موبائل کی کارستانیاں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
موبائل کی کارستانیاں!
مفتی محمدمعاویہ اسماعیل مخدوم پور
پاپا۔۔۔!جی پاپاکی جان!سمیراکے کہنے پراس کے والدانوارعالم صاحب نے اخبارسے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا!
انوارعالم صاحب ایک ایمان دارسرکاری افسرتھے،حتی الوسع ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں شرعی امورکی مکمل رعایت کریں،اورکافی حدتک وہ اس کوشش میںکامیاب بھی تھے،البتہ عادت ان کی کبھی کبھی دوسروں کوپسندنہیں تھی،کیونکہ ان کی وجہ سے بہتوں کام نہیں بنتاتھا،ان کی اولادیں کل چھ تھیں،جن میں سے بیٹی صرف ایک تھی، باقی سب بیٹے تھے، اوربیٹی تھی بھی چونکہ سب سے چھوٹی،اس لئے اس کے حصہ میں ماں باپ اوربھائیوں کے پیار کاخاصہ حصہ آیاتھا،خصوصاباپ تواس پرجان چھڑکتاتھا، اس کے منہ سے بات بعدمیں نکلتی اس کوپوراوہ پہلے کردیتے تھے، اور ویسے بھی بیٹی سے پیارکرناسنت بھی ہے،آپ ﷺکی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاجب آپﷺکے پاس تشریف لاتیں توآپﷺان کے استقبال کیلئے کھڑے ہوجایاکرتے تھے۔
انوارعالم صاحب کی دفترکی مصروفیات ہی اتنی تھیں کہ وہ شام کوتھکے ہارے واپس آتے،کھاناکھاتے ،اتنے میں عشاء کی اذان ہوجاتی،عشاء کی نماز جماعت سے اداکرتے اورنمازکے فورابعدہی سوجایاکرتے ، عشاء کی نمازکے بعدجلدی سوجاناتوسنت بھی ہے،اس لئے انہوں نے اخباردیکھنے کیلئے ناشتے کا وقت مقررکیاہواتھا،وہ اسی وقت میں ہی سرسری نظرسے اخباردیکھاکرتے تھےاورسرکاری افسرہونے کے ناطے ان کواخباردیکھنا ضروری بھی تھا،تاکہ عوامی حالات سے باخبررہاجاسکے۔
آج بھی وہ معمول کے مطابق صبح ناشتے کے ساتھ ساتھ اچٹتی نگاہوں سے اخباردیکھ رہے تھے،کہ ان کی اکلوتی پندرہ سالہ بیٹی سمیرانے ان کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا،پاپا۔۔۔!میرے ٹینتھ کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں، تو ووووو۔۔۔!انوارعالم صاحب نے توکوذرالمباکرتے ہوئے مسکراکرکہاتھا،کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے،کہ اس کے امتحان کے بتانے کا مقصدہے جب رزلٹ آئے گاتومیں آپ سے اپنی مرضی کاانعام لوں گی؟ پاپا وہ دراصل میں یہ کہناچاہتی تھی کہ۔۔۔میں رزلٹ آنے پراپنی مرضی کا انعام لوں گی،ہیں ناں؟انوارصاحب نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہاتووہ جھینپ سی گئی،اورکہاجی پاپا۔۔۔!میں آپ سے اس بارانعام لوں گی اورلوں گی بھی اپنی مرضی کا،ٹھیک ہے پاپاکی جان!اگرتم نے امتحان میں فرسٹ ڈویژن آئی تومیں تمہیں تمہاری مرضی کاانعام دوں گا ان شاء اللہ۔یہ کہہ کر انوارعالم صاحب نے اخبارسمیٹا، چائے کاآخری گھونٹ لیا،اوردفترکیلئے روانہ ہوگئے۔
