غزہ کے بچے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
غزہ کے بچے
نعیم الرحمان شائق، کراچی
ایک مہینے سے دو دن اوپر ہوگئے، مگر ابھی تک اسرائیل کے انتقام کی آگ نہیں بجھی۔ اسرائیل کے دوش پر 1960 فلسطینیوں کی شہادت کا بوجھ ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں 9000 لوگوں کو زخمی بھی کردیا ہے۔ جن میں سے کتنے ایسے ہوں گے ، جو ہمیشہ کے لیے لا چار ہو جائیں گے ، معلوم نہیں۔ اسرائیل نے غزہ میں 142 اسکولوں کو بھی تباہ کر دیا ہے ، جن میں سے 89 اقوام ِمتحدہ کے زیر ِ تحت چل رہے تھے۔ اسرائیل کے اس خونیں کھیل نے 5 لاکھ لوگوں درد بدر بھی کر دیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے صرف 67 لوگ ہلاک ہوئے ہیں ، جن میں سے 3 عام شہری تھے۔ صدیوں بعد ، جب ہم میں سے کوئی نہیں ہوگا ، وقت کا مؤرخ اسرائیل کے اس "کارنامے" کو اتنی داد دے گا کہ اس کی پوری کتاب ایک نوحہ بن جائے گی۔ ہاں ! وقت کا مؤرخ یہ بھی ضرور زیر ِ قلم لائے گا کہ اسرائیل کے مٹھی بھر لوگوں نے دنیا کی دوسری بڑی قوم کے باشندوں کو خون میں نہلایا تھا ، مگر دنیا کی دوسری بڑی قوم کے حکمران اپنے لوگوں کو مرتا دیکھ کر بھی خاموش رہے۔ اب مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ مؤرخ کی کتاب کے قارئین اسرائیل کے "کارنامے "کی زیادہ "تعریف" کریں گے یا مسلم حکمرانوں کے "قابل ِ ستائش " کردار کو سراہیں گے۔
غزہ کی حالیہ جنگ کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ اس میں 415 بچے شہید اور 2700 زخمی ہوئے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ پاکستان کے ہوں یا غزہ کے۔کیا کوئی یہ ثابت کر سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی بچہ حماس سے تعلق رکھتا تھا۔ نہیں نا ں! تو پھر اسرائیل کی اس درندگی کو میں کیا نام دوں ؟کم از کم مسلم حکم ران تو غزہ کے ان معصوم بچوں کے لہو کی لاج رکھ لیتے۔ یہاں اسرائیل کی ایک سابق وزیر ِ اعظم گولڈامئیر کے وہ الفاظ ، جو انہوں نے 1968 ء میں لندن کی ایک نیوز کانفرنس میں کہے تھے ، لکھنا مناسب سمجھتا ہوں۔ انہوں نے کہا تھا:
“We can forgive the Arabs for killing our children. We cannot forgive them for forcing us to kill their children. We will have peace with the Arabs if they love their children more than they hate us.”
