ہم نے کانٹوں میں بھی گلزار کھلارکھاہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہم نے کانٹوں میں بھی گلزار کھلارکھاہے
بنت عبدالمالک نقشبندیہ
عبداللہ بن محمد جہادی مہم کے سلسلے میں مصرکے ایک ساحلی علاقے میں مقیم تھا، ٹہلتاہوا ایک بارساحل سمندر جانکلا وہاں دیکھا کہ خیمہ میں ہاتھ پاؤں سے معذور اور آنکھوں کی بینائی سےمحروم ایک شخص پڑاہواہے اس کے جسم میں صرف زبان سلامت ہے ایک طرف اس کی یہ حالت ہے ………اور دوسری طرف وہ بآواز بلند کہہ رہاہے:میرےرب! مجھے اپنی نعمتوں پرشکر کی توفیق عطافرمامجھے اپنی مخلوق میں سے بہت سوں پرتونے فضیلت اورفوقیت بخشی ہے اس فوقیت پر مجھے اپنی حمدوثنا کی توفیق عطافرما۔
عبداللہ یہ دعاسنی تواسے بڑی حیرت ہوئی کہ ایک آدمی ہاتھ پاؤں سےمعذورہے بینائی سےمحروم ہے جسم میں زندگی کی تازگی کاکوئی اثرنہیں اوروہ اللہ سےنعمت پرشکر کی توفیق مانگ رہاہے اس کےپاس آکرسلام کیا اورپوچھا: حضرت ! آپ اللہ تعالیٰ کی کس نعمت اور فوقیت پرحمدوثناء کے خواستگار ہیں معذور شخص نے جواب میں فرمایا اورخوب فرمایا:آپ کو کیامعلوم میرےرب کامیرے ساتھ کیامعاملہ ہےبخدا اگروہ آسمان سے آگ برساکرمجھے راکھ کردے پہاڑوں کوحکم دےکہ مجھے کچل دے، سمندروں کو مجھے غرق کرنے کےلیے کہہ دےاور زمین کومجھے نگلنے کاحکم دےتو میں کیا کر سکتاہوں میرے ناتواں جسم میں زبان جیسی بے بہانعمت کوتودیکھئے کہ یہ سالم ہے کیا اس کی یہ صرف ایک نعمت کامیں زندگی بھر شکر اداکرسکتاہوں؟
پھرفرمانے لگے میرا ایک چھوٹابیٹا میری خدمت کرتاہے۔ خود میں معذور ہوں زندگی کی ضروریات اسی کے سہارے پوری ہوتی ہیں لیکن وہ تین دن سےغائب ہے معلوم نہیں کہاں ہے آپ اس کا پتہ کرلیں تومہربانی ہوگی۔
ایسے صابر وشاکر اورمحتاج انسان کی خدمت ہے بڑھ کراور سعادت کیا ہوسکتی ہے۔عبداللہ نے بیابان میں اس کی تلاش شروع کردی تویہ دردناک منظر دیکھاکہ مٹی کےدھیڑ پر ایک نعش پڑی ہے اورپرندوں نے اسے نوچ رکھاہے یہ اسی شخص کے بیتے کی لاش تھی اس طرح بےگور وکفن دیکھ کرعبداللہ کی آنکھ میں آنسو آگئے اور یہ فکرلاحق ہوئی کہ اس کے معذور باپ کواس المناک حادثےکی اطلاع کیسے دے؟ ان کے پاس گئے اور ایک لمبی تمہید کےبعد اطلاع دے دی بیٹے کی وحشت ناک موت سےکون ہوگا جس کا جگر پارہ پارہ نہ لیکن
جائز نہیں اندیشہ جان ،

عشق میں اے دل

ہشیار کہ یہ مسلکِ تسلیم و

رضا ہے

خیرسن کرمعذور والد کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے۔ دل پہ غموں کےبادل چھاجائیں توآنکھوں سےاشکوں کی برسات شروع ہوجاتی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے کہ غم کاغبار اشکوں میں ڈھل کرنکل جاتاہے شکوہ وشکایت کے بجائے فرمانےلگے۔حمداس ذات کے لیے جس میری اولاد کواپنا نافرمان پیدانہیں کیا اوراس کو جہنم کاایندھن بننے سے بچایا۔ پھر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اورایک چیخ کے ساتھ سعید روح نے قفس عنصری سے گویا یہ کہتےہوئے آزادی حاصل کرلی۔
اب اے خیال یار نہیں تاب