وقت پَرلگاکراڑتاگیا،پتاہی نہ چلاکہ امتحان بھی ہوگئے اوررزلٹ کے دن قریب آگئے،جیسے جیسے رزلٹ کی ڈیٹ قریب آتی جارہی تھی سمیراکی بشاشت بڑھتی جارہی تھی،کیونکہ جوانعام اس نے پاپاسے لینے کاسوچ رکھاتھاوہ تھاہی بڑازبردست ! جس کے اس کوڈھیروں فائدے محسو س ہورہے تھے،یہی سوچ سوچ کروہ دن گزارنے لگی۔
آخررزلٹ کادن آگیا،اوراس مرتبہ سوچ سے بڑھ کرسمیرانے میٹرک میں ہائی فرسٹ ڈویژن حاصل کی تھی،اب اس کو شام کاانتظارتھاکہ کس وقت پاپاآئیں اوروہ ان کورزلٹ کابتاکراپنی پسندکاانعام لے سکے۔
امی پاپاآئے ہیں،کچن سے باہرآتے ہوئے سمیرانے آٹے والے ہاتھ دھوتے ہوئے اپنی والدہ سے پوچھا،خیرتوہے بیٹا یہ تم اب تک کہیں پانچویں مرتبہ پوچھ چکی ہو،ابھی توان کے آنے کاوقت ہی نہیں ہوا،وہ توعشاء کی نماز کے قریب آتے ہیں اورابھی تومغرب کی نمازکاوقت بھی نہیں ہوا،تمہیں کیا جلدی ہے؟وہ دراصل آج میرارزلٹ آیاتھاناوہ میں پاپاکودکھاناچاہتی تھی، سمیرانے اپنی والدہ کوجواب دیتے ہوئے کہا،ہوں اب میں سمجھی ، تو سیدھی طرح یوں کہوتم انعام لیناچاہتی تھی،بات کو گھماکیوں رہی ہو،اس کی والدہ نے اس کوخشمگین نظروں سے گھورتے ہوئے کہاتووہ بھی مسکرادی۔
سمیرانظرنہیں آرہی؟ کہاں ہے؟انوارعالم صاحب نے گھرمیں داخل ہوتے ہوئے ادھرادھردیکھتے ہوئے کہا،اتنے میں سمیرابھی آگئی،انہوں نے بیٹی کی سر پر ہاتھ رکھااس کی پیشانی کوچوما ، اورمسکرا دیے، یہ آج میری بیٹی کچھ زیادہ ہی خوش نظرآرہی ہے؟خیرتوہے؟اوریہ ہاتھ میں کیاہے؟انہوں نے کچھ نہ سمجھنے والے اندازمیں کہا؟اس کاآج رزلٹ آیاہے نا،اسی وجہ سے تو آپ کی گاڑی کی آوازسنتے ہیں کمرے کی طرف بھاگ گئی کہ رزلٹ کارڈ اٹھا کرلے آؤں،کہیں انعام وصول کرنے میں دیرنہ ہوجائے،بیگم انوارعالم نے کہا تو انوار عالم صاحب نے ہوں کرتے ہوئے کہاتبھی تومیں بھی سوچ رہاتھاکہ میرے آنے سے پہلے میراانتظارکرنے والی میری بیٹی آج نظرکیوں نہیں آ رہی؟ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اس کے ہاتھ سے رزلٹ کارڈلے لیا، واہ جی واہ ماشاء اللہ، زبردست! میری بیٹی نے تومیٹرک میں ہائی فرسٹ ڈویژن نمبرلئے ہیں؟پاپاایسے باتوں سے کچھ نہیں بنے گا،مجھے توانعام چاہیے اوروہ بھی ابھی اوراسی وقت!سمیرانے مان سے کہتے ہوئے انوارعالم صاحب کی طرف دیکھا،پاپا کوکھاناتوکھانے دوپھرانعام لے لینا،ایک توتم ہرکام میں جلد بازی کرتی ہوپتہ ہے اسلام میں جلدبازی سے منع کیاگیاہے،بیگم انوارعالم نے سمیرا کو سمجھاتے ہوئے کہا،تم اس کوکچھ نہ کہومیں پہلے اپنی بیٹی کوانعام دوں گا پھر کھاناکھاؤں گا،انوارعالم صاحب نے جواب دیتے ہوئے سمیراکی طرف دیکھا اچھاکچھ پتاتوچلے کہ میری بیٹی کوانعام میں چاہیے کیاچیز؟جووہ اتنے عرصے سے رزلٹ کیلئے بے تاب تھی،پاپامجھے۔۔۔ دراصل۔۔۔ وہ میں نے میٹرک کرلی ہے نا،تواب میری ساری سہیلیاں جداہوجائیں گی کیونکہ آگے پتانہیں کون سی کس شعبے میں جاتی ہے،توہم نے فیصلہ کیاتھاکہ اس بار ہم سب انعام میں اپنے والدین سے موبائل لیں گی اورایک دوسرے سے رابطے میں رہیں گی اور ہاں پاپاموبائل بھی میں نے کیمرے والا لینا ہے،تاکہ ہم ایک دوسرے کی تصویریں بھی ان میں رکھ سکیں،سمیرانے بڑی تفصیل سے اپنی ڈیمانڈبتاتے ہوئے تو انوار عالم صاحب اپنی معصوم سی بیٹی کے اس انداز پرمسکرادیے،میں اپنی بیٹی کوضرورموبائل لے کردوں گایہ بھلاکون سی بات ہے؟بس میں ذرا فریش ہوکرآتاہوں، پھرموبائل لے آتے ہیں،یہ کہتے ہوئے انوارعالم صاحب اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے،جیسے ہی انہوں نے کپڑے نکالنے کیلئے الماری کھولی تواس میں سے ایک اخبارنکل کرنیچے گرپڑااس کواٹھاکرجب انہوں نے دیکھاتوان کو یاد آیاکہ اس میں موبائل کے بارے میں انہوں نے کچھ بھیانک حقائق پڑھے تھے،اوراسی نیت سے کہ ان کو پھر توجہ سے پڑھیں گے انہوں نے اس کووارڈروب میں رکھ دیاتھا،اورپھربھول گئے،آج اتفاقاوہ سامنے آ گیا تھا،اس وقت کی پڑھی گئی خبریں ان کے ذہن کی اسکرین پرچلنے لگیں، نیویارک اورپھرپاکستان میں ہونے والی موبائل کی کارستانیوں نے توان کو چونکا کررکھ دیاتھا،وہ تمام خبریں ان کے ذہن میں ایسے تازی ہوتی ہوگئیں جیسے کہ وہ ابھی کی ہیں،ان کویادآیاکہ انہوں نے ایک خبر یہ بھی پڑھی تھی کہ موبائل فون رشتے ختم کرنے کاسب سے بڑا سبب بن گیاہے،زیادہ تررشتے ایس ایم ایس اورسماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے ختم ہورہے ہیں۔
ویسے توموبائل فون کورابطے بڑھانے کاذریعہ سمجھاجاتاہے لیکن امریکا میں یہ رشتے ختم کرنے کاسب سے بڑاسبب بن گیاہے،امریکامیں ہونے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جہاں ٹیکنالوجی نے زندگی میں کئی آسانیاں پیداکی ہیں وہیں سماجی تعلقات توڑنے میں بھی بہت اہم کردار ادا کیاہے۔
آزادی نسواں کے علمبردارتہذیب کے قبلہ امریکامیں ہرسال دس لاکھ غیرقانونی طورپربچیاں حاملہ ہوتی ہیں،چالیس فیصدبچیاں ۲۰سال کی عمر میں پہنچنے تک ناجائز بچے کی پیدائش کے عمل سے گزرچکی ہوتی ہیں،یواین او کی رپورٹ کے تحت مغربی ممالک میں ناجائزولادتوں کااوسط ساٹھ فیصدسے تجاوز کرچکاہے۔
اب مشرقی ممالک میں اعلی درجہ کی امریکی غلامانہ ذہنیت رکھنے والے تابعدار،فرمانبردارحکمران وعوام جس ملک میں بکثرت پائے جاتے ہیں وہ پاکستان ہے اس جیسے پیروی کرنے والے ملک کی صورت حال ذرادل تھام کر پڑھیے!ایک نجی ادارے نے گزشتہ دنوں ایک عرق ریزرپورٹ تیارکی اس میں یہ بات سامنے آئی۔
