں ہورہے بلکہ خود عورت کی بھی توقیر و تکریم میں کمی واقع ہورہی ہے، آج مرد و عورت کو یکساں قرار دیکر جو بے بنیاد انسانی مساوات کا ڈھنڈورہ پیٹا جارہا ہے وہ صنف نازک پر بہت بڑے ظلم مترادف ہے، اسلام نے جہاں عورت کو شوہر کی خدمت اور اولاد کی تربیت کا ذمہ دار ٹھرایا ہے تو وہاں عورت کو حقوق کے لحاظ سے زیادہ اہمیت کا حامل بھی قرار دیا ہے، دور حاضر میں مغربی تعلیم کے ذریعے یورپین کلچر اور تہذیب و تمدن سے متاثر کرکے ایک طرف تو خواتین کو شریعت اسلامیہ سے دور تو دوسری طرف گھریلو امن و سکون کو بھی غارت کیا جارہا ہے ،خداوند کریم نے اسلامی تعلیمات میں نبی کریم ﷺ کی زبانی اس صنف نازک کے رشتہ کو با احسن و مفصل بیان کرنے کیساتھ اصلاح اوروہ امورکہ جن میں دینی و دنیاوی فلاح کا راز مضمر ہے کے متعلق ارشادات کی روشنی میں واضح کیا ہے تاکہ رہنمائی حاصل کی جاسکے، جبکہ خواتین قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اس دنیا میں پر سکون اور عفت و عافیت کی زندگی گزارسکتی ہیں تو گھریلو ماحول میں رہ کر اصلاح و تقویٰ کے عمل سے آراستہ ہو کر جنت کی مستحق ہوسکتی ہیں۔
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ ’’آپ ﷺنے فرمایا کہ تم کو جنتی عورت کے بارے میں فرمادیتا ہوں کہ شوہر پر فریفتہ ، زیادہ بچے جننے والی، غصہ ہو جانے پر اسے کچھ برا بھلا کہہ دیا جائے یا شوہر ناراض ہو جائے تو یہ عورت (شوہر کو راضی کرتے ہوئے)کہے میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہے میں اس وقت تک نہ سوؤں گی جب تک تم راضی نہ ہوجاؤ۔
ایک جگہ ارشاد پاک ہے کہ’’ زیادہ بچے جننے والی عورت کے ساتھ شادی کروتاکہ امت کے افراد میں اضافہ ہو‘‘ مگر بدقسمتی ہے کہ آج عورتیں بچے نہیں چاہتیں یا کم سے کم چاہتی ہیں تاکہ عیش و آرام ملے اور پرورش کی مشقت سے بچی رہیں یہ خدا اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے ، البتہ مرض یا بیماری کے پیش نظر ہو تو الگ بات ہے، اس سلسلہ میں ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ حمل سے لے کر بچہ جننے تک اور دودھ چھڑوانے تک عورت ایسی ہے کہ جیسے اسلام کی راہ میں سرحد کی حفاظت کرنے والا سپاہی،اور اگر اسی دوران انتقال ہو جائے تو شہادت کا اجر اس کے حصہ میں آتا ہے، بڑی خوش نصیب ہے وہ عورت جو اپنے شوہر کی دین اور عبادت پر مددکرے، اس کے کپڑے پاک اور صاف رکھنے کا اہتمام اور وضو اور غسل کا انتظام کرتی ہو تاکہ اسکا شوہر بروقت اور پرسکون انداز میں اﷲ تعالیٰ کی عبادات کرسکے، ایسی عورت خود بھی جنتی ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہے گی۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہو ، اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرتی ہو اور شوہر کی اطاعت و فرمانبردار ہو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو گی۔
ایک اور روایت ہے کہ آپ ْﷺ نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ اور حضرت فاطمہ الزہرہ ؓ کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے (جب انہوں نے کام اور خدمت کے متعلق شکایت کی ) فرمایا کہ فاطمہؓ تو گھر کے اندر کا کام انجام دے اور حضرت علی ؓ گھر کے باہر کا کام کیا کریں گے ، ’’ابن حبیب کے مطابق گھر کی خدمت سے مراد آٹا گوندھنا، کھانا پکانا، بستر بچھانا، جھاڑو دینا اور کنویں سے پانی نکالنے سمیت دیگر گھریلو امور شامل ہیں ‘‘ اﷲ تعالیٰ نے مرد کو گھر کے باہر کے کام جس میں معاشی امور بنیادی اہمیت کا حامل ہے کو سرانجام دینے پر حاکم جبکہ خاتون خانہ کو گھر کی حاکمہ کا درجہ دیتے ہوئے تمام گھریلو امور کی نگہبان بنایا ہے۔
