اورمیں نمازی بن گیا!
…… مفتی محمدمعاویہ اسماعیل،مان کوٹ
میں اس کاجنازہ نہیں پڑھاؤں گامیں معذرت خواہ ہوں کسی اورکوبلالیں اس آوازنے جنازے کیلئے صف باندھے کھڑے لوگوں کواپنی طرف متوجہ کرلیا،سب حیران وپریشان کہ یکدم ان کوکیاہوگیا؟یہ شخص اورایسی بات کررہاہے؟کسی کویقین ہی نہ آرہاتھا۔
میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کاشمارکھاتے پیتے گھرانوں میں ہوتاتھاہماراگھرپوش علاقے میں تھاکسی چیزکی کمی نہ تھی ہماری صبح اکثردس بجے کے بعدہواکرتی تھی اورہم کبھی رات کوایک بجے سے پہلے نہیں سوئے تھےہلاگلاکی عادت تھی ماماپاپاکوپارٹیزسے فرصت نہیں تھی تومیرے دوسرے بہن بھائی اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کئی اضافی مصروفیات میں مصروف تھے۔
غرض ہرایک اپنے آپ میں مگن تھاکسی کوکسی کی پرواہ نہ تھی،البتہ ہم اپنی حیثیت جتانے اورناک بچانے کیلئے رشتہ داروں یامحلہ والوں کی فوتگی میں شرکت کرلیاکرتے تھے میت والوں سے یہ ہمدردی بھی بس صرف زبانی یاجنازہ میں شرکت کی حد تک ہی ہوتی تھی،اس کے سواکچھ نہیں گویاہم بس نام کے مسلمان تھے۔
ہماری کالونی میں ایک بہت بڑے عالم رہاکرتے تھےجن کی عمریہی کوئی ساٹھ برس کے لگ بھگ تھی ان کانام فیض الدین تھا۔
وہ شہرکی جامع مسجدمیں امام تھے انتہائی نیک شخص تھےشہر کاہرفردان کی قدرکیاکرتاتھاوہ انتہائی اعلی درجہ کے متقی اورپرہیزگارتھےلوگ ان سے ہاتھ ملانے کوسعادت سمجھتے تھےان سے دعا کروانے کیلئے جایاکرتے تھےوہ اکثرلوگوں کونیکی کے کاموں کی تلقین کیاکرتے مگرلوگ بس دعاکروانے کوہی کافی سمجھتے تھےوہ کالونی کی مسجدمیں بھی بچوں کوصبح کے وقت قرآن پڑھایاکرتے تھےمیرے والدصاحب کوبھی انہوں نے کئی بارکہاکہ اپنے بچوں کوقرآن پڑھنے کیلئے بھیجاکریں میرے والدصاحب اس وقت توہاں کردیتے مگرہمیں کہتے نہیں تھےاوروالدصاحب کی مصروفیات کی وجہ سے فیض الدین صاحب کی پھردوبارہ ان سے کئی کئی ماہ تک ملاقات ہی نہ ہوتی تھی
وقت گزرتارہااورمیں تعلیم کے مراحل طے کرتاہوابلندیوں کوچھونے لگاتعلیم سے فراغت کے متصل بعدہی مجھے ایک غیرملکی کمپنی کے ذریعے امریکہ میں جاب مل گئیاورمیں امریکہ چلاگیاوہاں جاکرتوگویامیں بے دین ہی بن گیامیرے کسی اندازسے یہ نہیں لگتاتھاکہ میں مسلمان ہوں۔
تین سال کے بعدمیں چنددن کی چھٹی پرگھرآیامیں شام کے وقت گھر پہنچا تھااسی وقت مسجدمیں اعلان ہواکہ روشن صاحب کاانتقال ہوگیاہےروشن صاحب ہمارے شہر ہی نہیں بلکہ میری معلومات کے مطابق ضلع بھرمیں سب سے امیرترین شخصیت تھے۔
ان کی امارت کایہ حال تھاکہ خودبھی ان کواس کاحساب معلوم نہ تھاان کی کئی ملکوں میں ملیں اورفیکٹریاں تھیں اوران میں نخوت ایسی بھری ہوئی تھی کہ وہ غریب توکیابڑے بڑے امیرلوگوں تک کوبھی منہ نہیں لگاتے تھے۔
میرے پاپا ان کے گہرے دوست تھےاگروہ بھی ان سے ملناچاہتے توکئی کئی ہفتے تک ان کوٹائم نہ ملتا پھرجب ملاقات ہوتی تووہ بھی چندمنٹ کیاورمیرے پاپااس چندمنٹ کی ملاقات پربھی پھولے نہ سماتے تھے۔
اوروہ کنجوس اتنے تھے کہ انہوں نے اپنے گھرسے بھی پہلے ایک بڑا سا بورڈ لکھ کرلگوایاہواتھاجس پرلکھاتھاکہ ”اس طرف کوئی مانگنے والانہ آئے ورنہ اس کوسخت سزادی جائے گی“ان کے ڈرکے مارے ہماری پوری کالونی میں کوئی مانگنے والا آتاہی نہ تھاجس کہ وجہ سے ہماری کالونی کے لوگ بھی آہستہ آہستہ کنجوس مشہورہوگئے۔
روشن صاحب کاجنازہ اگلے دن دس بجے تھامیرے پاپااور بھائی ان کے بیٹوں کوخوش کرنے کیلئے بڑھ چڑھ کرجنازے کے انتظامات میں حصہ لے رہے تھےانہوں نے میری تھکاوٹ کی پرواکیے بغیرمجھے بھی اپنے ساتھ کام میں لگایا ہوا تھا آخر خداخدا کرکے جنازہ کاوقت ہوگیاان کی میت باہرلے جائی گئی ان کے بیٹے بھی انہی جیسے نکلے تھےمتکبرنک چڑے سے۔