پاکستان کے اندرصرف ایک سال میں جنوری ۲۰۱۲ء سے جنوری ۲۰۱۳ء تک سترہ ہزاردوسوگیارہ لڑکیاں اپنے گھروں سے ان آشناؤں کے ساتھ فرارہوئیں جن کے ساتھ موبائل پردوستی ہوئی تھی،ان بھاگنے والیوں میں چارہزارشادی شدہ اور بچوں والی خواتین ہیں دوہزارسے زائد کالج کی طالبات ہیں جبکہ ایک ہزارگھریلولڑکیاں ہیں ،موبائل فون پرفری میسج اور رات بھرکے فری کال پیکجزنے نوجوانوں میں فری گپ شپ بے ہودہ اور فحش پیغامات اورپھرایک دوسرے کوسہانے خوابوں کارواج دیااورڈراموں کے آوارہ کرداروں نے انہیں گھروں سے بھاگنے پرآمادہ کیاان بھاگنے والیوں میں کئی شریف خاندان اور دین دارگھرانوں کی عورتیں بھی شامل ہیں۔
یہ صورت حال دنیاکے نام نہاداخلاق واقدارکے علمبردار اور مقتدا امریکا کی ہے جس کی پلک جھپکنے تک کی اقتدااہل مشرق سعادت سمجھ کر کرتے ہیں۔
وہ سوچنے لگے کہ بڑوں سے سناکرتے تھے کہ بھئی گھر میں ٹیلیفون رکھنا گھر میں باہر کا بندہ بٹھانے کے مترادف ہے کہ کسی وقت اگر فون پر کوئی پوچھے کہ گھر کے صاحب گھر میں موجو د ہیں؟ تو جواب جب نفی میں ہو گا تو باہر کے آدمی کو معلوم ہوجائےگا کہ گھر کسی مرد سے خالی ہے تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے،کیا روناروئیں اس دور پر کہ جب گھر کے ہر ہر فرد کے پاس خواہ مرد ہو یا عورت جوان بیٹی ہویا نئی دلہن ،ہر ایک کے پاس ابلیسی ہتھیار موجود ہےاوریہ ساری کارستانیاں اسی موبائل کی ہیں۔
لگتایوں ہے کہ ازل سے ابد تک انسانیت اور انسانی اخلاق واطوار و گفتار وکردار تہذیب وتمدن کو بربادکر نے کے لیے شیطان کے ہاتھ اس موبائل سے بہتر کوئی آلہ اور نہیں لگا،وہ جیسے جیسے سوچتے جارہے تھے ان کا دل تشکرسے لبریز ہوتا جارہاتھاکہ اللہ تعالی نے کیسے ان کے گھرکوبچالیااگروہ بھی اپنی بیٹی کوموبائل لے کردے دیتے اورایساویساکچھ ہو جاتا تو۔۔۔۔۔ آگے سوچ کرہی ان کے جسم میں جھرجھری سی آگئی،اوران کوپتہ ہی نہ چلاکہ ان کی آنکھوں سے آنسوبہے جا رہے ہیں۔
ہائیں!یہ آپ کوکیاہوا؟اوہ آپ تورورہے ہیں؟بیگم انوارعالم نے جب دیکھاکہ انوارصاحب کافی دیرسے کمرے میں چینج کرنے کاکہہ کرگئے ہیں ابھی تک واپس نہیں آئے۔تووہ خودکمرے میں آگئیں،آگے ان کوروتے دیکھ کران کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا،کیاہواخیرتوہے کچھ بولیں توسہی۔بیگم انوار عالم صاحب نے ہذیانی اندازمیں ان کوجھنجھوڑتے ہوئے کہا، ایسا کرو سمیرا کوکہو وہ سوجائے صبح اس کواس کاانعام دوںگا،اورتم میرے لئے کھانا ادھر کمرے میں ہی لے آؤ،ذراجلدی؟انوارعالم صاحب نے اپنے آنسوپونچھتے ہوئے کہا،آپ بتائیں توسہی کیاہواہے آپ روکیوں رہے تھے؟جومیں نے کہاہے وہ کروبیگم کے دوبارہ کہنے پرانہوں نے کہاتووہ کمرے سے چلی گئیں،اورتھوڑی دیر میں کھانالے کرآگئیں،تم بھی بیٹھوانوارعالم صاحب نے اپنی بیوی کوکہاوہ بھی حیرت سے ان کودیکھتی ہوئی پاس ہی بیٹھ گئی،اورپھرانوارعالم صاحب نے موبائل کے متعلق پڑھی گئی ساری باتیں اپنی بیوی کے گوش گزار کر دیں، جو انہوں نے انتہائی حیرت اورتعجب سے سنیں،اب پھرکیاکریں؟