ضبط کی

بس اے فروغ برق تجلی کی

چلی گئے

اب کی ستائیں گی ہمیں دوراں

کی گردشیں

ہم اب حدود وہ سوز و زیاں

سے نکل گئے

ان کی اس طرح اچانک موت پرعبداللہ کے ضبط کےسارے بندھن ٹوٹ گئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگا کچھ لوگ اس طرف نکلے رونے کی آواز سنی خیمے میں داخل ہوئے میت کے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو اس سے لپٹ گئے کوئی ہاتھ چومتا، کوئی آنکھوں کوبوسہ دیتا، ساتھ ساتھ کہتےجاتے۔
ہم قربان جائیں ان آنکھوں پر جنہوں نے کبھی کسی نامحرم کونہیں دیکھا، ہم فدا اس جسم پر جولوگوں کے آرام کے وقت بھی اپنے مالک کے سامنےسجدہ ریز رہتے۔ جس نے اپنے رب کی کبھی نافرمانی نہیں کی۔عبداللہ یہ صورت حال دیکھ کر حیران ہورہاتھا۔ پوچھایہ کون ہیں؟ ان کا تعارف کیاہے۔ کہنے لگے آپ ان کونہیں جانتے؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد مشہور حضرت ابوقلابہ رحمہ اللہ ہیں۔ حدیث کاادنیٰ طالب علم بھی ابو قلابہ رحمہ اللہ کے نام سے واقف ہے صبرو استقامت کے پیکر اورتسلیم ورضا کےبلند مقام کے حال ابوقلابہ رحمہ اللہ کی تجہیز وتکفین اورتدفین سے فارغ ہونے کےبعد عبداللہ رات کوخواب میں دیکھا کہ آپ جنت کے باغات میں سیروتفریح کررہے ہیں جنت کا لباس زیب تن ہے اوریہ آیت تلاوت فرمارہےہیں:
سلام علیکم بماصبرتم فنعم عقبی الدار
صبرکرنے کے سبب تم پرسلامتی ہو اور آخرت کاگھر بہترین ٹھکانہ ہے۔
عبداللہ نے پوچھا آپ وہی معذور شخص ہیں؟ فرمانے لگے: جی ہاں! میں وہی شخص ہوں اللہ جل شانہ کے ہاں چندمراتب اور درجات ایسے ہیں جن تک رسائی مصیبت میں صبر، راحت میں شکر اور جلوت وخلوت میں خوف خدا کے بغیر ممکن نہیں اللہ تعالیٰ نے اسی صبروشکر کی بدولت مجھے ان نعمتوں سے سرفراز فرمایاہے۔
کتاب الثقات لابی حاتم ابن حبان ج 5 ص 3
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی نہیں کی جاسکتی زندگی کی جس جہت میں دیکھئے نعمتوں کے گلستان لہلہارہے ہیں انسانی زندگی اگرچہ غم اورحسرت کی دھوپ چھاؤں سےعبارت ہے لیکن درحقیقت وجودغم بھی احساس مسرت کےلیے ہے الم کی چاشنی سےزندگی میں حسن بھی آتاہے اہل اللہ اور اہل وفاکوغم میں بھی راحت حاصل ہوتی ہے جبکہ اہل ہوس کی ساری زندگی راحت کے غم میں ختم ہوجاتی ہے۔ ناشکروں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی نظر ہمیشہ زندگی کی تلخیوں پررہتی ہے زندگی کی ہزار نعمتوں اور راحتوں کی چھاؤں میں انہیں کچھ تلخیوں کی تپش محسوس ہوتو اسی کارونا روتےہیں۔ایسےلوگ زندگی کی حقیقی خوشیوں سے محروم رہتےہیں وہ ہرسو برسی ہوئی نعمتوں کی بہار میں بھی یہ کہتےہیں۔
تمام غنچہ و گل داغ دل

جلے کیفی

خزاں نصیب بہاروں

سے کیا لیا میں نے

لیکن ایک حقیقی مومن کی شان اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے اس کاعقیدہ ہوتاہے کہ مصائب راہ منزل میں آتے ہیں اورحوادث راستے میں دام پھیلاتےہی ہیں لیکن اس کی بناپرنعمتوں سےاس کی نظر اورجھل نہیں رہتی۔ ہزار راحتوں کے جلو میں چند ایک تکالیف کی چبھن کی وجہ سے صبروشکر اور تسلیم ورضا کادامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتا غم حیات میں اس کادستور یہی کہتاہے کہ
دل کا ہر داغ تبسم میں چھپا رکھا

ہے

ہم نے ہر غم کو غم یار بنا رکھا ہے
 
لوگ ہر خار سے

پوچھو وہ گواہی دیں گے

ہم نے کانٹوں میں بھی گلزار کھلا

رکھا ہے