ہمارا تعلیمی طرز اور تحریکی منہج
ہمارا تعلیمی طرز اور تحریکی منہج
قرآن ، سنت اور فقہ کی اشاعت و تحفظ کے عالمی ادارے”مرکز اہل السنت والجماعت“ کامختصر تعارفی خاکہ: پس منظر ، پیش منظر اور تہ منظر
یہ سن 2002کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسے ادارے کی سنگِ بنیاد رکھنے کی توفیق دی جس کا فیض الحمدللہ تھوڑے ہی عرصہ میں علاقائی ملک کی جغرافیائی سرحدات کو پار کرکے ساری دنیا تک پھیل رہاہے۔مرکز اہل السنت والجماعت میں فعال انتظامی شعبہ جات کا تذکرہ کیے بغیر ہم صرف اس کے تعلیمی طرز اور تحریکی منہج کے بارے میں آپ کو کچھ بتانا چاہتے ہیں۔
دور ِ حاضر میں ہدایتِ کاملہ کا فارمولہ
">دور ِ حاضر میں ہدایتِ کاملہ کا فارمولہ
ترکِ تقلید کی کوکھ سے جنم لینے والی” اولاد“ محض ایک فتنہ ہی نہیں بلکہ” ام الفتن” ہے اس کے بطن سے برآمد ہونے والے فتنوں کی طویل فہرست ہے مثلاً: منکرین قرآن ، منکرین حدیث ،
اسلامی فکر وعمل کا درست زاویہ
اسلامی فکر وعمل کا درست زاویہ
اسلام عالمگیر مذہب ہے۔ یہ علاقائی ،قومی ، لسانی اور وقتی قیود میں جکڑا ہوا نہیں ، اس کے دامن کی وسعتوں میں شرق و غرب اور عرب و عجم سمٹ جاتے ہیں۔
اس کو لانے والا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اولین و آخرین ، امتیوں اور انبیاء علیہم السلام کے نبی ہیں
پاکستانی پارلیمنٹ کا تاریخ ساز فیصلہ
7 ستمبر 1974ء
پاکستانی پارلیمنٹ کا تاریخ ساز فیصلہ
یاد کیجیے وہ دن جب نشتر کالج کےطلبہ کا ایک گروپ’’ شمالی علاقہ جات‘‘ کی سیروتفریح کی غرض سے ملتان سے پشاور جانے والی گاڑی چناب ایکسپریس کے ذریعہ روانہ ہوا۔ گاڑی ربوہ (چناب نگر) پہنچی تو مرزائیوں نے گاڑی میں مرزا قادیانی کا کفر والحاد پر مشتمل لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا
گستاخانِ رسول کی مذموم جسارت
گستاخانِ رسول کی مذموم جسارت
جس کے وجود پاک سے عالم ارض وسماء کو وجود بخشا گیا ، جس کی وجہ سے کائنات میں رنگینیاں بکھیری گئیں، جس کے طفیل حضرت انسان کا سر فخر سے بلند ہوا، جس کے وسیلے سے آفات ،حادثات ، سانحات اور مصائب و آلام سے چھٹکارا ملتا ہے۔
جس کے سبب سے دولت ایمان سے مالا مال ہوا جاتا ہے ،
مشن نبوت بطریق نبوت
مشن نبوت بطریق نبوت
اقوام عالم کا یہ شروع سے دستور چلا آ رہا ہے کہ جب اپنے نظریات سے دوسرے لوگوں کو وابستہ کرنے کی” اجتماعی محنت“ کرتے ہیں تو ایک” تحریک“ وجود میں آ جاتی ہے۔
دنیا بھر میں بے شماردینی، مذہبی ، سیاسی اور قوموں کے حقوق کے لیے غیر سیاسی تحریکیں اٹھیں ہیں۔
فتنوں کے اِس دور میں
فتنوں کے اِس دور میں
جدیدیت کا دور دورہ ہے، سائنسی اور مادی ترقی کی محیر العقول ایجادات آئے روز بڑھ رہی ہیں، دنیا گلوبلائزیشن کا روپ دھار چکی ہے۔انسان مصروف سے مصروف تر بنتا چلا جا رہا ہے، اس کا اٹھنے والا ہر قدم زندگی کی محدود سلطنت سے نکل کر موت کی منزل کی طرف مسلسل بڑھ رہا ہے۔
اس کو وہ وقت یاد ہی نہیں ہے
شہدائے حرم
شہدائے حرم
بیت اللہ؛ نقطۂِ امن ہے اور دنیا بھر کے اہل اسلام اس کا دائرہ ہیں۔ یہ مرکزِ رشد و ہدایت ہے ، دعائے ابراہیمی کا ثمرہ ہے۔ اللہ کریم نے اسے امن وثواب کا گہوارہ بنایا ہے۔ یہاں لوگ بار بار لَوٹ کر آتے ہیں۔
درِ نبی پر
درِ نبی پر
آئیے ! اس کے در اقدس کی چوکھٹ کے اپنی نگاہوں سے بوسے لیتے ہیں جس کی پُر تاثیر نگاہ نے انسانیت کے بگڑے مزاج کو بدلا، برے حالات سے نجات دی ، خونیں واقعات کو لگام دی ، گندےخیالات کے زاویے موڑ دیے ، مردہ قوموں نے جس کی پاکیزہ حیات کے طفیل حیاتِ جاودانی کے گوہر سمیٹے۔
سوئے حرم کے راہی …یاد رکھنا
سوئے حرم کے راہی …یاد رکھنا !
کتنی خوش نصیبی ہے کہ اس ذات نے اپنے گھر اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے در کی زیارت کا موقع عطا فرمایا۔ ہزارہا گناہوں میں لتھڑے لاکھوں لوگ رنگ ، نسل ،قوم قبیلہ ، برادری ، زبان وغیرہ کے فرق کو مٹا کر دیوانہ وار ، ژولیدہ مو ، بے خودی کے عالم میں احرام کی چادروں میں اپنے عصیاں کی گٹھڑیاں چھپائے برستی آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں کے ساتھ زبان کو یوں جنبش دے رہے ہوتے ہیں: