اسرائیل کا ناسُور

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اسرائیل کا ناسُور
پروفیسرڈاکٹر شبیر احمد خورشید
عجب طُرفہ تماشہ ہے کہ نصرانیت ازل سے ہی یہودیت کی دشمن رہی ہے۔یہ ازلی دشمن کیونکر ایک دوسرے کے جگری دوست بن گئے ہیں اور مسلمان جن سے ان کی کبھی کوئی بڑی دشمنی نہیں رہی وہ ان کے اول درجے کے دشمن بن چکے ہیں کیا انہیں گذشتہ صدی کا عیسائیوں کی جانب سے کیا جانے والا ہٹلر کا یہودیت کے خلاف سفاکانہ ہولو کاسٹ بھی فراموش ہو گیا ہے؟جو آج یہ مسلمان بچوں جوانوں اور خواتین کے خون کے پیاسے بن چکے ہیں۔ وجہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اُن عیسائیوں نے ہی ان یہودیوں کو مسلمانون کے خون کا پیاسہ اپنی ہوس ملک گیری کے ذریعے بنا کر چالاکی سے اپنی جان چھڑاکر ان کے مال و متاع سے اپنی اپنی معیشتوں کی آبیاری کرنا شروع کر دی ہے۔ فلسطین جہاںمسلمانوں کا قبلہ اول ہے سے انہیں مسلمانوں نے بے دخل نہیں کیا تھا۔ بلکہ یہ دوہزار سال سے بھی پہلے اس سرزمین سے نکال دیئے گئے تھے اور دربدر دنیا کے مختلف ممالک میں مارے مارے پھرتے رہے تھے۔عیسائیت کو ناصرف مسلمانوں سے بلکہ یہودیوں سے بھی ہمیشہ سے خدا واسطے کا بیر رہا ہے۔یہ خود تو انتہائی بزدل ہیں۔ جو مسلمانوں کے جذبہِ جہاد سے ہمیشہ سے خائف چلے آتے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی مسلمانوں کا سامنے آکر مقابلہ نہیں کیابلکہ ساری عیسائت کو ہمیشہ اکٹھا کر کے بزدلانہ لڑائیاں لڑی ہیں یا پھر ہمیشہ سازشوں کے ذریعے انہوں نے مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی بہادری توآج کے وار ان ٹیرر میں بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ القاعدہ کی چھوٹی سی قوت سے جنگ کرنے کے لئے پوری عیسایت جدید ترین ہتھیاروں اور کیل کانٹے سے لیس ہو42ملکوں نے مل کر حملہ کیا مگر اسامہ بن لادن کو نہ پکڑ سکے اور نہ ہی ان نہتے مجاہدین کو شکست دے سکے۔اب اسرائیل کی تاریخ کی طرف آتے ہیں
586 قبلِِ مسیح میں یہودیوں کی ریاست پر بابلیوں نے قبضہ کر کے ان کے ابتدائی معبد ہیکلِ سلیمانی کو تباہ کر دیا تھا اور یہودیوں کو ارض مقدس بے خانما کر دیا تھا۔ جس کے بعد یہ اڑھائی ہزار سال تک ساری دنیا میں بغیر مادرِ وطن کے یہودی مارے مارے پھرتے رہے۔جو یہودی (جودہ) فلسطین کی سرزمین پر بچ رہے تھے انہیں یہاں پر پہلی صدی عیسوی میں بڑے انقلاب کا سامنا کرنا پڑا جب دوسری صدی میں بار کوکحبہ کا انقلاب عظیم رونما ہوا تو رومیوں نے یہودیوں کو یہودیہ (فلسطین کے اسرائیلی خطے سے )ہمیشہ کےلئے نکال باہر کیا۔اس علاقے کو بعد کے ادوار میں شام فلسطین کے نام سے پکارا جانے لگاجہاں سے یہودی جلا وطنی میں چلے گئے تھے۔دوہزار سال سے زیادہ عرصہ تک یہودیوں کا کوئی اپنا مادرِ وطن نہ تھا۔
صہیوں یروشلم میں واقع ایک پہاڑ کا نام ہے یہی خطہ یہودیوں کا سرائیل (جودہ)تھا۔اسی حوالے سے یہودیوں کو صہیونی بھی کہا جاتا ہے۔اُنیسویں صدی کے آغاز میں صہیونی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کے بانی سیکولر یہودی تھے۔جس کا مقصد یہودیوں کے لئے ایک مادرِ وطن کا حصول تھا۔اس دور میں مادرِ وطن یا ارضِ مقدس عقیدہ باقاعدہ یہودیوں میں پیدا کیا گیا اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو ارضِ مقدس دینے کا وعدہ یہودی اور یونانی بائبل میں بھی کیایا ہے۔یہ اس کے لئے قرآن کو بھی حوالے کے طور پر کوٹ کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں1897میں صہیونیت کی پہلی کانفرنس سوئٹزر لینڈ کے شہر بیسل میں منعقد کی گئی۔