یعنی ہم عربیوں کو اپنے بچوں کے قتل پر تو معاف کر سکتے ہیں ، مگر ہم انھیں اس بات پر معاف نہیں کر سکتے کہ وہ ہمیں اپنے(عربیوں کے) بچوں کے قتل پر مجبور کریں۔ اس دن ہم میں امن قائم ہو جائے گا، جس دن ان کے دلوں میں اپنے بچوں کی محبت ہماری نفرت پر غالب آجائے گی۔
غزہ کے معصوم بچوں کی شہادت نے فٹ بالر میسی کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ وہ بھی اپنے فیس بک پیج پر لکھ بیٹھے:"ایک باپ اور یونی سیف کے سفیر ہونے کے ناطے میں غزہ پر اسرائیلی بم باری کے بعد سامنے آنی والی تصاویر دیکھ کر سخت خوف زدہ ہوں۔ اسرائیل اور حماس کا تنازعہ بچوں نے کھڑا نہیں کیا ، لیکن اس کی سب سے بھاری قیمت بچوں کو ہی اد اکرنی پڑی۔ یہ احمقانہ تشدد ضرور رکنا چاہیے۔ ہمیں جنگی مضمرات کے حوالے سے بچوں کے تحفظ کے لیے ضرور اہتما م کرنا چاہیے۔ "غزہ کی خونیں جنگ نے وہاں کے بچوں کی نفسیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یونی سیف کے مطابق ایک ماہ تک جاری رہنے والے فضائی حملوں اور بم باری کے باعث غزہ کے بچے شدید خوف اور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ جس سے بچنے کے لیے لگ بھگ چار لاکھ بچوں کو فری کونسلنگ اور نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے۔ غزہ میں یونیسیف کی فیلڈ آفس کی سربراہ کے مطابق اس شہر کی 18 لاکھ کی آبادی کا نصف بچوں پر مشتمل ہے۔ جن کی صحت اور نفسیات پر اسرائیلی حملوں نے انتہائی برے اثرات مرتب کیے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق غزہ میں شہید ہونے والے سب سے کم عم بچے کی عمر محض دس دن تھی۔ سوچتا ہوں کہ 18 ماہ کے محمد وجدان کا کیا ہوگا ، جو اگرچہ معجزاتی طور پر بچ گیا ، لیکن اس کی ماں کے ساتھ ساتھ اس کے خاندان کے 12 افراد اسرائیلی بربریت کا شکار ہوگئے۔ سوچتا ہوں کہ اس 11 سالہ یاسمین کا کیا بنے گا ، جو الشفا اسپتال میں زیر ِ علاج ہے۔ جو اسرائیلی حملے کے وقت اپنی ماں کے ساتھ بریڈ پیک کر رہی تھی۔ اس ظالمانہ حملے میں اس کی ماں کے ساتھ ساتھ اس کی دو بہنیں بھی شہید ہوگئیں۔ جن میں سے ایک بہن کی عمر محض 3 ماہ تھی۔ اور وہ خود بری طرح زخمی ہے۔ یاسمین کہتی ہے کہ اس کی ماں اور بہنیں جنت میں چلی گئی ہیں۔ محمد وجدان اور یاسمین جیسے کئی بچے ہیں جن کے زخم اور جن کے جسم سے رستا ہوا لہو پکار پکار کر مسلم حکمرانوں سے۔ اسرائیل سے نہیں۔ رحم کی بھیک مانگ رہا ہے اور مسلم حکمران نہ جانے کب ان معصوموں کے زخموں کا حساب لیں گے۔ اب تک مسلم حکمرانوں نے صرف تین کام کیے ہیں۔ وہ تین کام انہوں نے بھی کیے ہیں ،جو مسلمان نہیں ہیں۔ 1: غزہ کے متاثرین کے لیے امداد2۔ اسرائیل کے خلاف جارحانہ بیان بازی 3۔ اقوام ِ متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ایک آدھ قرار داد
میسی کی غزہ کیلیے امداد اور غزہ کے سلسلے میں بان کی مون کی مختلف اجلاس میں شرکت۔ یہ دونوں امور ثابت کرتے ہیں کہ اس وقت غزہ کی حمایت میں مسلم اور غیرمسلم ، دونوں کی خدمات برابر ہیں بلکہ میڈیا کی رپورٹوں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ غیر مسلم غزہ کے حق میں ، مسلمانوں سے زیادہ سرگر م ِ عمل ہیں جو کہ مسلمانوں کے لیے لمحہ ِ فکریہ ہے۔ غزہ کے معصوم بچوں کا لہو نہ جانے کب مسلم امہ کو خواب ِ غفلت سے بیدار کرے گا ؟ کاش کہ یہ معصوم اور بے گناہ لہو مسلم امہ کے اتحاد پر منتج ہو۔