ایک روایت حضرت ام سلمہٰ ؓ سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایہ کہ جب عورت کا انتقال اس حالت میں ہو کہ اسکا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ عورت جنت میں جائے گی۔
حضرت علی ؓ نبی پاک ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ اس عورت کو محبوب رکھتا ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ محبت رکھتی ہو ، خوش مزاج ہو اور دوسرے مردوں سے اپنی عزت وناموس کی حفاظت کرنے والی ہو۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول خداﷺ سے پوچھا کہ عورتوں پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اسکے شوہر کا ، پھر پوچھا کہ مرد پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے فرمایا اس کی والدہ کا۔
عورت کو شوہر کی اس حد تک فرمانبرداری کا درس دیا گیا ہے کہ حضرت انسؓ بن مالک ؓ نبی پاکﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص گھر سے باہر جاتے ہوئے اپنی بیوی سے کہہ گیا کہ گھر سے مت نکلنا ،جب اس عورت کے والد بیمار ہوئے تو اس نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں عرض گزاری جس میں معلوم کیا کہ وہ اپنے گھر کے نچلے حصہ میں رہنے والے اپنے بیمار والد کی تیمارداری کرسکتی ہے؟
جبکہ اس کے شوہر نے گھر سے نکلنے سے منع کررکھا ہے، آپﷺ نے فرمایا کہ اپنے شوہر کی بات مانو، چنانچہ اس عورت کے والد کا انتقال ہو گیا تو اس نے نبی کریمﷺ سے کسی کے توسط سے استفسار کیا کہ میرے والد کا انتقال ہوگیا اب کیا کروں ، آپﷺ نے فرمایا کہ شوہر کی اطاعت کرو ، بعدازاں نبی کریم ﷺ نے اس عورت کو پیغام بھیجا کہ اﷲ پاک نے تمہاری طرف سے شوہر کی اطاعت کے باعث تمہارے والد کی مغفرت کردی۔
اس بابت وضاحت کیلئے ایک اور حدیث مبارکہ بیان کی جا رہی ہے، حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جس عورت کا شوہر اس سے ناراض ہوگا اس کی نماز قبول ہوگی اور نہ ہی کوئی نیکی مقبول ہوگی، ایک اور ارشاد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ اگر (خدا کے بعد) کسی کو سجدہ کا حکم دیا جاتا تو عورت کو دیا جاتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ عورت خدا کا حق ادا کرنیوالی اس وقت تک ہرگز نہیں ہوسکتی کہ جب تک کہ شوہر کا پورا حق ادا نہ کرے۔
ایک روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ شوہر جب اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کرے تو فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے۔
اسلام میں شوہر کی فرمانبرداری، اولاد کی پرورش اور گھریلو امور کی بجاآوری کے بعد عورت کیلئے پردہ کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ عورت کیلئے دو ہی مقام قابل ستر ہیں
1۔ شوہر کا گھر
2۔ (موت کے بعد)قبر
احادیث مبارکہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 1۔ شوہر کی اطاعت، 2۔ گھریلو امور کی بجاآوری، 3۔ بچوں کی نگہداشت، 4۔ پردہ کا اہتمام۔
یہ وہ پہلو ہیں کہ جن سے عورت کی ذمہ داریوں کی باخوبی وضاحت ہوتی ہے اور جب کوئی عورت ان پہلوؤں پر عملدر آمد یقینی بناتی ہے تو یقینا اس کیلئے بیان کردہ دنیاوی و اخروی نعمتیں تو اس کا مقدر بنتی ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ ایک پروقار معاشرہ بھی ترتیب پاتا ہے گویا عورت معاشرتی بہتری میں کلیدی حیثیت کی حامل ہے، آج دیکھیں تو عورت جس کیلئے پردہ کا اہتمام لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اسے بازاروں اور دفاتر کی زینت بنادیا گیاہے،یہاں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ لفظ ’’عورت‘‘ کا لغوی معنی ’’پردہ‘‘ ہیں جس سے خواتین کیلئے پردہ کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے، جبکہ عورتوں کی گھریلو امور میں عدم توجہی گھرانوں کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب توبن ہی رہی ہے۔
ساتھ ہی ساتھ بچوں کی پرورش و نگہداشت پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ شوہر کی اطاعت و خدمت کا جو درس دیا گیا ہے وہ دور حاضر کی خواتین کیلئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
آج معاشرتی تبدیلیوں اور دین سے دوری کے باعث ایسے قوانین وضح کئے گئے ہیں کہ جو خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بجائے بے راہ روی کا موجب بن رہے ہیں جن میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ دور جہالت میں جب بچیوں کو پیدائش کے فوری بعد زندہ درگور کردیا جاتا تھا تو مذہب اسلام نے عورت کو نہ صرف زندہ رہنے کا حق دیا بلکہ ان کے حقوق کی فراہمی بھی یقینی بنائی اور وہ عورت جسے بدنصیبی کی علامت سمجھا جاتا تھااسے وہ مقام دیا کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
اگر عورت بیوی ہے تو گھر کی حاکمہ
ماں ہے تو اس کے پاؤں تلے اولاد کی جنت اگر بیٹی یا بہن ہے تو باپ اور بھائیوں کو اس کی عزت و ناموس کا محافظ اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کا ذمہ دار قرار دیا۔
مگر بدقسمتی سے آج کی عورت اسلامی تعلیمات تو دور کی بات اخلاقی روایات کی بھی دھجیاں اڑاتی دیکھائی دے رہی ہے،مگر دین سے دوری و جہالت کے باعث اکثر ان کی دین ودنیا جاتی رہتی ہے ، خواتین کے ماحول میں این جی اوز اور تنظیمیں اصلاح و تقویٰ کے خلاف و راہ مستقیم کے برعکس لٹریچر ز کی فراہمی سمیت اعمال صالح سے دوری پر مبنی معاشرتی زندگی و آزادی نسواں کا ڈھنڈورہ پیٹ رہی ہیں۔
جن کے مقاصداور ان کے لٹریچر پر غور کیا جائے تو ناصرف دین سے دوری کے موجب بننے کا واضح ثبوت فراہم ہوتا ہے بلکہ دور جہالت کو زندہ کرنے کی سعی کا بھی انکشاف ہوتا ہے اور جوخواتین جاہلانہ لٹریچر اور آزادی نسواں کے واویلہ کو حقوق نسواں کا حصہ سمجھنے لگتی ہیں ان سے جنت تو چھن ہی جاتی ہے بلکہ دنیا میں بھی ان کی حیثیت نمود و نمائش کیلئے پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں رہتی اور ان کا چنا ہوا یہ راستہ دنیاوی تباہی و بربادی اور آخرت میں جہنم کے عمیق گڑھے پر پہنچ کر ختم ہوتا ہے۔
اس تباہی میں کئی عوامل شامل ہیں مغربی میڈیا، نفاذ شریعت کا فقدان اور سب سے بڑی وجہ ہمارا معاشرتی نظام ہے کہ جو عورت اور مرد کو یکساں قرار دے کر ایک طرف تو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈالے ہوئے ہے تو دوسری طرف عورت کو بے عزت و بے توقیر کرنے کا بھی سبب ہے، میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آج کی خواتین کو اسلامی احکامات کے مطابق زندگیاں بسر کرنے کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