جہاں خدا کی وعید اسرائیل کے قیام پر غور و خوض کیا گیا۔1917میں عالمی صہیونی ایسوسی ایشن نے یہ طریقہ کار اپنایا کہ یہودیوں کے لئے ایک ملک کا قیام نہایت ضروری ہے۔اس تحریک کے بعد بہت ہی معمولی پیمانے پر آہستہ آہستہ یہودیوں نے ساری دنیا سے فلسطین میں ہجرت کرنا شروع کردی۔اس سے قبل 1901میں اسرائیل کے قیام کے سلسلے میں ایک یہودی قومی فنڈ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا۔اس کے بعد انہوں نے 1903 میں اینگلو فلسطین بینک قائم کیا جو یہودیوں کی معیشت کو مضبوط کرنے کی ایک اہم کوشش تھی۔یہ بینک یہودیوں کو کاشتکاری اور کاروبار کے لئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کرتا تھا۔اس کے بعد روسی یہودیوںنے اسرائیل کے قیام کے لئے لابنگ شروع کردی۔ 1903 میں برطانیہ نے یوگنڈا میں اسرائیلیوں کے وطن کے قیام کا عندیہ دیاجس کو یہودی کانگرس نے مسترد کر دیا۔
1914میں جنگ عظیم اول کے دوران ہٹلر نے یہودیوں کی نسل کشی کی تو امریکی اور برطانوی یہودیوں نے اسکے خلاف زبردست پروپیگنڈا مہم کا آغاز کر دیا تھا جس کے نتیجے میں برطانوی وزیرِ خارجہ بیلفور نے 1917میں ایک خط کے ذریعے یہودیوں سے وعدہ کیا کہ انہیں فلسطین میں یہودیوں کا وطن دیدیا جائے گا۔اس اعلان کے کروانے میں وزمین نے اہم کردار ادا کیا تھا (یہی وجہ تھی کہ 1948 میں اسرائیل کے قیام پر پر وِزمین کو اسرائیل کا پہلا صدر بنایا دیا گیا تھا)اس کے بعد 1922میں لیگ آف نیشن نے ایک اعلامیہ جاری کیا اور برطانیہ کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا اختیار دیدیا۔جو فلسطینی عربوں کے سینے میں میخ گاڑنے کی تیاری تھی۔ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل تعداد 6 لاکھ 49 ہزار 48تھی جو 1946میں بڑھ کر 18لاکھ 45 ہزار 559 ہوگئی۔ان یہودیوں کی اکثریت غیر اسرائیلی تھی۔اب ساری دنیا سے یہودی تیزی کے ساتھ فلسطین میں آنا شروع ہوگئے تھے۔29 نومبر 1947میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فلسطین کے نا جائزبٹوارے کے لئے ایک خصوصی کمیٹی قائم کر کے ہدایت جاری کی کہ مغربی فلسطین کو تقسیم کر کے یہودی اور عرب ریاستیں قائم کر دی جائیں۔جبکہ یروشلم اور اس کے ارد گرد و نواح کے علاقے اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہیں گے۔سامرجی کوششوں سے 14 مئی 1948کو اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔فلسطینی عربوں نے اقوام متحدہ کے اس منصوبے کو مسترد کردیا جس کے نتیجے میں فلسطین کے عربوں کو اسرائیل کے خلاف ہتھیار اُٹھانا پڑ گئے۔ اور 8لاکھ فلسطینیوں کو مغرب کے طاقت کے بل بوتے پر جلا وطن کر دیا گیا۔اُس وقت سے آج تک اسرائیل مسلسل فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اور عالمی سامراجی قوتیں اس کی پشتبان ہیں۔ یہ جب چاہتا ہے اپنے آقاؤں کی شہ اور مرضی سے فلسطین کے لوگوں کا قتلِ عام شروع کر دیتا ہے۔اس کی جارحیت کو کوئی نہیں روکتا ہے
مسلم دنیا کے بھی بعض افراداسرائیل کی حمایت میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔1873میں ایران کے باد شاہ نصیر الدین کجرنے یہودی رہنما سر موسس مونٹی فلور سے اپنے یورپ کے دورے کے دوران برطانیہ میں ملاقات کی، ایران کے باد شاہ نے اس وقت یہ تجویز پیش کی کہ یہودیوں کو(فلسطین میں) زمینیں خرید کر یہودی عوام کے لئے ایک ریاست قائم کرنے کا حق حاصل ہےڈاکٹر توفیق حمید ایک ایسا مسلمان تھا جس نے صہیونیت کی کھل کر تائید کی تھی یہ ایک سابقہ جنگجو تنظیم کا رکن تھا جو بعد میں اسلامی مفکراور حالیہ رفارمر تھا۔اٹلی کے اسلامی تہذیب و سماج کے انسٹیٹوٹ کا سربراہ پروفیسر شیخ عبدالحادی پلازی اور ایک پاکستان نزاد امریکی صحافی ، محقق و مصنف تابش سید، ان تمام لوگوں نے صہیونیت کی کھل کر حمات کی ہے۔دوسری جانب بعض غیر عرب مسلمان جن میں کرُد اور باربر شامل ہیں نے بھی صہیونیت کی حمایت میں اپنی آوازیں بلند کی ہیں۔
اسد شکیری ایک مسلمان عالم جن کا تعلق عکرہ کے علاقے سے ہےاور جو پی ایل او کے بانی رہنما احمد شکیری کے والد نے عرب فلسطینیوں کی قومی اقدار کی تحریک کو مسترد کرتے ہوے صہیونی تحریک کی مخالفت کو مسترد کردیا تھا۔ برطانوی حکمرانی کے ابتدائی دور میں وہ صہیونی افسران سے مسلسل ملاقاتیں کرتے رہے اور ہر صہیونیت کی عرب تنظیم میں شامل رہےاور انہوں نے مفتیِ اعظم فلسطین محمد امین الحسینی کے یہودیوں پر حملے کے لئے اسلام کے استعمال کی کھلے عام مخالفت کی۔
بعض ہندوستانی مسلمانوں نے بھی یہودیوں کے خلاف اسلام کے نام کو استعمال کرنے کی مخالفت جاری رکھی۔ اگست 1907میں کل ہند مساجد اور ان کے اماموں کی تنظیم نے جن کی قیادت مولانا جمیل الیاس کر رہے تھے نے ایک وفد کے شکل میں(فلسطین) کا دورہ کیاجہاں یہودیوں سے ملاقاتیں کرنے کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ
” ہندوستان کے مسلمان(یہودیوں) کے لئے امن و آشتی کا پیغام لائے ہیں“ ہم یہودیوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان گفت وشنید کا آغاز کر رہے ہیں اور اس تصور کو مسترد کرتے ہیں کہ یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان کوئی مذہبی تنازعہ ہے۔اس دورے کا انتظام امریکی یہودی کمیٹی نے کیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ ایک پر معنی بحث کا آغاز اسرائیل کی صورتِ حال کے ضمن مسلمان دنیا میں کیا جائے۔اور ہندوستان اور اسرائیل کے مابین مضبوط تعلقات کی شروعات کی جائے۔
دوسری جانب اسرائیل کی مخالفت میں کیتھولک چرچ نے 1897میں بیسل کانفرنس کے موقعے پر اسرائیل کے قیام کی شدید مخالفت کی تھی۔یہاں پر بائبل کے حولے سے فیصلہ دیا گیا تھا کہ”یروشلم میں یہودی ریاست کی تباہی کے بعد تمام یہودیوں کو غلام سمجھا جائے گااور وہ در بدر رہیں گے،حتیٰ دنیا کا خاتمہ ہوجائے“ ”گذشتہ 1827سال پہلے یہ پیشنگوئی نزارتھ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کی تھی جو پوری ہوئی“ماضی کے عیسائی عقیدے کے مطابق مقدس کلمات کے مطابق اقتدار اعلیٰ کے ساتھ یہودیوں کو فلسطین میں داخلے کی ہر گز اجازت نہیں ہے۔Regina sharf لکھتا ہے کہ ”یہودیوں کو در بدر دیگر اقوام کے ساتھ رہنا ہوگا تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شہادت پوری ہو۔رومن کیتھولک کے نزدیک یہودیوں کے لئے یہ گنجائش امکان کی حد تک بھی نہیں کہ وہ واپس فلسطین میں داخل ہوں اور نہ ہی کوئی ایسا تصور ہے کہ یہودی قوم کا احیاءہو“ ورلڈ کونسل آف چرچز کے ارکان جن میں اسرائیل کے سابق جسٹس ایمینان روبنسٹین بھی شامل ہیں،نے واضح کیا ہے کہ”وہ اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں“ اس کی بڑی وجہ شائد اسرائیلیوں کی سفاکی ہے۔
آج کی مسلم دنیا کے 56 ممالک کی بزدلی اسرائیلی جارحیت کے ضمن میں دیدنی ہے۔اس نے چند دنوں میں ہی دوہزار فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔اس جارحیت کے پیچھے پوری یورپی برادری کھڑی ہے اور مسلمان ممالک اور ان کے حکمران بزدلی کی اتھا گہرائیوں میں ڈوبے ہوے ہیں۔کہیں سے بھی کوئی مضبوط و طاقتور آواز اٹھائی نہیں جا رہی ہے۔ ان میں سے اکثر کو اپنی غاصب حکومتیں گرائے جانے کا خوف کھائے جا رہا ہے۔