وہ گاڑیوں میں جنازہ گاہ کی طرف گئےمحلے والوں نے ان کی چارپائی اٹھائی ہوئی تھی ان کے جنازے میں محلے والے بھی شرکت نہ کرتے مگران کے بیٹوں کے ڈرسے سب محلے والے ان کے جنازے میں شریک ہوئے تھے ان سے تعلق رکھنے والے لوگ عین جنازے کے وقت پربڑی بڑی گاڑیوں میں آئے تھےاور جنازے کے بعدیہ جاوہ جا۔
جنازہ بڑے گراؤنڈمیں رکھاگیاتھاتھوڑی دیرتک لوگ آکر ان کاچہرہ دیکھتے رہےدنیامیں وہ جان بوجھ کرلوگوں سے منہ ٹیڑھارکھتے تھےمرنے کے بعدخدانے ان کامنہ ٹیڑھاکردیاتھامیں پہلی صف میں کھڑاہواتھاکیونکہ پاپاکاسختی سے حکم تھا:
”جمیل!تم نے جنازہ کے ساتھ رہناہے اورقبرستان تک چارپائی بھی اٹھوا کرلے جانی ہے۔“
شایدوہ کسی طرح اندازہ لگاچکے تھے میں جنازہ پڑھ کر کھسکنا چاہتا تھا تاکہ آرام کرسکوں جنازہ کیلئے مولانافیض الدین صاحب تشریف لائے محلے کی پہلی فوتگیوں کے جنازے بھی وہی پڑھاتے تھےبلکہ ان کے تقوی کو دیکھتے ہوئے دوسرے علاقوں کے لوگ وصیت کرتے تھے کہ ہماراجنازہ فیض الدین صاحب ہی پڑھائیں۔
فیض الدین صاحب جنازے کیلئے چارپائی کے پاس آئے دوچار باتیں کیں جنازہ پڑھنے والوں کوموت کے بارے میں بتایامرنے کے بعدحساب و کتاب اورموت کی تیاری کے بارے میں بتایااورپھراجازت لے کرجنازہ شروع کرنے ہی لگے تھے کہ نجانے ان کے دل میں کیابات آئی؟
انہوں نے ان کے بڑے بیٹے انورکواپنے قریب بلایا اورآہستہ آوازمیں اس سے کچھ پوچھاجس کوتومیں نہ سن سکاالبتہ میں نے انورکوانکارمیں سرہلاتے ہوئے دیکھاپھرانہوں نے ان کے دوسرے بیٹے کوبلایااسی طرح ایک ایک کرکے ان کے چاروں بیٹوں کوبلایامگرسب نے انکارمیں سرہلایا۔
اب سب لوگ پریشان تھے کہ مولانا صاحب کواچانک جنازہ پڑھاتے پڑھاتے کیابات سوجھی؟
جووہ جنازہ میں تاخیرکررہے ہیں پھرانہوں نے علاقہ کے کئی معززین اور بڑی عمر کے لوگوں کو بلا کران سے بھی کوئی سوال کیامگران سب کاجواب بھی نفی میں تھااب مجمعے میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں لوگ آپس میں تبصرے کرنے لگےکہ کیابات ہو سکتی ہے ہرایک اندازے لگارہاتھاکچھ لوگ آگے ہوکرسننے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔
آخرفیض الدین صاحب نے تمام لوگوں کومخاطب کرتے ہوئے کہا آپ سب محلے والے بھی موجودہیں اورباہرسے آئے ہوئے مہمان بھی میراآپ سب سے یہ سوال ہے کہ کیاآپ میں سے کوئی یہ بتاسکتاہے کہ
روشن صاحب نے زندگی میں کبھی کوئی نمازپڑھی ہو؟سب چپ پھروہ بولے جمعہ کی ؟یاعیدکی؟کوئی ایک نماز؟
اب ہرایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگاکچھ لوگ بات سمجھ گئے اورکچھ نہ سمجھ سکےآپس میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔
آخرکارمولانا صاحب کی آوازنے سب کوخاموش کرا دیا:بھئی! میری معلومات کے مطابق روشن صاحب نے زندگی بھرایک نمازبھی نہیں پڑھی لہذامیں ان کاجنازہ پڑھانے سے قاصر ہوں۔ میں ان کاجنازہ نہیں پڑھاسکتااورنہ ہی ان کے جنازے میں شرکت کروں گا۔برائے مہربانی کسی اورکوبلالیں وہ ان کاجنازہ پڑھائیں گے۔میں نہیں پڑھاتا۔
ان کایہ کہناتھاکہ ہرطرف سراسیمگی اورخوف ساپھیل گیاہرایک دوسرے کی بجائے اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے لگامجھے بھی ایسے لگاکہ یہ روشن صاحب کاجنازہ نہیں میراجنازہ پڑاہوااورمولانا صاحب میرے بارے میں لوگوں کوکہہ رہے ہیں۔
میرے ضمیرسے آوازآئی کہ تو بھی روشن صاحب کی طرح دولت کی چکاچوندروشنی میں کھوچکاکراپنے رب کوبھلاچکاہے۔
ہاں میں نے بھی آج تک زندگی بھرایک نمازبھی نہ پڑھی تھی مجھے توکسی نمازکی رکعتوں تک کاعلم نہ تھا۔
جیسے جیسے میں سوچتاجارہاتھامیرے جسم پرایک انجانے خوف سے کپکپی سی طاری ہوتی جارہی تھی۔
اورپھرمیں نے
ایک دم پختہ عزم کرلیا
نمازنہ چھوڑنے کاعزم
پکانمازی بننے کاعزم
قضاءشدہ نمازوں کولوٹانے کاعزم۔