یہی وہ راہ ِ حق ہے
قافلہ حق،اپریل، مئی، جون 2007ء
اللہ رب العزت نے نسل انسانیت کو پیدا فرما کر اس کی تمام جسمانی و روحانی ضروریات کو پورا فرمایا۔ جسم انسانی کی بقاکے لیے پانی ،ہو ا اور ہزاروں غذائی اشیاء کو پیدا فرمایا اور روحانی حیات کی آبیاری کے لیے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام اور آسمانی ہدایت نامے نازل فرمائے۔ آخر میں قرآن مجید فرقان حمید کو نازل فرماکر رہتی دنیا کے لیے سامان ہدایت مہیا فرمایا۔ قرآن کریم کی ایک سو چودہ سورتوں میں سب سے پہلی سورۃ فاتحۃ الکتاب ہے جس میں انسان کو اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم کا سوال کرنے کا حکم بیان کیاگیا۔ ہر نمازی فرض و غیر فرض نماز میں اللہ تعالیٰ سے صراط ِمستقیم کا سوال کرتاہے۔صراط مستقیم دراصل راہِ اعتدال کا نام ہے جس میں نہ تو افراط ہے اور نہ تفریط۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا
سورۃالبقرۃ، 142
حدیث پاک میں بھی اسی کی وضاحت کرتے ہوے ارشاد فرمایا
خیر الاعمال اوسطھا
شعب الایمان، للبیہقی رقم الحدیث3887
امت میں جو لوگ گمراہی کا شکا ر ہوئے وہ یا تو مرض افراط کا شکار ہوئے یا پھر تفریط کی اندھی کھائی میں گر پڑے۔ صراط ِمستقیم کی وضاحت کرتے ہوئے سورۃ فاتحہ میں فرمایا گیا کہ وہ انعام یا فتہ لوگوں کی راہ ہے۔ سورۃ نساء میں ان انعام یافتہ لوگوں کی نشاندہی فرماتے ہوئے بتایا گیاکہ وہ انبیاء، صدیقین، شہد اء اور صالحین ہیں۔ بعض لوگ جاہل و بے دین آباء کی اتباع میں انبیاء کی مقدس دعوت وعمل سے باغی ہوئے اور کہا کہ ہم تو اس راہ پر چلیں گے جس پر ہمارے باپ دادا چلتے رہے۔
بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا
قرآن پاک نے مزید وضاحت فرمائی کہ
أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ
سورۃالبقرۃ، 170
جس میں بے عقل اور غیر ہدایت یافۃ باپ دادا کی اتباع سے نہ صرف منع کیاگیا بلکہ اس افراط کو خلاف اعتدال بتایاگیا۔ جبکہ دوسر ا طبقہ محبوبان خدا، بزرگان دین، اور اخیار نفوس قدسیہ کی تقلید سے بیزار ہو کر تفریط کی دلد ل میں پھنس گیا حالانکہ قرآن پاک صاف طور پر فرمارہا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے جیل میں بیٹھ کر درس توحید ارشا د فرماتے ہوئے یہ تقریر کی تھی:
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي
سورۃ یوسف، 38
میں اتباع کرتا ہوں اپنے باپ دادا کی
قرآن کریم میں مزید ارشاد فرمایاگیا:
أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ
سورۃ النساء، 69
ایک اور جگہ یوں فرمایا:
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
سورۃ النحل، 43
تو گویا ایک طبقہ ہر جاہل و بے دین کی تقلید کر کے گمراہ ہو اتو دوسر ا طبقہ تقلید کے نام سے ہی بدکنے لگا اور متقی و صالح ائمہ مجتہدین کی تقلید کو ترک کرکے گمراہی کا شکار ہو ا۔
راہِ اعتدال کے راہی اہل السنۃ و الجماعۃ نے بالکل درمیان کی راہ اختیا ر کرتے ہوئے حق کو پایا کہ کسی جاہل و بے دین کی اتباع کرونہیں اورائمہ اربعہ مجتہدین میں سے کسی ایک کی تقلید چھوڑو نہیں۔ یہی وہ راہ حق ہے جس پر جمہور امت گامزن رہے۔ جبکہ کچھ مریض دل لوگ ایسے بھی ہیں جو اس راہ حق کو نہ صرف چھوڑ چکے ہیں بلکہ امت کا رشتہ اسلاف سے توڑ کر اپنی خود تراشیدہ شریعت سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ قرآن پاک کے ضابطے ان کا ہرگزساتھ نہیں دیتے۔
و ماعلینا الا البلاغ
والسلام
محمد الیاس گھمن