ساری باتیں سن کر ان کی بیگم نے کہا،تھوڑی دیرتک انوارعالم صاحب سے سوچتے رہے، پھر یک دم سراوپراٹھاتے ہوئے کہاہاں میرے ذہن میں ایک بہترین آئیڈیا آیا ہے،اپنی بیٹی کومطمئن کرنے کا،کیونکہ وہ اس کوموبائل سے بھی بچاناچاہتے تھے اوراس کادل بھی نہیں توڑنا چاہتے تھے،انوارعالم صاحب نے کہاتوان کی بیگم نے اس کی تفصیلات پوچھیں جوانہوں نے ان کے گوش گزارکردیں،جس سے وہ بھی مطمئن ہوگئیں،پھرانہوں کھاناکھاکر عشاء کی نمازاداکی اوراس آئیڈیا کے مختلف پہلوؤں پرسوچتے ہوئے نیندکی گہری وادیوں میں کھوگئے۔
امی پاپاچلے گئے ہیں؟آج وہ چھٹی کرلیتے،مجھے موبائل لیکردے دیتے؟رات بھی انہوں نے کہاتھامگرنہیں لے کر دیا، اوراب بھی کچھ بتائے بغیر چلے گئے ہیں،ان کومیری فکرہی نہیں ہوئی؟سمیرانے انوارعالم صاحب کے جانے کے بعداپنی والدہ سے روٹھے ہوئے لہجے میں کہا،نہیں بیٹی ایسی بات نہیں ان کوآج ضروری کام تھاوہ شام میں آتے ہوئے تمہارے لئے بہترین انعام اورتحفہ ضرورلائیں گے،تم مطمئن رہو،شام کوجیسے ہی انوارعالم صاحب کی گاڑی کاہارن سنائی دیاسمیراجلدی سے گیٹ پر گئی،تواس نے دیکھاکہ اس کے والدہاتھ میں ایک بڑاشاپنگ بیگ اٹھائے ہوئے آرہے ہیں،تواس کواپنے مصروف باپ پرٹوٹ کر پیار آیاکہ سارادن کی تھکاوٹ کے باوجودانہوں نے کتنی محنت سے اس کیلئے تحفے خریدے ہوں گے،اتنے میں انوارعالم گھر میں داخل ہوگئے،انہوں نے گھرداخل ہوتے ہی وہ شاپنگ بیگ سمیراکی طرف بڑھا دیااور کہایہ میرے بیٹے کاانعام ہے،سمیرانے جلدی سے شاپنگ بیگ جھپٹا اور اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی،اس کوبھاگتے دیکھ کروہ دونوں مسکرا دیے کہ آج ان کی بیٹی کتنی خوش نظر آ رہی ہے؟سمیرانے کمرے میں جا کر شاپنگ بیگ کھولااورجلدی جلدی اس میں موجودپیک شدہ پیکٹ کھولنے لگی؟ ایک ایک کرکے اس نے تمام پیکٹ کھول دیے،ارے یہ کیا؟؟؟پاپاتوساری کتابیں لے آئے ہیں،میں نے ان کاکرناہے،بڑبڑاتے ہوئے وہ زیرلب ان کتابوں کے نام بھی پڑھتی جارہی تھی،موبائل کے نقصانات،پردہ کی صحیح شکل،بہشتی زیور،بے پردگی کے نقصانات، بیٹی، ہائیں؟یہ کیاہے؟میں نے کیا کہا تھااوریہ کیالے آئے؟؟؟پھراس نے ایسے ہی سرسری اندازمیں ایک کتاب اٹھائی موبائل کے نقصانات،اس کی ورق گردانی کرنے لگی،اس کوپتہ ہی نہ چلا اور وہ پڑھتی ہی چلی گئی،جیسے جیسے وہ پڑھتی جارہی تھی اس کی آنکھیں حیرت سے کھلتی جارہی تھیں اوراس کادل شکرسے معمورہوتاجا رہا تھا کہ اللہ تعالی نے اس کوکتنے سمجھ دار والدین دیے ہیں،جنہوں نے اس کے بھٹکنے سے پہلے ہی اس کی ہدایت کاسوچااوراللہ تعالی نے ان کے طفیل اس کوہدایت دی، کتاب اس نے ایک طرف رکھی اورسجدہ شکرکیلئے جھکتی چلی گئی،اوراس کی آنکھوں سے آنسوسیل رواں کی طرح بہہ رہے تھے۔